
کینیا کی پولیس نے جس گاڑی کو چوری شدہ قرار دے کر صحافی ارشد شریف کی گاڑی پر گولی چلائی، اس کے مالک کے مطابق پولیس کو علم تھا کہ اصل گاڑی نیروبی شہر کے مضافات میں موجود ہے۔
جب کہ ارشد شریف کی گاڑی پر گولی نیروبی سے 100 کلومیٹر سے بھی زیادہ دور مقام پر چلائی گئی۔ چوری شدہ گاڑی کے مالک ڈگلس کماؤ نے فیکٹ فوکس نامی خبررساں ادارے کو ایک تحریری بیان میں بتایا ہے کہ ان کی گاڑی میں ٹریکنگ کے جدید ترین آلات نصب تھے جو گاڑی کی لمحہ بہ لمحہ لوکیشن سے پولیس کو آگاہ کر رہے تھے۔
ڈگلس کماؤ نے یہ بھی بتایا کہ پولیس نے ان کے ہمراہ ان کی گاڑی رات ساڑھے 9 بجے تک واپس اپنی تحویل میں لے لی تھی جبکہ ارشد شریف کی گاڑی کو ناکہ لگا کر روکنے کی کوشش اور فائرنگ کا واقعہ پولیس کی رپورٹ کے مطابق رات دس بجے پیش آیا تھا۔
دوسری جانب فیکٹ فوکس کا دعویٰ ہے کہ مبینہ طور پر چوری ہونے والی گاڑی اور جس گاڑی میں ارشد شریف سوار تھے دونوں کا رجسٹریشن ریکارڈ باضابطہ طور پر درخواست دے کر حاصل کیا گیا ہے۔ ارشد شریف جس گاڑی ٹویوٹا لینڈ کروزر میں سوار تھے اس کی تصاویر میڈیا میں شائع ہوئیں۔
جبکہ ڈگلس کی گاڑی کی تصویر انٹرنیٹ سے حاصل کر کے ڈگلس کے آفس سے اس کی تصدیق بھی کرائی گئی۔ دونوں گاڑیوں کی ظاہری شکل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
یاد رہے کہ کینین پولیس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ بچہ اغوا ہوا جبکہ بعد ازاں کہا گیا کہ مقامی سطح پر ایک گاڑی کے چوری ہونے کی اطلاع تھی اس لیے ناکہ لگا کر گاڑیاں چیک کی جا رہی تھیں۔ ارشد شریف کی گاڑی ناکہ توڑ کر آگے بڑھی اس لیے فائرنگ کی گئی۔
جبکہ چوری ہونے والی گاڑی کے مالک کا کہنا ہے کہ اس کی گاڑی مرسڈیز بینز سپرنٹر تھری الیون تھی، اور جس گاڑی میں ارشد شریف سوار تھے وہ ٹویوٹا کی لینڈکروزر تھی۔