اصحاب کہف اور آج کے مسلم نوجوان

ابابیل

Senator (1k+ posts)
اصحاب کہف اور آج کے مسلم نوجوان
دور حاضر میں اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان معرکہ بپا ہے، اس میں ایمان پر جمے رہنے اور مغربی تہذیب کے خلاف معرکے میں صبر و استقامت کا مظاہرا کرنے کے لئے ہمیں سورۃ کہف سے بہت رہنمائی ملتی ہے۔

اس سورۃ کی فضیلت اس وجہ سے بھی ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
جس نے سورۃ کہف پڑھی اس طرح پڑھی کہ جس طرح وہ نازل ہوئی اس کے بعد دجال ظاہر ہوا تو وہ اُس پر قابو نہ پا سکے گا یا اس کو قابو میں لانے کا کوئی راستہ اس کو نہ ملے گا۔ جس طرح دجال جیسے شدید فتنے سے بچاؤ اس سورۃ کی تلاوت میں پوشیدہ ہے تو آج کی اس مادی مغربی تہذیب سے بچاؤ کے لئے بھی اس سورۃ سے رہنمائی ملتی ہے کیوں کہ آج کے دور کے فتنوں ، تحریکوں، دعوتوں، فلسفوں اور فکری رجحانات کا دجال سے تعلق ظاہر ہے۔
دجال کی شخصیت کو اس کا نام ہی ظاہر کرتا ہے، دجل یعنی جھوٹ، فریب، ملمع سازی، اور فریب کاری کہ جن سے دجال کام لے گا، وہی آج کی مغربی تہذیب اور اس کے پرستاروں میں بھی نظر آتی ہے چاہے وہ پرستار نام نہاد مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔ اس سورۃ کے مطالعے سے اور اس کے فہم سے آج کے نوجوانوں کو بھی نہ صرف فتنوں سے آگاہی ملتی ہے بلکہ ان کے خلاف ڈت جانے کا حوصلہ ، اور ایک نہ ایک دن ان کے ختم ہو جانے کا یقین بھی پیدا ہوتا ہے۔
سورۃ کہف میں سب سے پہلے اصحاب کہف کا ذکر ملتا ہے کہ جن کے دور میں شرک ایک دین بن چکا تھا، تو چند نوجوانوں نے توحید کی صدا لگائی۔ ان کی یہ صدا اُس سوسائٹی میں اور اس کے مروجہ آئین اور قانون کے خلاف ایک بغاوت سمجھی گئی۔ اس معاشرے اور حکومت کی رضامندی کے بغیر زندگی گزارنا آسان کام نہ تھا۔ اسباب کا فلسفہ، تہذیب و معاشرہ، اور زندگی کے حقائق سبھی انہیں سمجھا رہے تھے کہ وہ حکومت اور معاشرے کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور اس شرکیہ حکومت کی رٹ کو تسلیم کر لیں، اس لئے کہ کھانے کے بغیر پیٹ نہیں بھرتا اور کھانا حکومت کے جاری کردا کرنسی سے ملتا ہے۔ عزت اور نیک نامی صرف جاہ سے ملتی ہے اور جاہ سرکاری نوکری اور افسری کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔ عافیت ، سکون اور سلامتی صرف معاشرے کے مروجہ طریقہ کار پر چلنے اور سوسائٹی کی موافقت و حمایت میں ہے اور یہ موافقت رائج الوقت عقیدہ کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ وہ مادی منطق اور فلسفہ ہے جو انسانی تجربہ و مشاہد پر مبنی ہے۔

عین ہی اسی طرح کی صورت حال ہمیں آج بھی نظر آتی ہے کہ جب اس مغربی تہذیب ، اس کے شرکیہ نظام اور اس کی معاشرتی گندگیوں کے خلاف علم بغاوت بلند ہوا تو یہی دلائل ، تجربات و مشاہدات آج کے ان باغی نوجوانوں کے سامنے بھی رکھے گئے، انہیں ان کے عزیزوں اور دوستوں نے سمجھایا، آج کے اس رائج الوقت شرکیہ نظام سے بغاوت کا نقصان سمجھایا، مستقبل کی ایک بھیانک تصویر کشی کی اور جب یہ نوجوان پھر بھی اللہ کی مدد کے بھروسے پہ ڈٹے رہے تو آج کی ان حکومتوں نے ان کو دبانے ، کمزور کرنے اور حوصلہ پست کرنے کےلئے دجل یعنی جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی سے کام لیا۔
وہ نوجوان جو اس دنیا سے شرک کا عالمی نظام ختم کرنا چاہتے ہیں وہ کمزور اور مظلوم قوموں کو اس استعماریت سے نجات دلانا چاہتے ہیں اور دنیا کے وسائل کی منصفانہ تقسیم چاہتے ہیں۔ جبکہ لوٹ کھسوٹ کا یہ عالمی نظام ،کہ جو بینکاری اور اسٹاک ایکسچینج کے اعداد و شمار میں الجھا کر تمام وسائل سمیٹ رہا ہے اور جمہوریت کے نام پر افراد کو خالقِ کائنات اللہ سبحان وتعالیٰ کی غلامی سے نکال کر انسانوں کی ناقص اور نامکمل عقلوں، مشاہدوں اور تجربوں کی نظر کر رہا ہے۔ اس عالمی نظام کے خاتمے کے لئے نکلنے والے دہشت گرد ، انتہا پسند اور بنیاد پرست ٹھہرے اور دنیا میں انسانوں کو غلام بنا کر ان کی تجارت کو باقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دینے والے، دوسرے خطوں کے وسائل کو زبردستی یا دھوکہ دہی اور فریب سے لوٹنے والے اور ان ہی استعماری طاقتوں کے غلام نام نہاد مسلم حکمران کہ جو اپنی مسلمان عوام کو ان کافروں اور ظالموں کی غلامی میں دینے اور اس ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والوں کو پوری طاقت اور وحشت سے کچلنے میں اپنے آقاؤں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے، سب مہذب، متمدن اور معاشرے کے صالح ترین افراد ٹھہرے۔
بھلا اس سے بھی بڑا دھوکہ ، فریب اور دجل کبھی تاریخ میں ہوا ہو گا؟
سورۃ کہف جس وقت نازل ہوئی تھی اس وقت مکہ کے مسلمان بھی معاشرے کے اندر اجنبیت اور آزمائشوں کا شکار تھے، بلآکر نجات کی صورت پردہ غیب سے ظاہر ہوئی اور یثرب (مدینہ ) کی صورت میں ایک محفوظ قلعہ و غار ان کو ملی ، جہاں سے انہوں نے نہ صرف عرب بلکہ وقت کی بڑی طاقتوں روم و فارس کو بھی السام کے سامنے جھکایا۔ بھلا اس سے بھی بڑا معجزہ تاریخ کے افق پہ ہوا ہو گا کہ وہ عرب مسلمان کہ جو مکہ میں اجنبیت اور ظلم و تشدد کا شکار تھے چند سالوں بعد روم و فارس جیسی طاقتوں سے نبرد آزما ہوئے اور ان کو شکست دے کر فاتح عالم ٹھہرے۔
اصحاب کہف جب اپنے موقف پہ ڈٹ گئے تو وہاں کی زمین ان کے لئے تنگ ہو گئی اور ظاہری مادی سہولیات سے بھرپور، پرسکون دنیاوی زندگی لیکن آخرت کی بربادی و رسوائی ایک طرف ان کی منتظر تھی اور دوسری طرف مشکلات و مصائب، اجنبیت و بیچارگی کی عارضی زندگی لیکن آخرت کی پرسکون اور ہمیشہ رہنے والی زندگی تھی۔ بلاشبہ اصحاب کہف نے عقلمندی کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کے بعد انہوں نے اپنا شہر چھوڑ کر، تمدن کے تمام رنگینیوں اور شہر کی تمام دلچسپیوں سے منہ موڑ کر اور اسباب معیشت سے دست کش ہو کر نکل کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے اپنا محبوب اور باعزت گھرانہ چھوڑنا قبول کر لیا لیکن حق سے منہ موڑنا اور اس سے پیچھے ہٹنا قبول نہ کیا۔
بلاشبہ اصحاب کہف کے اس قرآنی قصے میں آج کے نوجوانوں کے لئے ایک بہت بڑا سبق پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ جب انسان اللہ کے پیغام کا داعی بن کر ، اسباب پر بھروسہ چھوڑ کے اللہ کی رحمت کی امید میں صبر کا دامن تھامے رکھتا ہے تو کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
آج بھی آپ کے سامنے ایسے نوجوان موجود ہیں کہ جنہوں نے اپنے وطن، اہل و عیال، دوست احباب اور ہر لذت و اقتدار سے دوری اختیار کی لیکن انہوں نے اس جدید شرکیہ جمہوری نظام کے تلے رہنا ایک لمحہ کے لئے بھی گوارا نہ کیا ۔ انہوں نے نفس کے تقاضے سے زیادہ روح کے تقاضہ اور عقل کے مطالبے سے زیادہ ایمان کے مطالبے پر توجہ دی اور جسم و جان سے اپنے آپ کو آج کے اس معرکہ حق و باطل میں کھپا دیا۔
بلاشبہ یہی اصحاب کہف کا راستہ ہے اور اصحاب کہف کی طرح ایمان، یقین، معرفت اور ذکر و دعا کی دولت سے، اسباب و وسائل کی حامل اس جدید دجالی تہذیب کو شکست دینے کے لئے نوجوان میدان عمل میں اترے۔
اصحاب کہف کی طرح آج کے یہ نوجوان بھی مسبب الاسباب ، اس کائنات کے خالف و مالک اللہ سبحان وتعالیٰ کی مدد کی امید پر ، اس کی نازل کردہ شریعت کو تمام نظاموں پر غالب کرنے کے لئے ہجرت کی راہوں میں اجنبیت کا شکار ہیں اور اس دین اسلام کے امتیازی وصف یعنی جہاد کو تھامے ہوئے ہیں، اور بلاشبہ اگر آج کے ان مجاہدین نے صبر و اسقامت سے یہ معرکہ لڑنا جاری رکھا تو اصحاب کہف کی طرح اور جن پر یہ سورۃ کہف نازل ہوئی یعنی ، نبی اکرمﷺ اور ان کے اصحاب کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی طرح ، فتح ان کا مقدر ہو گی اور اس جدید دجل و فریب پر مبنی شرکیہ نظام کی جگہ اللہ کی شریعت کا غلبہ ہو کر رہے گا۔ انشاءاللہ۔

 
Last edited by a moderator:

Resonant

MPA (400+ posts)
بالکل برعکس نتائج نکالے ہیں آپ نے سورہ کہف کے حوالے سے۔۔۔۔۔
حدیثِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ سورہ کہف میں دجال سے بچاؤ کا سامان موجود ہے۔
چنانچہ جب ہم سورہ کہف میں بیان کئے گئے تینوں واقعات پر غور کریں تو ان سے جو سبق ملتا ہے اسکی روشنی میں دجال کے فتنے سے بچا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
سب سے پہلے اصحاب کہف کا ذکر ملتا ہے کہ جن کے دور میں شرک ایک دین بن چکا تھا، تو چند نوجوانوں نے توحید کی صدا لگائی۔ ان کی یہ صدا اُس سوسائٹی میں اور اس کے مروجہ آئین اور قانون کے خلاف ایک بغاوت سمجھی گئی۔

عین ہی اسی طرح کی صورت حال ہمیں آج بھی نظر آتی ہے کہ جب اس مغربی تہذیب ، اس کے شرکیہ نظام اور اس کی معاشرتی گندگیوں کے خلاف علم بغاوت بلند ہوا تو یہی دلائل ، تجربات و مشاہدات آج کے ان باغی نوجوانوں کے سامنے بھی رکھے گئے، انہیں ان کے عزیزوں اور دوستوں نے سمجھایا، آج کے اس رائج الوقت شرکیہ نظام سے بغاوت کا نقصان سمجھایا، مستقبل کی ایک بھیانک تصویر کشی کی اور جب یہ نوجوان پھر بھی اللہ کی مدد کے بھروسے پہ ڈٹے رہے تو آج کی ان حکومتوں نے ان کو دبانے ، کمزور کرنے اور حوصلہ
پست کرنے کےلئے دجل یعنی جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی سے کام لیا

ہر حکم کو توڑ مڑوڑ کر اپنے حق مءں موڑنا

واہ واہ واہ واہ


ابھی کحچھ لوگ عش عش کر اٹھیں گے۔ اور یہ عش عش لایک کی صورت میں ظاہر ہو گا
 

ابابیل

Senator (1k+ posts)
بالکل برعکس نتائج نکالے ہیں آپ نے سورہ کہف کے حوالے سے۔۔۔۔۔
حدیثِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ سورہ کہف میں دجال سے بچاؤ کا سامان موجود ہے۔
چنانچہ جب ہم سورہ کہف میں بیان کئے گئے تینوں واقعات پر غور کریں تو ان سے جو سبق ملتا ہے اسکی روشنی میں دجال کے فتنے سے بچا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔

سورۂ کہف کی اہمیت احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اور جمعہ کے دن اس کا پڑھنا انتہائی اجر کا باعث ہے۔ احادیث میں اس طرف بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ جو اس سورہ کی ابتدائی ۱۰ آیات کو پڑھے گا وہ دجّال کے اثرات سے محفوظ رہے گا۔ ایسے ہی بعض آیات میں اس کی آخری ۱۰ آیات کے بارے میں اور بعض میں محض ۱۰ آیات کے حوالے سے اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اس سورہ کی برکات میں دجّال سے محفوظ رکھنے کی خاصیت تو پائی جاتی ہے لیکن اس سے زیادہ دجّال کے آنے سے قبل عام حالات میں اس کی اہمیت غیرمعمولی ہے
 

Resonant

MPA (400+ posts)
اس سورہ کی برکات میں دجّال سے محفوظ رکھنے کی خاصیت تو پائی جاتی ہے لیکن اس سے زیادہ دجّال کے آنے سے قبل عام حالات میں اس کی اہمیت غیرمعمولی ہے

کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ اس سورت میں بیان کئے گئے واقعات یعنی اصحابِ کہف کا واقعہ، موسیٰ و خضر کا واقعہ اور ذوالقرنین کا واقعہ، ان سے دجال کی آمد سے پہلے کے زمانے کے لئے کیا سبق حاصل ہوتے ہیں؟۔ ۔۔۔پوچھ اس لئے رہا ہوں کہ آپ نے اپنی پہلی پوسٹ میں جو نتائج اخذ کئے ہیں ان کا سورہ کہف سے کیا تعلق بنتا ہے،؟

 

ابابیل

Senator (1k+ posts)


کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ اس سورت میں بیان کئے گئے واقعات یعنی اصحابِ کہف کا واقعہ،


اصحابِ کہف کے واقعے سے آج کے حوالے سے جو پیغام ملتا ہے وہ ماحول کی آلودگی اور ظلم و طاغوت کی کثرت کو دیکھتے ہوئے دل چھوڑ کر کہیں گوشہ نشین ہوجانا نہیں ہے، بلکہ پوری استقامت اور صبر کے ساتھ مالکِ حقیقی کی طرف رجوع کرتے ہوئے کلمۂ حق ادا کرنا ہے۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی ہے کہ کیا واقعی ہمارے یہ اندازے کہ پانی سر سے اُوپر گزر چکا، اب اصلاح کی کوئی اُمید نہیں کی جاسکتی، اس لیے زمین کا پیٹ یا کسی غار کے مکین بن جانے میں نجات ہے درست کہے جاسکتے ہیں، یا اللہ کی مدد سے جس کے بارے بڑے صالح افراد یہ پکار اُٹھے تھے کہ متٰی نصراللّٰہ، ہم مایوس ہوکر ظلم و طاغوت کو من مانی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیں، اور اصلاح کی قوتیں اپنے آپ کو ذاتی تحفظ کے نظریے کی روشنی میں میدانِ عمل سے نکال کر گوشہ نشینی اختیار کرلیں۔
یہ مکّی سورہ یہ پیغام دیتی ہے کہ مکہ میں ہونے والے وہ تمام مظالم اور آزمایشیں جن سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ رسولؐ گزر رہے تھے، ان تمام آزمایشوں نے نہ انھیں دل برداشتہ کیا نہ وہ تنہائی کی طرف راغب ہوئے بلکہ اس امتحان نے دین کی دعوت دینے اور اس کے لیے اذیت برداشت کرنے کی لذت میں کچھ اضافہ ہی کر دیا۔
 

ابابیل

Senator (1k+ posts)
موسیٰ و خضر کا واقعہ اور ذوالقرنین کا واقعہ، ان سے دجال کی آمد سے پہلے کے زمانے کے لئے کیا سبق حاصل ہوتے ہیں؟
آگے چل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت خضر علیہ السلام کے واقعے کا تفصیلی تجزیہ ہے جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کے انبیا بھی تعلیمی سفر سے گزرتے رہے ہیں اور بعض اوقات بے صبری کا مظاہرہ بھی کربیٹھتے ہیں۔ ایک عظیم رسول اور قائد کو جس طرح حضرت خضر ؑ نے اسرار سے آگاہ کیا اور جس تجسس و تحقیق کے جذبے کا اظہار حضرت موسٰی ؑ کے طرزِعمل کے سامنے آتا ہے اس میں اہلِ علم کے لیے بہت سے سبق ہیں۔ پھر ذوالقرنین کے واقعے کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ ایک ایسا فرماں روا جس کی مملکت مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پھیلی ہوئی ہو اور اس کی فتوحات کے سامنے کسی کی مزاحمت کامیاب نہ ہوسکے، اس کا طرزِعمل فخروامتیاز کا ہو یا حلم و خاکساری کا، وہ خادم ہو یا بادشاہ بن کر بیٹھ جائے۔ اگر اس کے پاس دولت کی کثرت ہو تو کیا وہ اسے سینت سینت کر رکھے یا اسے اللہ کی راہ میں اللہ کے بندوں کی حاجتیں پوری کرنے میں لگا دے۔
 

Resonant

MPA (400+ posts)

اصحابِ کہف کے واقعے سے آج کے حوالے سے جو پیغام ملتا ہے وہ ماحول کی آلودگی اور ظلم و طاغوت کی کثرت کو دیکھتے ہوئے دل چھوڑ کر کہیں گوشہ نشین ہوجانا نہیں ہے، بلکہ پوری استقامت اور صبر کے ساتھ مالکِ حقیقی کی طرف رجوع کرتے ہوئے کلمۂ حق ادا کرنا ہے۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی ہے کہ کیا واقعی ہمارے یہ اندازے کہ پانی سر سے اُوپر گزر چکا، اب اصلاح کی کوئی اُمید نہیں کی جاسکتی، اس لیے زمین کا پیٹ یا کسی غار کے مکین بن جانے میں نجات ہے درست کہے جاسکتے ہیں، یا اللہ کی مدد سے جس کے بارے بڑے صالح افراد یہ پکار اُٹھے تھے کہ متٰی نصراللّٰہ، ہم مایوس ہوکر ظلم و طاغوت کو من مانی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیں، اور اصلاح کی قوتیں اپنے آپ کو ذاتی تحفظ کے نظریے کی روشنی میں میدانِ عمل سے نکال کر گوشہ نشینی اختیار کرلیں۔
یہ مکّی سورہ یہ پیغام دیتی ہے کہ مکہ میں ہونے والے وہ تمام مظالم اور آزمایشیں جن سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ رسولؐ گزر رہے تھے، ان تمام آزمایشوں نے نہ انھیں دل برداشتہ کیا نہ وہ تنہائی کی طرف راغب ہوئے بلکہ اس امتحان نے دین کی دعوت دینے اور اس کے لیے اذیت برداشت کرنے کی لذت میں کچھ اضافہ ہی کر دیا۔

جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔۔۔واقعہ کچھ اور سبق دے رہا ہے، اور آپ اس میں سے کچھ اور برآمد کر رہے ہیں۔۔۔ اصحابِ کہف کے سامنے فتنہ و فساد اور جنگ و جدل کے حالات میں دو آپشنز تھیں۔۔۔ایک یہ کہ وہ جنگ و جدل کا مقابلہ کریں ، اور اسکو ختم کردیں۔۔۔دوسری آپشن یہ تھی کہ اگر وہ مقابلہ کرکے اس ظلم و ستم، فتنہ فساد کو ختم نہیں کرسکتے تو اس سے کنارہ کش ہوجائیں۔۔۔چنانچہ انہوں نے دوسری آپشن استعمال کی۔۔۔۔سورہ کہف نے تو ہمیں یہ سبق دیا ہے اور فتنہ آخر الزمان کے بارے میں جو احادیث ہیں ان میں بھی اسی طرزِ عمل کی حمایت کی گئی ہے جس طرح اصحابِ کہف نے کیا ۔۔ کہ اس فتنے میں تیز چلنے والا آہستہ چلنے لگے، آہستہ چلنے والا رک جائے، کھڑا ہوا شخص بیٹھ جائے ۔۔۔مطلب یہ کہ جب آپکی ہر ایکٹیویٹی اس فتن کو ختم کرنے کی بجائے اس میں اضافہ ہی کرتی نظر آئے تو امن کرجاؤ، چپ کرکے نیویں نیویں ہوکر بیٹھ جاؤ۔۔۔ موسیٰ کی طرح خضر سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرو، اللہ کی مشئیت کو سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔۔دین کے باطنی پہلو کی طرف زیادہ متوجہ ہوجاؤ۔۔۔اور ذوالقرنین کی طرح ڈیفنس مضبوط کرو اپنے آپ کو مضبوط کرو ۔۔۔کچھ نہیں ہوگا دین کو۔۔۔اللہ کے دین کو کچھ نہیں ہوگا، ۔۔۔لیکن آپ جناب اسکے الٹ نتائج نکال رہے ہیں کہ چونکہ اصحابِ کہف غار میں جاکر کنارہ کش ہوکر سو گئے چنانچہ ثابت ہوا کہ آجکل کے مسلمانوں کو اور شدت کے ساتھ نام نہاد باطل کے خلاف جنگ و جدل کرنی چاہئیے۔۔۔۔عجیب منطق ہے۔۔۔۔
اب ذرا باقی دو واقعات سے بھی کوئی سٹریٹجی نکال کر دکھائیں۔۔۔۔
 
Last edited:

Back
Top