اقبال کا شاہین اور آج کا نوجوان

Osama Altaf

MPA (400+ posts)

اسامہ الطاف ۔جدہ
[email protected]
اقبال کا شاہین اور آج کا نوجوان
ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان کے مسلمان انگریز کے ظلم سے تنگ آکر مایوسی سے کسی مسیحا کی تلاش میں تھے اور قدرت کے غیبی نظام سے مدد ونصرت کی امیدیں لگارہے تھے،انتہائی ضروری تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو مایوسی سے نجات دلا کر یہ یقین دلایا جائے کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر کسی مسیحا کا انتظار مسلمانوں کے لیے مزید نقصان کا باعث ہوگا،مسلمانوں کو ان کی قومی اور مذہبی ذمہ داریوں کا احساس دلانا لازم تھاتاکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی بقا اور فلاح کو یقینی بنایا جائے۔علامہ اقبال یہی فکر لے کر میدان میں آئے کہ حالات تبدیل کرنے کے لیے مایوسی اور انتظار کے بجائے بہتر حکمت عملی اپنائی جائے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
علامہ اقبال نے ایک مفکر کی حیثیت سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کا غم اٹھا رکھا تھا،علامہ اقبال کو نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اعتماد تھا،اسی لیے علامہ اقبال نے نوجوانوں کی سوچ تبدیل کرنے پر محنت کی،اقبال کا شاہین ؛ ایک ایسی مثالی زندگی کا نام ہے جو خودداری اور قابلیت سے بھرپور ہو:
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہیں جوانوں میں
نظر آتی ہیں اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
علامہ اقبال کی سوچ صرف تخیالاتی دوراندیشی نہیں بلکہ ایک مسلم فلاحی معاشرے کی بنیاد تھی،علامہ اقبال نے جہاں اپنی شاعری سےنوجوانوں کے جذبات ابھارے وہیں نوجوانوں کو مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کے لیے ضروری رہنمائی بھی کی:
سبق پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں معاشرےکی کامیابی کے اہم رہنما اصول کو بیان کیا جس کے بغیر معاشرے کی فلاح ناممکن ہے،جھوٹ جس قوم میں عام ہوجائے،گلی میں سبزی فروش سے پارلیمنٹ میں وزیر اعظم تک سب جھوٹ بولے،اس قوم کی تباہی میں کیا تامل ہے؟معاشرے میں عدل وانصاف کی فراہمی معاشرے کی فلاح کی بنیاد ہے،جس کے بغیر معاشرے کی بقا ناممکن ہے،حضرت علی کا فرمان ہے "کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں"۔مزید یہ کہ ڈرنے والے کامیاب نہیں ہوسکتے،معاشرے کو تبدیل کرنی کی تمنا ہے،وطن کی خدمت کی آرزو ہے تو روزگارکا خوف اور بچوں کا غم دل سے نکالنا ہوگا۔
صداقت ،عدالت اور شجاعت جیسے اوصاف کے ساتھ کامیابی کے امیدوار کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسکا اپنے رب اور مسبب الاسباب سے گہرا تعلق ہو،جس سے خدا کی مدد ونصرت ہر آن ہر گھڑی اس کے ساتھ ہو۔
خود ہی کو کر بلند اتنا کے ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سےخود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
علامہ اقبال نے نوجوانوں کو ان کے اہم فریضہ "وطن کی خدمت" کا اس وقت درس دیا تھا جب ہندوستان پر انگریز کا قبضہ تھا،علامہ اقبال کی سوچ اور قائد اعظم کی مدبرانہ سیاست سے تخلیق پاکستان کا مرحلہ تو مکمل ہوگیا،لیکن تکمیل پاکستان کا فرض ہمارے کندھوں پر ہے،اس فرض کو بخوبی نبہانے اور ملک کو حقیقی معنوں میں آزاد کرنے کے لیے اقبال کا کلام ہمارا بہترین رہنما ہے۔



 
Last edited: