battery low
Chief Minister (5k+ posts)

ہم مڈل کلاس لوگوں کی زندگی بڑے اندیشوں، بڑی بے یقینی میں گزرتی ہے۔ ہم دودھ کے جلے، بڑے pessimistic ہوتے ہیں، چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں۔ سیاست پر بات آئے تو تحقیر آمیز مسکراہٹ کے ساتھ ”یہ سب ایک جیسے ہیں“ کہہ کر خود کو بڑادانشور سمجھتے ہیں کہ جیسے ہم کسی بڑے جال سے بچ جاتے ہیں۔ کچھ فوجی آمریت کے متعدد ادوار اور کچھ موروثی سیاست دانوں کے اپنے کرموں نے کبھی مڈل کلاس کی سیاست کو ملک میں فروغ پانے بھی نہیں دیا۔ ووٹ دینا غریب کا فرض اور حکمرانی امیر کا حق سمجھ کر ہم اپنے احساسِ برتری اور کمتری کے درمیان پینڈولم ہی بنے رہے۔ ایک نسل نے زندگی ایسے نکال لی۔
امید تو بہت سوں کو یہی تھی کہ اگلی بھی ایسی ہی نکال لے گی۔۔ غریب نان بریانی پہ ووٹ دے گا۔ امیر راج کرے گا۔ مڈل کلاس والا ”یہ سب ایک سے ہیں“ کہہ کر اپنی فہم کے خبط میں رہے گا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں جب آئی ایس ایف کی بنیاد ڈالی تو بڑے طنزیہ لہجے اور تحقیر آمیز مسکراہٹوں کا سامنا کیا۔ ہر خیر خواہ بغل سے گزرتے ”یہ سب ایک جیسے ہیں“ کی زہریلی دھار کان میں انڈیل کر جاتا تھا۔ بہت سے مراحل پر ان لہجوں کی چبھن حقیقتوں میں تبدیل ہوئی۔ بہت سی ان مسکراہٹوں سے اس راستے میں دوبارہ ملاقات ہوئ۔ بڑی بار تیقن میں ”ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا“ کے خنجر گھونپے گئے۔
لیڈر شپ بڑی ذمہ داری کا کام ہوتا ہے ایک جنبش آبرو میں آدمی کی توقیر عرش سے فرش پہ آجاتی ہے، کم ہی کوئی اپنے حرف کے معیار پہ پورا اتر پاتا ہے۔۔ سو بڑے بت ٹوٹتے دیکھے ہیں اور زندگی مستقل اسی خوف میں گزری ہے کہ کب کون سا چکنا چور ہو۔آج عمران خان کو قید میں ایک سال مکمل ہوجائیگا۔ میری دھرتی کا اثاثہ وہ جو میری قوم کی تقدیر بدل سکتا تھا اپنے دن سلاخوں کے پیچھے کاٹ رہا ہے۔ وہ اس سلوک کا تو کبھی بھی مستحق نہ تھا، وہ تو سر آنکھوں پہ بٹھانے کے قابل تھا۔
میرے لیے ہر وہ شخص تاعمر ناقابلِ معافی رہے گا کہ جو عمران خان کے ساتھ اس سلوک میں کسی بھی صورت سہولت کار بنا، بحیثیتِ کارکن میں اُس کے خود پر لاگو کیے ڈسپلن کا پابند ہوں مگر بحیثیتِ پاکستانی میرے لیے یہ بہت شرم کا مقام ہے کہ میرے ملک کا سب سے جری بیٹا ناحق پابندِ سلاسل ہے۔ اور وہ وقت کہ جو اس ملک کو عظیم تر بنانے میں صرف ہوسکتا تھا کیسے برباد ہورہا ہے۔یہ میرا ایمان ہے کہ عمران خان اس جنگ میں سرخرو ہوگا۔ جلد یا بدیر۔ مگر اس وقت کے زیاں کے لیے، اس کو پہنچنے والی ہر تکلیف کے لیے میں بحیثیت پاکستانی تمام عمر شرمندہ رہونگا،
عمران خان سے بھی اور اپنی قوم کی آئیندہ آنے والی نسلوں سے بھی۔مگر وہ ۲۰-۲۱ سالہ جوان کہ جس نے اِس شخص میں امید دیکھی، اُسے مشعل راہ سمجھا، اپنا لیڈر مانا۔۔ وہ جس نے اپنے مڈل کلاس کے curse سے نظریں بچا کر اس شخص کی پیروی میں اس میدان خارزار میں قدم رکھا آج وہ میری نگاہوں میں سرخرو کھڑا ہے۔ کہیں ہر وہ خدشہ، اندیشہ، وہ تذبذب کا لمحہ، وہ لحظہ بھر کے یقیں کی لڑکڑاہٹ، وہ ایمان کی لرزش سرنگوں ہے۔ وہ لوگ کہ جن تک عمران خان کا پیغام پہنچایا، جن کی آنکھوں میں امید کی شمع جلائی۔ اپنی زبان سے ادا ہونے والا ہر حرف۔ اپنے ساتھ قدم ملا کر چلنے والے، اپنے سے منسوب لوگوں کے سامنے میں سربلند ہوں تو اس شخص کی استقامت، اس کے ایمان کے باعث۔میں شرمندہ ہوں مگر مجھ میں موجود ایک نوجوان کو بہت فخر ہے،
وہ سمجھتا ہے اس کی زندگی ضائع نہیں گئی۔ کسی سچے آدمی کی بات کے یقیں میں بسر ہوئی ہے۔ کسی باکردار شخص کی پیروی میں صرف ہوئی ہے۔ہم قدم قدم پر ڈسے ہوئے لوگوں کے لیے یہ بڑی بات ہے کہ جس کی خاطر ہم اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر نکلیں وہ ہمارے لیے ایسے بھڑ جائے کہ اس کے سامنے سب ہیچ ہوجائے۔ ہم ”یہ سب ایسے ہیں“ کے خنجر پسلیوں میں لے کر پھرنے والی قوم کا مان کوئی ایسے رکھ لے کہ وفاداری کے معیار ہی بدل جائیں۔ ایسے بھلا کب ہوا ہے۔ ہماری تقدیر میں کوئی عمران خان اس سے پہلے بھلا کب لکھا گیا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1820360122507362548
Last edited by a moderator: