SardarSajidArif
Politcal Worker (100+ posts)
عمران ریاض صاحب دراصل غلطی آپ کی اپنی ہے۔
وگرنہ آپ کے سامنے بہت سی ایسی مثالیں موجود تھیں، بہت سے ایسے رستے دستیاب تھے جن پر چل کر آپ ایک انتہائی پر آسائش زندگی بسر کر سکتے تھے۔
پاکستان میں ایسے لاتعداد نامور صحافی موجود ہیں جو فوج کے خلاف منظم پروپیگنڈے کا حصہ رہے، اداروں کی تذلیل کرنے میں پیش پیش رہے لیکن چونکہ انہیں "خاندان شریفاں" کی سرپرستی حاصل تھی لہذا وہ اسی دیس میں بلند مناصب سے نوازے گئے۔
آپ حامد میر بھی تو بن سکتے تھے، جن کے بارے میں ایجنسیوں کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ وہ سی آئی اور را سے باقاعدہ فنڈنگ لیتے رہے لیکن آج وہ ایک محب الوطن صحافی کہلائے جاتے ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھ کر روزانہ آزاد صحافت اور جمہوریت پر بھاشن دیتے نظر آتے ہیں۔
آپ عرفان صدیقی کی طرح خاندان شریفاں کی چاپلوسی میں کالمز لکھ کر مشیر بھی بن سکتے تھے اور وزارت کا پروٹوکول انجوائے کر سکتے تھے۔ مجیب الرحمٰن شامی کی طرح تین چار پٹرول پمپس کے پرمٹس لے لیتے یا عطاء الحق قاسمی کی مانند ناروے اور بعد ازاں تھائی لینڈ کے سفیر بھی بن سکتے تھے۔ ابصار عالم کی طرح پی ٹی وی کے چیئرمین بن جاتے یا روف طاہر کی طرح ریلوے کے جنرل مینیجر۔
آپ نے ان میں سے کسی کا رستہ بھی تو اختیار نہیں کیا۔
آپ عاصمہ شیرازی کی طرح سرکاری حج کرتے، سرکاری دوروں سے لطف اندوز ہوتے اور بعد ازاں ایک ایسے ادارے یعنی بی بی سی کو جوائن کر لیتے جو صرف ایسے صحافیوں کو ریکروٹ کرتا ہے جو فوج کے خلاف مغلظات لکھنے میں ماہر ہوں۔ آپ نجم سیٹھی کی طرح کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی بنائے جا سکتے تھے یا مشتاق منہاس کی طرح آزاد کشمیر میں وزیر بھی لگائے جا سکتے تھے۔
َآپ ان میں سے کسی کے راستے پر بھی تو نہیں چلے۔
اب بھی آپ کے پاس وقت ہے۔ شریف خاندان کی بیعت کریں، میاں نواز شریف صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگائیں اور توبہ تائب کریں۔ اس راستے پر چلنے کا عہد کریں جو پاکستان میں صحافیوں کو اوج ثریا کی بلندیوں تک لے کر جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ محب الوطن کہلائے جاتے ہیں اور کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ انہیں غدار کہے۔
گڈ لک
وگرنہ آپ کے سامنے بہت سی ایسی مثالیں موجود تھیں، بہت سے ایسے رستے دستیاب تھے جن پر چل کر آپ ایک انتہائی پر آسائش زندگی بسر کر سکتے تھے۔
پاکستان میں ایسے لاتعداد نامور صحافی موجود ہیں جو فوج کے خلاف منظم پروپیگنڈے کا حصہ رہے، اداروں کی تذلیل کرنے میں پیش پیش رہے لیکن چونکہ انہیں "خاندان شریفاں" کی سرپرستی حاصل تھی لہذا وہ اسی دیس میں بلند مناصب سے نوازے گئے۔
آپ حامد میر بھی تو بن سکتے تھے، جن کے بارے میں ایجنسیوں کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ وہ سی آئی اور را سے باقاعدہ فنڈنگ لیتے رہے لیکن آج وہ ایک محب الوطن صحافی کہلائے جاتے ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھ کر روزانہ آزاد صحافت اور جمہوریت پر بھاشن دیتے نظر آتے ہیں۔
آپ عرفان صدیقی کی طرح خاندان شریفاں کی چاپلوسی میں کالمز لکھ کر مشیر بھی بن سکتے تھے اور وزارت کا پروٹوکول انجوائے کر سکتے تھے۔ مجیب الرحمٰن شامی کی طرح تین چار پٹرول پمپس کے پرمٹس لے لیتے یا عطاء الحق قاسمی کی مانند ناروے اور بعد ازاں تھائی لینڈ کے سفیر بھی بن سکتے تھے۔ ابصار عالم کی طرح پی ٹی وی کے چیئرمین بن جاتے یا روف طاہر کی طرح ریلوے کے جنرل مینیجر۔
آپ نے ان میں سے کسی کا رستہ بھی تو اختیار نہیں کیا۔
آپ عاصمہ شیرازی کی طرح سرکاری حج کرتے، سرکاری دوروں سے لطف اندوز ہوتے اور بعد ازاں ایک ایسے ادارے یعنی بی بی سی کو جوائن کر لیتے جو صرف ایسے صحافیوں کو ریکروٹ کرتا ہے جو فوج کے خلاف مغلظات لکھنے میں ماہر ہوں۔ آپ نجم سیٹھی کی طرح کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی بنائے جا سکتے تھے یا مشتاق منہاس کی طرح آزاد کشمیر میں وزیر بھی لگائے جا سکتے تھے۔
َآپ ان میں سے کسی کے راستے پر بھی تو نہیں چلے۔
اب بھی آپ کے پاس وقت ہے۔ شریف خاندان کی بیعت کریں، میاں نواز شریف صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگائیں اور توبہ تائب کریں۔ اس راستے پر چلنے کا عہد کریں جو پاکستان میں صحافیوں کو اوج ثریا کی بلندیوں تک لے کر جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ محب الوطن کہلائے جاتے ہیں اور کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ انہیں غدار کہے۔
گڈ لک