
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر پاکستان تحریک انصاف کوقومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد 41 اراکین کی سنی اتحاد کونسل سے تحریک انصاف میں شمولیت کو روکنے کے لیے حکومت کی طرف سے الیکشن ایکٹ میں تبدیلی کی تیاری کر لی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی میں اس حوالے سے الیکشن ترمیمی بل 2024ء مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی کی طرف سے پیش کر دیا گیا ہے جس پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے مخالفت نہیں کی گئی۔ سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کی اجازت کے بعد الیکشن ترمیمی بل 2024ء قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق الیکشن ترمیم بل 2024ء کے بعد اراکین کی طرف سے جمع کروائے گئے ڈیکلیئریشن کو تبدیل کرنے پر پابندی عائد ہو گی، ترمیمی بل کے مندرجات میں الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 104 اور 66 میں ترامیم کی تجویز دی گئی ہیں۔ ترمیمی بل میں دفعہ 104 الف شامل کی گئی ہے جس کے مطابق آزاد کامیاب ہونے والے امیدواروں کی طرف سے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کی رضامندی قابل تنسیخ نہیں ہو گی۔
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104 کے مطابق انتخابات میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے صرف ایک دفعہ رضامندی دے سکتے ہیں۔ آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والا امیدوار عدالت عظمیٰ یا عدالت عالیہ کے کسی فیصلے کے باوجود کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کیلئے ایک دفعہ ظاہر کی گئی رضامندی قابل تنسیخ نہیں ہوگی۔
ترمیمی بل کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کیلئے مجوزہ مدت کے اندر اپنی فہرست جمع کروانے میں ناکام رہی تو مخصوص نشستوں کیلئے نااہل تصور ہو گی۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 39 اراکین پی ٹی آئی کے نوٹیفیکیشن جاری کیے گئے جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 41 اراکین کے نوٹیفیکیشن جاری ہونا باقی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو چند دن پہلے ہی سندھ، خیبرپختونخوا، پنجاب اور قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کیلئے فہرست جمع کروائی ہےجس میں 11 اقلیتی اور 67 خواتین کی نشستوں کے نام دیئے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لیے تحریک انصاف نے سیمابیہ طاہر، روبینہ شاہین، کنول شوزب، عالیہ حمزہ اور صنم جاوید کے نام دیئے ہیں۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کےخلاف ہے، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اورہے، انتخابی نشان نہ ملنےکا مطلب یہ نہیں کہ ان کے تمام حقوق ختم ہوگئے ہیں، فیصلہ 8کےمقابلے میں5 کے تناسب سے دیا گیا تھا۔ اکثریتی فیصلے کے مطابق انتخابی نشان واپس لینے سے سیاسی جماعت الیکشن سے باہر نہیں ہو سکتی، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی۔