آرٹیکل 175 اے کے تحت نئی تقرری ہو سکتی ہے، آئینی بینچ

1748512591887.png




سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں زیرِ سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی ٹرانسفر اور سینیارٹی سے متعلق کیس میں درخواست گزار ججز کے وکیل، بیرسٹر صلاح الدین کے جواب الجواب دلائل مکمل نہ ہو سکے، جس پر عدالت نے سماعت 16 جون تک ملتوی کر دی۔


ڈان نیوز کے مطابق، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔


بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ جج کے تبادلے سے نشست خالی نہیں ہو سکتی، اور اگر جج کا مستقل تبادلہ کیا گیا تو آئین کا آرٹیکل 175 اے غیر مؤثر ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کسی جج کی ایک ہائیکورٹ سے دوسری میں مستقل ٹرانسفر کی مثال موجود نہیں۔


جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے۔


بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ آرٹیکل 200 کے تحت صرف عبوری تبادلہ ممکن ہے جبکہ مستقل تقرری جوڈیشل کمیشن ہی کر سکتا ہے۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز کی نئی تقرری ممکن ہے، تاہم تقرری اور تبادلہ دو الگ معاملات ہیں۔


صلاح الدین نے استدلال دیا کہ جج کے تبادلے کے لیے با معنی مشاورت ضروری ہے، اور جب مشاورت صرف رسمی ہو تو یہ محض دکھاوا رہ جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تبادلے کے عمل میں بعض معلومات چھپائی گئیں اور کچھ غلط بیانی سے کام لیا گیا۔


انہوں نے نشاندہی کی کہ سمری میں بتایا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پنجاب سے صرف ایک جج ہے، جبکہ درحقیقت تین ججز پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حقائق چھپانے کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے، خصوصاً جب جسٹس محمد آصف کو تقرری کے صرف 20 دن بعد ٹرانسفر کر دیا گیا۔


جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ججز کے تبادلے کا اختیار صدر پاکستان کے پاس ہے، جبکہ اس عمل کا آغاز وزارتِ قانون نے کیا۔


بیرسٹر صلاح الدین نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 200 (1) میں تبادلے کی مدت کا ذکر نہیں، اور ان کی معلومات کے مطابق تبادلہ شدہ ججز اضافی الاؤنسز وصول کر رہے ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل نے ان اضافی الاؤنسز کی تردید کر دی ہے۔


مزید دلائل میں صلاح الدین نے کہا کہ چاہے جج مرکزی دروازے سے آئے یا سائیڈ دروازے سے، اسے حلف لینا ہو گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اگر تبادلہ مستقل نہیں تو پھر حلف کی کیا ضرورت ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ یہ عارضی حلف ہو گا۔


انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ججز کی سینیارٹی کے اصول عدالتی فیصلوں سے اخذ کیے گئے ہیں، جن میں شفافیت، ماضی کی عدالتی پریکٹس اور سول سروس رولز سے رہنمائی لی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر دو افراد کی ایک ہی دن تقرری ہو تو عمر کی بنیاد پر سینیارٹی طے کی جاتی ہے۔


جسٹس محمد علی مظہر نے اتفاق کیا کہ یہ اصول عدلیہ میں بھی لاگو ہوتے ہیں، جس پر صلاح الدین نے کہا کہ یہ آئین یا قانون میں تو درج نہیں لیکن عدالتی فیصلوں میں ضرور موجود ہیں۔


ایک سوال پر کہ کیا تبادلہ شدہ جج اپنی سروس بک ساتھ لائے گا، وکیل نے کہا کہ جی ہاں، سروس بک سینیارٹی کے لیے نہیں بلکہ مراعات اور پنشن کے لیے ضروری ہے، کیونکہ نیا حلف لینے سے سینیارٹی کے تعین کا عمل شروع ہوتا ہے۔


سماعت مکمل نہ ہونے پر عدالت نے کیس 16 جون تک ملتوی کر دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر آئندہ سماعت پر دلائل مکمل ہو گئے تو بینچ مشاورت کے بعد مختصر فیصلہ سنا دے گا۔


وکیل کی استدعا پر کہ سماعت کل کر لی جائے، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کل بینچ کے کچھ ججز دستیاب نہیں ہوں گے، جس پر صلاح الدین نے تجویز دی کہ آج دوپہر ایک بجے کے بعد سماعت رکھ لی جائے، تاہم جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آج سماعت مکمل نہیں ہو پائے گی۔


جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ جواب الجواب میں اکثر نئے سوالات بھی آ جاتے ہیں۔
 

Back
Top