ازواج مطہرات۰ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی

ابابیل

Senator (1k+ posts)
ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن، بنات طاہرات رضی اللہ تعالی عنہن


حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا


نام و نسب:۔

حفصہ نام، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی صاحبزادی تھیں، سلسلہ نسب یہ ہے،(حفصہ بنت عمررضی اللہ تعالی عنہ بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن رباع بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن لوی بن فہر بن مالک)والدہ کا نام زینب بنت مظعون تھا، جو مشہور صحابی حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بن مظعون کی ہمشیرہ تھیں، اور خود بھی صحابیہ تھیں، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ حقیقی بھائی بہن ہیں۔ حضرت حفصہ بعثت نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں، اس وقت قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے،
نکاح:۔
پہلا نکاح حنیس بن حذافہ سے ہوا۔ جو خاندان بنو سہم سے تھے،
اسلام:۔
ماں باپ اور شوہر کے ساتھ مسلمان ہوئیں،
ہجرت اور نکاح ثانی:۔
شوہر کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کی، غزوہ بدر میں خنیس رضی اللہ تعالی عنہ نے زخم کھائے اور واپس آ کر انہی زخموں کی وجہ سے شہادت پائی، عدت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کی فکر ہوئی، اسی زمانہ میں حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا انتقال ہو چکا تھا، اسی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سب سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے ملےاور ان سے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کی خواہش ظاہر کی، انہوں نے کہا میں اس پر غور کرونگا، چند دنوں کے بعد ملاقات ہوئی، تو انہوں نے صاف انکار کیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مایوس ہو کر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے ذکر کیا انہوں نے خاموشی اختیار کی، حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کو انکی بےالتفاتی سے رنج ہوا، اسکے بعد خود رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کی خواہش کی، نکاح ہو گیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ملے اور کہا کہ جب تم نے مجھ سے حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نکاح کی خواہش ظاہر کی اور میں خاموش رہا، تو تمکو ناگوار گزرا، لیکن میں نے اسی بنا پر کچھ جواب نہیں دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکا ذکر کیا تھا اور میں انکا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے نکاح کا قصد نہ ہوتا تو میں اسکے لیے آمادہ تھا،[صحیح بخاری ج2ص571واصابہ ج8ص51]

وفات:۔

حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے شعبان سن پنتالیس ہجری میں مدینہ میں انتقال کیا، یہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا۔ مروان نے جو اس وقت مدینہ کا گورنر تھا، نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک جنازہ کو کندھا دیا، اسکے بعد ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ جنازہ کو قبر تک لے گئے، انکے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور انکے لڑکوں عاصم، سالم ، عبداللہ ، حمزہ نے قبر میں اتارا،
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سن وفات میں اختلاف ہے، ایک روایت ہے کہ جمادی الاول سن 41 ہجری میں وفات پائی، اس وقت انکا سن 59 سال کا تھا۔ لیکن اگر سن وفات 45 ہجری قرار دیا جائے۔ تو انکی عمر 63 سال کی ہو گی، ایک روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں انتقال کیا، یہ روایت اس بنا پر پیدا ہو گئی کہ وہب نے ابن مالک سے روایت کی ہے کہ جس سال افریقہ فتح ہوا، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اسی سال وفات پائی اور افریقہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں سن 27 ہجری میں فتح ہوا۔ لیکن یہ سخت غلطی ہے۔ افریقہ دو مرتبہ فتح ہوا۔ اس دوسری فتح کا فخر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حاصل ہے، جنہوں نے امیر معاویہ کے عہد میں حملہ کیا تھا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے وفات کے وقت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر وصیت کی اور غابہ میں جو جائیداد تھی جسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ انکی نگرانی میں دے گئے تھے، اسکو صدقہ کر کے وقف کر دیا،[زرقانی ج3ص271]
اولاد:۔
کوئی اولاد نہیں چھوڑی،
فضل و کمال:۔
البتہ معنوی یادگاریں بہت سی ہیں، اور وہ ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ(ابن عبداللہ) صفیہ بنت ابو عبیدرضی اللہ تعالی عنہ(زوجہ عبداللہ) حارثہ بن وہب، مطلب ابی وادعہ، ام مبشر انصاریہ، عبداللہ بن صفوان بن امیہ، عبدالرحمن بن حارث بن ہشام،[ایضاً]
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ساٹھ حدیثیں منقول ہیں، [ایضاً] جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے سنی تھیں،
تفقہ فی الدین کے لیے واقعہ ذیل کافی ہے، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اصحاب بدرو حدیبیہ جہنم میں داخل نہ ہونگے، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اعتراض کیا کہ خدا تو فرماتا ہے "تم میں سے ہر شخص وارد جہنم ہو گا"آپ نے فرمایا ہاں لیکن یہ بھی تو ہے۔"پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دینگے اور ظالموں کو اس پر زانووں پر گرا ہوا چھوڑ دینگے"[مسند ابن حنبل ج6ص285]
اسی شوق کا اثر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انکی تعلیم کی فکر رہتی تھی، حضرت شفا رضی اللہ تعالی عنہا کو چیونٹی کے کاٹے کا منتر آتا تھا، ایکدن وہ گھر میں آئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کو منتر سکھلا دو،[ایضاً ص281]
اخلاق:۔
"وہ(یعنی حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا) صائم النہار اور قائم الیل ہیں۔"[اصابہ ج8ص52]
دوسری روایت میں ہے۔
"انتقال کے وقت تک صائم رہیں۔"
اختلاف سے سخت نفرت کرتی تھیں، جنگ صفین کے بعد جب تحکیم کا واقعہ پیش آیا تو انکے بھائی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسکو فتنہ سمجھکر خانہ نشین رہنا چاہتے تھے، لیکن حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا کہ گو اس شرکت میں تمھارا کوئی فائدہ نہیں، تاہم تمہیں شریک رہنا چاہیے، کیونکہ لوگوں کو تمھاری رائے کا انتظار ہو گا، اور ممکن ہے کہ تمھاری عزلت گزینی ان میں اختلاف پیدا کر دے۔[صحیح بخاری ج2ص589]
دجال سے بہت ڈرتی تھیں، مدینہ میں ابن صیاد نامی ایک شخص تھا، دجال کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو علامتیں بتائی تھیں، اس میں بہت سی موجود تھیں، اس سے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ایکدن راہ میں ملاقات ہو گئی، انہوں نے اسکو بہت سخت سست کہا، اس پر وہ اس قدر پھولا کہ راستہ بند ہو گیا، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسکو مارنا شروع کیا حضرت حفصہ کو خبر ہوئی تو بولیں، تمکو اس سے کیا غرض، تمہیں معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال کے خروج کا محرک اسکا غصہ ہوگا،[مسند ج6ص283ومسلم کتاب الفتن ذکر ابن صیاد]
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا مے مزاج میں ذرا تیزی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی کبھی دوبدو گفتگو کرتیں، اور برابر کا جواب دیتی تھیں، چنانچہ صحیح بخاری میں خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ "ہم لوگ جاہلیت میں عورت کو ذرہ برابر بھی وقعت نہ دیتے تھے، اسلام نے انکو درجہ دیا، اور قرآن میں انکے متعلق آیتیں اتریں، تو انکی قدرومنزلت معلوم ہوئی، ایکدن میری بیوی نے کسی معاملہ میں مجھکو رائے دی، میں نے کہا،"تمکو رائے و مشورہ سے کیا واسطہ" بولیں،" ابن خطاب تمکو ذرا سی بات کی بھی برداشت نہیں حالانکہ تمھاری بیٹی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو برابر کا جواب دیتی ہے، یہاں تک کہ آپ دن بھر رنجیدہ رہتے ہیں،"میں اٹھا اور حفصہ کے پاس آیا، میں نے کہا"بیٹی میں نے سنا ہے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برابر کا جواب دیتی ہو"بولیں"ہاں ہم ایسا کرتے ہیں "میں نے کہا خبردار میں تمہیں عذاب الہی سے ڈراتا ہوں،تم اس عورت(حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ) کی ریس نہ کرو جسکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے اپنے حسن پر ناز ہے،[بخاری ج2ص کتاب التفسیروفتح الباری ج8ص504]
ترمذی میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا رو رہی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور رونے کی وجہ پوچھی، انہوں نے کہا کہ مجھکو حفصہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ہے کہ"تم یہودی کی بیٹی ہو"آپ نے فرمایا حفصہ (رضی اللہ تعالی عنہا)خدا سے ڈرو، پھر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ارشاد ہوا"تم نبی کی بیٹی ہو۔ تمھارا چاچاپیغمبر ہے اور پیغمبر کے نکاح میں ہو، حفصہ (رضی اللہ تعالی عنہا) تم پر کس بات میں فخر کر سکتی ہے۔"[ترمذی بال فضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم]
ایک بار حضرت عائشہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہما نے حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا کہ"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک تم سے زیادہ معزز ہیں، ہم آپکی بیوی بھی ہیں اور چچا زاد بہن بھی، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ناگوار گزرا، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی، آپ نے فرمایا تم نے یہ کیوں نہیں کہا، کہ تم مجھ سے زیادہ کیونکر معزز ہو سکتی ہو، میرے شوہر محمد صلی اللہ علیہ وسلم، میرے باپ ہارون علیہ السلام اور میرے چچا موسی علیہ السلام ہیں۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی تھیں جو تقریب نبوی میں دوش بدوش تھے، اس بنا پر حضرت عائشہ و حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہما بھی دیگر ازواج کے مقابلہ میں باہم ایک تھیں۔ چنانچہ واقعہ تحریم جو سن نو ہجری میں پیش آیا تھا، اسی قسم کے اتفاق کا نتیجہ تھا، ایک دفعہ کئی دن تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس معمول سے زیادہ بیٹھے، جسکی وجہ یہ تھی کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس کہیں سے شہد آ گیا تھا، انہوں نے آپکو پیش کیا آپکو شہد بہت مرغوب تھا۔ آپ نے نوش فرمایا، اس میں وقت مقررہ سے دیر ہو گئی، حجرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو رشک ہواحضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے اور تمھارے گھر میں آئیں تو کہنا کہ آپکے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے،[مغافیر کی بو کا اظہار کرنا کوئی جھوٹ بات نہ تھی مغافیر کے پھولوں میں اگر کسی قسم کی کرختگی ہو تو تعجب کی بات نہیں](مغافیر کے پھولوں سے شہد کی مکھیاں رس چوتی ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا لی کہ میں سہد نہ کھاؤں گا۔ اس پر قرآن مجید کی یہ آیت اتری،[صحیح بخاری ج2ص29]
"اے پیغمبر اپنی بیویوں کی خوشی کے لیے تم خدا کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام کیوں کرتے ہو؟"
کبھی کبھی (حضرت حفصہ و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما) میں باہم رشک و رقابت کا اظہار ہو جایا کرتا تھا،

ایک مرتبہ حضرت عائشہ و حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہما دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھیں، رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو عائشہ کے اونٹ پر چلتے تھے اور ان سے باتیں کرتے تھے، ایکدن حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا کہ آج رات کو تم میرے اونٹ پر اور میں تمھارے اونٹ پر سوار ہوں تا کہ مختلف مناظر دیکھنے میں آئیں، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا راضی ہو گئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اونٹ کے پاس آئے جس پر حفصہ سوار تھیں جب منزل پر پہنچے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپکو نہیں پایا تو اپنے پاؤں کو اذخر(ایک گھاس ہے) کے درمیان لٹکا کر کہنے لگیں،"خداوندا! کسی بچھو یا سانپ کو متعین کر جو مجھے ڈس جائے۔"[صحیح بخاری(وسیرة النبی جلد دوم)یہ حضرت حفصہ سے رقابت کا اظہار نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سفر جسکو حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے ساتھ پسند کرتے تھے اس سے محرومی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدگی کی بجائے حضرت حفصہ کو حضور کی مرضی کے خلاف اونٹ پر بٹھانا تھا۔ از صحیح امداد اللہ انور]

 
Last edited by a moderator:

Ahud1

Chief Minister (5k+ posts)
Re: ازواج مطہرات۰ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عن

اس پوسٹ میں دانستہ یا نادانستہ حضرت عایشہ اور حضرت حفصہ کی رقابتوں کا ذکر موضوع تحریر لگتا ہے جو کے نہ مناسب بات اور توہین ک زمرے میں اتی ہے

بلکہ مجھے تو لگتا ہے جتنے بھی واقعیات لکھے گئے ہیں سب ہی امہات المومنین کی شان میں گستاخی ہیں تاریخ سے خوشنما واقعیات کا انتخاب کیا کریں اس تیرہ کی روایات سے اجتنابلازم ہے
 
Last edited: