بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
سورہ فرقان کے آخر میں اللہ تعالی نے اپنے نیک اور پیارے بندوں کے ان اوصاف کو ذکر فرمایا ہے جن کی وجہ سے وہ خاص ’’عباد الرحمن ‘‘کے لقب اور انعامات باری تعالیٰ کے مستحق بنتے ہیں…ان مقبول بندگان میں پائی جانے والی صفات کا خلاصہ یہ ہے کہ
وہ اپنے آپ کواللہ کا بندہ اور غلام بناکر رکھتے ہیں ، اپنی من مانی کے بجائے ہر چیز میں اپنے رب کی مان کر چلتے ہیں اور اسی میں اپنی سعادت دنیوی واخروی سمجھتے ہیں
ان کا قول وفعل تو کیا پورے مزاج میں ہی تواضع ہے خشونت اور سختی والا مزاج نہیں رکھتے کہ دوسرے انسان انہیں دیکھ کرہی ان سے نفرت کریں
وہ حلیم اور بردبار ہیں ،غصہ پی جانے والے ہیں ، جاہل کے ساتھ جاہل نہیں ہوجاتے بلکہ ایسی بات کرکے جاہل اور جہالت سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں کہ جس سے شردفع ہو جاتا ہے۔
پانچوں نمازوں کی پابندی تو کرتے ہی ہیں لیکن اسی پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ راتوں کو اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں اور تنہائی میں اپنے رب کے سا تھ جی بھر کر ملاقات کرتے ہیں
اپنی عبادت پر فخرو غرور نہیں کرتے بلکہ ہروقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں اور عذاب جہنم سے،اللہ پاک کی ناراضی سے پناہ مانگتے ہیں ۔
عبادات کی طر ح معاملات میں بھی دین و شرع کے پابند رہتے ہیں خصوصاً خرچ کرنے کے معاملے میں نہ تو بخل اور کنجوسی کرتے ہیں اور نہ ہی حد سے زیادہ خرچ کرتے ہیں بلکہ اعتدال پر قائم رہتے ہیں
اور عقیدے کے ایسے پکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور ہستی کو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں شریک نہیں جانتے یہ سچے اور حقیقی عابد ہیں کہ جن کا معبود ایک ہی ہے
کسی کو ناحق قتل کرتے ہیں
نہ زنا کرتے ہیں ۔
اوراگر کوئی گناہ غلطی سے ہو بھی جائے تو اسے صحیح اورحق ثابت کرنے کیلئے الٹی سیدھی تاویلوں کا سہارا نہیں لیتے بلکہ فوراًاپنی غلطی کا اقرار و اعتراف کر کے نادم ہوتے ہیں اور رب کے حضور گریہ وزاری کرکے توبہ واستغفار کرتے ہیں… اور اس ایک توبہ کے آسرے بیٹھے نہیں رہتے بلکہ پھر خوب نیک اعمال بھی کرتے ہیں کہ یہ علامت اورنشانی ہے توبہ قبول ہوجانے کی ۔
عام کبیرہ گناہو ں سے بچنے کے ساتھ ساتھ جھوٹ سے ، جھوٹی گواہی سے بھی اپنے آپ کوبچاتے ہیں کہ یہ مسلمان کی شان سے بہت بعید ہے ۔
اور جب انہیں بھلائی کے کاموں کی نصیحت کی جاتی ہے تو اِتراتے نہیں بلکہ خوب توجہ سے سنتے ہیں اور پھر دل و جان سے اس پر عمل پیراہوتے ہیں
اللہ تعالیٰ کے ان بندوں کو جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تو خودہی اپنے پیارے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرکے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس انداز سے اپنی حاجت رکھتے ہیں… کہ وہ پوری ہو جاتی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إِذَا أَحَبَّ اللّٰہُ عَبْدًا حَمَاہُ الدُّنْیَا کَمَا یَظِلُّ أَحَدُکُمْ یَحْمِيْ سَقِیْمَہُ الْمَائَ۔
’’ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اس کو دنیوی مال و مناصب سے روکے رکھتا ہے
إِذَا أَحَبَّ اللّٰہُ عَبْدًا نَادٰی جِبْرَئِیْلَ: إِنِّيْ قَدْ أَحْبَبْتُ فَـلَانًا فَأحِبَّہُ، فَیُنَادِيْ فِيْ السَّمَآئِ، ثُمَّ تُنْزَلُ لَہُ الْمُحَبَّۃُ فِيْ أَھْلِ الْأَرْضِ فَذٰلِکَ قُوْلُ اللّٰہِ: {إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا وَإِذَا أَبْغَضَ اللّٰہُ عَبْدًا نَادَی جِبْرَئِیْلَ: إِنِّيْ قَدْ أَبْغَضْتُ فُـلَانًا، فَیُنَادِيْ فِيْ السَّمَآئِ، ثُمَّ تُنْزَلُ لَہُ الْبَغْضَائُ فِيْ أَھْلِ الْأَرْضِ۔
’’ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو آواز دیتے ہیں کہ میں فلاں شخص سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام آسمان میں اعلان کرتا ہے، پھر اہل زمین میں اس کی محبت اترتی ہے تو اللہ کے فرمان: ’’بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے جلد ہی اللہ تعالیٰ ان کے لیے محبت پیدا کردیں گے۔ ‘‘ کا یہی مفہوم ہے۔‘‘
جب دنیا میں کوئی انسان محبوب بن جاتا ہے تو وہ آخرت میں بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف مومن متقی آدمی سے ہی محبت کرتا ہے اور راضی بھی صرف خالص اور پاک طینت آدمیوں سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے احسان اور کرم کے ذریعہ ہمیں بھی انہی میں شامل کرے۔
(آمین)