کیا عدلیہ کو ہیرو کی قربانی دینی پڑے گی؟ ندیم سعید کا تبصرہ
Published on 13. Jun, 2012
Published on 13. Jun, 2012
ارب پتی بزنس مین اور بحریہ ٹاؤن کے بانی ملک ریاض حسین نے بدنام زمانہ فیملی گیٹ سکینڈل کے حوالے سے سپریم کورٹ کی طرف سے لیے گئے ازخود نوٹس میں اپنا بیان تو ریکارڈ کرایا ہی لیکن اس کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس کے ذریعے سوالات کے انداز میں جو انکشافات کیے وہ زمین ہلا دینے والے ہیں، خاص طور پرموجودہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جس کا وجود میڈیا کے ایک حصے نے ایک شخصیت یعنی جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ہی تعبیر کر رکھا ہے۔ (یہ پاکستانی میڈیا کا وہ حصہ ہے جس کی کوئی سیاسی تربیت و بصیرت نہیں اور اسے ہر وقت کسی ہیرو کی تلاش رہتی ہے)۔میڈیا کے اسی چلن کا نتیجہ ہے کہ جب چیف جسٹس کے بیٹے کے خلاف الزامات سامنے آنا شروع ہوئے تو بجائے اس کے کہ ان کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جاتا، انہیں ہیرو کے خلاف سازش قرار دیا جانے لگ گیا اور اسی مناسبت سے سپریم کورٹ پر حملہ بھی۔ارسلان افتخار کے اثاثوں، کاروبار اور بیرونی دوروں کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہوئیں تو معذرت خواہان چیف صاحب نے لکھنا اور کہنا شروع کر دیا کہ وہ تو انصاف کی ترسیل میں اتنے مصروف و مگن رہتے تھے کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ ان کے گھر والے کیا گل کھلا رہے ہیں۔فیملی گیٹ سکینڈل کی تفصیلات ابھی کہیں شائع نہیں ہوئی تھیں لیکن چونکہ کئی صحافیوں کو ثبوت دکھائے جا چکے تھے تو ان میں سے چیف صاحب سے عقیدت رکھنے والے اصحاب پہلے ہی ہر الزام کی ایسی تاویل دینے کی کوشش کر رہے تھے جس سے ان کے ہیرو پر آنچ نہ آئے۔ اس سے پہلے مشاہدے میں ایسا کبھی نہیں آیا کہ آنے والی ایک متوقع خبر پر خبریں اور تبصرے شروع ہو جائیں۔ ان ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کے ناموں پر قیاس آرائیاں شروع ہوجائیں جو یہ سکینڈل بمعہ ثبوت کے سامنے لانے والے ہیں۔ اس حوالے سے سب زیادہ ذکر برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب کا ہوا، جسے آخرکار یہ بیان دینا پڑ گیا کہ اسے اس معاملے کا کچھ علم نہیں اور نہ ہی کسی نے اس سے رابطہ کیا ہے۔ثبوت ملک ریاض کے پاس تھے جو انہوں نے عدالت میں اپنے تحریری بیان کے ساتھ لگا دیے ہیں اور ان شواہد کی سچائی جاننا کوئی مشکل نہیں ہوگا، بنکوں کے کھاتے ، جہازوں کی ٹکٹیں اور ہوٹلوں کے کرائے سب کی تصدیق کرائی جا سکتی ہے۔ارسلان کے ہاتھ گندے ہونے میں شاید اب کسی کو شک نہیں، حتیٰ کہ چیف صاحب کی قوالی گانے والے بھی ان کو جھٹلانے سے اجتناب کر رہے ہیں۔لیکن ملک ریاض کی پریس کانفرنس کے بعد معاملہ اب صرف ارسلان کا نہیں رہا۔ ملک ریاض نے چیف جسٹس سے تین سوالوں کا جواب مانگا ہے، اؤل یہ کہ کیا وہ قوم کو بتانا پسند کرینگے کہ وہ رات کے اندھیرے میں ان سے کتنی دفعہ ملنے آئے اور ان ملاقاتوں میں ارسلان بھی موجود ہوتا تھا؟ دوئم احمد خلیل کے ہاں چیف جسٹس اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کتنی ملاقاتیں ہوئیں؟ اور سوئم یہ کہ وہ بتائیں کہ انہیں اس کیس کا کب سے پتہ تھا؟تیسرے سوال کا جواب تو بیرسٹر اعتزاز احسن کی طرف سے سامنے آگیا ہے کہ انہوں نے چیف صاحب کو پانچ چھ ماہ پہلے ارسلان کے چلن کے بارے میں آگاہ کردیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود چیف صاحب نے اس معاملے کو اس وقت کوئی اہمیت نہ دی اور بقول ملک ریاض کے کہا گیا چھوڑیں ملک ریاض کو وہ تو بلیک میلر ہے۔ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ملک ریاض مشترکہ دوستوں اور پھر صحافیوں کو ثبوت دکھا تو رہے تھے لیکن آخر انہیں چھپواکیوں نہیں رہے تھے؟ ہوسکتا ہے کہ وہ جسٹس افتخار چوہدری کو دباؤ میں لانا چاہتے ہوں کیونکہ وہ بحریہ ٹاؤن کے کیس سن رہے تھے اور پھر ملک ریاض کے بیٹے کے خلاف بھی ازخود نوٹس لیے ہوئے تھے۔لیکن ملک ریاض کا اس حوالے سے کہنا یہ ہے کہ وہ چاہ رہے تھے کہ ارسلان کی بلیک میلنگ چیف جسٹس کے علم میں آ جائے اورمعاملہ سکینڈل بننے سے پہلے ہی حل ہو جائے۔ بہرحال وہ معاملے کو جیسے بھی حل کرنا چاہتے تھے ویسا نہیں ہوا، نہ چیف جسٹس دباؤ میں آئے اور نہ ہی انہوں نے اپنے بیٹے کے خلاف اس وقت تک کوئی نوٹس لیا جب تک کہ بات سوشل میڈیا اور پھر دبے لفظوں میں ٹاک شوز میں نہ چل نکلی۔ازخود نوٹس کی شروع میں خود شنوائی کرنا اور اس دوران ملک ریاض کے دفاتر سیل کرانے جیسی باتوں سے چیف جسٹس نے اپنی حیثیت کو اس معاملے میں متنازعہ بنا لیا، معذرت خواہان چیف صاحب ان کے اس عمل کو چاہے انبیاء کرام اور خلفائے راشدین سے ملاتے رہیں لیکن اس کی عدالتی اخلاقیات اور روایت میں کوئی گنجائش نہیں تھی، جس کا انہیں بالآخر احساس بھی ہوگیا۔چیف جسٹس جو ازخود نوٹس لینے میں کافی تیزی دکھاتے ہیں انہیں چاہیے تھا کہ وہ سکینڈل سامنے آنے کے بعد اپنے بیٹے ارسلان کے اس انٹرویو کا بھی نوٹس لیتے جو اس نے قریباً ان کے ترجمان سمجھے جانے والے ایک صحافی کو دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے کاروبار کی مالیت نوے کروڑ روپے ہے۔کیا بطورملک کے منصف اعلیٰ اور وہ بھی ایسا جس کو چاہنے والے حضرت عمر ابن خطاب کی روایت کا امین بتانے سے نہ چوکتے ہوں کا فرض نہیں بنتا تھا کہ پوچھتے بیٹا جی!یہ تین چار سالوں میں آپ ارب پتی کیسے ہوگئے؟ جب کہ بقول ارسلان کے والد چیف جسٹس آف پاکستان اگر وہ آج ریٹائرڈ ہو جائیں تو ان کے پاس رہنے کو مکان نہیں ہوگا۔لیکن ارسلان سے کچھ نہیں پوچھا گیا جبکہ ملک ریاض کے گوشوارے طلب کر لیے گئے ہیں۔جناب پہلے ارسلان کو بے گناہ ثابت کریں اور اس حوالے سے چیف جسٹس کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کے جواب دیے جائیں اور پھر اگر ملک ریاض غلط ثابت ہوتے ہیں تو انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے کہ انہوں نے غلط بیانی سے کام لیا اور عدالت کا وقار مجروع کیا ۔حکومت جو اب تک فیملی گیٹ سکینڈل میں خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے اسے اپنے ہونے کا احساس دلانا ہوگا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ اور ان کے بیٹے پر خاصے سنگین الزامات سامنے آ رہے ہیں اور لگانے والا بھی ایک معروف کاروباری شخصیت ہے۔ ان الزامات کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیں اور جب تک دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہیں ہو جاتا چیف جسٹس کو چھٹی لے کر گھر بیٹھنا چاہیے۔جہاں تک رہی بات کہ چیف جسٹس کو خبر ہی نہیں تھی کہ وہ انصاف کا بول بالا کر رہے ہیں اور ان کی فیملی مبینہ طور پر ناجائز پیسے کے بل بوتے پر بیرون ملک سیر سپاٹوں میں مصروف ہے تو چیف صاحب کے زیر استعمال ٹیلی فونز سے اس عرصے میں کی گئی کالز کی تفصیلات حاصل کی جا سکتی ہیں کہ دیکھا جائے کہ واقعی وہ اپنی فیملی سے اتنے لاتعلق تھے؟ حالانکہ اب یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ چیف جسٹس بیٹے ارسلان کے ساتھ احمد خلیل کو عید ملنے اس کے گھر بھی جاتے رہے ہیں۔فیملی گیٹ سکینڈل کے پیچھے سازش دیکھنے والوں کو کبھی صدر زرداری کارفرما نظر آتے ہیں تو کبھی ملک کے خفیہ ادارے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس کے بعض اقدامات جن کو عوامی سطح پر پذیرائی حاصل رہی ہے حکمران طبقہ جس میں فوج اور سیاستدان بھی شامل ہیں خائف تھا اور ملک ریاض کے ان سب سے اچھے تعلقات ہیں، لیکن کیا اس سارے معاملے کو کسی کی سازش کہہ کر نظرانداز کر دینا چاہیے؟اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اس سے سپریم کورٹ بطور ادارہ مضبوط نہیں بلکے کمزور ہوگا۔ جنرل مشرف کے پیدا کردہ عدالتی بحران سے جس طرح عدلیہ سرخرو ہوکر مضبوط ہوئی ویسے موجودہ تنازعے میں خود احتسابی کرتے ہوئے اگر عدلیہ کو کسی ہیرو کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے تو ادارے کے تقدس اور مضبوطی کو دوام بخشنے کے لیے یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہوگا۔ ادارے ناگزیر ہوتے ہیں افراد نہیں