امریکہ:دوست یا دشمن؟
افغانستان اور جنوبی ایشیا کے لیے صدر ٹرمپ کی اعلان کردہ نئی امریکی پالیسی کو سولہ سال سے خود اپنی شروع کردہ جنگ میں اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کو حقائق کا منہ چڑانے کی کوشش کہنا غلط نہ ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے منگل کے روز اس ضمن میں قوم سے اپنے پہلے رسمی خطاب میں کہا کہ’’ ہم پاکستان میں موجود دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر اب مزید خاموش نہیں رہیں گے...ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے ان ہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن سے ہماری جنگ جاری ہے... پاکستان کے اس رویے کو تبدیل ہونا چاہیے اور فی الفور تبدیل ہونا چاہیے۔‘‘
پاکستان کے خلاف امریکی صدر کے ان الزامات کے مقابلے میں حقائق یہ ہیں کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ناکافی ثبوت و شواہد کے باوجود افغانستان میں بعجلت تمام شروع کی گئی اس مہم جوئی میں تعاون کے باعث جس میں خود امریکہ ہی نے پاکستان کو دھکیلا تھا، سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان پاکستان ہی نے اٹھایا ہے۔ صدر ٹرمپ پاکستان کو دیے جانے والے جن اربوں ڈالر کا احسان جتارہے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ مالی نقصان افغانستان میں امریکہ کی شروع کردہ جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے ملک کے اندر بدامنی، خوں ریزی اور دہشت گردی کی شکل میں پاکستان کو اٹھانا پڑا ہے جبکہ پاک فوج اور شہریوں کا جانی نقصان ستر ہزار سے متجاوز ہے۔جہاں تک پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی کا تعلق ہے تو پاک فوج نے ان تنظیموں کے خلاف کسی امتیاز کے بغیر مسلسل نہایت مؤثر کارروائیاں کرکے ان کے تمام ٹھکانوں کا تقریباً کامل صفایا کردیا ہے۔
دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنے کے لیے پاکستان پاک افغان سرحد پر باڑ لگارہا ہے اور افغان حکومت سے بارڈر مینجمنٹ کے اس منصوبے میں شرکت کی بارہا درخواست کرچکا ہے لیکن دوسری جانب سے اب تک کسی عملی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔پاکستان کی ان مسلسل کوششوں کے نتیجے میں شمالی قبائلی علاقوں میں حکومت کی عملداری پوری طرح بحال ہوچکی ہے جس کا تجربہ اور مشاہدہ خود امریکی سینیٹروں اورامریکی فوجی حکام کے وفود ان علاقوں کے حالیہ دوروں میں کرچکے ہیں۔
دہشت گردی پر قابو پانے کے ان مثالی اقدامات کے باوجود جن کا عالمی سطح پر بھرپور اعتراف کیا جاتا ہے اور جن کے باعث پاکستان کے جوہری ہتھیار کسی دہشت گرد گروہ کے ہاتھ لگنے کا معمولی خدشہ بھی نہیں، صدر ٹرمپ نے یہ گھسا پٹا موقف دہرانا بھی ضروری سمجھا کہ جوہری ہتھیاروں کے کسی دہشت گرد گروپ کے ہاتھ لگ جانے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی ناقابل تردید کامیابیوں کے باوجودصدر ٹرمپ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی اور پاکستان سے افغانستان میں دہشت گردی کیے جانے پر تو مصر ہیں لیکن ان کے پورے خطاب میں افغان سرزمین سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کا کوئی ذکر نہیں جن میں ہزاروں بے گناہ لوگ شہید ہوئے۔
پاکستان سے فرار ہوکر افغانستان جانے والے ملا فضل اللہ جیسے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر بھی ذرہ برابر تشویش ظاہر نہیں کی گئی۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے بھارت کے سازشی منصوبے بھی جن کے یقینی ثبوت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے ذریعے سامنے آچکے ہیں، امریکی صدر کی نگاہ میں چنداں قابل اعتراض نہیں، جوہری اسلحہ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والی بھارتی آبدوز کاگوادر کی بندرگاہ اور سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لیے پاکستان کی سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنا، وزیر اعظم مودی کا برملا سی پیک کو بھارت کے لیے ناقابل قبول قرار دینا، اسے روکنے کیلئے بھارتی خفیہ ایجنسی را کو بھاری مالی وسائل فراہم کیا جانا،افغانستان میں درجنوں بھارتی قونصل خانوں کا پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے تربیتی مراکز کا کردار ادا کرنا، بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک کو ہوا دینا،مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا برسوں سے جاری رہنا، جنگی ہتھیاروں کے انبار لگا کر خطے میں اسلحہ کی دوڑ کا جاری رکھنا، لائن آف کنٹرول پر آئے دن فائرنگ کرکے مسلسل جنگ جیسی حالت کا قائم رکھنا، ان میں سے کوئی چیز بھی صدر ٹرمپ کے خطاب میں بھارتی قیادت کو کسی معمولی سی تنبیہ پر بھی مجبور نہیں کرسکی بلکہ وہ بھارت کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مزید امریکی فوج افغانستان بھیجنے اور غیرمعینہ مدت تک اس ملک میں امریکہ کی فوجی موجودگی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔حیرت ہے کہ جب سولہ سال کے دوران ایک بھرپور جنگ میں اربوں ڈالر پھونک ڈالنے اور اپنے ہزاروں فوجی گنوادینے کے باوجود امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں جاری مزاحمت کے خاتمے نیز امن کے قیام اور معمول کی زندگی کی بحالی میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں تو امریکہ کی فوجی موجودگی میں اضافے اور اسے جاری رکھ کر مزید تباہی و بربادی کے سوا کیاملے گا۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے عبوری ردعمل میں بالکل درست کہا ہے کہ امریکہ کو بے بنیاد الزام تراشی کے بجائے دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کی کوششوں کا ساتھ دینا اور افغانستان میں امن کے لیے سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہیے۔
چینی حکومت نے دوٹوک الفاظ میں عالمی برادری سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔روس نے بھی نئی افغان امریکی پالیسی منفی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ آسٹریلیا کے ایک فوجی تجزیہ کار کے بقول صدر ٹرمپ نے افغان معاشرے کی تعمیر کے بجائے صرف فوجی کامیابی کی بات کرکے کامیابی کا بڑا پست معیار قائم کیا ہے اور لگتا ہے کہ ان کی تقریر وائٹ ہاؤس کے کسی معمولی ملازم نے لکھی ہے۔حکومت پاکستان کا باضابطہ ردعمل ابھی سامنے آنا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے حقائق کی روشنی میں نئی حکمت عملی وضع کرے۔ امریکہ نے اگر خطے میں بھارت کے تمام جرائم کے باجود اس کے ساتھ نتھی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پاکستان کو بھی نئے افق تلاش کرنے چاہئیں۔ چین، روس، ترکی، ایران اور شنگھائی تعاون تنظیم، سی پیک میں شمولیت کے خواہشمند درجنوں ممالک سے قریبی تعلقات پاکستان کی نئی پالیسی کے لیے مستحکم بنیاد فراہم کرسکتے ہیں۔