
سینیئر تجزیہ کار حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان بڑے سمجھدار آدمی ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں کریں گے،بیرونی سازش کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی کمیشن بننے پرجیو کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا تو یہ کسی بھی صورت میں یہ ممکن نہیں ہے اگر سیکریٹری خارجہ ان کو کہہ بھی دے کہ ٹھیک ہے کہ آپ پبلک کردیں اگر کابینہ ان کو کہہ بھی دے کہ ٹھیک ہے کر دیں پبلک آپ تو پھر بھی وہ نہیں کر سکتے۔
حامد میر نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ اس مبینہ خط کے بارے میں جو تجربہ کار سفارتکار ہیں جنہوں نے عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کی ان کا کہنا یہ ہے کہ امریکہ سے یا بر طانیہ سے یا کہیں سے بھی جو ہمارے سفارتکار اسلام آباد میں غیرملکی سفارتخانے کو جو کیبل بھیجتے ہیں وہ کیبل کا جو کاغذ ہوتا ہے وہ خاص کلر کاہے مجھے اس کلر کا پتہ ہے لیکن میں وہ بتانا نہیں چاہتا لیکن وہ سفید کلر نہیں ہوتا اور وہ جو سفارتکار ہیں میں ان کا نام بھی بتادیتا ہوں ان کا نام ہے عبد الباسط صاحب جو دلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہے وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ جو عمران خان صاحب نے 27مارچ کو جلسے میں جیب سے ایک خط نکال کر دکھایا تھا اور کہاتھا کہ یہ ایک خط ہے تو اس کا کلر سفید تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب اگر علامتی خط آپ جیب سے نکال کر دکھا رہے ہیں تو وہ جلسہ اس کا عنوان کیا تھا امر بالمعروف تو میں تو اللہ میاں سے ڈرتا ہوں میں تو بڑا کمزور آدمی ہوںکہ میں اس طرح امر بالمعروف کے نام پر لوگوں کو اکھٹا کروں اور جیب سے ایک علامتی خط نکال کر یہ کہہ دوں کہ یہ خط ہے میری جیب میں لیکن میں اس کو واپس جیب میں رکھ لیتا ہوں تو میں تو اس طرح کا کام نہیں کروں گا
میں اتنا پرہیز گار انسان نہیں ہوں کہ میں اپنے سامنے اتنے سارے لوگ جو ہیں ان کو بیوقوف بناؤں اب اگر عمران خان صاحب جاتے جاتے ایک کمیشن کا اعلان کررہے ہیں تو در اصل وہ ان کے ذہن میں ہے وہ میمو گیٹ کمیشن ،میمو گیٹ کمیشن کی انکوائری ہوئی تھی، ا ب میمو گیٹ کمیشن کی انکوائری کس نے کی تھی؟وہ کی تھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وہ جج ہیں جن کے خلاف عمران خان صاحب کی حکومت نے نا اہلی کا ریفرنس دائر کیا ۔
حامد میر نے کیا کہ عمران خان نے کمیشن کا اعلان کیا ہے اس کمیشن کا سربراہ انہوں نے میرا خیال ہے جنرل ریٹائرڈ طارق خان کو بنایا ہے اور طارق خان کی بطور سولجر پاکستان کے لئے بڑی خدمات ہیں اس کو تو میں سراہتا ہوں مگر ان کے سیاسی نظریات کا سب کو پتہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے حامی ہیں اور پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ وہ تو اس سسٹم کے خلاف ہیں ،اور کہتے ہیں پاکستان میں جو جمہوریت ہے یہ ہونی نہیں چاہیے۔
سینیئر تجزیہ کار نے کہا عمران خان کو کمیشن کیلئے کم از کم ان کو بندہ ایسا رکھنا چاہئے تھا جس کو باقی اسٹیک ہولڈرز قبول کرلیں لیکن اس کے باوجود میں یہی کہوں گا کہ جو نئی حکومت آئے اس کو اس کی تحقیقات کرنی چاہئے، اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اس کو رکھیں گے پارلیمنٹ کے ارکان ان کے سامنے رکھیں گے .
حامد میر نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق عمران خان پر اور بھی مقدمے بن سکتے ہیں۔آپ اگر پرویز مشرف پر آرٹیکل 6کا مقدمہ نہیں چلا سکے تو پھر آپ عمران خان کو کیوں مظلوم بنا رہے ہیں۔سب کو اپنے اپنے مورچوں سے نکل کر آگے نکل جانا چاہئے۔
سینئر تجزیہ کارحامد میر نے کہا کہ اس میں ایک چیز ہمیں ضرور یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ صاحب جو ہیں اس پر پابندی کا حکم جاری کر چکے ہیں وہ اپنے اس آرڈر کے آخری پیرا گراف میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ یہ جو foreign office correspondenceہے اور یہ کسی کیبل کا کسی خط کا جو حوالہ دے رہے ہیں عمران خان یہ اس کو پبلک کرنا یہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے،اسے جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے۔
تجزیہ کار منیب فاروق نے کہا کہ نئی حکومت چاہے گی تو تحقیقات کروائے گی ورنہ ختم کردے گی، یہ کمیشن آف انکوائری جو ہے یہ ٹھیک ہے وفاقی حکومت کا اختیار ہے بنا تو وہ سکتی ہے لیکن پہلے یہ دیکھ لیں کہ کن شخصیت کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے ان کا ٹریک ریکارڈ کیا ہے ان کی ذاتی زندگی کیا ہے۔