
وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ امریکی صدر کے بیان سے عمران خان کا سازش والا بیانیہ ختم ہوگیا،جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ امریکی صدر جو بائڈن کے بیان کی وجہ پاکستان کی روس اور یوکرین پالیسی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کے بیان پر شہبازشریف کا ردعمل محتاط ہے،کچھ دن تک دیکھیں گے اگر پھر ضرورت ہوئی تو اس ردعمل کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ امریکا کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تعلقات چاہتے ہیں، لگتا ہے امریکا کو روس یوکرین تنازع میں پاکستان کا غیرجانبدارانہ موقف پسند نہیں آیا، پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت خطے میں امن کیلئے سب سے بڑا ڈیٹرنٹ ہے، صدر بائیڈن کے بیان کے بعد غیرملکی سازش کا بیانیہ ختم ہوگیا ،امریکی صدر کے بیان پر پاکستان کا ردعمل محتاط ہے ایسا ہی ہونا چاہئے، آرمی ایکٹ میں ترمیم پر نظرثانی کیلئے کوئی قانون سازی نہیں ہورہی ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے روس یوکرین تنازع میں خوددار قوم کی حیثیت سے موقف اختیار کیا، لگتا ہے امریکا کو روس یوکرین تنازع میں پاکستان کا غیرجانبدارانہ موقف پسند نہیں آیا، امریکی پالیسیوں کی آنکھیں بند کر کے حمایت کریں تو ان کی ہمارے بارے میں رائے بدل جائے گی، پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت خطے میں امن کیلئے سب سے بڑا ڈیٹرنٹ ہے، امریکی صدر کو پاکستان کی جوہری سیکورٹی سے متعلق اپنی رائے میں توازن لانے کی ضرورت ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ کہا کہ پچھلے تین چار مہینوں میں امریکا کے ساتھ بات چیت اچھے لیول پر رہی ہے، امریکی عہدیداروں سے ملاقاتوں میں اچھی وائبز ملتی رہی ہیں، وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی واشنگٹن گئے، امریکی صدر کی اس بات سے پاک امریکا تعلقات اپ سیٹ نہیں ہوں گے، صدر بائیڈن کے اس بیان کے بعد غیرملکی سازش کا بیانیہ ختم ہوگیا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے بیان پر پاکستان کا ردعمل محتاط ہے ایسا ہی ہونا چاہئے، اگلے ایک دو روز پیشرفت کا جائزہ لیں گے اس کے بعد دیکھیں گے کہ دوبارہ بیان کی ضرورت ہے یا نہیں ہے۔آرمی ایکٹ کی ترمیم پر نظرثانی کی خبر کے سوال پر وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ آج شام تک ایسی کسی قانون سازی کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے،انصار عباسی باخبر صحافی ہیں ہوسکتا ہے انہیں کہیں سے کوئی بھنک پڑی ہو مگر مجھے اس کا علم نہیں ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تعلقات چاہتے ہیں،پاکستان پچاس کی دہائی سے امریکا کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہا ہے، پاکستان کے مشکل وقت میں امریکا کتنا کام آیا تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے، ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے اگر تاریخ سے سبق نہیں سیکھا تو تاریخ معاف نہیں کرے گی، صدر بائیڈن کے بیان سے لگتا ہے ان کو تاریخ یاد نہیں کہ پاکستان نے امریکا کیلئے کیا کیا کام کیے ہیں۔
پروگرام میں شریک ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف کیس مضبوط تھا، جج نے چار دن کی اسکروٹنی کے بعد اس کیس کو ٹرائل کیلئے فٹ قرار دیا تھا، عدالت کو کہا تھا کہ وائٹ کالر کرائم میں براہ راست شواہد نہیں ہوتے، تعلق ثابت کرنا ہوتا ہے کہ کون اکاؤنٹ آپریٹ کررہا ہے اور کون اس کا فائدہ لے رہا ہے، میری رائے میں ایف آئی اے کو اس کیس میں اپیل میں لے کر جانا چاہئے، مونس الٰہی کا ایک کیس ختم ہوا جو اس سے بھی مضبوط کیس تھا۔
ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے کہا کہ عدالت کو کہا تھا کہ وائٹ کالر کرائم میں براہ راست شواہد نہیں ہوتے، وائٹ کالر کرائمز میں تحقیقاتی ایجنسی کو یہی تعلق ثابت کرنا ہوتا ہے کہ کون اکاؤنٹ آپریٹ کررہا ہے اور کون اس کا فائدہ لے رہا ہے، شہباز شریف رمضان شوگر ملز کے نہ مالک تھے نہ ڈائریکٹر تھے، رمضان شوگر ملز حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کی ملکیت تھی، عدالت سے گزارش کی تھی کہ جن ملازمین کے اکاؤنٹس میں پیسہ آیا وہ سلیمان شہباز کی ملکیت مل کے ملازم ہیں، ملازمین کہتے ہیں انہیں نہیں پتا کہ ان کے اکاؤنٹس سے اتنی ٹرانزیکشنز ہورہی ہیں، ہم نے ثابت کیا کہ شہباز شریف اور دونوں صاحبزادے ان اکاؤنٹس کے بینیفشری ہیں۔
فاروق باجوہ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف کیس مضبوط تھا، جج نے چار دن کی اسکروٹنی کے بعد اس کیس کو ٹرائل کیلئے فٹ قرار دیا تھا، ایف آئی اے کو الزام نہیں دیا جاسکتا کہ تحقیقات اچھے طریقے سے نہیں کیں، ایف آئی اے نے دستیاب شواہد جمع کر کے عدالت میں پیش کیے، دوران سماعت جج صاحب سے میرا مکالمہ بھی ہوا تھا، جج صاحب سے پوچھا تھا آپ کے اکاؤنٹ میں کوئی ایسے ہی پیسے جمع کرواسکات ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت فرد جرم عائد کرے گی تب ہی چیزیں مزید کھل کر سامنے آئیں گی، ایسی صورتحال میں عدالت کا بھی کچھ رول بنتا ہے، عدالت وکیل صفائی اور پراسیکیوٹرز دونوں کے دلائل سے مطمئن نہیں تو ریکارڈ اس کے سامنے ہے،وفاقی وزیرداخلہ کا اس معاملہ پرا پنا موقف ہوسکتا ہے، رانا ثناء اللہ کے ماتحت ادارہ کا ذمہ دار پراسیکیوٹر ہوں، میں نے بطور وکیل عدالت میں اپنے ادارے کا تحفظ کیا ہے، عدالت کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی کہ تحقیقاتی ادارہ ایسے ہی شواہد پر ٹرائل آگے چلاتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ مجسٹریٹ کے سامنے گواہان کا 161کا بیان ہی ہونا تھا، جج صاحب کا استفسار تھا کہ آپ کے گواہان میں سے کوئی ایسا گواہ ہے جو شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو براہ راست شامل کرتا ہے، اس کا جواب مجھے یہی دینا تھا کہ ان 64گواہوں میں سے کسی ایک گواہ نے بھی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کا نام نہیں لیا کیونکہ یہ ان کے ساتھ جڑے ہوئے تھے بلکہ ان کے ملازمین کے ساتھ جڑے تھے۔
فاروق باجوہ نے کہا کہ مقصود چپراسی 2018ء سے دبئی میں ہے، اس وقت منی لانڈرنگ مقدمہ کا چالان بھی عدالت میں نہیں آیا تھا، دوسرے ملزم سلیمان شہباز بھی مقدمہ کے چالان سے پہلے غائب ہیں، ملزم گلزار احمد جس کے اکاؤنٹ میں براہ راست دو چیک آئے وہ 2018ء میں فوت ہوچکا ہے، ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور ڈاکٹر رضوان کینسر سروائیور تھے، بطور پراسیکیوٹر کسی نے مجھ پر اس کیس میں دباؤ نہیں ڈالا۔
فاروق باجوہ کا کہنا تھا کہ میٹنگ میں فیصلہ ہوگا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کے فیصلے کو چیلنج کرنا ہے یا نہیں کرنا، میری رائے میں ایف آئی اے کو اس کیس میں اپیل میں لے کر جانا چاہئے، مونس الٰہی کا ایک کیس ختم ہوگیا جو اس سے بھی مضبوط کیس تھا، مجھ پر سوال اٹھائے جارہے ہیں لیکن اس کیس میں پیش ہونے والے پراسیکیوٹر پر کسی نے سوال نہیں اٹھایا۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/khawaja-asif-ppr-tr.jpg