مظفر اعجاز
مسلمان امت بن کر رہتے ہوں یانہ رہتے ہوں مغرب اور امریکا نے ان کے ساتھ ایک امت والا معاملہ ہی کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ 9/11 اس حوالے سے ایک فیصلہ کن یا بہت واضح موڑتھا۔ اس کے بعد سے مسلمان ساری دنیا میں نشانہ بن رہے ہیں لیکن مساوات‘ انسانی اقدارآزادیوں اورجمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن امریکا نہایت منصوبہ بندطریقے سے مسلمانوں کو نشانہ بنائے جارہاہے۔ خواہ پاکستانی ہو عرب ہو یا غیرعرب امتیازی سلوک کے لیے مسلمان ہونا کافی ہے۔ حال ہی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکی محکمہ دفاع امریکی بحریہ کے جوانوںکو تربیت دینے کے لیے تختہ مشق پر مسلمان عورت کی تصویریاکٹ آئوٹ بناتی ہے یا پھرکوئی قرآنی آیت ہوتی ہے جس کو ہدف بنایاجاتاہے۔ امریکی بحریہ کے لیے تربیت اور فائرنگ رینج کے طورپر استعمال کیاجانے والا 26 ہزار500 اسکوائرفٹ کا علاقہ مختص کیاگیاہے۔ اس میں بیک وقت چارگروپس کو فائرنگ کی تربیت دی جاتی ہے جن چیزوں کو نشانہ بنایاجاتاہے ان میں مسجد ‘بینک ‘ پوسٹ آفس وغیرہ ہیں ہدف میں اسکارف پہنے ہوئے عورت کی تصویریاکٹ آئوٹ اور قرآنی آیت ہوتی ہے۔ تربیت کے اس میدان کو مقتل بھی کہاجاتاہے۔ Kill House میں ہدف کے لیے مسلمان عورت کی تصویر اورقرآنی آیت کو استعمال کرنے پرامریکا میں مسلمانوں کی معروف تنظیم نے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان پرزوردیاہے کہ بحریہ کے جوانوں کی تربیت کے لیے اسکارف پہنے ہوئے مسلم خاتون کے کٹ آئوٹ اور اس کی پشت پر قرآنی آیت کو استعمال نہ کریں۔ تنظیم کے ایگزیکٹوڈائریکٹر نہاد عواد نے کہاکہ اس قسم کے عمل سے نہ صرف فوجیوں میں منفی پیغام جاتاہے اورجن ممالک میں ان کو متعین کیاجاتاہے وہاں بھی غلط پیغام جائے گا۔ نہاد عواد نے لیون پینیٹا کے نام اپنے خط میں کہاہے کہ یہ امریکی محکمہ دفاع کے لیے تربیت کے طریقوں اوراشیاء کے استعمال کے حوالے سے ایک اورمثال ہے کہ اسے تمام چیزوں کو تبدیل کرنا ہوگا اور اسلام سے متعلق امور پر جید علماسے مشورہ کرناہوگا۔ تنظیم نے اس حوالے سے نورفلوک اسٹاف کالج کے ایک انسٹرکٹرکوبرطرف کرنے کا بھی مطالبہ کیا جس نے دوران تربیت فوجیوں سے کہاکہ امریکا کے تحفظ کے لیے اسلام کے خلاف مکمل جہادکی ضرورت ہے اور ہیروشیما والا طریقہ کاراختیارکرناپڑے گا۔ سویلین کو ہدف بنائیں اورجنیواکنونشن کو بالائے طاق رکھیں۔اگرچہ مذکورہ انسٹرکٹرکو صرف تربیت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کیاگیاتھا یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ گزشتہ سال امریکی محکمہ دفاع نے اس قسم کے ٹریننگ مواد کا مکمل ازسرنوجائزہ لینے کا حکم دیاتھا اس کاخیرمقدم بھی کیاگیا لیکن اس کے باوجود متعصب ٹرینرزاب بھی اس قسم کی باتوں میں مصروف ہیں۔ اصل معاملہ کیاہے۔ ہمارے خیال میں اصل معاملہ امریکی حکمران اورمیڈیا ہیں۔امریکی حکمرانوں کو اب الیکشن جیتنے کے لیے امریکی عوام کے مسائل کے بجائے مسلمانوں اسامہ بن لادن‘ القاعدہ اور اس قسم کے مانیٹرزدکھانا زیادہ آسان لگتاہے چنانچہ جو زیادہ بڑھ کر بڑھک مارے وہ جیت جاتاہے۔ اوباما بھی مکہ مدینہ پرچڑھائی کی بات کرکے جیت گئے۔ اس طرح امریکی میڈیا بھی مسلمانوں کو دہشت گرد ظاہرکرنے کی کوشش کرتاہے لہذا جب کبھی اس میڈیا مہم کا اثرہوتاہے تو پھر عام امریکی کا ذہن متاثرہوجاتاہے اوروہ اپنے دائرہ اختیارمیں اس تعصب کا اظہارکردیتاہے۔ پھر اس کی کوئی حدتو نہیں ہوتی۔ نفرت کی آگ تو بڑھتی ہی جاتی ہے۔ خوامخواہ میں داڑھی اور اسکارف دیکھ کر غصہ آنے لگتاہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس نفسیات کی پرورش کے ذمہ دارامریکی حکمران ہیں امریکی قوم نہیں لیکن ان حکمرانوں اورمیڈیا کی محنت رنگ لاچکی ہے اور نفرت رفتہ رفتہ نیچے اترتی جارہی ہے۔ اب امریکی حکام بھی اس کو آسانی سے نہیں روک سکیں گے۔ اگرامریکی حکمران امریکاکو محفوظ بناناچاہتے ہیں تو نفرت سے نہیں محبت کے ذریعہ انصاف کے ذریعہ محفوظ بناسکتے ہیں۔
مسلمان امت بن کر رہتے ہوں یانہ رہتے ہوں مغرب اور امریکا نے ان کے ساتھ ایک امت والا معاملہ ہی کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ 9/11 اس حوالے سے ایک فیصلہ کن یا بہت واضح موڑتھا۔ اس کے بعد سے مسلمان ساری دنیا میں نشانہ بن رہے ہیں لیکن مساوات‘ انسانی اقدارآزادیوں اورجمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن امریکا نہایت منصوبہ بندطریقے سے مسلمانوں کو نشانہ بنائے جارہاہے۔ خواہ پاکستانی ہو عرب ہو یا غیرعرب امتیازی سلوک کے لیے مسلمان ہونا کافی ہے۔ حال ہی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکی محکمہ دفاع امریکی بحریہ کے جوانوںکو تربیت دینے کے لیے تختہ مشق پر مسلمان عورت کی تصویریاکٹ آئوٹ بناتی ہے یا پھرکوئی قرآنی آیت ہوتی ہے جس کو ہدف بنایاجاتاہے۔ امریکی بحریہ کے لیے تربیت اور فائرنگ رینج کے طورپر استعمال کیاجانے والا 26 ہزار500 اسکوائرفٹ کا علاقہ مختص کیاگیاہے۔ اس میں بیک وقت چارگروپس کو فائرنگ کی تربیت دی جاتی ہے جن چیزوں کو نشانہ بنایاجاتاہے ان میں مسجد ‘بینک ‘ پوسٹ آفس وغیرہ ہیں ہدف میں اسکارف پہنے ہوئے عورت کی تصویریاکٹ آئوٹ اور قرآنی آیت ہوتی ہے۔ تربیت کے اس میدان کو مقتل بھی کہاجاتاہے۔ Kill House میں ہدف کے لیے مسلمان عورت کی تصویر اورقرآنی آیت کو استعمال کرنے پرامریکا میں مسلمانوں کی معروف تنظیم نے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان پرزوردیاہے کہ بحریہ کے جوانوں کی تربیت کے لیے اسکارف پہنے ہوئے مسلم خاتون کے کٹ آئوٹ اور اس کی پشت پر قرآنی آیت کو استعمال نہ کریں۔ تنظیم کے ایگزیکٹوڈائریکٹر نہاد عواد نے کہاکہ اس قسم کے عمل سے نہ صرف فوجیوں میں منفی پیغام جاتاہے اورجن ممالک میں ان کو متعین کیاجاتاہے وہاں بھی غلط پیغام جائے گا۔ نہاد عواد نے لیون پینیٹا کے نام اپنے خط میں کہاہے کہ یہ امریکی محکمہ دفاع کے لیے تربیت کے طریقوں اوراشیاء کے استعمال کے حوالے سے ایک اورمثال ہے کہ اسے تمام چیزوں کو تبدیل کرنا ہوگا اور اسلام سے متعلق امور پر جید علماسے مشورہ کرناہوگا۔ تنظیم نے اس حوالے سے نورفلوک اسٹاف کالج کے ایک انسٹرکٹرکوبرطرف کرنے کا بھی مطالبہ کیا جس نے دوران تربیت فوجیوں سے کہاکہ امریکا کے تحفظ کے لیے اسلام کے خلاف مکمل جہادکی ضرورت ہے اور ہیروشیما والا طریقہ کاراختیارکرناپڑے گا۔ سویلین کو ہدف بنائیں اورجنیواکنونشن کو بالائے طاق رکھیں۔اگرچہ مذکورہ انسٹرکٹرکو صرف تربیت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کیاگیاتھا یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ گزشتہ سال امریکی محکمہ دفاع نے اس قسم کے ٹریننگ مواد کا مکمل ازسرنوجائزہ لینے کا حکم دیاتھا اس کاخیرمقدم بھی کیاگیا لیکن اس کے باوجود متعصب ٹرینرزاب بھی اس قسم کی باتوں میں مصروف ہیں۔ اصل معاملہ کیاہے۔ ہمارے خیال میں اصل معاملہ امریکی حکمران اورمیڈیا ہیں۔امریکی حکمرانوں کو اب الیکشن جیتنے کے لیے امریکی عوام کے مسائل کے بجائے مسلمانوں اسامہ بن لادن‘ القاعدہ اور اس قسم کے مانیٹرزدکھانا زیادہ آسان لگتاہے چنانچہ جو زیادہ بڑھ کر بڑھک مارے وہ جیت جاتاہے۔ اوباما بھی مکہ مدینہ پرچڑھائی کی بات کرکے جیت گئے۔ اس طرح امریکی میڈیا بھی مسلمانوں کو دہشت گرد ظاہرکرنے کی کوشش کرتاہے لہذا جب کبھی اس میڈیا مہم کا اثرہوتاہے تو پھر عام امریکی کا ذہن متاثرہوجاتاہے اوروہ اپنے دائرہ اختیارمیں اس تعصب کا اظہارکردیتاہے۔ پھر اس کی کوئی حدتو نہیں ہوتی۔ نفرت کی آگ تو بڑھتی ہی جاتی ہے۔ خوامخواہ میں داڑھی اور اسکارف دیکھ کر غصہ آنے لگتاہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس نفسیات کی پرورش کے ذمہ دارامریکی حکمران ہیں امریکی قوم نہیں لیکن ان حکمرانوں اورمیڈیا کی محنت رنگ لاچکی ہے اور نفرت رفتہ رفتہ نیچے اترتی جارہی ہے۔ اب امریکی حکام بھی اس کو آسانی سے نہیں روک سکیں گے۔ اگرامریکی حکمران امریکاکو محفوظ بناناچاہتے ہیں تو نفرت سے نہیں محبت کے ذریعہ انصاف کے ذریعہ محفوظ بناسکتے ہیں۔
http://www.jasarat.com/epaper/index.php?page=03&date=2012-07-02