لوہار کورٹ ایسے نہیں کہا جاتا بھائی یہی تماشہ ہے
روف کلاسرا نے ٹی وی پروگرامز میں کئی مرتبہ اون ائیر یہ باتیں کی ہیں وہ کہتا ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب آصف زرداری صدر پاکستان تھا پنجاب میں نونی لیگ شہباز شریف کی حکومت تھی اور انہوں نے یعنی نونی لیگ نے ایک لمبی 22 لوگوں کی لسٹ ججوں کو پوائنٹ کرنے کے لیے صدر آصف زرداری پاکستان کو منظوری کے لیے بھیج رکھی تھی اور زرداری اس کو سلمان تاثیر کے کہنے پر روکے رکھا تھا یعنی منظور نہیں کر رہا تھا اس بات کو لے کر نونی لیگ اور پیپلز پارٹی میں بڑی ٹینشن چل رہی تھی میں کراچی جارہا تھا فرسٹ کلاس پر اتفاق سے میری سیٹ سلمان تاثیر اس وقت کے گورنر کے ساتھ ہو گئی اس سفر کے دوران میں نے موقع غنیمت جانا اور سلمان تاثیر کو سوال کر دیا کہ آپ نے صدر پاکستان کو ججز کی لسٹ منظور کرنے سے کیوں روکا ہوا ہے جانے دیں تو اس نے جواب دیا تمھیں پتا ہے ان ججوں کی لسٹ میں 17 ججز کشمیری ہیں میں بڑا حیران ہوا اور کہا اس میں کیا ہے تو اس نے کہاوہ کشمیری ہی نہیں بلکہ وہ سارے نواز شریف کے غلام ان غلام کی طرح ملازم ہیں یہ لوگ اس طرح اپنے زرخرید جج لگاتے ہیں اور حکمرانی کرتے ہیں اگر یہ جج لگ گئے اگلے 20 سال انہیں تو سٹے پے سٹے ملیں گیں اور ہمیں کوئی ضمانت نہیں دے گا اب آپ سمجھ گئے ہوں گیں لوہار کورٹ کیوں کہا جاتا ہے اسی طرح انہوں نے بیوروکریسی پولیس یہاں تک فوج میں بھی نچلے دوجے سے ترقیاں دے کر ہر جگہ اپنے بندے گھسائے ہوئے ہیں جو بر وقت ضرورت ان کو پرٹیکٹ کرتے ہیں