اصغر خان سے عمران خان تک

maksyed

Siasat.pk - Blogger
اصغر خان سے عمران خان تک


malik-irfan-logo1.jpg


۔1965ء کی جنگ سے صرف چھ ہفتے پہلے ریٹائرڈ ہونے والے ائرمارشل اصغر خان پاکستان ائر فورس کے پہلے پاکستانی سربراہ تھے۔36سال کی عمر میں پاک فضائیہ کی قیادت سنبھالنے والے اصغر خان نے 1970-71ء کے حالات میں عملی سیاست کا آغازکیا۔وہ دَور پاکستان کا ایک مشکل ترین دور تھا۔بھٹو صاحب عوام کی امیدوں پر پورے نہ اتر سکے ۔اصغر خان نے بھٹو حکومت کے خلاف آواز اٹھائی اور پھر ان کی آواز پاکستان کی سب سے با اثر آواز بن گئی۔سیاسی پنڈتوں کی محفلوں میں ایک بھونچال آ گیا۔حالات آج جیسے خراب تو نہیں تھے کہ آج کے بدترین حالات تو ضرب المثل بن چکے ہیں لیکن بدعنوانی ،بد امنی اور آمرانہ طرزِ سیاست نے لوگوں کو تبدیلی کاخواہش مند بنا دیا تھا اسی لیے جب اصغر خان نے بھٹو کے خلاف آواز اٹھائی تو پورے ملک میں ان کا طوطی بولنے لگ پڑا۔ان کی مقبولیت اس وقت اپنی حدوں کو چھورہی تھی جب 1979ء میں جنرل ضیاء مرحوم نے انتخابات کا اعلان کیا۔ویسے بھی بھٹو صاحب کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد میدان خالی تھا۔اس لیے ائر مارشل اصغر خا ن کا نام ہر طرف گونج رہا تھا۔ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت سیاست کے تقریباً تمام بڑے نام ہوا کا رخ دیکھ کر ان کی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے اور لگتا تھا کہ اصغر خان کی پاکستان تحریک استقلال بہت بڑی کامیابی حاصل کرے گی۔ اس وقت تحریک استقلال میں شامل ہونیوالوں میں میا ںنواز شریف،اعتزازاحسن ،شیخ رشید،اکبر بگٹی،خورشید محمود ْقصوری،جاوید ہاشمی،مشاہد حسین سید،گوہر ایوب،علامہ احسان الٰہی ظہیر،علامہ عقیل ترابی،احمد رضا قصوری،منظور وٹو،عابدہ حسین ،فخر امام،ظفر علی شاہ اور شیر افگن نیازی جیسے بہت سے نام شامل تھے۔ اب آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ اس وقت ائر مارشل اصغر خان کی مقبولیت کا کیا عالم ہو گا۔لیکن پھرجنرل ضیاء نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے الیکشن ملتوی کر دے اور اس کے ساتھ ہی اصغر خان کا دوربھی ختم ہو گیا۔انھیں پانچ سال تک نظر بند رکھا گیا۔ان پانچ سالوں میںسیاسی افق نے اپنارنگ بدل لیا۔اصغر خان کے ساتھ شامل ہونے وا لے فصلی بٹیروں نے ہواؤ ںکا رخ پہچانتے ہوئے اپنے گھونسلے ان درختو ںپر جا بنائے جہا ںسے ایوانِ اقتدار میںجھانکنا ممکن تھا۔لیکن اصغر خان ضمیر کے قیدی اور اصولوں کے اسیر تھے۔انھیں اصولوں پر سودے بازی منظور نہ تھی اس لیے وہ آمر سے کوئی لین دین نہ کر سکے۔ اس لیے وہ اس کے بعد کبھی عملی سیاست میں نمایاں نہ ہو سکے۔انھو ںنے اس کے بعدکچھ سیاسی اتحادوں میں شمولیت اختیار کی لیکن بات نہ بن سکی اور اس طرح پاکستانی سیاست کے افق پر ایک مرتبہ شاھین بن کر اڑنے والا اصغر خان ایبٹ آباد کی پہاڑیوں میںاپنے نشیمن میں جاکر خاموش ہو گیا۔


آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو ایک طرف رکھ کر سوچیں تو حالات اُس وقت سے زیادہ خراب ہیں ۔آج مالی بدعنوانی اور اقرباء پروری اپنی حدوں کو چھو رہی ہے۔کوئی ادارہ ،کوئی کارپوریشن،کوئی محکمہ کرپشن اور بدعنوانی سے پاک نہیں ہے لوگ نہ صرف پیپلز پارٹی ،اے این پی ،مولانا فضل الرحمٰن اور ایم کیو ایم سے شدید نالاں ہیں بلکہ ن لیگ سے بھی انتہائی خفا۔ان تمام جماعتوں کی ہوسِ اقتدار اور خاص طور پر مرکزی حکومت کی مالی کرپشن اور انتہائی خراب طرزِ حکمرانی نے اس پورے نظام سے لوگوں کو متنفر کر دیا ہے۔تبدیلی کی خواہش شدید ترین ہے۔ایسے حالات میں عمران خان تبدیلی کی علامت بن کر ابھرا ہے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ وہ اس وقت کا مقبول عوامی لیڈر ہے۔نوجوان اسے بے حد پسندکر رہے ہیں ۔وہ بار بار خوداری،عزتِ نفس اور اپنے فیصلے خود کرنے پر زور دیتا ہے اور جوان خون کو یہ بہت پسند ہے۔اس کے ساتھ ساتھ شدید لوڈ شیڈنگ ،خراب ترین معاشی حالات اور نااہل قیادت کے بچگانہ اور ناپختہ فیصلوں کیوجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی ہر معاملے میں سبکی سے عوام تنگ آچکے ہیں۔عمران ان ایشوز پرحکومت کا سب سے بڑا ناقدہے اور اس بات نے اسے عوام میں مقبول بنا دیا ہے۔سب سے بڑی بات یہ کہ اس پر مالی کرپشن کے کوئی الزامات نہیں ہیں۔اس لیے اس نے بھی 1979 ء کے اصغر خان کی طرح سیاسی پنڈتوں کی محفلوں میں بھونچال پیدا کر دیا ہے۔اس بات پر اب کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ عمران خان کی مقبولیت سے بڑی سیاسی جماعتیں پریشان ہیں۔

خاص طور پر ن لیگ۔لیکن ذرا سی سیاسی و سماجی سوجھ بوجھ رکھنے والا آدمی بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ صرف ن لیگ یا دائیں بازو کی جماعتوں کا ووٹر عمران خان کا سپورٹر نہیں ہے بلکہ پیپلز پارٹی ،اے این پی اور مولانا فضل الرحمٰن کا ووٹربھی تبدیلی کا شدید خواہش مند ہے کیونکہ وہ ووٹر بھی تو ایک عام آدمی ہے۔اس نے بھی تو اسی طرح مہنگائی،لوڈ شیڈنگ اوربدامنی سے متاثر ہونا ہے اب پیپلز پارٹی یا اے این پی وغیرہ کوئی آسمانی جماعتیں تو ہیں نہیں کہ عوام عذاب کے خوف سے ان کی مخالفت نہ کریں۔ہاں اگر جماعتی تنظیم کی بات کی جائے تو عمران خان اس معاملے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔مو ثرتنظیم سازی نہ ہونے کا نقصان اسے دیہاتی علاقوں میں بہت شدید ہو گا۔بے شک شہری ووٹ اسے ملے گا اور کثرت سے ملے گا لیکن تنظیمی کمزوریو ںکی وجہ سے وہ دیہاتی ووٹر کوقابو نہیں کر پائے گا ۔عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان یورپ کی کوئی جدید ریاست نہیںکہ یہاں لوگ صبح اپنی گاڑی پر نکلیں راستے میں ووٹ ڈالتے ہوئے دفتروں کو چلے جائیں۔یہا ںتو الیکشن سے چھ ماہ قبل ہی ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔دیگیں پکانے والوں،ٹینٹ سروس والوں اورٹریکٹر ٹرالی والوں سے لیکر وال چاکنگ کرنے اوراشتہاری کمپنیوں تک کی بکنگ ہو جاتی ہے۔

یہاں ووٹر گھر سے خود نہیں نکلتا اسے زبردستی نکال کر لانا پڑتا ہے۔اس حد تک عمران خان کی مقبولیت کا اثر ہو سکتا ہے کہ نوجوان اور شہری ووٹر خود چل کر پولنگ سٹیشن پر آئے لیکن دیہاتی ووٹر جو ہمارے الیکشن ٹرن آؤٹ کا 70سے 80فی صد ہوتا ہے اسے ٹرالیوں اور ویگنوں میں بھر کر لانا پڑتا ہے۔ایسے میں عمران خان کو کم سے کم تحصیل لیول تک تنطیم سازی پر محنت کرناہوگی۔اسے تحصیل اور ضلع کی سطح پر مخلص اور کسی حد تک سماجی اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیات کو اپنے ساتھ ملانا ہو گا۔یہ بات نہیں کہ تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے اسے دیہاتی علاقوں سے بالکل ووٹ نہیں ملے گا لیکن وہ کامیابی نہیں ہوگی جو تبدیلی لا سکے۔اس کے علاوہ عمران خان کو ان فصلی بٹیروں سے بھی اب محتاط ہونا ہو گا جو کبھی ایک اور کبھی دوسری جماعت کے ٹکٹوں پر ہار چکے ہیں۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان ہارے ہوئے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ کیو ں دیتے ہیں۔ جنھیں عوام بار بار مسترد کر چکے ہیں وہ کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔میں یہ بات گذشتہ کچھ عرصے میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے امیداروںکے انتخاب کودیکھ کر کہہ رہا ہوں۔مثلاً تحریکِانصاف نے راولپنڈی سے جن صاحب کوضمنی الیکشن میں ٹکٹ دیا تھا ان کی شہر میں کیا شہرت ہے۔ان کی شہرت تو ایسی ہے کہ تحریک انصاف کا اپنا ووٹر بھی شاید ان کا نام سن کر ووٹ نہ دے۔یہ صاحب پہلے کبھی آزاد حیثیت میں اور کبھی شیخ رشیدکے ساتھ مل کر الیکشن ہار چکے ہیں۔ایک اور مثال ضلع اٹک سے ملک سہیل کی ہے۔ملک سہیل اور انکے والد ن لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے رہے ہیں۔پھر جب نوازلیگ اورملک سہیل کے مخالف کھنڈا گروپ کی قربت ہوئی تو انھوں نے نواز لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میںشمولیت اختیار کر لی۔اب ایسے سیاست دان عمران خان کے ایجنڈے سے متاثر ہو کر نہیں بلکہ ہواؤں کا رخ دیکھ کرتحریکِ انصاف میںشامل ہو رہے ہیں۔ ایسے میں عمران خان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہارے ہوئے اور مختلف پارٹیو ںسے نکلے ہوئے لوگ ان کی کامیابی کا ذریعہ بن سکتے ہیں توایسا سوچنا درست نہ ہوگا۔یہ بات مانی جاسکتی ہے کہ ان امیدواروں کے ذاتی ووٹ ہوتے ہیں اور تحریک انصاف کے ووٹ بھی اگر مل جائیں تو کامیابی ہو سکتی ہے لیکن اس سے تحریک انصاف پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان کی حمایت کھو بیٹھے گی اور اپنا نظریاتی ووٹربھی ضائع کر دے گا جو تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اس لیے عمران خان کو تنظیم سازی پر توجہ دینا ہو گی۔اسے بے شک با اثر امیدواروں کا انتخاب کرنا ہو گالیکن اس کے لیے ان امیدواروں کی اچھی شہرت اور عوام سے مخلص ہونا پہلی شرط ہونی چاہیے۔عمران خان تحصیل کی سطح تک نیک نام ریٹائرد پروفیسرز،ڈاکٹرز،سماجی کارکنوں،تعصب سے پاک علماء اور مخلص و قابل وکلاء کو اپنے ساتھ ملائے تو اس کے لیے زیادہ سود مند ہو گاایسے لوگوں کو تنظیم میں شامل کریں تاکہ گرم جوان خون رکھنے والے تبدیلی کے خواہش مندکارکنوں کو مخلص اور صاحبِ فہم مقامی قیادت مل سکے جو پُرجوش جوان کارکنوں کی مدد سے تبدیلی کا راستہ ہموار کر سکے۔کیونکہ کہیں ایسا نہ ہوکہ 1979ء کے اصغر خان کی طرح آج کا عمران خان بھی صرف کالموں اور تجزیوں میں حوالے تک رہ جائے۔
 
Last edited:

lotaa

Minister (2k+ posts)
Colum Likhnay walay ko bolo,likhnay se pehlay Tahqeeq kar liya karay,is mein aisya bohat saray naam aisya hain,jo kabhi Tehreek e istiqlal mein shamil hi nahi howay,jhoot bolnay ka kuch faida nahi howa aap ko,
اصغر خان سے عمران خان تک


malik-irfan-logo1.jpg



۔1965ء کی جنگ سے صرف چھ ہفتے پہلے ریٹائرڈ ہونے والے ائرمارشل اصغر خان پاکستان ائر فورس کے پہلے پاکستانی سربراہ تھے۔36سال کی عمر میں پاک فضائیہ کی قیادت سنبھالنے والے اصغر خان نے 1970-71ء کے حالات میں عملی سیاست کا آغازکیا۔وہ دَور پاکستان کا ایک مشکل ترین دور تھا۔بھٹو صاحب عوام کی امیدوں پر پورے نہ اتر سکے ۔اصغر خان نے بھٹو حکومت کے خلاف آواز اٹھائی اور پھر ان کی آواز پاکستان کی سب سے با اثر آواز بن گئی۔سیاسی پنڈتوں کی محفلوں میں ایک بھونچال آ گیا۔حالات آج جیسے خراب تو نہیں تھے کہ آج کے بدترین حالات تو ضرب المثل بن چکے ہیں لیکن بدعنوانی ،بد امنی اور آمرانہ طرزِ سیاست نے لوگوں کو تبدیلی کاخواہش مند بنا دیا تھا اسی لیے جب اصغر خان نے بھٹو کے خلاف آواز اٹھائی تو پورے ملک میں ان کا طوطی بولنے لگ پڑا۔ان کی مقبولیت اس وقت اپنی حدوں کو چھورہی تھی جب 1979ء میں جنرل ضیاء مرحوم نے انتخابات کا اعلان کیا۔ویسے بھی بھٹو صاحب کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد میدان خالی تھا۔اس لیے ائر مارشل اصغر خا ن کا نام ہر طرف گونج رہا تھا۔ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت سیاست کے تقریباً تمام بڑے نام ہوا کا رخ دیکھ کر ان کی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے اور لگتا تھا کہ اصغر خان کی پاکستان تحریک استقلال بہت بڑی کامیابی حاصل کرے گی۔ اس وقت تحریک استقلال میں شامل ہونیوالوں میں میا ںنواز شریف،اعتزازاحسن ،شیخ رشید،اکبر بگٹی،خورشید محمود ْقصوری،جاوید ہاشمی،مشاہد حسین سید،گوہر ایوب،علامہ احسان الٰہی ظہیر،علامہ عقیل ترابی،احمد رضا قصوری،منظور وٹو،عابدہ حسین ،فخر امام،ظفر علی شاہ اور شیر افگن نیازی جیسے بہت سے نام شامل تھے۔ اب آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ اس وقت ائر مارشل اصغر خان کی مقبولیت کا کیا عالم ہو گا۔لیکن پھرجنرل ضیاء نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے الیکشن ملتوی کر دے اور اس کے ساتھ ہی اصغر خان کا دوربھی ختم ہو گیا۔انھیں پانچ سال تک نظر بند رکھا گیا۔ان پانچ سالوں میںسیاسی افق نے اپنارنگ بدل لیا۔اصغر خان کے ساتھ شامل ہونے وا لے فصلی بٹیروں نے ہواؤ ںکا رخ پہچانتے ہوئے اپنے گھونسلے ان درختو ںپر جا بنائے جہا ںسے ایوانِ اقتدار میںجھانکنا ممکن تھا۔لیکن اصغر خان ضمیر کے قیدی اور اصولوں کے اسیر تھے۔انھیں اصولوں پر سودے بازی منظور نہ تھی اس لیے وہ آمر سے کوئی لین دین نہ کر سکے۔ اس لیے وہ اس کے بعد کبھی عملی سیاست میں نمایاں نہ ہو سکے۔انھو ںنے اس کے بعدکچھ سیاسی اتحادوں میں شمولیت اختیار کی لیکن بات نہ بن سکی اور اس طرح پاکستانی سیاست کے افق پر ایک مرتبہ شاھین بن کر اڑنے والا اصغر خان ایبٹ آباد کی پہاڑیوں میںاپنے نشیمن میں جاکر خاموش ہو گیا۔





آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو ایک طرف رکھ کر سوچیں تو حالات اُس وقت سے زیادہ خراب ہیں ۔آج مالی بدعنوانی اور اقرباء پروری اپنی حدوں کو چھو رہی ہے۔کوئی ادارہ ،کوئی کارپوریشن،کوئی محکمہ کرپشن اور بدعنوانی سے پاک نہیں ہے لوگ نہ صرف پیپلز پارٹی ،اے این پی ،مولانا فضل الرحمٰن اور ایم کیو ایم سے شدید نالاں ہیں بلکہ ن لیگ سے بھی انتہائی خفا۔ان تمام جماعتوں کی ہوسِ اقتدار اور خاص طور پر مرکزی حکومت کی مالی کرپشن اور انتہائی خراب طرزِ حکمرانی نے اس پورے نظام سے لوگوں کو متنفر کر دیا ہے۔تبدیلی کی خواہش شدید ترین ہے۔ایسے حالات میں عمران خان تبدیلی کی علامت بن کر ابھرا ہے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ وہ اس وقت کا مقبول عوامی لیڈر ہے۔نوجوان اسے بے حد پسندکر رہے ہیں ۔وہ بار بار خوداری،عزتِ نفس اور اپنے فیصلے خود کرنے پر زور دیتا ہے اور جوان خون کو یہ بہت پسند ہے۔اس کے ساتھ ساتھ شدید لوڈ شیڈنگ ،خراب ترین معاشی حالات اور نااہل قیادت کے بچگانہ اور ناپختہ فیصلوں کیوجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی ہر معاملے میں سبکی سے عوام تنگ آچکے ہیں۔عمران ان ایشوز پرحکومت کا سب سے بڑا ناقدہے اور اس بات نے اسے عوام میں مقبول بنا دیا ہے۔سب سے بڑی بات یہ کہ اس پر مالی کرپشن کے کوئی الزامات نہیں ہیں۔اس لیے اس نے بھی 1979 ء کے اصغر خان کی طرح سیاسی پنڈتوں کی محفلوں میں بھونچال پیدا کر دیا ہے۔اس بات پر اب کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ عمران خان کی مقبولیت سے بڑی سیاسی جماعتیں پریشان ہیں۔

خاص طور پر ن لیگ۔لیکن ذرا سی سیاسی و سماجی سوجھ بوجھ رکھنے والا آدمی بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ صرف ن لیگ یا دائیں بازو کی جماعتوں کا ووٹر عمران خان کا سپورٹر نہیں ہے بلکہ پیپلز پارٹی ،اے این پی اور مولانا فضل الرحمٰن کا ووٹربھی تبدیلی کا شدید خواہش مند ہے کیونکہ وہ ووٹر بھی تو ایک عام آدمی ہے۔اس نے بھی تو اسی طرح مہنگائی،لوڈ شیڈنگ اوربدامنی سے متاثر ہونا ہے اب پیپلز پارٹی یا اے این پی وغیرہ کوئی آسمانی جماعتیں تو ہیں نہیں کہ عوام عذاب کے خوف سے ان کی مخالفت نہ کریں۔ہاں اگر جماعتی تنظیم کی بات کی جائے تو عمران خان اس معاملے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔مو ثرتنظیم سازی نہ ہونے کا نقصان اسے دیہاتی علاقوں میں بہت شدید ہو گا۔بے شک شہری ووٹ اسے ملے گا اور کثرت سے ملے گا لیکن تنظیمی کمزوریو ںکی وجہ سے وہ دیہاتی ووٹر کوقابو نہیں کر پائے گا ۔عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان یورپ کی کوئی جدید ریاست نہیںکہ یہاں لوگ صبح اپنی گاڑی پر نکلیں راستے میں ووٹ ڈالتے ہوئے دفتروں کو چلے جائیں۔یہا ںتو الیکشن سے چھ ماہ قبل ہی ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔دیگیں پکانے والوں،ٹینٹ سروس والوں اورٹریکٹر ٹرالی والوں سے لیکر وال چاکنگ کرنے اوراشتہاری کمپنیوں تک کی بکنگ ہو جاتی ہے۔

یہاں ووٹر گھر سے خود نہیں نکلتا اسے زبردستی نکال کر لانا پڑتا ہے۔اس حد تک عمران خان کی مقبولیت کا اثر ہو سکتا ہے کہ نوجوان اور شہری ووٹر خود چل کر پولنگ سٹیشن پر آئے لیکن دیہاتی ووٹر جو ہمارے الیکشن ٹرن آؤٹ کا 70سے 80فی صد ہوتا ہے اسے ٹرالیوں اور ویگنوں میں بھر کر لانا پڑتا ہے۔ایسے میں عمران خان کو کم سے کم تحصیل لیول تک تنطیم سازی پر محنت کرناہوگی۔اسے تحصیل اور ضلع کی سطح پر مخلص اور کسی حد تک سماجی اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیات کو اپنے ساتھ ملانا ہو گا۔یہ بات نہیں کہ تنظیم نہ ہونے کی وجہ سے اسے دیہاتی علاقوں سے بالکل ووٹ نہیں ملے گا لیکن وہ کامیابی نہیں ہوگی جو تبدیلی لا سکے۔اس کے علاوہ عمران خان کو ان فصلی بٹیروں سے بھی اب محتاط ہونا ہو گا جو کبھی ایک اور کبھی دوسری جماعت کے ٹکٹوں پر ہار چکے ہیں۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان ہارے ہوئے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ کیو ں دیتے ہیں۔ جنھیں عوام بار بار مسترد کر چکے ہیں وہ کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔میں یہ بات گذشتہ کچھ عرصے میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے امیداروںکے انتخاب کودیکھ کر کہہ رہا ہوں۔مثلاً تحریکِانصاف نے راولپنڈی سے جن صاحب کوضمنی الیکشن میں ٹکٹ دیا تھا ان کی شہر میں کیا شہرت ہے۔ان کی شہرت تو ایسی ہے کہ تحریک انصاف کا اپنا ووٹر بھی شاید ان کا نام سن کر ووٹ نہ دے۔یہ صاحب پہلے کبھی آزاد حیثیت میں اور کبھی شیخ رشیدکے ساتھ مل کر الیکشن ہار چکے ہیں۔ایک اور مثال ضلع اٹک سے ملک سہیل کی ہے۔ملک سہیل اور انکے والد ن لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے رہے ہیں۔پھر جب نوازلیگ اورملک سہیل کے مخالف کھنڈا گروپ کی قربت ہوئی تو انھوں نے نواز لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میںشمولیت اختیار کر لی۔اب ایسے سیاست دان عمران خان کے ایجنڈے سے متاثر ہو کر نہیں بلکہ ہواؤں کا رخ دیکھ کرتحریکِ انصاف میںشامل ہو رہے ہیں۔ ایسے میں عمران خان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہارے ہوئے اور مختلف پارٹیو ںسے نکلے ہوئے لوگ ان کی کامیابی کا ذریعہ بن سکتے ہیں توایسا سوچنا درست نہ ہوگا۔یہ بات مانی جاسکتی ہے کہ ان امیدواروں کے ذاتی ووٹ ہوتے ہیں اور تحریک انصاف کے ووٹ بھی اگر مل جائیں تو کامیابی ہو سکتی ہے لیکن اس سے تحریک انصاف پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان کی حمایت کھو بیٹھے گی اور اپنا نظریاتی ووٹربھی ضائع کر دے گا جو تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اس لیے عمران خان کو تنظیم سازی پر توجہ دینا ہو گی۔اسے بے شک با اثر امیدواروں کا انتخاب کرنا ہو گالیکن اس کے لیے ان امیدواروں کی اچھی شہرت اور عوام سے مخلص ہونا پہلی شرط ہونی چاہیے۔عمران خان تحصیل کی سطح تک نیک نام ریٹائرد پروفیسرز،ڈاکٹرز،سماجی کارکنوں،تعصب سے پاک علماء اور مخلص و قابل وکلاء کو اپنے ساتھ ملائے تو اس کے لیے زیادہ سود مند ہو گاایسے لوگوں کو تنظیم میں شامل کریں تاکہ گرم جوان خون رکھنے والے تبدیلی کے خواہش مندکارکنوں کو مخلص اور صاحبِ فہم مقامی قیادت مل سکے جو پُرجوش جوان کارکنوں کی مدد سے تبدیلی کا راستہ ہموار کر سکے۔کیونکہ کہیں ایسا نہ ہوکہ 1979ء کے اصغر خان کی طرح آج کا عمران خان بھی صرف کالموں اور تجزیوں میں حوالے تک رہ جائے۔





 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
Colum Likhnay walay ko bolo,likhnay se pehlay Tahqeeq kar liya karay,is mein aisya bohat saray naam aisya hain,jo kabhi Tehreek e istiqlal mein shamil hi nahi howay,jhoot bolnay ka kuch faida nahi howa aap ko,

All those names in the article and many more are there in Wikipedia!
 

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
imram khan always remember please;;;;;;; dusman ka dushman dost hota hai aur dushman ka dost dushman hota hai apni tarjeehat maen thori si tabdeeli paida karo ALLAH kamyab karaga