آج کل لوگ اسٹیل ملز کی نوکری، جسے عرف عام میں ’’مُفتہ‘‘ کہا جاتا ہے، کو بچانے کے لیئےطرح طرح کے بہانے تراش رہے ہیں۔
پہلے یہ افواہ اڑائی گئی کہ اسٹیل ملز کی زمین کے ساتھ کوئی فراڈ کھیلا جا رہا ہے، لیکن اس بات کی کھل کر دو مرتبہ تردید سامنے آچکی۔ اب ان کا حال یہ ہے کہ کسی جونک کی طرح آخری قطرہ بھی نچوڑنے کے لیئے اس بہانے پر آ چکے ہیں کہ اس وباء کے دور میں ان لوگوں کو نوکری سے برخاست نہ کیا جائے۔
باقی ادارے جہاں کام کرونا لاک ڈاوٗن ہونے سے پہلے سے چل رہا تھا، ان اداروں میں اگر دو یا چار مہینے نوکریوں سے فارغ کیئے بغیر حکومت کچھ رعائیتی قرضوں کی مدد سے نوکریاں بحال رکھتی ہے تب تو بات سمجھ آتی ہے۔ لیکن کیا آپکا خیال ہے کہ اگر یہ وباء خدانخواستہ پانچ سال تک ملک میں پھیلی رہی، تو کیا حکومت اپنا فیصلہ برقرار رکھ سکے گی؟ پاکستان کیا، دنیا کا کوئی بھی ملک، پانچ سال تک کوئی ایسا اقدام کر سکتا ہے؟
پاکستان اسٹیل ملز ایک ایسا ہی ادارہ ہے جہاں پچھلے پانچ سال سے لوگوں کو ایسے ہی لاک ڈاوٗن میں تنخواہیں ملتی رہی ہیں۔اب جب کہ باقی پورے ملک میں ایک وبا ء ایسی پھیلی ہے کہ جس سے بہت سارے بے روزگار اور نچلے طبقے کے لوگ بری طرح متاثر ہورہے ہیں، وہاں ہمارے اسٹیل ملز کے انوکھے لاڈلے اور ان کے پیچھے کھڑی سیاسی طاقتیں اور میڈیا کے لوگ آخر اب اس پروپگینڈے پر اتر آئے ہیں، کہ جی کم از م وبا کے دور میں تو یہ کام نہ کریں۔
بھائیوں، کسی آفت کے وقت میں تو لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایثار اور قربانی میں اپنے حصّے کی چیز بھی دوسرے کسی زیادہ ضرورت مند کو دے دیتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ لوگ ہوتے ہیں کہ جو خود غرضی میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ جھوٹ ، فریب، بہتان اور صرف اپنے مفاد کی خاطر ہر کسی اخلاقی حد سے گر کر، دوسروں کا نوالہ چھیننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں بھی ہمیں ایک ایسے ہی مافیا کا سامنا ہے۔
شیخ سعدی ؒ کی ایک حکایت ہے کہ :
نیم نانی گر خورد مرد خدا بذل درویشان کند نیمی دگر
ملک اقلیمی بگیرد پادشاه همچنان در بند اقلیمی دگر
اسکا مفہوم ہے کہ جب ایک درویش اگر آدھی روٹی خود کھاتا ہے تو باقی آدھی روٹی اپنے ساتھ والے درویش کو دیتا ہے۔ لیکن ایک بادشاہ چاہے سات ملک بھی فتح کر لے تو بھی اسی شش و پنج میں لگا رہتا ہے کہ میں ایک اور سلطنت کیسے قابو کروں؟
شیخ سعدیؒ کی اس حکایت نے تو جیسے انسانیت کی تمام تعلیمات کو کوزے میں بند کردیا ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ظاہر کردیا کہ انسانی فطرت کی وہ بھوک کیا ہوتی ہے، جس میں انسان کی ضرورت سے زیادہ بھی اسے حاصل ہوجائے، لیکن پھر بھی اس کی بھوک نہیں مٹ سکتی۔ کیونکہ اس کی اصل بھوک کا نام ہوس ہوتا ہے، جسکی تسکین صرف اسی وقت میں ممکن ہوتی ہے جب تک وہ دوسروں سے کچھ چھین نہ لے۔ دوسروں کو اپنے زیر تسلّط نہ کر لے، اور یہی اوصاف بتائے گئے ہیں فرعون و نمرود کے بھی۔
فرعون پر بھی جب کوئی عذاب بھیجا جاتا تو وہ حضرت موسیٰؑ سے کوئی نہ کوئی رعایت مانگتا تھا اور جب وہ عذاب ٹل جاتا، تو وہ اپنی بات سے مکر جاتا تھا۔
ہمارے معاشرے میں فرعونیت کی اس خصلت کو ’’عقل مندی‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، لیکن یہ صاف طور دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ جو اس وقت یہ کہہ رہے ہیں کہ اس وبا کے وقت میں نوکریوں سے فارغ نہ کریں، وہ دراصل کچھ وقت لینا چاہ رہے ہیں ، کہ شائد اس وقت میں وہ کچھ اور اقدامات کر کے اپنے اس ’’مفتے‘‘ کو برقرار رکھ سکیں، نہیں تو دو چار تنخواہیں اور مفت کی لے لیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو نہ صرف اس وباء کے دور میں غریبوں کے، جو واقعی اس وباء کی وجہ سے بھوک کا شکار ہیں ان کے منہہ کے نوالے چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ ان مریضوں کو جن کے پاس اس وباء کے دور میں جان بچانے کے پیسے نہیں، ان کے منہہ سے آکسیجن ماسک بھی چھیننے سے گریز نہیں کر رہے۔
یہاں یہ ذکر بھی کرنا ضروری ہے کہ ماضی میں یہاں کی حکومتوں نے سنہ ۲۰۱۳ سے ریٹائرڈ ملازمین کو ان کے واجبات آج تک ادا نہ کیئے تھے۔ اسٹیل ملز کی تنخواہیں بھی اکثر بہت زیادہ تاخیر سے ملتی تھیں۔ اب جبکہ ان ریٹائرڈ ملازمین کو ان کے واجبات اور دیگر ملازمین کو ان کی تنخواہیں جمع ان کے تمام تر واجبات کے ، جس میں سے اصولی طور پر تو پچھلے پانچ سال کی گریجویٹی، پراویڈنٹ فنڈ اور لِیو انکیشمنٹ کاٹ لینی چاہیئے، یہ حکومت اسی غریب عوام کے پیسے سے ان کو تمام تر وہ مراعات بھی دے رہی ہے جس کے یہ اصولی طور پر اہل ہی نہیں ہیں۔ لیکن بات وہی بھوکوں اور لٹیروں والی کررہے ہیں، کہ دو چار مہینے اور سہی۔
یہاں یہ بات بھی واضع کرنا ضروری ہے ساڑھے نو ہزار بندے یہاں سے اگر اوسطاً بائیس لاکھ روپے لے کر جا رہے ہیں، تو یہ اتنے پیسے ہیں کہ انھیں کئی مہینوں تک کی تنخواہ کی ضرورت نہیں۔اگر باالفرض ایک شخص کی تنخواہ ایک لاکھ روپے مہینہ بھی لگا لی جائے، تو یہ بائیس مہینوں کی تنخواہ بنتی ہے۔ اتنا تو کوئی پرائیویٹ کمپنی بھی اپنے ملازموں کو ریٹائرمنٹ کی صورت نہیں دیتی۔ خیر یہ اوسط کے حساب سے کہا گیا ہے۔ وگرنہ کچھ لوگوں کو بائیس لاکھ سے کم او ر کچھ کو اس سے تین یا چار گنا زیادہ بھی ملیں گے۔سوال یہ ہے کہ اب یہ اور کتنا اس ملک کو اور اس کی بھوکی عوام کو لوٹنا چاہیں گے؟کتنے لوگوں کی دوا اور علاج کے پیسے سے گھر بیٹھے چپڑی ہوئی دو، دو روٹیاں کھائیں گے، لیکن کبھی غیرت یا شرم کا ایک لقمہ بھی اپنے حلق سے نیچے نہیں اتاریں گے؟
میں یہاں ان تمام سیاسی پارٹیوں سے اور ان تمام میڈیا کے اینکرز اور صحافی حضرات سے گزاش کروں گا جو اس بات پر شور مچا رہے ہیں کہ وباء کے دور میں یہ ان ملازمین کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے کہ آپ سب مل کر اپنا ایک فنڈ بنائیں، جس میں آپ اپنے دردِ دل کے حساب سے پیسے اپنے ذرائع آمدن سے جمع کروایئں۔عوام کو بھی ترغیب دلوائیں اور دیکھیں کتنے لوگ ان ملازمین کی مدد کرتے ہیں جو کہ پہلے سے ہی ایک ادارے کو ’’جونک‘‘ کی وباء کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ خدارا اس وقت اپنے ملک میں ان لوگوں پر بھی نظر ڈالیں، جن کے گھروں کے چولھے بند پڑے ہیں، یا جن کے پیارے اس وباء کی وجہ سےبنا علاج و معالجہ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔
پھر یہاں میں کچھ ان لوگوں کے کمنٹ بھی پوسٹ کر رہا ہوں جو پاکستان اسٹیل ملز کے ہی ملازمین ہیں یا بلواسطہ ان کے گھروں کی معیشت اسٹیل ملز سے ملحقہ ہے، لیکن بہ قول شیخ سعدیؒ یہ لوگ انسانی اوصاف سے سرشار ہیں۔ ان لوگوں کے لیئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ اور مجھے یہاں گزارش کرنے کی ضرورت نہیں، آپ بھی ان کے کمنٹ پڑھ کر بذات خود اپنے دل سے نکلنے والی اس دعا کو روک نہ سکیں گے کہ اللہ ان جیسے لوگوں کے لیئے ان کی زندگی اور بعد از موت بھی آسانیاں پیدا کرے (آمین)۔
Ref Link
Ref Link
Ref Link
Ref Link
Ref Link
Ref Link
- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/Cpg1zAH.jpg
Last edited by a moderator: