احمد فرہاد کیس، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کیآزاد کشمیر بارے اپنے بیان پر وضاحت

4aaadkjdjdwzahaht.png

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے آج احمد فرہاد کی اہلیہ عروج زینب کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ان کی بازیابی کی پٹیشن نمٹا دی اور ریمارکس دیئے کہ تمام لاپتہ افراد کے کیسز کیلئے لارجر بنچ تشکیل دینے کیلئے چیف جسٹس کو لکھ رہا ہوں۔

درخواست گزار کی طرف سے ایمان مزاری ایڈووکیٹ اور سینئر صحافی وتجزیہ کار حامد میر بطور عدالتی معاون پیش ہوئے جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل بیرسٹر عثمان گھمن بھی عدالت میں موجود تھے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کیس کی سماعت کے دوران گزشتہ سماعت پر آزادکشمیر کو پاکستان کا حصہ نہ کہنے کے اپنے سے منسوب بیان کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ حامد میر صاحب اور اسد طور نے گزشتہ سماعت کے بعد وی لاگ کیا جس میں آزادکشمیر سے متعلق مجھ سے منسوب دلائل رپورٹ کیے۔ میں نے یا کسی اور نے ایسا کچھ نہیں کہا جیسا وی لاگ میں کہا گیا، میں نے اس حوالے سے اضافی دستاویزات بھی جمع کروا دی ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صحافی نے وی لاگ کر کے اور وفاق کا حوالہ دے کر غدار کہنے کی کوشش کی جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایسی بات نہ کریں، ادارے کی طرف سے کسی کے وی لاگ یا رپورٹنگ کرنے پر پابندی نہیں لگائی گئی ۔

سینئر صحافی حامد میر کاکہنا تھا کہ صرف یہ بات نہیں ہوئی کہ کشمیر فارن ٹیراٹری ہے بلکہ پراسیکیوٹر جنرل نے یہ بھی کہا کہ کشمیر میں بھی 9 مئی جیسے واقعات ہوئے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا میں نے اس طرح سے بات نہیں کی تھی ، میں سینئر صحافی کا بہت احترام کرتا ہوں مگر انہوں نے ایک کالم لکھ کر میرے بیان کا غلط تاثر دینے کی کوشش کی جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کیا میں ان کا کالم مسترد کر دوں؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں آزادکشمیر کا اپنا وزیراعظم، آئین، عدالتیں اور پارلیمنٹ ہیں، یہ دائرہ اختیار کی بات ہے۔ سینئر صحافی کی اپنے ایک رائے ہے اور اخبار خود کہتا ہے کہ ناشر کا صحافی کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

https://twitter.com/x/status/1799365462343528545
 
Last edited by a moderator:

Back
Top