آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
ممتاز استاد اور سوشل ایکٹوسٹ پرویز ہودبھائی نے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام سوچ اور اظہار کی پابندیوں کا شکار ہیں۔ تمام ذرائع ابلاغ پر صرف ایک بیانیہ پیش کیا جارہا ہے اور مقتدر حلقوں کے خلاف بات کرنا مشکل بنادیا گیا ہے۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار امریکی ریاست میری لینڈ میں اظہار رائے پر پابندیوں کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کیا۔ تقریب کا اہتمام امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی تنظیم پروگریسو پاکستان الائنس نے کیا تھا۔
پرویز ہودبھائی نے عاصمہ جہانگیر کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی سب سے توانا آواز اور آزادی اظہار کی سب سے بڑی وکیل تھیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک سرکاری ادارے کےخلاف درخواست دی تھی کہ وہ 62 ریڈیو چینل کیوں چلا رہا ہے اور اس طرح عوام کی ذہن سازی کیوں کررہا ہے۔ لیکن ان کی زندگی میں اس درخواست کی سماعت نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں درجنوں نیوز چینل ہیں۔ ان دنوں آپ کوئی سا چینل کھو لیں، سب پر ایک جیسی بات کی جارہی ہو گی۔ دو سال پہلے کچھ مختلف نظریات کبھی کبھی سننے میں آ جاتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اخبارات بھی مخالفانہ چیز شائع کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ڈان اخبار اور جیو نیوز نے پابندیاں بھگتی ہیں۔ کنٹونمنٹ کے علاقے میں اب بھی ان کے سگنل نہیں پہنچتے۔
پرویز ہودبھائی نے شعر پڑھا۔
اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکر خدا داد سے روشن ہے زمانه
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
انہوں کہا کہ قومی شاعر ایسے شعر کہتے ہیں تو عوام کے لیے آزادی افکار مشکل ہو جاتی ہے۔ عوام کو سرکاری اداروں مثلا پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل کی کارگزاری پر اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے۔ میرا تعلق تعلیم کے شعبے سے ہے۔ اپنا کام نہ کرنے والے پروفیسروں کو برا بھلا کہا جاسکتا ہے۔ سیاست دانوں کا بھی احتساب ہو سکتا ہے بلکہ زیادہ ہونا چاہیے۔ لیکن صرف سیاست دانوں کا کیوں؟ جرنیلوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔
ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ شہزاد چودھری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ جرنیلوں کا احتساب نہیں ہوتا۔ اس وقت نیب کے کہنے پر تین چار جرنیلوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں اور ان کے خلاف انکوائری جاری ہے۔ سپریم کورٹ میں سابق آرمی چیف پیش ہورہے ہیں۔ ایف آئی اے میں جنرل اسد درانی اور جنرل مرزا اسلم بیگ پیش ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ رولز کی خلاف ورزی پر فوج کے اندر بھی کارروائی ہوتی ہیں۔ سزائیں دی جاتی ہیں، جیل بھی ہوتی ہے اور ملازمت سے برطرف بھی کیا جاتا ہے۔
شہزاد چودھری نے کہا پاکستان میں پاکستان کی افواج پر جتنی تنقید کی جاتی ہے، اتنی کسی اور ملک میں اس کی فوج پر نہیں ہوتی۔ ہمارے پریس نے فوج کے مختلف نام رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ان ناموں سے فوج پر تنقید کرتا ہے۔ فوج ان کا جواب نہیں دے پاتی۔ ماضی میں یقینا پریس کو فوج کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ چار مارشل لا گزرے ہیں لیکن گزشتہ دس سال میں فوج نے جمہوریت کے لیے قابل تحسین کام کیا ہے اور اب بھی الیکشن کے لیے خدمات انجام دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی نیوز چینل یا اخبار فوج کو براہ راست تنقید کا نشانہ بناتا ہے بلکہ فوجی افسروں کو اکساتا ہے تو ان کے پاس چوائس ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر میں، اپنے علاقے میں، کنٹونمنٹ میں اس چینل کو بند کردیں یا وہ اخبار نہ خریدیں جو حد سے آگے بڑھ گیا ہو۔
Source
ممتاز استاد اور سوشل ایکٹوسٹ پرویز ہودبھائی نے کہا ہے کہ پاکستان کے عوام سوچ اور اظہار کی پابندیوں کا شکار ہیں۔ تمام ذرائع ابلاغ پر صرف ایک بیانیہ پیش کیا جارہا ہے اور مقتدر حلقوں کے خلاف بات کرنا مشکل بنادیا گیا ہے۔ انھوں نے ان خیالات کا اظہار امریکی ریاست میری لینڈ میں اظہار رائے پر پابندیوں کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کیا۔ تقریب کا اہتمام امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی تنظیم پروگریسو پاکستان الائنس نے کیا تھا۔
پرویز ہودبھائی نے عاصمہ جہانگیر کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی سب سے توانا آواز اور آزادی اظہار کی سب سے بڑی وکیل تھیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک سرکاری ادارے کےخلاف درخواست دی تھی کہ وہ 62 ریڈیو چینل کیوں چلا رہا ہے اور اس طرح عوام کی ذہن سازی کیوں کررہا ہے۔ لیکن ان کی زندگی میں اس درخواست کی سماعت نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں درجنوں نیوز چینل ہیں۔ ان دنوں آپ کوئی سا چینل کھو لیں، سب پر ایک جیسی بات کی جارہی ہو گی۔ دو سال پہلے کچھ مختلف نظریات کبھی کبھی سننے میں آ جاتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اخبارات بھی مخالفانہ چیز شائع کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ڈان اخبار اور جیو نیوز نے پابندیاں بھگتی ہیں۔ کنٹونمنٹ کے علاقے میں اب بھی ان کے سگنل نہیں پہنچتے۔
پرویز ہودبھائی نے شعر پڑھا۔
اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکر خدا داد سے روشن ہے زمانه
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
انہوں کہا کہ قومی شاعر ایسے شعر کہتے ہیں تو عوام کے لیے آزادی افکار مشکل ہو جاتی ہے۔ عوام کو سرکاری اداروں مثلا پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل کی کارگزاری پر اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے۔ میرا تعلق تعلیم کے شعبے سے ہے۔ اپنا کام نہ کرنے والے پروفیسروں کو برا بھلا کہا جاسکتا ہے۔ سیاست دانوں کا بھی احتساب ہو سکتا ہے بلکہ زیادہ ہونا چاہیے۔ لیکن صرف سیاست دانوں کا کیوں؟ جرنیلوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔
ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ شہزاد چودھری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ جرنیلوں کا احتساب نہیں ہوتا۔ اس وقت نیب کے کہنے پر تین چار جرنیلوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں اور ان کے خلاف انکوائری جاری ہے۔ سپریم کورٹ میں سابق آرمی چیف پیش ہورہے ہیں۔ ایف آئی اے میں جنرل اسد درانی اور جنرل مرزا اسلم بیگ پیش ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ رولز کی خلاف ورزی پر فوج کے اندر بھی کارروائی ہوتی ہیں۔ سزائیں دی جاتی ہیں، جیل بھی ہوتی ہے اور ملازمت سے برطرف بھی کیا جاتا ہے۔
شہزاد چودھری نے کہا پاکستان میں پاکستان کی افواج پر جتنی تنقید کی جاتی ہے، اتنی کسی اور ملک میں اس کی فوج پر نہیں ہوتی۔ ہمارے پریس نے فوج کے مختلف نام رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ان ناموں سے فوج پر تنقید کرتا ہے۔ فوج ان کا جواب نہیں دے پاتی۔ ماضی میں یقینا پریس کو فوج کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ چار مارشل لا گزرے ہیں لیکن گزشتہ دس سال میں فوج نے جمہوریت کے لیے قابل تحسین کام کیا ہے اور اب بھی الیکشن کے لیے خدمات انجام دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی نیوز چینل یا اخبار فوج کو براہ راست تنقید کا نشانہ بناتا ہے بلکہ فوجی افسروں کو اکساتا ہے تو ان کے پاس چوائس ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر میں، اپنے علاقے میں، کنٹونمنٹ میں اس چینل کو بند کردیں یا وہ اخبار نہ خریدیں جو حد سے آگے بڑھ گیا ہو۔
Source