میں کسی کو گالی نکالنے کے حق میں نہیں ہوں مگر ایک واقعہ ایسا ہوا کہ پاکستانیوں کو اخلاقیات کے دورے پڑنے لگے اور چند نے تو اعلی اخلاقی اقدار پر ایسے قصے سنائے آنکھوں میں پانی آ گیا ۔۔ جواز یہ دیا گیا کہ فلاں کو گالی دی گئی مگر اس کی بیوی ساتھ تھی لہذا گالی دینے والے کو خیال کرنا چاہیے تھے۔
اب یہاں ایک دو سوال پوچھنے کی جسارت کروں گا۔ 1: جس شخص کو گالیاں پڑیں اس کے ہوتے شہباز گل صاحب کو اٹھایا گیا اور ان پر بدترین جنسی تشدد کیا گیا جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ یہاں تک کہ گل صاحب نے بھرے جلسے میں کہا “اجازت ہو اور شوق پورا ہو گیا ہو تو اب شلوار اوپر کر لیں”؟
بات ختم نہیں ہوئی 2: اعظم سواتی صاحب جو سینیٹر ہیں انہیں ان کے گھر سے ان کی بیٹیوں پوتیوں کے سامنے اٹھایا گیا اور تذلیل کی گئی اور دوران حراست ان پر بھی بدترین جنسی تشدد کیا گیا۔ قصور کیا تھا ؟ صرف اتنا کہ اس شخص کا نام لے دیا تھا کہ اس نے چوروں کو NRO دیا ہے؟ یہاں تک کہ سواتی صاحب کی ان کی بیگم کے ساتھ ویڈیو ریکارڈ کر کے ان کی بیٹی کو بھیج دی ؟ کبھی ایسا ظلم آپ نے کسی اور ملک میں سُنا ؟ ۔۔ یہ سب کیا اسی گالیاں کھانے والے شخص کی سربراہی میں نہیں ہو رہا تھا ؟؟
اب آتے ہیں اصل مدعے کی طرف جس میں بیگم کا ذکر ہے۔۔ جب موصوف یہ تمام حرکات اپنی سربراہی میں کروا رہے تھے تب کیا بیگم کو معلوم نہیں تھا ان کا خاوند کن “غیراخلاقی” سرگرمیوں میں ملوث ہے ؟ کیا بیگم ٹی وی میڈیا سے بالکل لاتعلق تھی اور اسے آس پاس کی خواتین بھی نہیں بتاتی تھیں کہ بی بی آپ کا خاوند لوگوں کو ننگا کرتا پھر رہا ہے اور انہیں نشان عبرت بنانے کی دھمکیاں دیتا ہے ؟ یا پھر موصوفہ سب اچھے سے جانتی تھیں کیونکہ مشورہ دینے والے ان کے اپنے اباجی تھے اور شریک جرم موصوفہ کا بہنوئی ؟؟ کیا ان دونوں کے خود کے بچے بھی نونے کاکے تھے اور انہیں نہیں معلوم تھا ابے کے کارنامے کیا ہیں ؟ ۔۔ لہذا مجھے مت بتائیے، سکھائیے، سمجھائیے کہ ایسی خاتون جو اپنے شوہر کی شرمناک حرکتوں کی “شریک راز” ہے اس کے سامنے اگر کسی نے اس کے شوہر کو گالی نکال دی تو وہ موصوفہ کے لیے باعث ہزیمت تھا۔ اس سے ایک لاکھ گنا زیادہ شرمناک کارناموں میں ان کا اپنا “شوہر نامراد” ملوث ہے جس پر وہ خاموش رہیں۔ ۔۔ اخے ہمیں بڑی ندامت ہے جی بیوی کے سامنے کچھ نہیں کہنا تھا ہم بڑے “اخلاقی” ہیں ۔۔
اب یہاں ایک دو سوال پوچھنے کی جسارت کروں گا۔ 1: جس شخص کو گالیاں پڑیں اس کے ہوتے شہباز گل صاحب کو اٹھایا گیا اور ان پر بدترین جنسی تشدد کیا گیا جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ یہاں تک کہ گل صاحب نے بھرے جلسے میں کہا “اجازت ہو اور شوق پورا ہو گیا ہو تو اب شلوار اوپر کر لیں”؟
بات ختم نہیں ہوئی 2: اعظم سواتی صاحب جو سینیٹر ہیں انہیں ان کے گھر سے ان کی بیٹیوں پوتیوں کے سامنے اٹھایا گیا اور تذلیل کی گئی اور دوران حراست ان پر بھی بدترین جنسی تشدد کیا گیا۔ قصور کیا تھا ؟ صرف اتنا کہ اس شخص کا نام لے دیا تھا کہ اس نے چوروں کو NRO دیا ہے؟ یہاں تک کہ سواتی صاحب کی ان کی بیگم کے ساتھ ویڈیو ریکارڈ کر کے ان کی بیٹی کو بھیج دی ؟ کبھی ایسا ظلم آپ نے کسی اور ملک میں سُنا ؟ ۔۔ یہ سب کیا اسی گالیاں کھانے والے شخص کی سربراہی میں نہیں ہو رہا تھا ؟؟
اب آتے ہیں اصل مدعے کی طرف جس میں بیگم کا ذکر ہے۔۔ جب موصوف یہ تمام حرکات اپنی سربراہی میں کروا رہے تھے تب کیا بیگم کو معلوم نہیں تھا ان کا خاوند کن “غیراخلاقی” سرگرمیوں میں ملوث ہے ؟ کیا بیگم ٹی وی میڈیا سے بالکل لاتعلق تھی اور اسے آس پاس کی خواتین بھی نہیں بتاتی تھیں کہ بی بی آپ کا خاوند لوگوں کو ننگا کرتا پھر رہا ہے اور انہیں نشان عبرت بنانے کی دھمکیاں دیتا ہے ؟ یا پھر موصوفہ سب اچھے سے جانتی تھیں کیونکہ مشورہ دینے والے ان کے اپنے اباجی تھے اور شریک جرم موصوفہ کا بہنوئی ؟؟ کیا ان دونوں کے خود کے بچے بھی نونے کاکے تھے اور انہیں نہیں معلوم تھا ابے کے کارنامے کیا ہیں ؟ ۔۔ لہذا مجھے مت بتائیے، سکھائیے، سمجھائیے کہ ایسی خاتون جو اپنے شوہر کی شرمناک حرکتوں کی “شریک راز” ہے اس کے سامنے اگر کسی نے اس کے شوہر کو گالی نکال دی تو وہ موصوفہ کے لیے باعث ہزیمت تھا۔ اس سے ایک لاکھ گنا زیادہ شرمناک کارناموں میں ان کا اپنا “شوہر نامراد” ملوث ہے جس پر وہ خاموش رہیں۔ ۔۔ اخے ہمیں بڑی ندامت ہے جی بیوی کے سامنے کچھ نہیں کہنا تھا ہم بڑے “اخلاقی” ہیں ۔۔