اسے عزیز تھی آوارگی میں تنہائي

gracehanil

Voter (50+ posts)
تو کیا جانے درد جدائي کیا ہوتا ہے


حسن مجتیٰ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیویارک


110616101141_hassan-dars.jpg



شراب، گھوڑا، عورت، سمندر حسن درس کی شاعری اور زندگی کے استعارے تھے۔


حسن درس مر گیا مجھے لگا ایک بار پھر سندھ اپنی جوانی میں مر گیا۔ ابھی اسے اور وقت نے ثابت کرنا تھا کہ وہ پچـھلی صدی کا سب سے بڑا سندھی شاعر تھا۔
لیکن وہ ہمعصر سندھی شاعری میں اپنے آخری لمحوں تک سب سے بڑا شاعر تھا۔ سندھ کی خوبصورتی اور شاعری کو نظر کھا گئي۔ یہ میرا آوارہ گرد اور کبھی میری آوارہ گردیوں میں ساتھی میرا دوست میرا ہمدم مر گیا۔
اسے عزیز تھی آوارگی میں تنہائي
نہ جانے آج کہاں کس نگر گیا لوگو۔
یہ سندھ کا کیمٹیڈ عاشق، شاعر اور آوارہ گرد چاند گرہن والی رات کے پچھلے پہر اپنے گھر کے راستے پر مرگیا۔ "تیز جیئو، جوانی میں مر جائو تاکہ تمہاری لاش خوبصورت لگے" اس چلتی پھرتی انجمن قاتلان شب کو رات نے قتل کردیا۔ یہ کہ جسپر پوری سندہ اور پورے ملک کا دعوا ہے اسپر میرا بھی دعوی ہے کہ وہ میرا بہت ہی قریبی دوست تھا۔ میرا جان جگر تھا۔ اس خوبصورت راتوں کے راہی کو اجل کے گھڑ سوار لے گۓ۔
یہ سرمد بھی تھا ابھیچند بھی تھا۔ میں اسے حافظ کا ترک شیرازی کہتا وہ بڑا ہنستا تھا۔ حافظ شیرازی نے تو اپنے ترک شیرازی کے رخسار کے تل پر فقط سمرقند و بخارا قربان کر دینے کی خواہش کی تھی لیکن حسن درس اور اس کی شاعری پر سندھ قربان تھا میں ایک کیا تھا۔
اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں میری رسوا
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں۔
میں نے انیس سو اسی کے وسط میں اس کا ذکر سنا تھا کہ وہ سندھی میں سب سے بڑا نیا شاعر ہے جس کی شاعری نے دھوم مچائی ہوئي ہے۔ اسے میں نے پہلی بار اپنے ایک دوست کے ساتھ حیدرآباد کی گول بلڈنگ کے سامنے بنے ہوئے کوٹری سوزوکی اسٹاپ پر دیکھا تھا۔ وہ ایک کھلنڈرا نوجوان تھا اور یہ دونوں بہت جلدی میں تھے۔
میرے دوست نے اپنے کاندھے پر سفری تھیلا لٹکائے ہوئے اس لڑکے کا تعارف کراتے ہوئے صرف اتنا کہا ہی تھا یہ یہ حسن درس ہے۔ ان کی گاڑی آ گئي اور وہ عجلت میں اس پر چـڑھ کر چلے گۓ۔
آتے جاتے خوبصوررت آوارہ سڑکوں پر
کتنے انجان لوگ مل جاتے ہیں
ان میں سے کچھ اکثر بھول جاتے ہیں
کچھ یاد رہ جاتے ہیں"
کشور کمار کے گانے کے ان بولوں کی طرح حسن درس بس یاد رہ جانے والے لوگوں میں سے تھا۔ ایسے حسین آوارہ گرد جو آپ کے دل اور نظر میں ہمیشہ گھر کیے رہتے ہیں۔ حسن درس مجھے پھر ایک طویل عرصے تک کبھی نہیں ملا۔ کاش وہ کبھی نہیں ملتا تو اس کی جدائی کا درد اتنا شاید ہی محسوس ہوتا جو اب ہے۔
تو کیا جانے درد جدائی کیا ہوتا ہے۔
پھر وہ میری اور میرے ساتھ میرے جز وقتی آوارہ گرد دوست ذوالفقار شاہ کے ہمراہ حیدراباد گاڑی کھاتے کی حیدر چوک کی راتوں میں دو دفعہ ملا اور دور سے ہی سلام کر کے سامنے والی گلی میں گم ہوگیا جہاں کبھی سارے پری زاد رہتے تھے۔ کلو پکوڑائي والی گلی، سندھ کی تاریخ بناتی گلی تھی۔
تب تک نہ میں نے حسن درس کی شاعری سنی یا پڑھی تھی اور نہ ہی اس سے کبھی ٹکا کر ملاقات ہوئی تھی۔ ایک تشنگی تھی جو رہ گئی ہوئی تھی۔ تب تک جب اپنی طویل خاموشی، جسے میں تاریخ میں ان کی ویکیشن کہتا تھا، برصغیر کے عظیم شاعر شیخ ایاز اپنا چپ شاہ کا روزہ چھوڑ کر دسمبر انیس سو ستاسی میں حیدرآباد پریس کلب میں سندھی ادبی سنگت کی طرف سے ہونے والے ایک یادگار فنکشن میں مہمان خاص تھے جہاں حسن درس نے اپنی معرکتہ آلارا سندھی نظم ننگے سرمد کے حضور سنائي تھی کہ میں تیرا وہی ابھیچند ہوں۔ میں نے تب ہی سوچا تھا اگر آج کے دور میں سرمد اور ابھیچند ہوتے تو وہ بلکل حسن درس کی طرح ہوتے۔
اس کے بعد یہ سارے سندھ کا ابیھچند میرے دو دوستوں سید منیر شاہ اور لیاقت رضوی کے مجھ سے پھر سے تعارف کرائے جانے کے بعد وہ دن آج کا دن میرے ساتھ ساتھ رہا۔ ہم نے جیون بھر کتنے جام لنڈھائے تھے لیکن تشنگی پھر بھی رہ گئي۔
وہ نہایت ہی چھوٹی عمر میں ایک عجبیب فسوں کار تھا بلکل یورپ میں ان خوبصورت روما جپسی بچوں کی طرح جو آّپ کو ایک ہوم سکنس (گھر کی یاد) میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ پتہ تب پڑتا ہے کہ وہ بچے یہ جا وہ جا لیکن آپ کا بٹوہ غائب۔
حسن درس کسی کا بٹوہ تو کیا غائب کرتا مگر اپنی ادا اور شاعری سے دل لوٹ کر لے جاتا اور کبھی واپس نہیں کرتا۔ اگر آپ حسن درس کے دوست ہیں، مرد ہیں یا خاتون جانتے ہوں گے اس ہرجائي کو۔
مجھے لیاری کراچي میں ایک شخص ایسا ملا جس نے کہا کہ حسن درس نے اس کے پاس صرف کچھ راتیں گزاریں تھیں اور چائے طلب کی تھی۔ اس کے بعد وہ برسوں تک ہر رات چائے کی کیتلی گرم کر کر دروازہ کھلا رکھتا کہ نہ جانے کس شب حسن درس آ نکلے ۔ لیکن حسن درس کبھی نہیں آیا۔ مجھے نہیں معلوم حسن درس کب چائے پیا کرتا تھا۔ مجھے تو یہ معلوم ہے کہ وہ چائے کافی تو ناشتے میں بھی نہیں پیتا تھا۔
وہ محمد حنیف، مصدق سانول جیسے طبع زاد لوگوں سے لے کر ہزاروں اور ہر قماش اور قسم کے لوگوں کا دوست تھا۔ اس وسنت فقیر کا بھی جو سانگھڑ ضلع میں کہیں کٹیا بنائے، زغفرانی رنگ کی صوفی پگڑی باندھے یکتارے پر عارفانہ کلام گاتا ہے اور اس کے متعلق حسن نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ اس کے پٹکے (پگڑ) کے بلوں میں تاریخ پنکیاں کھا رہی ہے۔ وہ نہ مردوں کے بنائی ہوئی اس سندھی کہاوت کی طرح تھا چندری عورت کے بچے بھی بہت تو یار بھی بہت۔
شراب، گھوڑا، عورت، سمندر اس کی شاعری اور زندگی کے استعارے تھے۔
حسن نے دو اگست انیس سو اٹھاسی کو فوجی آمر جنرل ضیاء پر ایک طویل نظم لکھی تھی جس کی آخری سطریں تھیں:
" ہم کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء اپنے روپ میں
زندگی کو حکم امتناعی ہے
وہ موت کا دوجھا نام ہے
وہ چاندنی سے بیر ہے
سورج سے دشمنی ہے
وہ کپاس جیسی نرم گداز جوانیوں پر
گرے ہوئے پتھروں کا ڈھیر ہے
اس کا وجود دھرتی پر بکواس ہے اضافی ہے
اور آدمیت کے لیے شرم جیسی بات ہے۔
ٹھیک پندرہ دنوں بعد ضیاء ہوائي حادثے میں ہلاک ہو گئے۔
حسن درس اس نسل سے تھا جس نے ہر تعصب اور آمریت کی ہر شکل سے لڑائي مول لی ہوئی تھی۔ انقلابی، عاشق، قیدی، اور حسین لڑکے اور لڑکیاں اس کی شاعری اپنے بٹووں میں رکھے پھرا کرتے۔ میں اسے پئبلو نرودا اور پروین شاکر کے بیچ کی کوئی شے کہتا۔ اگر کو‏ئي اسے کبھی اچھا مترجم ملا تو اس کی شاعری اسے دنیا کے چوٹی کے شاعروں میں کھڑی کر دے گی۔ وہ سندہ میں میں لامحالہ شیخ ایاز کے بعاد سب سے بڑا سندھی شاعر تھا۔
اس نے اپنے پیچھے سندہ کی افسانہ نگار و ناول نگار مہتاب محبوب خوشدامن، شاعرہ اہلیہ ارم محبوب اور پیارے بچے دو عظیم صوفیوں کے نام رکھے ہوئے دو بیٹے روحل ، چیزل، اور بیٹی ردھم اور ہم سب کو، سندھ کو اور اپنے محبوب وطن کو ہیمشہ کے لیے سوگوار چھوڑا ہے۔
بلکل آج ایسا لگ رہا ہے جیسے اس نے ہمارے دوست عرفان مہدی کی خودکشی پر لکھا تھا اس کی موت نے ہم سب کی تنہائی ایکسپوز کر دی ہے
حسن درس اور اس کی شاعری کی ہزاروں باتیں ہیں لیکن سپیس اور زندگی کم ہے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/06/110616_mujtaba_dars_ha.shtml
 
Last edited by a moderator: