افغانستان میں خواتین کی صحت کی تعلیم پر پابندی کا خدشہ

afghan.jpg


افغانستان میں نرسنگ اور مڈوائفری کے کورسز پیش کرنے والے کئی اداروں کے سینئر ملازمین نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کے سپریم لیڈر کے غیر تحریری حکم کے بعد خواتین کو کلاسز لینے سے روکا جا سکتا ہے۔ خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق، طالبان حکومت نے صحت عامہ کی وزارت کے حکام کے ذریعے تعلیمی اداروں کے ڈائریکٹرز سے ملاقاتیں کی ہیں، جہاں انہیں بتایا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیاں مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گی۔

ایک عہدیدار نے تصدیق کی کہ ڈائریکٹرز سے ملاقات میں انہیں کوئی تحریری حکم نہیں دیا گیا، صرف سپریم لیڈر کے حکم کا ذکر کیا گیا۔ اس میٹنگ میں درجنوں اداروں کے مینیجرز موجود تھے اور کچھ نے مزید وضاحت کے لیے وزارت صحت سے رابطہ کیا ہے جبکہ دیگر نے تحریری حکم کی عدم موجودگی میں معمول کے مطابق کام جاری رکھا ہے۔

افغانستان میں تقریباً 10 سرکاری اور 150 سے زیادہ نجی صحت کے ادارے ہیں جو مختلف مضامین میں دو سالہ ڈپلومے پیش کرتے ہیں، اور ان میں تقریباً 35 ہزار خواتین طالبات زیر تعلیم ہیں۔ طالبان کی حکومت میں آنے کے بعد، خواتین کو سیکنڈری اسکول سے آگے کی تعلیم سے روک دیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں بہت سی خواتین نے صحت کے اداروں کا رخ کیا تھا۔ اب یہ ادارے ان خواتین کے لیے تعلیم کا ایک اہم ذریعہ بن چکے ہیں۔

ایک مینیجر نے کہا کہ "اب ہم اپنے صرف 10 فیصد طلبہ کے ساتھ کیسے آگے بڑھیں گے؟" کابل کے ایک مڈوائفری انسٹی ٹیوٹ کی 28 سالہ خاتون ٹیچر نے بتایا کہ انہیں انتظامیہ کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہیں کام پر نہ آنے کا کہا گیا۔

برطانیہ کے ناظم الامور نے ان رپورٹس پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ یہ اقدام افغان خواتین کے تعلیم کے حق کی توہین ہے، جس کا اثر صحت کی دیکھ بھال تک رسائی پر بھی پڑے گا۔ وزارت صحت کے ذرائع نے بتایا کہ یہ پابندی پہلے سے مشکلات کا شکار صحت کے شعبے کو مزید نقصان پہنچائے گی، کیوں کہ پیشہ ور میڈیکل اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی کمی پہلے ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

یہ صورتحال افغان خواتین کے مستقبل کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے اور عالمی برادری کی توجہ کی طلبگار ہے۔​
 

Back
Top