ابنِ مریم کے چاہنے والے

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
images

ابنِ مریم کے چاہنے والے


مشتاق احمد خان
مسجدیں، امام بارگاہیں، اور اب ایک گرجا گھر… خودکش دھماکے، بارود کی بو، دم توڑتے انسان، زخموں سے کراہتے انسان، اپنوں کو مرتا دیکھتے، آنسو بہاتے، چیختے دھاڑتے بے بس انسان… بکھرتے اعضائ، زخموں سے بہتا لہو، ایمبولینسوں کے سائرن، دوڑتے بھاگتے رضاکار، اسپتالوں میں ایمرجنسی کے اعلانات، زخمیوں کی جان بچانے کے لیے خون کا عطیہ دینے والوں کی لمبی قطاریں، جلد یا بدیر جائے حادثہ پر پہنچنے والے حکمران، دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزائم، ہلاک شدگان اور زخمیوں کے لیے امداد کا اعلان… ایسا لگتا ہے ایک ہی اسکرپٹ ہے جو بار بار دوہرایا جاتا ہے… کبھی عبادت گاہوں میں، کبھی بازاروں میں، کبھی سرکاری اداروں میں، کبھی تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کی تنصیبات یا دفاتر میں… کراچی سے پشاور تک، کوئٹہ سے لاہور تک… فرق صرف سانحے کی شدت کا ہوتا ہے… مرنے والوں یا زخمیوں کی تعداد کا، یا ذمہ داری قبول کرنے والوں کے ناموں کا۔

یوں تو ہر واردات قابلِ مذمت اور ہر وارداتیا قابلِ نفرت ہے چاہے نقصان انفرادی ہو یا اجتماعی، نشانہ پبلک ٹرانسپورٹ ہو یا فوجی گاڑی، اسپتال ہو یا شاپنگ مال، سول انتظامیہ کے دفاتر ہوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے۔ لیکن عبادت گاہیں… جب کبھی کہیں کوئی عبادت گاہ نشانہ بنتی ہے تو دکھ دوچند ہوجاتا ہے، حد سے گزر جاتا ہے۔ مندر ہو یا گرجا گھر، مسجد ہو یا امام بارگاہ… لوگ وہاں سکونِ قلب کے لیے جاتے ہیں۔ اپنے دکھوں، غموں اور مسائل کے حل کے لیے، مشکلات سے نجات کے لیے… اس بالاتر ہستی کو پکارتے لوگ جسے وہ عبادت کے لائق سمجھتے ہیں۔ ہندو بھگوان کے چرنوں میں ماتھا ٹیکتا… عیسائی سینے پر صلیب کا نشان بناتا، یسوع مسیح کو پکارتا… مسلمان دیوبندی ہوکہ بریلوی، اہلحدیث ہو یا اہلِ تشیع، جھکنے والوں کے ساتھ جھکتا اور زمین پر ماتھا ٹیک کر سبحان ربی الاعلیٰ کا ورد کرتا ہے۔ ہر مذہب میں عبادت کے ساتھ پاکیزگی کا ایک تصور وابستہ ہے۔ ذہنی پاکیزگی سے پہلے جسمانی پاکیزگی۔

میرے گھر کے بالکل سامنے ایک عیسائی فیملی رہتی ہے۔ ان کی خواتین اور بچے بڑے اہتمام کے ساتھ سنڈے سروس میں شرکت کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ میں چشم تصور سے دیکھ سکتا ہوں کس طرح پشاور بھر سے مرد وزن، بوڑھے اور بچے، پاک صاف ہوکر… اپنی روحوں کی پاکیزگی، گناہوں سے نجات اور گردشِ ایام کی صعوبتوں سے چھٹکارے کے لیے لبوں پر دعائیں سجائے اس گرجا گھر میں پہنچے ہوں گے جہاں ذرا سی دیر میں موت کے سوداگر اپنا ناپاک کھیل کھیلنے والے تھے۔ سروس ہوئی ہوگی۔ گیت گائے گئے ہوں گے۔ مناجاتیں کی گئی ہوں گی… اجتماعی بھی اور انفرادی بھی۔ کسی بے روزگار نے روزگار مانگا ہوگا۔ کسی بے قرار دل نے دل کا قرار مانگا ہوگا۔ کسی نے ماں یا باپ کے لیے صحت کی دعا کی ہوگی۔ کسی نے بچے یا بچی کے لیے درازیٔ عمر کی۔ رب کائنات کا ارشاد ہے ’’نماز اور صبر سے مدد حاصل کرو‘‘۔ اس نصیحت پر عمل کرنے والے جانتے ہیں کہ اس عمل سے گزرتے ہوئے دل کی بے ربط دھڑکنیں کس طرح مرتب اور منظم ہوتی ہیں۔ دماغ پر سوار بوجھ کیسے ہلکا ہوتا ہے۔ ذہن کے جالے کس طرح اترتے اور انسان اپنے آپ کو کس طرح ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ میں محسوس کرسکتا ہوں عبادت سے فارغ ہوکر واپس پلٹتے لوگ اپنے آپ کو کتنا ہلکا پھلکا محسوس کررہے ہوں گے۔ ہم نے خداوند خدا سے کہہ دیا ہے ناں۔ ہم نے یسوع مسیح کو اپنے زخم دکھا دیے ہیں ناں… اب فکر کاہے کی ہے! خداوند خدا ہے ناں، ہمارے مسائل کے حل کے لیے۔

لیکن جب یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکے ہوئے تو ایک لمحے میں سارا چین، سارا اطمینان ہوا ہوگیا ہوگا۔ ہراساں ہوکر دوڑتے مرد و زن، بلکتے بچے جن کی خوفزدہ مائیں ان کے ہاتھ مضبوطی سے تھام کر کسی محفوظ مقام کی طرف لپک رہی ہوں گی، اور ان سب کے درمیان زندگی کی بازی ہار جانے والے مرد و زن… ممکن ہے ان مارے جانے والوں میں کوئی اپنی ماں یا باپ کے لیے جو بستر مرگ پر پڑا ہو، زندگی کی بھیک مانگنے آیا ہو، اور خود زندگی سے محروم ہوگیا ہو۔ ممکن ہے ان مارے جانے والوں میں سے کسی نے اپنے کسی زخمی عزیز کے زخم بھر جانے کی دعا مانگی ہو اور خود زخموں سے چور ہوگیا ہو۔ کوئی جواں مرد اپنی بیوی کو اس وعدے پر ساتھ لے کر نکلا ہو کہ واپسی پر کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا کھائیں گے۔ لیکن اسے بیوی کی آخری رسومات کے انتظامات میں مصروف ہونا پڑا ہو۔ کوئی ماں دیوانہ وار اپنے بچے کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کے بے جان لاشے تک پہنچی ہو اور ’’نہیں… ایسا نہیں ہوسکتا۔ خداوند خدا… میرا بچہ نہیں مرسکتا‘‘ کہتے ہوئے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی ہو۔ آہ! موت تُو کتنی سفاک ہے، نہ بچوں کے بچپن پر تجھے رحم آتا ہے، نہ جوانوں کی رعنائی پر ترس۔ عجیب ہے، تُو بہت عجیب ہے۔ بوڑھے سے عصائے پیری چھین لیتی ہے اور جوان عورت سے مانگ کا سندور۔ لیکن تجھ سے زیادہ سنگدل وہ ہیں جو تیری آمد کا انتظام کرتے ہیں۔ اہتمام کرتے ہیں۔ بم بناتے، لگاتے اور دھماکے سے اڑاتے ہیں۔

دھماکا چونکہ گرجا گھر میں ہوا لہٰذا ایک مخصوص طبقے نے اقلیتوں کے غیر محفوظ ہونے کا واویلا شروع کردیا ہے۔ بے شک پاکستان میں امن و امان کی صورت حال قابو سے باہر ہے۔ حکومت دہشت گردوں سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔ لیکن پاکستان کے اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ہونے کا اعلان ایک کھلا جھوٹ ہے۔ مختلف قسم اور قماش کے دہشت گروں کے ہاتھوں نہ مسجدیں محفوظ ہیں نہ امام بارگاہیں…نہ مذہبی عناصر محفوظ ہیں نہ سیکولر… نہ مدارس میں پڑھے ہوئے محفوظ ہیں نہ ملکی و غیر ملکی جامعات کے تعلیم یافتہ۔ گزشتہ دہائیوں میں ہر طبقہ، ہر مسلک، ہر زبان بولنے والے انفرادی اور اجتماعی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ لیکن اس بدقسمت ملک کا ناتراشیدہ میڈیا مرنے والوں کی شناخت نہ انسان کے طور پر کرتا ہے نہ پاکستانی کے طور پر… ٹی وی اسکرین اور اخبارات کے صفحات میں مرنے والے عیسائی ہوتے ہیں… ہندو ہوتے ہیں… دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث یا اہلِ تشیع ہوتے ہیں۔ حالانکہ دہشت گردی کی بیشتر وارداتوں میں مرنے والوں کو ان کی مذہبی شناخت کی وجہ سے ہلاکت کا سامنا نہیںکرنا پڑتا، بلکہ یہ اندھی کارروائی ہوتی ہے جس کا مقصد ریاست کو غیر مستحکم کرنا اور اس کی رٹ کو چیلنج کرنا ہوتا ہے، یا اپنے کسی اور مذموم مقصد کا حصول۔

گزشتہ روز حیدرآباد میں ہم جماعت اسلامی کی ریلی کے لیے جیم خانہ چوک پر جمع تھے کہ مسیحی نوجوانوں کا ایک گروہ جو مظاہرہ کرنے پریس کلب جارہا تھا وہاں رکا اور نعرے بازی کرنے لگا۔ میں نے ان سے اپنا تعارف کرایا۔ ان کے ساتھ پریس کلب تک گیا۔ ان کی حمایت میں اظہارِ خیال کیا۔ وہاں چند نوجوان مسلسل ’’ملا عمران مُردہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ نعرہ اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کمیونٹی اس طرزعمل کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو۔

ضرورت تو اس امر کی بھی ہے کہ ہر واردات کا الزام طالبان پر لگانے کی روش سے گریز کیا جائے اور طالبان کی طرف سے کسی کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کے معاملے کو بھی پروفیشنل بنیادوں پر جانچا جائے کہ یہ محض زبانی دعویٰ ہے یا اس کے پیچھے کوئی حقیقت موجود ہے۔ یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ مختلف کارروائیوں کا ملبہ کسی ایک تنظیم پر ڈالنے کے خواہش مند بعض اوقات اصل ذمہ داروں کی غیر محسوس مدد کررہے ہوتے ہیں۔

اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ اے پی سی میں طالبان سے مذاکرات کے فیصلے کے بعد آخر کارروائیوں میں تیزی کیوں آگئی ہے؟ پی پی کے ذمہ داران کا سانحہ پشاور پر یہ بیان کہ اب طالبان سے مذاکرات پر ازسرنو غور کرنا چاہیے، اور اس حوالے سے ایم کیو ایم اور اے این پی کا طرزِعمل… ان سب کے تجزیوں کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس واردات کی ٹائمنگ پر غور کی بھی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف جب اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچیں گے تو یورپی عیسائی ممالک کے سربراہوں کا ان سے ملاقات میں پہلا سوال کیا ہوگا؟ یقینا یہی کہ پاکستان میں ان کی ہم مذہب عیسائی برادری غیر محفوظ کیوں ہے؟ یہ سوال وزیراعظم نوازشریف کو بیک فٹ پر لے جائے گا۔ اگر نوازشریف بیک فٹ پر جاتے ہیں تو اس کا طالبان کو آخر کیا فائدہ ہوگا؟ اس کا فائدہ تو یقینا اُن قوتوں کو ہوگا جو افغانستان کے تناظر میں پاکستان کو اپنی شرائط پر اپنے ساتھ چلتے رہنے پر مجبور کرنا چاہتی ہیں۔ جب کہ اس پالیسی کو تبدیل کیے بغیر طالبان فیکٹر پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ تو یہ کیوں نہ سوچا جائے کہ یہ دھماکا طالبان سے مذاکرات کو سبوتاز کرنے کے لیے ہے!



http://jasarat.com/index.php?page=03&date=2013-09-24
 

Back
Top