آئیں حسینؑ کا غم مل کر منائیں

Status
Not open for further replies.

Shah Shatranj

Chief Minister (5k+ posts)
کہیں سے واقعہ کربلا کے عینی شاہدوں کے بیانات مل سکتے ہیں
ہر بندہ ایک اور ہی کہانی سناتا ہے
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم

کیوں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو برا کہہ رہے ہو

یزید کو عوام نے نہی چنا تھا
یہی تو کمال ہے یزید کو برا کہتے ہیں جس پر عوام کا کوئی اختیار نہیں تھا نا ہے اور جب عوام کو اختیار ملا تو اس جیسے حکمران چنتے ہیں
 

پرفیکٹ ڈنگر

MPA (400+ posts)
یہی تو کمال ہے یزید کو برا کہتے ہیں جس پر عوام کا کوئی اختیار نہیں تھا نا ہے اور جب عوام کو اختیار ملا تو اس جیسے حکمران چنتے ہیں


کیا تم نے کبھی اسلامی تاریخ پڑھی ہے یا سارا دن یونہی بکواس کرتے رہتے ہو اور اسلام کو بدنام کرتے رہتے ہو
انتہائی بے وقوف شخص ہو ، گدھا تمھرے سے سو گنا اچھا ہوتا ہے
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم

کیا تم نے کبھی اسلامی تاریخ پڑھی ہے یا سارا دن یونہی بکواس کرتے رہتے ہو اور اسلام کو بدنام کرتے رہتے ہو
انتہائی بے وقوف شخص ہو ، گدھا تمھرے سے سو گنا اچھا ہوتا ہے
تم مجھ سو گنا اچھے ہو لیکن ہو تو .... ہی نا
 

crowbar

Senator (1k+ posts)
Han ji , 9th aor 10th Muharam ko Peghamber PBUH ne roza rakhne ki takid ki ti, roza rakhna. Un dino mein sar per kala kapra bandh ker Murghe musalim aor Roh Afza kha pee ker dakaren na marna.
 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
یزید جیسے کردار والے حکمران چننا اور ویسا ہی طرز حکومت پسند کرنا اور غم حیسن رضی الله منانا حسینیت نہیں یزدیت ہے

انصاری بھائی یزید جیسوں کی بھی بات کرتے ہیں۔ لیکن یہ تو بتائیں یزید کو کس نے اپنی زندگی میں حکمران مقرر کیا تھا اور کن لوگوں نے چُنا تھا؟ یعنی آپ کے مطابق وہ بھی یزیدی تھے؟؟ اگر آپ یہاں کلمہ حق کہنے کی جرات نہ کر پائیں تو لوگوں سے ایسے سوالات مت کیا کریں؟؟
 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
نہی ، یہی غلطی ہے
ٹسوے اور آنسو میں بہت فرق ہوتا ہے
اور غم منایا نہی جاتا ، غم محسوس کیا جاتا ہے


رسول کریم عملی انسان تھے ، کیا ہم عملی انسان ہیں ؟
اگر رسول اور حسین کا غم محسوس کرنا ہے تو ان کے مشن کو پورا کریں


اپنے میں سے منافقت ختم کریں ، اپنی کمی اور کوتاہی کو مانیں اور اس پورا کریں
یقیناً ٹسوے (دکھاوے کے آنسوؤں ) اور آنسوأں میں فرق ہوتا ہے۔ لیکن میں نے آپ کے طنزیہ سوال کا طنزیہ جواب دیا تھا۔ کیونکہ اصل محاورا ٹسوے بہانا ہے اور میں نے لفظ ٹسوے نکلنا استمعال کیا تھا۔۔۔۔
غم منایا بھی جاتا ہے اور غم محسوس بھی کیا جاتا ہے۔ جب غم محسوس کرنے والے مل کر اپنے محبوب کی یاد میں مجلس غم برپا کریں اور اُس میں اُس محبوب کی سیرت کا تذکرہ کیا جائے اور اُس کی مظلومیت کو واضح کیا جائے تو اس کو غم منانا کہتے ہیں۔ اور یہ سیرت اھلبیت سے ثابت ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکمل انسان تھے۔ ہم لوگ خاطی ہیں گناہ گار ہیں۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اُن کے اھلبیت سے محبت کرتے ہیں اور اپنی خطاؤں اور کمزوریوں کا اقرار کرتے ہیں۔ اور ان شاءاللہ جب اُن کے مشن کا حقیقی وارث (حضرت امام مھدی) آئے گا تو ہم ان شاءاللہ اُن کے دائیں بائیں ہوں گے۔ ان شاء اللہ العزیر۔ اللھم صلی علی محمد و آل محمد۔

 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى لسان اطہر سے "سيد الشہداء " كا لقب معین طور پر ، عم رسول شہید اُحد حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضى اللہ عنہ کے ليے ادا ہوا ہے
۔
یقیناً حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؑ کو بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سید الشہداء کا لقب عطا فرمایا ہے۔ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کیلیے بھی یہی لقب بیان کیا ہے۔ اور آپ کیوں کر بھول رہے ہیں کہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؑ حضرت امام حسین علیہ السلام دادا ہی تو ہیں۔ میں اس بات کا تذکرہ اپنی اس تھریڈ میں بمعہ حوالہ کرچکا ہوں۔
امت کے سردار (سید) رسولؐ کی زبانی



 
Last edited:

Farzand e Pakistan

MPA (400+ posts)
1480630_627311840694531_2072589453_n.jpg


hqdefault.jpg
 
Last edited:

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
یار پیلیا صاحب مجھے نہیں پتہ کہ کون تمہاری میل بھر لمبی پوسٹ پڑہتا ہے۔ اتنا لکھو کہ لوگ پڑہ سکیں۔ صفحے بھرنے سے کوئی بات میں وزن نہیں آتا۔
یہ لجیے مختصر پڑھ لیں مگر پڑھیں ضرور۔
یوم عاشور، شہادت امام حُسینؑ اور سُنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنھم

عزاداری امام حسینؑ سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سنت علی کرم اللہ وجہہ سے ثابت ہے
امام حسینؑ کی عزاداری میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گریہ فرمایا ہے اور غم حسینؑ میں رونا سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے ، امام حسینؑ کی ولادت کے وقت اور مختلف اوقات میں فرشتے امام حسینؑ کی شہادت کی خبر لاتے تھے اور خاک کربلا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل صحیح روایات سے ثابت ہے
۔(1)۔ام المومنین عائشہؓ یا ام المومنین ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ آج ہمارے گھر میں فرشتہ آیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا .فرشتے نے مجھے بتایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کا یہ بیٹا حسینؑ قتل کیا جائے گا ،اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہے تو میں اس زمین کی کچھ مٹی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دے سکتا ہوں جہاں پر حسینؑ قتل ہونگے.پھر رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فرشت[FONT=&amp]ہ میرے لئے مٹی لایا جو کہ لال رنگ کی تھی۔ (اسناد: صحیح
[/FONT]

۔(2)۔ انس بن مالکؓ صحابی سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے اللہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی اجازت مانگی ،اللہ نے اجازت دے دی، اور اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ام ُُسلمہؓ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمہؓ کو کہا ہے کہ تم دروازے پر بیٹھ جائو اورکسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا، انس بن مالکؓ کہتا ہے کہ ام سلمہٰؓ دروازے کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک حسینؑ ابن علیؑ حجرے میں آگئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسینؑ کو گلے لگایا اور ان کو بوسا لیا. تب فرشتے نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں ? آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا: ہاں، فرشتہ بولا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت ان کو قتل کرے گی، اس نے مزید کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہیں تو میں وہ زمین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا سکتا ہوں جہاں ان کو قتل کیا جا ئے گا. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا کہ ہاں دیکھاو ، چنانچہ فرشتے نے ہاتھ جھٹکا اورمٹی سے بھرا ہوا ہاتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھایا. وہ مٹی سرخ رنگ کی تھی، جو بعد میں ام سلمہؓ نے اپنے کپڑے میں سنبھال لی ثابت کہتا ہے کہ ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کربلا کی مٹی ہے
محقق کتاب ،حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن

۔(3)۔ عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہھ کے ساتھ جا رہے تھے، ہم نینوٰی سے گزرے، جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے، تب حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا، میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غضبناک کیا ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، تب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا نہیں، ابھی جبریل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسینؑ دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے. تب جبرئل نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسینؑ شہید ہونگے? میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا
محقق کتاب، حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن ، اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں محقق کتاب کہتا ہے نینوٰی، نبی یونس
ؑ کا گائوں تھا، موصل عراق میں اور یہ نینوٰی وہی کربلا کی زمین ہے جہاں پر امام حسینؑ شہید ہوئے تھے [FONT=&amp]
مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 1// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14 دار المامون التراث بیروت // ص 298 // حدیث:363

۔(4)۔ام الفضل بنت الحارث
نے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس داخل ہوئیں اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! میں نے آج بُُرا خواب دیکھا ہے .آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ کیا دیکھا ہے ? کہنے لگی کہ وہ بہت برا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ وہ کیا ہے ? کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے. تم نے اچھا خواب دیکھا ہے. حضرت فاطمہ علیہا السلام بچے کو جنم دے گی
ں، انشاء اللہ لڑکا ہوگا اور وہ تیری گود میں ہوگا .چنانچہ فاطمہ علیہا السلام نے امام حسینؑ کو جنم دیا. لہذٰٰا وہ میری گود میں آیے جیسے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا .میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گئی اور میں نے بچے کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گود میں رکھ دیا .اس کے بعد میری توجہ ذرا سی مبذول ہوگئی. پھر جو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھیں آنسو ٹپکا رہی تھیں. کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں آپ کو کیا ہوا ? فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرائیل آئے انہوں نے مجھے خبر دی کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو قتل کر گی، اور میرے لیئےحسینؑ کی مقتل گاہ سے سرخ رنگ کی مٹی لے کر آئے تھے
[/FONT]

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عاشوراء کے روز خواب میں دیکھنا
[FONT=&amp][FONT=&amp]۔(5)۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ[/FONT] سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر (عاشور کے روز) کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی. میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قربان ہوں، یہ کیا ہے ? آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: یہ حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کر رہا ہوں
راوی کہتا ہے کہ حساب لگایا گیا تو حسینؑ[FONT=&amp] اسی دن شہید ہوگئے تھے ([/FONT]اسنادہ صحیح [FONT=&amp][/FONT]

[/FONT]

ام سلمہؓ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عاشوراء کے روز خواب میں دیکھنا

[FONT=&amp]۔(6)۔ام سلمیٰ ٰؓ سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے ? آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی ہے .آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی. میں نے عرض کی، یارسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ? ارشاد فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسینؑ کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے

[/FONT][FONT=&amp]مندرجہ بالا روایت مندرجہ ذیل کتب اھل سنت میں موجود ہیں
[/FONT] [FONT=&amp]جامع ترمذی // ابوعیسی ٰ ترمذی //ص 1028//حدیث:3771//باب:مناقب حسن و حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] //طبع الاولیٰٰ 1426ھ ، دار الکتب العربی بیروت[/FONT] [FONT=&amp]مستدرک//امام حاکم //تلخیص:علامہ ذہبی//ج 4//ص 387//ح:6895//باب ذکر ام المومنین ام سلمہ[/FONT][FONT=&amp]ؓ[/FONT][FONT=&amp] //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان،جز:5[/FONT] [FONT=&amp]تہذیب التہذیب // ابن حجر عسقلانی // ج 2//ص 356//ترجمہ: امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] // طبع الاولی ھند[/FONT] [FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:11//ص 574//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت

[/FONT]
ام المومنین ام ُُسلمہؓ کی کیفیت شہادت حسینؑ کو سننے کے بعد شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں ام المومنین ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا کہ ہم نے داد خواہ کی آواز سنی وہ ام سلمہؓ کے پاس آکر کہنے لگا، حسینؑ قتل ہوگئے ہیں ،ام سلمہؓ نے کہا: انھون نے یہ کام کر دیا ہے اللہ تعالیٰٰ ان کی قبروں یا گھروں کوآگ سے بھر دے اور بھر ام سلمہؓ غم کی شدت سے بے ہوش ہوگئیں

[FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:11//ص 574//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت[/FONT] [FONT=&amp]تاریخ دمشق//ابن عساکر//ج 14//ص 238//طبع 1415ھ ، دارالفکر بیروت[/FONT] [FONT=&amp]مندرجہ بالا روایت کی صحت سند کے لحاظ سے حسن کے درجہ کی ہے

[/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp]۔(7)۔ابو نعیم حضرت اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم امام حسینؑ[/FONT][FONT=&amp] کی قبر کے مقام پر پہنچے تو حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے فرمایا: یہاں ان کی سواریاں بیٹھیں گی.یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کا خون بہے گا.آل محمد علیہم السلام کے نوجوانوں کو اس میدان میں شہید کیا جائے گا اورآسمان وزمین ان کے غم میں گریہ کناں ہوں گے[/FONT][/FONT]
[FONT=&amp]زیادہ تفصیل کیلیے یہاں کلک کریں[/FONT]
 
Last edited:

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یذید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کر بلا کے بعد
کربلا کے بعد مجوسیوں کے ہاتھ ایک موقعہ آگیا کہ اسلام میں تحریف کریں، من گھڑت قصہ خوانی کریں، یہ لوگ حضرت علی رض کے ساتھی نہ تھے۔ اگر ان کے سامنے ان کو مولا کہتے تو تلوار سے ان کی گردن اتار دیتے۔


ضیاء حیدری بھائی میں آپ کا تعارف اُن لوگوں سے کرواتا ہوں جنھوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اُن کے سامنے اپنا مولا کہا لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے انھیں کچھ بھی نہ کہا۔ ساتھ دیے گئےآن لائن حوالہ جات بھی ملاحظہ کرلیجیے گا

جاء رهطٌ إلى عليٍّ بالرَّحْبةِ ، فقالوا : السلامُ عليكَ يا مولانا ، قال : كيف أكون مولاكم ، وأنتم قومٌ عُرْبٌ ؟ قالوا : سمِعْنا رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يومَ غديرِ خُمَّ يقول : من كنتُ مولاهُ فعليٌّ مولاه قال رباحٌ : فلما مضَوا تبعتُهم فسألتُ : مَن هؤلاءِ ؟ قالوا : نفرٌ من الأنصارِ فيهم أبو أيوبٍ الأنصاريُّ
الراوي : نفر من الأنصار و أبو أيوب الأنصاري المحدث : الألباني
المصدر : السلسلة الصحيحة الصفحة أو الرقم: 4/340 خلاصة حكم المحدث :إسناده جيد رجاله ثقات

Source
الراوي : نفر من الأنصار منهم أبو أيوب الأنصاري المحدث : الهيثمي
المصدر : مجمع الزوائد الصفحة أو الرقم: 9/106 خلاصة حكم المحدث :‏‏ رجاله ثقات

Source
الراوي : رياح بن الحارث المحدث : الشوكاني
المصدر : در السحابة الصفحة أو الرقم: 142 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات

رباح بن الحارثؓ سے روایت ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ حضرت علیؑ کے پاس رحبہ میں آیا۔ پس انھوں نے حضرت علیؑ سے کہا کہ، اے ہمارے مولا آپ پر سلام ہو۔ حضرت علی نے پوچھا،میں تمھارا مولا کیسے ہوا جبکہ تم عرب قوم ہو؟ تو انھوں نے کہا کہ،ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علہ و آلہ وسلم نے فرمایا،جس کا میں مولا ہوں پس اُسکا علی مولا ہے۔رباح کہتے ہیں کہ میں اُن کے پیچھے گیا تاکہ سوال کروں کہ یہ کون لوگ ہیں تو کہا گیا کہ یہ انصار کا ایک گروہ ہے جس میں ابوایوب انصاریؓ شامل ہیں۔



اور یہ کیا خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ صحابہ کرامؓ سے گواہی لے رہیں ہیں کہ گواہی دو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے اس امت کا مولا کہا ہے؟؟؟

حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ ، وَعَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ ، قَالَا : نَشَدَ عَلِيٌّ النَّاسَ فِي الرَّحَبَةِ : مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ إِلَّا قَامَ ، قَالَ : فَقَامَ مِنْ قِبَلِ سَعِيدٍ سِتَّةٌ ، وَمِنْ قِبَلِ زَيْدٍ سِتَّةٌ ، فَشَهِدُوا أَنَّهُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ : " أَلَيْسَ اللَّهُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ ؟ " ، قَالُوا : بَلَى ، قَالَ : " اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ " ، حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرٍو ذِي مُرٍّ ، بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ ، يَعْنِي عَنْ سَعِيدٍ وَزَيْدٍ وَزَادَ فِيهِ : " وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ ، وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ " ، حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، أخبرنا شَرِيكٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مِثْلَهُ ۔
مسند أحمد بن حنبل مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَمِنْ مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ رقم الحديث: 926
الراوي : سعيد بن وهب و زيد بن يثيع المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 2/195 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح



حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَرْقَمَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ : شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الرَّحَبَةِ يَنْشُدُ النَّاسَ : أَنْشُدُ اللَّهَ مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ : " مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ " ، لَمَّا قَامَ فَشَهِدَ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : فَقَامَ اثْنَا عَشَرَ بَدْرِيًّا ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَحَدِهِمْ ، فَقَالُوا : نَشْهَدُ أَنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ : " أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمسلمين مِنْ أَنْفُسِهِمْ ، وَأَزْوَاجِي أُمَّهَاتُهُمْ ؟ " ، فَقُلْنَا : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : " فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ

مسند أحمد بن حنبل مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَمِنْ مُسْنَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ رقم الحديث: 935
الراوي : عبدالرحمن بن أبي ليلى المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 2/199 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح

الراوي : زياد بن أبي زياد المحدث : أحمد شاكر
المصدر : مسند أحمد الصفحة أو الرقم: 2/75 خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح

دونوں احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عبدالرحمن بن أبي ليلى اور زيد بن يثيع بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے رحبہ کے مقام پر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگوں میں سے جس جس نے غدیر خم کے دن خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبانی یہ سنا ہو کہ جس کا میں مولا ہوں پس اُس کا علی مولا ہے وہ اُٹھ کر اس بات کی گواہی دے۔ 6 آدمی سعد کے سامنے سے اور 6 آدمی زید بن ارقم کے سامنے سے اُٹھ کھڑے ہوے اور وہ سب کے سب بدری صحابہؓ تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، کیا اللہ اور اُس کا رسول تمھاری جانوں پر خود تم سے بڑھ کر حق رکھتے ہیں؟ تو ہم سب نے کہا کہ ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسا ہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، جس کا میں مولا ہوں پس اُسکا علی مولا ہے۔ اے اللہ دوست رکھ اُس کو جو علی کو دوست رکھے اور دُشمن ہوجا اُسکا جو علی سے دُشمنی رکھے۔


اور یہ کیا صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی کے مولا ہونے کی حدیث اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی بتا رہا ہے اور محدثین نے اسے صحیح الاسناد قرار دے دیا ہے؟
۔
4576 - حدثنا أبو الحسين محمد بن أحمد بن تميم الحنظلي ببغداد ثنا أبو قلابة عبد الملك بن محمد الرقاشي ثنا يحيى بن حماد و حدثني أبو بكر محمد بن بالويه و أبو بكر أحمد بن جعفر البزار قالا : ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل حدثني أبي ثنا يحيى بن حماد و ثنا أبو نصر أحمد بن سهل ا لفقيه ببخارى ثنا صالح بن محمد الحافظ البغدادي ثنا خلف بن سالم المخرمي ثنا يحيى بن حماد ثنا أبو عوانة عن سليمان الأعمش قال : ثنا حبيب بن أبي ثابت عن أبي الطفيل عن زيد بن أرقم رضي الله عنه قال : لما رجع رسول الله صلى الله عليه و سلم من حجة الوداع و نزل غدير خم أمر بدوحات فقمن فقال : كأني قد دعيت فأجبت إني قد تركت فيكم الثقلين أحدهما أكبر من الآخر كتاب الله تعالى و عترتي فانظروا كيف تخلفوني فيهما فإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض ثم قال : إن الله عز و جل مولاي و أنا مولى كل مؤمن ثم أخذ بيد علي رضي الله عنه فقال : من كنت مولاه فهذا وليه اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و ذكر الحديث بطوله
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين و لم يخرجاه بطوله
شاهده حديث سلمة بن كهيل عن أبي الطفيل أيضا صحيح على شرطهما
تعليق الذهبي قي التلخيص : سكت عنه الذهبي في التلخيص

المستدرك على الصحيحين جلد 3 صفحہ 118 حدیث نمبر 4576
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع سے لوٹتے ہوئے جب غدیر خم کا مقام آیا تو ہمیں پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا گیا پس ہم ٹھہر گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، مجھے بلاوا آگیا ہے اور میں نے قبول کرلیا ہے۔ بے شک میں تمھارے درمیان دو قیمتی ترین چیزیں (ثقلین) چھوڑے جاتا ہوں۔ اس مں سے ہر ایک دوسے سے بڑھ کر ہے۔ اللہ کی کتاب اور میری عترت۔ پس دھیان رکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیسا سلوک کرتے ہو۔ پس یہ ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ حوض کوثر پر میرے پاس اسی طرح وارد ہوں گے۔ پھر فرمایا، بے شک اللہ میرا مولا ہے اور تمام مومنین کا مولا ہوں۔ پھر حضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور کہا۔ جس کا میں مولا ہوں اُسکا یہ ولی ہے۔ ائے اللہ محبت رکھ اُس سے جو علی سے محبت رکھے اور عداوت رکھ اُس سے جو علی سے عداوت رکھے۔
حاکم اور ذھبی کے مطابق یہ حدیث بخاری اور مسلم کے معیار پر صحیح ہے۔

یا پھر یہ البانی، شوکانی، الھیثمی، احمد شاکر، امام احمد بن حنبل، حاکم اور علامہ ذھبی وغیرہ مجوسی ہیں؟؟؟
ضیا حیدری بھائی! اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صدقےہم سب کے علم میں اضافہ کرے اور تعصب کی بیماری سے بچائے۔ آمین

 

Alp Arsalan

Banned
جہالت کا علاج تو علم ہے لیکن تعصب کا کوئی علاج نہیں
صحیح احادیث کا انکار کرنا ہے تو کردو۔ کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ اپنے عمل کے تم خودذمہ دار ہو کوئی اور نہیں۔


یوم عاشور، شہادت امام حُسینؑ اور سُنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنھم


عزاداری امام حسینؑ سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سنت علی کرم اللہ وجہہ سے ثابت ہے

امام حسینؑ کی عزاداری میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گریہ فرمایا ہے اور غم حسینؑ میں رونا سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے ، امام حسینؑ کی ولادت کے وقت اور مختلف اوقات میں فرشتے امام حسینؑ کی شہادت کی خبر لاتے تھے اور خاک کربلا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل صحیح روایات سے ثابت ہے

حدیث نمبر: ا ام المومنین عائشہؓ یا ام المومنین ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ آج ہمارے گھر میں فرشتہ آیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا .فرشتے نے مجھے بتایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کا یہ بیٹا حسینؑ قتل کیا جائے گا ،اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہے تو میں اس زمین کی کچھ مٹی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دے سکتا ہوں جہاں پر حسینؑ قتل ہونگے.پھر رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فرشت
[FONT=&amp]ہ میرے لئے مٹی لایا جو کہ لال رنگ کی تھی
[/FONT] [FONT=&amp]محقق کتاب فضائل صحابہ ، کہتا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے
[/FONT]
[FONT=&amp]محقق کتاب فضائل صحابہ ڈاکڑ وصی اللہ بن محمد عباس کی تحقیق مزید
[/FONT]
مندرجہ بالا روایت کے حاشیہ میں محقق کہتا ہے کہ اس روایت کی تخریج مسند احمد میں بھی ہے ، ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ احمد نے اس کو روایت کیا ہے اور اس کے رجال ، الصحیح کے رجال ہیں . طبرانی نے بھی اسے عائشہؓ سے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے .احمد نے بھی مسند میں نجی کے ساتھ اس کی اسناد صحیح کے ساتھ تخریج کی ہے اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں
[FONT=&amp]فضائل صحابہ //احمد بن حنبل //تحقیق:ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس //ج : 2 // طبع الاولیٰٰ 1403ھ ،جز2،جامعہ ام القری مکہ سعودیہ//ص 770//حدیث:1357[/FONT] [FONT=&amp]

مندرجہ بالا حدیث مسند احمد بن حنبل میں بھی ہے، ہم یہاں اس حدیث کی تحقیق پیش کر رہے ہیں جو کہ محقق مسند نے انجام دی ہے[/FONT] محقق کتاب کہتا ہے کہ یہ حدیث اپنے طریق کے ساتھ حسن کے درجہ کی ہے .اس کے بعد محقق کتاب نے اس حدیث کے شواھد ذکر کئے ہیں احمد نے فضائل صحابہ میں، طبرانی نے معجم کبیر میں، ھیثمی نے مجمع الزوائد میں اور کہا ہے کہ اس کے رجال الصحیح کے رجال ہیں ،ابن طھمان نے مشیختہ میں، عاصم نے 2 مختلف طریق سے احاد و المثانی میں ، طبرانی نے معجم میں 5 مختلف طریق سے، حاکم نے مستدرک میں، بیھقی نے 2 مختلف طریق سےدلائل میں، ابن شیبہ نے مصنف میں، اور دارقطنی نے العل میں 2 مختلف طریق سے خبر شہادت امام حسینؑ کو نقل کیا ہے
[FONT=&amp]مسند احمد // احمد بن حنبل // تحقیق: شعیب الارنوط و دیگرمحقیقین// ج : 44// طبع بیروت موسستہ رسالہ،جز 50 // ص 143//حدیث:26524[/FONT] [FONT=&amp]

علامہ ذہبی نے اپنی کتاب تاریخ اسلام میں شہادت امام حسین[/FONT]ؑ سے متعلق تمام اخبار کو نقل کیا ہے اور جناب ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا والی مندرجہ بالا روایت کے متعلق کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہیں . اس کو احمد اودیگر کئی لوگوں نے روایت کیا ہے
[FONT=&amp]تاریخ اسلام // محمد ذہبی // تحقیق: ڈاکٹر عمر عبدالسلام // ج: 5 حوادث : 61 ھجری // طبع اولیٰٰ 1410 ھ ،جز53، دارُُ الکتاب العربی // ص[/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp]104[/FONT] [/FONT] [FONT=&amp]

حدیث نمبر: 2[/FONT]
انس بن مالک
ؓ صحابی سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے اللہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی اجازت مانگی ،اللہ نے اجازت دے دی، اور اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ام ُُسلمہؓ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمہؓ کو کہا ہے کہ تم دروازے پر بیٹھ جائو اورکسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا، انس بن مالکؓ کہتا ہے کہ ام سلمہٰؓ دروازے کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک حسینؑ ابن علیؑ حجرے میں آگئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسینؑ کو گلے لگایا اور ان کو بوسا لیا. تب فرشتے نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں ? آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا: ہاں، فرشتہ بولا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت ان کو قتل کرے گی، اس نے مزید کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہیں تو میں وہ زمین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا سکتا ہوں جہاں ان کو قتل کیا جا ئے گا. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا کہ ہاں دیکھاو ، چنانچہ فرشتے نے ہاتھ جھٹکا اورمٹی سے بھرا ہوا ہاتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھایا. وہ مٹی سرخ رنگ کی تھی، جو بعد میں ام سلمہؓ نے اپنے کپڑے میں سنبھال لی ثابت کہتا ہے کہ ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کربلا کی مٹی ہے
محقق کتاب ،حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن
[FONT=&amp]
مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 6// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14، دار المامون التراث بیروت // ص 129 // حدیث:3402[/FONT]
[FONT=&amp]
حدیث نمبر : 3
[/FONT]
انس بن مالک
ؓ صحابی سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے اللہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی اجازت مانگی، اللہ نے اجازت دے دی، اور اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ام ُُسلمہؓ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمہؓ کو کہا ہے کہ تم دروازے پر بیٹھ جاو اور کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا، انس بن مالکؓ کہتا ہے کہ ام سلمہٰؓ دروازے کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک حسین ابن علی کرم اللہ وجہھ حجرے میں آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت پر سوار ہوگئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسینؑ کو گلے لگایا اور ان کو بوسا لیا .تب فرشتے نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں ? آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا: ہاں، فرشتہ بولا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت ان کو قتل کرے گی ، اس نے مزید کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہیں تو میں وہ زمین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا سکتا ہوں جہاں ان کو قتل کیا جا ئے گا. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا کہ ہاں دیکھاو، چنانچہ فرشتے نے ہاتھ جھٹکا اورمٹی سے بھرا ہوا ہاتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھایا. وہ مٹی سرخ رنگ کی تھی، جو بعد میں ام سلمہؓ نے اپنے کپڑے میں سنبھال لی ثابت کہتا ہے کہ ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کربلا کی مٹی ہے

محقق کتاب کہتا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے.اور اس نے دیگر کتب حدیث سے اس کی تخریج کی ہے

[FONT=&amp]الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان// ابن حبان //محقق: شعیب الارنوط// ج 15// طبع الاولیٰٰ 1408ھ ، جز 18، موسستہ الرسالہ // ص 142// حدیث:6742[/FONT] [FONT=&amp]البانی نے صحیح ابن حبان کی تعلیقات میں مندرجہ بالا حدیث کو صحیح لغیرہ کہا ہے[/FONT] [FONT=&amp]التعلیقات الحسان علیٰ صحیح ابن حبان // ناصرالدین البانی // ج 9 //طبع دار با وزیر ، جز 12، ص 406//حدیث:6707[/FONT] [FONT=&amp]

حدیث نمبر: 4
[/FONT]
عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہھ کے ساتھ جا رہے تھے، ہم نینوٰی سے گزرے، جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے، تب حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا، میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غضبناک کیا ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، تب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا نہیں، ابھی جبریل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسینؑ دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے. تب جبرئل نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسینؑ شہید ہونگے? میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا
محقق کتاب، حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن ، اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں محقق کتاب کہتا ہے نینوٰی، نبی یونس
ؑ کا گائوں تھا، موصل عراق میں اور یہ نینوٰی وہی کربلا کی زمین ہے جہاں پر امام حسینؑ شہید ہوئے تھے [FONT=&amp]
مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 1// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14 دار المامون التراث بیروت // ص 298 // حدیث:363[/FONT]

نوٹ : انشاء اللہ ، اب ہم سلفی علماء کی معتبر کتب سے احادیث کی تخریج کریں گے جس کو انھوں نے صحیح قرار دیا ہے

علامہ ناصر الدین البانی اور اخبار شہادت امام حسینؑ

علامہ البانی نے اپنی کتب میں احادیث خبر شہادت امام حسینؑ کو صحیح کہا ہے . چنانچہ اپنی کتاب صحیح جامع صغیر میں لکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میرے امت میرے بیٹے یعنی حسینؑ کو قتل کرے گی اور میرے لیئےحسینؑ کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے علامہ
البانی اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہتا ہے کہ یہ صحیح ہے
[FONT=&amp]صحیح جامع الصغیر // ناصر الدین البانی // ج: 1 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ عرب،جز 2 // ص : 73// حدیث : 61[/FONT]
مندرجہ بالا روایت البانی اپنی کتاب سلسلتہ الصحیحہ میں بھی لکھتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میرے امت میرے بیٹے یعنی حسینؑ کو قتل کرے گی اور میرے لیئےحسینؑ کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے اس کو حاکم نے بھی لکھا ہے اور بیھقی اپنی دلائل میں بھی اس روایت کو اس طرح لے کر
آئے ہیں

ام الفضل بنت الحارث نے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس داخل ہوئیں اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! میں نے آج بُُرا خواب دیکھا ہے .آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ کیا دیکھا ہے ? کہنے لگی کہ وہ بہت برا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ وہ کیا ہے ? کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے. تم نے اچھا خواب دیکھا ہے. حضرت فاطمہ علیہا السلام بچے کو جنم دے گی
ں، انشاء اللہ لڑکا ہوگا اور وہ تیری گود میں ہوگا .چنانچہ فاطمہ علیہا السلام نے امام حسینؑ کو جنم دیا. لہذٰٰا وہ میری گود میں آیے جیسے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا .میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گئی اور میں نے بچے کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گود میں رکھ دیا .اس کے بعد میری توجہ ذرا سی مبذول ہوگئی. پھر جو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھیں آنسو ٹپکا رہی تھیں. کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں آپ کو کیا ہوا ? فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرائیل آئے انہوں نے مجھے خبر دی کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو قتل کر گی، اور میرے لیئےحسینؑ کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے

حاکم نے اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ بخاری ومسلم ک شرط کے مطابق حدیث ہے مگر ذہبی نے کہا ہے کہ یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے مگر البانی یہاں ذہبی کا رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں (البانی) یہ کہتا ہوں کہ ہمارے پاس بہت سے شواھد موجود ہیں جواس کوصحیح قرار دیتے ہیں جن میں سے احمد بن حنبل نے بھی درج کئے ہیں اور ان میں سے ایک شواھد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ آج ہمارے گھر میں فرشتہ آیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا .فرشتے نے مجھے بتایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کا یہ بیٹا حسینؑ قتل کیا جائے گا ،اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہے تو میں اس زمین کی کچھ مٹی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دے سکتا ہوں جہاں پر حسینؑ قتل ہونگے.پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فرشت
ہ میرے لئے مٹی لایا جو کہ لال رنگ کی تھی
[FONT=&amp]سلسلتہ الاحادیث الصحیحتہ // ناصر الدین البانی // ج 2 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ// ص 464تا465//حدیث:821،822[/FONT] [FONT=&amp]

ایک اور مقام پر البانی اخبار شہادت حسین کی تخریج اس طرح کرتا ہے[/FONT]
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل ابھی میرے پاس سے گئے ہیں اور مجھے خبر دی ہے کہ حسینؑ کو دریائے فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا احمد بن حنبل نے مسند میں روایت نقل کی ہے کہ عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہھ کے ساتھ جا رہے تھے، ہم نینوٰی سے گزرے، جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے، تب حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا، میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غضبناک کیا ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ، تب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا نہیں، ابھی جبرئیل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسینؑ دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے. تب جبرئیل نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسینؑ شہید ہونگے?میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئیل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد علامہ البانی کہتا ہے کہ اس روایت کی اسناد ضعیف ہے. نجی جو کہ عبد اللہ کا باپ ہے.اس کو کوئی نہیں جانتا کہ یہ کون ہے جیسا کہ ذہبی نے کہا ہے .ابن حبان کے سوا کسی نے اس کو ثقہ نہیں کہا ہے .اس کا بیٹا اس سے زیادہ مشہور ہے مگر البانی کہتا ہے کہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کو احمد نے روایت کیا ہے، اس طرح ابو یعلیٰٰ ، بزا اور طبرانی نے اور اس کے تمام رجال ثقات میں سے ہیں.اوراس روایت کو صرف نجی نے نقل نہیں کیا بلکہ اور بھی رواۃ سے یہ مروی ہے البانی مزید کہتا ہے اس حدیث کے شواہد نے اس کو قوی بنادیا ہے اور یہ حدیث حقیقت میں صحیح کے درجے کو پہنچ جاتی ہے. نوٹ:اھل حدیث کے عالم حافظ زبیر علی زئی نے مسند احمد والی حدیث جو کہ نجی سے مروی ہے اس کی سند کو حسن کہا ہے اور کہا ہے کہ عبد اللہ بن نجی اور اس کا باپ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں اور ان کی حدیث حسن کے درجے سے کم نہیں ہوتی ملاحظہ کریں : نیل المقصود فی تحقیق سنن ابن داود:227

اس کے بعد البانی نے شہادت امام حسینؑ سے متعلق 6 طریق نقل کئے ہیں بطور شواھد جو کہ ا س حدیث کو قوی بنا دیتے ہیں مختلف شواھد نقل کرنے کے بعد البانی کہتا ہے کہ میں (البانی) ایک جملہ میں یہ بات کہتا ہوں کہ یہ حدیث اپنے مختلف معانی اور تفسیر کے ساتھ، مختلف صحیح طریق نے اس کو صحیح بنا دیا ہے. اگر چہ کچھ رواۃ میں کمزوری ہے مگر بطور بجموعہ یہ احادیث صحیح اور حسن کے درجے کی ہیں

[FONT=&amp]سلسلتہ الاحادیث الصحیحتہ // ناصر الدین البانی // ج 3 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ// ص 159تا162//حدیث:[/FONT][FONT=&amp] 1171[/FONT]

اخبار شہادت امام حسین ؑ
[FONT=&amp]اور حافظ ابن کثیر

[/FONT]
حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں مقتل حسینؑ کے متعلق احادیث کو لکھا ہے. ابن کثیر اس طرح سُُرخی دیتا ہے امام حسینؑ کے قتل کے متعلق اخبار ابن کثیر لکھتا ہے کہ حدیث میں امام حسینؑ کے قتل کے متعلق بیان ہوا ہے

ابن کثیر پہلی روایت بارش کے فرشتے والی لے کر آیا ہے جو کہ انس بن مالک سے مروی ہے، اس روایت کے مطابق ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا نے خاک کربلا کو لے اپنے کپڑے کے پلو سے باندھ لیا

نوٹ : واضح رہے کہ بارش کے فرشتے والی روایت سند کے لحاظ سے حسن کے درجہ کی ہے

اس کے بعد ایک روایت ابن کثیر نقل کرتا ہے کہ حضرت ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک روز پہلو کے بل لیٹے تھے،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیدار ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حیران تھے، پھر لیٹے تو سو گئے، پھر بیدار ہوئے تو پہلی بار کے مقابلہ میں کم حیران تھے، پھر لیٹے اور بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ میں سرخ مٹی تھی، جسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الٹ پلٹ رہے تھے، میں نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ مٹی کیسی ہے? فرمایا جبرئیل نے مجھے بتایا ہے کہ یہ سر زمین عراق میں حسینؑ کے قتل ہونے کی جگہ ہے، میں نے کہا اے جبرئیل ! مجھے اس زمین کی مٹی دکھائیے جہاں حسینؑ قتل ہونگے پس یہ اس زمین کی مٹی ہے اس کے بعد ابن کثیر نے ام الفضل بنت حارث والی روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہادت حسینؑ کی خبر پر گریہ فرمایا
نوٹ: ہم مندرجہ بالا سطور میں ام الفضل اور بارش کے فرشتے والی روایت نقل کر آئیں ہیں اس لئے ان کی تکرار نہیں کی

[FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:9//ص 234//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت //باب:اخبار مقتل حسین[/FONT]

[FONT=&amp]اخبار شہادت امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] اور حافظ ابو نعیم اصفہانی[/FONT]

ابو نعیم اصفہانی نے بھی دلائل النبوہ میں امام حسینؑ کی شہادت کی احادیث کو جمع کیا ہے ابو نعیم اصفہانی سرخی اس طرح قائم کرتے ہیں امام حسینؑ کی شہادت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو ارشادات فرمائے

پہلی روایت انس بن مالک سے لے کر آئ
ے ہیں، جو خبر بارش کے فرشتے والی جو کہ ہم مندرجہ بالا سطور میں مکمل نقل کر آے ہیں اس روایت کے متعلق محقق کتاب ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی اس طرح لکھتے ہیں اس روایت کو بیہقی نے ، احمد نے مسند میں روایت کیا ہے اور ابو یعلی ٰٰ ، بزار اور طبرانی نے عمارۃ بن زاذان کی سند سے روایت کیا ہے اور عمارۃ بن زاذان کو ایک جماعت نے ثقہ کہا ہے اور بعض نے ضعیف کہاہے. اور بقیہ رجال ابو یعلی ٰ رجال الصحیح ہیں، مجمع الزوائد میں یہ بات ہیثمی نے کہی ہے ابو نعیم ایک اور روایت لاتے ہیں جو کہ اس طرح ہے سلیمان بن احمد کی روایت میں ہے کہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سونگھا یعنی خاک کو، تو فرمایا کرب اور بلا کی بو ہے اس میں، تو کہتے ہیں ہم سنا کرتے تھے کہ حسین بن علی کرم اللہ وجہھ کربلا میں شہید ہوں گے اسی طرح ایک اور روایت بھی نقل ہوئی ہے انس بن حارث سے روایت ہے کہ میں نےسنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما رہے تھے میرا بیٹا سرزمین عراق میں شہید ہوگا، تو جو شخص وہ دور پائے اس کی مدد کرے ،، کہتے ہیں چنانچہ یہ انس امام حسینؑ کے ساتھ شہید ہوئے
[FONT=&amp]دلائل النبوہ //ابونعیم اصفہانی //ج 2//ص 553//طبع الثانیہ 1406ھ ،جز 2 دارالنفائس بیروت//محقق: ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی//حدیث:[/FONT][FONT=&amp] 492،493[/FONT]

[FONT=&amp] اخبار شہادت امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] اور حافظ جلال الدین سیوطی

[/FONT]
حافظ جلال الدین سیوطی نے بھی اپنی کتاب "الخصائص الکبریٰٰ " میں شہادت امام حسینؑ کے حوالے سے اخبار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تخریج کی ہے باب اس طرح قائم کرتے ہیں: حضرت امام حسینؑ کی شہادت سے آگاہ فرمانا

حدیث نمبر1: پہلی حدیث حاکم اور بیہقی سے حضرت ام الفضل بنت حارث والی نقل کی ہے (جس کوہم اوپر علام البانی کی تخریج میں نقل کر آئیں ہیں )،اس لئے تکرار نہیں کر رہے

حدیث نمبر 2: یہ حدیث ابن راہویہ ، بیہقی اور ابو نعیم سے نقل کی ہے ،جناب ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے ، اس حدیث کو ہم ابن کثیر کی تخریج میں نقل کر آئیں ہیں ،ملاحظہ کریں وہاں

حدیث نمبر 3: یہ بیہقی اور ابو نعیم سے انس بن مالک والی روایت بارش کے فرشتہ والی ہے جس میں فرشتہ خبر شہادت امام حسینؑ لے کر آتا ہے،مندرجہ بالا سطور میں مراجع کریں

حدیث نمبر 4: ابو نعیم حضرت ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ امام حسن
ؑ و حسینؑ میرے گھر میں کھیل رہے تھے. جبرئیل اترے اور امام حسینؑ کی طرف اشارہ کر کے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت آپ کے بعد آپ کے فرزند کو شہید کر دے گی. جبرئیل مقتل کی مٹی بھی لائے جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سونگھا تو فرمایا اس سے کرب و بلا ء کی بُُو آرہی ہے ، پھر فرمایا: اے ام سلمہؓ ! جب وہ مٹی خون بن جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا شہید کر دیا گیا ہے،چنانچہ میں وہ مٹی ایک شیشی میں محفوظ کر لی

حدیث نمبر 5: ابن عساکر محمد بن عمرو بن حسن سے روایت کرتے ہیں کہ نہر کربلاء کے پاس ہم امام حسینؑ کے ساتھ تھے .آپ
ؑ نے شمر ذی الجوشن کی طرف دیکھا تو فرمایا اللہ اور رسول نے سچ فرمایا.رسول
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا : گویا میں ایک چتکبرے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اھل بیت علیہم السلام کا خون پی رہا ہے اور شمر برص کے مرض میں مبتلا تھا

حدیث نمبر 6: انس بن حارث والی روایت ،جس میں نصرت حسینؑ کا کہا گیا ہے اوپر ابو نعیم کی تخریج میں ملاحظہ کریں

حدیث نمبر 7: بیہقی سے روایت نقل کی ہے جس میں جبرئیل خاک کربلا رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھاتے ہیں ،ملاحظہ کریں مندرجہ بالا سطور میں

حدیث نمبر 8: جنگ صفین جاتے وقت گریہ علی کرم اللہ وجہھ مقام کربلا پر اور خبر شہادت دینا امام حسینؑ کی، ملاحظہ کریں مندرجہ بالا سطور میں

حدیث نمبر 9: ابو نعیم حضرت اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم امام حسینؑ
[FONT=&amp] کی قبر کے مقام پر پہنچے تو حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے فرمایا: یہاں ان کی سواریاں بیٹھیں گی.یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کا خون بہے گا.آل محمد علیہم السلام کے نوجوانوں کو اس میدان میں شہید کیا جائے گا اور آسمان وزمین ان کے غم میں گریہ کناں ہوں گے[/FONT]

[FONT=&amp] الخصائص الکبریٰٰ //جلال الدین سیوطی //ج 2//ص 362//اردو ترجمہ:مقبول احمد//طبع جون 2007، جز:2 ضیاءاالقرآن باکستان//باب:اخبار شہادت امام حسین[/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]ؑ
[/FONT] [/FONT][/FONT]
[FONT=&amp]
اخبار شہادت امام حسین[/FONT]
ؑ اور حافظ بیہقی


اب ہم حافظ بیہقی کی کتاب "دلائل النبوہ " سے اخبار شہادت امام حسینؑ کو نقل کریں گے . دلائل النبوہ کتاب کے متعلق علامہ ذہبی کہتے ہیں "اس کتاب کو حرز جان بنانا چاہیئے یہ سراسر نور ھدایت ہے " (المستطرفہ ،ص 165) حافظ بیہقی باب اس طرح قائم کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خبر دینا اپنے نواسے ابوعبداللہ حسین بن علی بن ابی طالب
علیہم السلام کے شہید ہونے کی پھر ایسے ہی ہوا جیسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خبر دی تھی اور اس موقع پر جو کرامات ظاھر ہوئیں جو دلالت کرتی تھیں ان کے نانا کی نبوت کی صحت پر

حدیث نمبر:1 پہلی حدیث جناب ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے نقل کی گئی ہے جس کے مطابق جبرئیل نے شہادت امام حسینؑ دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اور خاک کربلا دی ، مکمل حدیث مندرجہ بالا سطور میں حافظ ابن کثیر کی تخریج میں ملاحظہ کریں حافظ بیہقی اس حدیث کا متابع بھی لائے ہیں

حدیث نمبر:2 یہ حدیث ام الفضل بنت حارث والی ہے جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ولادت و شہادت امام حسینؑ کی خبر دی، یہ حدیث بھی ہم اوپر نقل کر آئیں ہیں

حدیث نمبر: 3 یہ حدیث بارش کے فرشتے والی ہے جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شہادت امام حسینؑ کی خبر دیتا ہے اور خاک کربلا کی زیارت کراتا ہے محقق دلائل النبوہ ڈاکٹر عبدالمعطی قلعی حاشیہ میں لکھتا ہے اس روایت (بارش کے فرشتے والی) کو مسند احمد بھی نقل کیا ہے اور صاحب مجمع الزوائد کہتا ہے : اس کو طبرانی نے بھی روایت کیا ہے اور اسناد حسن ہے

حدیث نمبر: 4 ابوسلمہؓ بن عبدالرحمان کہتے ہیں کہ عائشہؓ کا ایک بالا خانہ تھا .حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب جبرئیل سے ملنے کا ارادہ کرتے تھے تو اس میں ملتے تھے .ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس پر چڑھ گئے اور عائشہؓ سے کہا کہ ان کی طرف نہ جھانک
یں، کہتے ہیں کہ اوپڑ کی سیڑھی عائشہؓ کے حجرے میں سے تھی.امام حسینؑ داخل ہوئے اور اوپر چڑھ گئے ، ان کو معلوم نہ ہو سکا حتیٰٰ کہ وہ بالا خانے میں پہنچ گئے . جبرئیل نے پوچھا یہ کون ہیں ?فرمایا یہ میرا بیٹا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسین
ؑ[FONT=&amp] کو پکڑ کر اپنی ران پر بٹھا لیا.جبرئیل نے کہاعنقریب اس کوآپ کی امت قتل کرے گی .رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ میری امت ? انہوں نے کہا جی ہاں ! اگر آپ چاہیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس سر زمین کی خبر دوں جس میں وہ قتل کئے جائیں گے.جبرئیل نے مقام الطف عراق کی طرف اشارہ کیا اور انہوں نے سُُرخ مٹی وہاں سے لے لی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وہ مٹی دکھا دی
[/FONT] [FONT=&amp]دلائل النبوہ //حافظ بیہقی // سفر سادس // ص 468// تحقیق:ڈاکٹر عبدالمعطی قلعی // طبع الاولی 1408 ھ ، جز 7،دارالکتب العلمیہ بیروت

[/FONT] اخبار شہادت امام حسینؑ اور ابن حجر مکی

[FONT=&amp] اب ہم ابن حجر مکی کی مشہور زمانہ کتاب صواعق المحرقہ سے شہادت امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] کے متعلق اخبار کی تخریج کریں گے

[/FONT] حدیث نمبر : 1 پہلی حدیث ابن سعد اور طبرانی سے عائشہؓ سے لے کر آئے ہیں جس کے مطابق جبرائیل امام حسینؑ کی شہادت کے متعلق خبر لاتے ہیں اور مقتل کی مٹی بھی دیکھاتے ہیں

حدیث نمبر:2 ابودائود اور حاکم سے ام الفضل والی روایت نقل کی گئی ہے

حدیث نمبر:3 بغوی سے انس بن مالک سے بارش کے فرشتے والی حدیث لے کر آئیں ہیں جس میں شہادت امام حسینؑ کی خبر کا ذکر ہے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ابن حجر مکی کہتا ہے ابوحاتم نے اسے اپنی صحیح میں نقل کیا اور احمد نے بھی ایسی روایت بیان کی ہے اور عبد بن حمید اور ابن احمد نے بھی ایسی ہی ایک روایت بیان کی ہے لیکن اس میں یہ بیان ہوا کہ وہ فرشتہ جبرائیل تھا.اگر یہ صحیح ہے تو یہ دو واقعے ہیں اور دوسری میں اضافہ بھی ہوا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا کہ کرب و بلا کی خوشبو آتی ہے

حدیث نمبر:4 الملا کی روایت اور احمد کی زیادۃ المسند میں ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ مٹی مجھے دے دی اور فرمایاا کہ یہ زمین کی مٹی ہے جہاں اسے قتل کیا جائے گا.جب یہ مٹی لہو ہو جائے تو سمجھ لینا کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے .ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک بوتل میں رکھ دیا اور میں کہا کرتی تھی کہ ایک دن یہ خون میں تبدیل ہوجائے گی .وہ بہت بڑا دن ہوگا اور ام سلمہؓ ہی روایت میں ہے کہ قتل حسینؑ کے روز میں نے اسے پکڑا تو وہ خون ہوگئی تھی

حدیث نمبر:5 ایک اور روایت میں ہے کہ پھر جبرائیل
ؑ نے کہا کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے قتل گاہ کی مٹی دکھائوں ،وہ چند مٹھیاں لے کر آئے جسے میں نے ایک بوتل میں رکھ دیا. ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ جب قتل حسینؑ کی رات آئی تومیں نے ایک کہنے والے کو کہتے سنا اے حسینؑ کو جہالت سے قتل کرنے والو! تمہیں عذاب و ذلت کی خوشخبری ہو تم پر ابن دائود، موسیٰٰ اور عیسی ٰٰ علیہم السلام کی زبان س لعنت پڑچکی ہے ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں رو پڑی اور میں نے بوتل کو کھولا تو مٹی خون ہو کر بہہ پڑی

حدیث نمبر: 6 ابن سعد نے شعبی سے بیان کیا ہے کہ صفین کی طرف جاتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہھ کربلا سے گزرے. یہ فرات کے کنارے نینوی ٰٰ بستی کے بالمقابل ہے آپ نے وہاں کھڑے ہو کر اس زمین کا نام پوچھا. آپ کو بتایا گیا کہ اسے کربلا کہتے ہیں تو آپ رو پڑے یہاں تک کہ آپ
ؑ کے آنسوئوں سے زمین سے تر ہوگئی، پھر فرمایا،میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رو رہے تھے.میں نے عرض کیا آپ کس وجہ سے گریہ کناں ہیں ? فرمایا: ابھی جبرائیل نے آکر مجھے خبر دی ہے کہ میرا بیٹا حسینؑ فرات کے کنارے ایک جگہ قتل ہوگا جسے کربلا کہا جاتا ہے پھر جبرائیل نے ایک مٹھی پکڑ کر مجھے سنگھائی تو میں اپنے آنسوئوں کو روک نہ سکا مسند احمد نے بھی اس کو نقل کیا مختلف الفاظ کے ساتھ، مندرجہ بالا سطور ملاحظہ کریں

حدیث نمبر: 7 اس میں وہ روایت بیان کی ہے جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہھ قبرحسینؑ کی جگہ کے کے پاس سے گزرتے ہیں اور آل محمد
علیہم السلام کے خون بہنے کی جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں، مکمل حدیث مندرجہ بلا سطور میں ملاحظہ کریں

حدیث نمبر : 8 ابن سعد سے روایت بیان کی ہے ، عائشہؓ کے بالا خانہ والی ، جس میں جبرائیل شہادت حسینؑ کی خبر لاتے ہیں
[FONT=&amp]

الصواعق المحرقہ // ابن حجر مکی // تحقیق:عبدالوھاب عبد الطیف//ص 192// فصل: ثالث//طبع سوم 1410 ھ ، کتب خانہ مجیدیہ ملتان پاکستان
[/FONT] نوٹ: ہم نے جو احادیث مکمل نقل نہیں کی ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مندرجہ بالا موضوعات میں ان کو مکمل نقل کر آئ
[FONT=&amp]ے ہیں ، صرف وہ روایات لکھیں جو پہلے نہیں لکھ چکے تھے

[/FONT] نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صحابہ
ؓ کو حکم دینا کہ وہ امام حسینؑ کی نصرت کریں

حضرت انس بن حارث
ؓ ان کا شمار اھل کوفہ میں ہوتا ہے .انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ میرا بیٹا(یعنی امام حسین
ؑ ) سرزمین عراق میں شہید ہوگا پس جو شخص ان کو پائے وہ ان کی مدد کرے چنانچہ یہ انس بن حارث بھی امام حسینؑ کے ساتھ شہید ہوئے متاخرین یعنی ابن مندہ نے انس بن حارث کو صحابہ میں شمار کیا ہے ،ابن مندہ کی ابوعمر نے اور ابواحمد عسکری بے بھی موافقت کی ہے، ان دونوں نے بھی کہا ہے کہ ان کا صحابی ہونا ثابت ہے اس طرح یہ روایت صاحب اسدالغابہ "حارث بن نبیہ" کے ترجمہ میں بھی لائے ہیں اور اس میں اس چیز کا اضافہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ بیان کر رہے تھے اس وقت امام حسینؑ[FONT=&amp] ان کی گود میں تھے

[/FONT]
[FONT=&amp]اُسد الغابہ // ابن اثیر// ج 1 // ص 203//اردو ترجمہ: عبدالشکور لکھنوی // طبع پاکستان//ترجہ : انس بن حارث و حارث بن نبیہ[/FONT] [FONT=&amp]الاصابہ //ابن حجر عسقلانی //ج 1// ص 69//طبع مصر //ترجمہ: انس بن حارث

[/FONT]

عاشورہ کے روز، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حالت
[FONT=&amp]عاشورہ کے روز شہادت امام حسینؑ والے دن سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سُنت ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا
کربلا جانا، [/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp]شُھدا [/FONT][/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]کربلا[/FONT] کی زیارت کرنا[/FONT][/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]،[/FONT] سارا دن شُھدا کربلا کا ذکر کرنا اور اُنکی یاد منانا، غم زدہ ہونا، گری[/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]ہ[/FONT] کرنا رونا، غم زدہ حالت بنانا، سر کے بالوں کو نہ سنوارنا اور سر میں خاک ڈالنا، غم حسینؑ میں چہرے اور داڑھی کو خاک آلود کرنا، خاک کربلا کی زیارت کرنا، تعزیہ داری[/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]، [/FONT] حضرت امام حُسین کے قاتلوں پر لعنت کرنا اور اُن سے سخت بیزار رہنا، شُھدا کربلا پر درود و سلام بھیجنا، اپنے آپ کو عزاداری حُسین میں تھکا دینا

[/FONT]

[FONT=&amp] مبارک[/FONT] [FONT=&amp]حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الرحمن ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في المنام بنصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم يلتقطه أو يتتبع فيها شيئا قال قلت يا رسول الله ما هذا قال دم الحسين وأصحابه لم أزل أتتبعه منذ اليوم[/FONT] [FONT=&amp]قال عمار فحفظنا ذلك اليوم فوجدنا قتل ذلك اليوم

[/FONT]
[FONT=&amp]ترجمہ
[/FONT]
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر (عاشور کے روز) کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی. میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قربان ہوں، یہ کیا ہے ? آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: یہ حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کر رہا ہوں
راوی کہتا ہے کہ حساب لگایا گیا تو حسینؑ[FONT=&amp] اسی دن شہید ہوگئے تھے

[/FONT]
یہ حدیث مبارک ، مندرجہ ذیل علماء اھل سنت نے اپنی اپنی کتب میں نقل کی ہیں [FONT=&amp]
مسند احمد بن حنبل // احمد بن حنبل//تحقیق:شعيب الأرنؤوط//ج 4،ص 59تا60//حدیث: 2165//موسستہ الرسالتہ بیروت جز:50[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال شعيب الأرنؤوط : اسناده قوي على شرط مسلم[/FONT] [FONT=&amp]مسند احمد بن حنبل // احمد بن حنبل//تحقیق: أحمد شاكر//ج 4،ص26//حدیث: 2165/دارالمعارف مصر، جز:16[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال أحمد شاكر : إسناده صحيح[/FONT] [FONT=&amp]مستدرک//امام حاکم //تلخیص:علامہ ذہبی//ج 4//ص 312//ح:8368//قدیمی کتب خانہ پاکستان،جز:4[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں :قال الحاكم : هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه[/FONT] [FONT=&amp]اور علامہ ذہبی کہتا ہے:قال الذهبي : على شرط مسلم[/FONT] [FONT=&amp]فضائل صحابہ //احمد بن حنبل //تحقیق:ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس //ج : 2 // طبع الاولیٰٰ 1403ھ ،جز2،جامعہ ام القری مکہ سعودیہ//ص778//حدیث:1380[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال وصي الله بن محمد عباس : اسناده صحيح[/FONT] [FONT=&amp]اتحاف الخيرة المهرة //شہاب الدین بوصیری // ج7// ص238//ح:6754//طبع دار الوطن بیروت[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بار ے میں بوصیری کہتا ہے:وقال البوصيري : رواه ابو بكر بن ابي شيبة واحمد بن حنبل واحمد بن منيع وعبد بن حميد بسند صحيح[/FONT] [FONT=&amp]مجمع الزوائد // ہیثمی // محقق:عبداللہ محمد//ج 9//ص 310// ح:15141//طبع:دارالفکر بیروت،جز:10[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ہیثمی کہتا ہے:وقال الهيثمي : رواه أحمد والطبراني ورجال احمد رجال الصحيح[/FONT] [FONT=&amp]مشکاۃ المصابیح // الخطیب تبریزی//تحقیق:ناصر الدین البانی// ج 3 //ص 1741//ح : 6172//طبع دار الکتب اسلامی[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال ناصرالدین البانی : اسناده صحيح[/FONT] [FONT=&amp]تذکرۃ//قرطبی//محقق:صادق بن محمد ابراہیم //ص1120//طبع:مکتبہ دار المنھاج سعودیہ عرب[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد علامہ قرطبی کہتا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے اور سند میں کوئی طعن نہیں ہے[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے: اسناده قوي على شرط مسلم[/FONT] [FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:11//ص 573//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت[/FONT] [FONT=&amp]ابن کثیر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے : اسناد قوی[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:عبدالمحسن ترکی : اسناده صحيح[/FONT] [FONT=&amp]اُسد الغابہ // ابن اثیر// ج 1 // ص 572//اردو ترجمہ: عبدالشکور لکھنوی // طبع پاکستان//ترجہ : امام حسین ع[/FONT] [FONT=&amp]الاصابہ //ابن حجر عسقلانی //ج 2// ص 17//طبع مصر //ترجمہ: امام حسین ع[/FONT] [FONT=&amp]استیعاب//ابن عبدالبر//ج 1//ص 395//طبع:بیروت//ترجمہ : امام حسین[/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]ؑ[/FONT]

[/FONT][/FONT]

حدثنا عفَّان، حدثنا حمَّاد - هو ابن سَلَمة -، أخبرنا عمَّارعن ابن عباس، قال: رأَيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم فيما يَرى النائِمُ بِنصفِ النهار، وهو قائمٌ، أَشْعَثَ أغبرَ، بيدِه قارورةٌ فيها دَمٌ، فقلت: بأَبي أَنتَ وأُمي يا رسولَ الله، ما هذا؟ قال: "هذا دَمُ الحُسَينِ وأَصحابِه، لم أَزَلْ أَلْتَقِطُه منذُ اليومِ" فَأَحْصَيْنا ذلك اليومَ، فوجَدُوه قُتِل في ذلك اليومِ.

قال شعيب الأرنؤوط: إسناده قوي على شرط مسلم

أخرج أحمد في مسنده ج4 ص336-337 ح2553 طبعة مؤسسة الرسالة
وتجده أيضاً في مسند أحمد
(ج2 ص551 ح2165) و (ج3 ص155-156 ح2553) طبعة دار الحديث، القاهرة


وقال أحمد محمد شاكر في كلا الموضعين : إسناده صحيح

۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن عباس
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ دن کا وقت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور چہرے پر تھکاوٹ ہے اور وہ گرد آلود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ایک چھوٹی شیشی ہے جس میں خون بھرا ہے میں نے کہا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قربان یہ کیا ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: یہ خون ہے حسینؑ کا اور اصحاب حسینؑ کا جسے میں سارا دن اکٹھا کرتا رہا ہوں راوی کہتا ہے کہ حساب لگایا گیا تو حسینؑ اسی دن شہید ہوگئے تھے

اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بے شمار طریقوں سے یہ روایت نقل ہوئی ہے

۔1-أخرج أحمد في مسنده (ج4 ص59-60 ح2165 طبعة مؤسسة الرسالة)۔

حدثنا عبدُ الرحمن، حدثنا حماد بن سلمة، عن عمار بن أَبي عمارعن ابن عباس، قال: رأَيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم في المنام بنِصْفِ النهار، أَشعثَ أَغبرَ، معه قارورةٌ فيها دمٌ يَلتَقِطُه أَو يَتَّبَّعُ فيها شيئاً، قال: قلتُ: يا رسولَ الله، ما هذا؟ قال: "دَمُ الحُسينِ وأَصحابِه، لم أَزَلْ أَتتبَّعُهُ منذُ اليومِ". قال عمار: فحَفِظْنا ذلك اليومَ، فوجدناه قُتِلَ ذلك اليومَ.قال شعيب الأرنؤوط: إسناده قوي على شرط مسلم.


وأخرج في مسنده (ج4 ص336-337 ح2553)۔۔

حدثنا عفَّان، حدثنا حمَّاد - هو ابن سَلَمة -، أخبرنا عمَّارعن ابن عباس، قال: رأَيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم فيما يَرى النائِمُ بِنصفِ النهار، وهو قائمٌ، أَشْعَثَ أغبرَ، بيدِه قارورةٌ فيها دَمٌ، فقلت: بأَبي أَنتَ وأُمي يا رسولَ الله، ما هذا؟ قال: "هذا دَمُ الحُسَينِ وأَصحابِه، لم أَزَلْ أَلْتَقِطُه منذُ اليومِ" فَأَحْصَيْنا ذلك اليومَ، فوجَدُوه قُتِل في ذلك اليومِ.قال شعيب الأرنؤوط: إسناده قوي على شرط مسلم.

وتجده أيضاً في مسند أحمد (ج2 ص551 ح2165) و (ج3 ص155-156 ح2553) طبعة دار الحديث، القاهرة.
وقال أحمد محمد شاكر في كلا الموضعين : إسناده صحيح.


وأخرج في (فضائل الصحابة ج2 ص977 ح1380 طبعة دار ابن الجوزي)۔ :

حدثنا عبد الله، قال: حدثني أبي، نا عبد الرحمن، نا حماد بن سَلَمة، عن عمار هو ابن أبي عمار، عن ابن عباس، قال: "رأيتُ النبي صلى الله عليه وسلم في المنام بنصف النهار أشعث أغبر، معه قارورة فيها دم يلتقطه، أو يتتبع فيها شيئاً قلت: يا رسول الله ما هذا؟ قال: دم الحسين وأصحابه لم أزل أتتبعه منذ اليوم، قال عمار: فحفظنا ذلك اليوم فوجدناه قتل ذلك اليوم عليه السلام".قال وصي الله بن محمد عباس: إسناده صحيح.

وأخرج في (فضائل الصحابة ج2 ص978 ح1381)۔

حدثنا عبد الله، قال: حدثني أبي، قثنا عفان، نا حماد، قال: أنا عمار بن أبي عمار، عن ابن عباس، قال: "رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار قائل أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقال: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما هذا؟ قال: دمُ الحسين وأصحابه فلم أزل ألتقطه منذ اليوم، فأحصَيْنا ذلك اليوم فوجدوه قُتِل في ذلك اليوم عليه السلام".قال وصي الله بن محمد عباس: إسناده صحيح.


وأخرج في (فضائل الصحابة ج2 ص981 ح1389)۔

حدثنا إبراهيم بن عبد الله البصري، نا حجّاج، نا حماد، قثنا عمّار بن أبي عمار، عن ابن عباس، قال: "رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار أغْبر أشعث بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي وأمي يا رسول الله، ما هذا؟ قال: هذا دم الحسين وأصحابه لم أزل منذ اليوم ألتقطه فأُحْصِيَ ذلك اليوم فوجدوه قتل يومئذ".قال وصي الله بن محمد عباس: إسناده صحيح.


وأخرج في (فضائل الصحابة ج2 ص985 ح1396)۔

حدثنا إبراهيم، نا سُلَيمان بن حَرْب، عن حماد، عن عمّار بن أبي عمّار "أن ابن عباس رأى النبي صلى الله عليه وسلم في مَنامِه يوماً بنصف النهار وهو أشعث أغبر في يده قارورة فيها دم فقلت: يا رسول الله ما هذا الدم؟ قال: دم الحسين لم أزل ألتقطه منذ اليوم فأحْصِيَ ذلك اليوم فوجدوه قتل في ذلك اليوم
قال وصي الله بن محمد عباس: إسناده صحيح.
http://goo.gl/4eFjs


۔2- أخرج عَبْدُ بن حُمَيْد (المنتخب من مسند عبد بن حميد ج1 ص527 طبعة دار بلنسية، الرياض، المملكة العربية السعودية، الطبعة الثانية، 1423هـ - 2002م)۔

حدثنا الحسن بن موسى، ثنا حماد بن سلمة، عن عمار بن أبي عمار، عن ابن عباس قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم نصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم، فقلت: يا نبي الله، ما هذا؟! قال: "هذا دم الحسين وأصحابه، لم أزل ألتقطُهم منذ اليوم". قال: وأحصى ذلك اليوم فوجدوه قتل ذلك اليوم.قال مصطفى بن العدوي: سند حسن.



۔3- أخرج الطبراني في (المعجم الكبير ج3 ص110 ح2822 تحقيق حمدي عبد المجيد السلفي)۔

حدثنا علي بن عبد العزيز وأبو مسلم الكشي ثنا حجاج بن المنهال (ح).وحدثنا أبو مسلم الكشي ثنا سليمان بن حرب قالا ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما هذا؟ فقال: "دَمُ الحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ لَمْ أزَلْ ألْتَقِطُهُ مُنْذ اليَوْمِ" فأحصي ذلك اليوم، فوجد قد قتل يومئذ.
(7.3 M)PDF


وأخرج في (المعجم الكبير ج12 ص143-144 ح12837)۔

حدثنا علي بن عبد العزيز وأبو مسلم قالا ثنا حجاج بن المنهال (ح).وحدثنا يوسف القاضي ثنا سليمان بن حرب قالا ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فيها يرى النائم ذات يوم نصف النهار أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما هذه؟ قال: "هَذَا دَمُ الحُسَينِ وَأصْحَابِهِ لَمْ أزَلْ ألْتَقِطُهُ مُنْذُ اليَومِ" فأحصي ذلك اليوم فوجد قتل ذلك اليوم.
(8.8 M)
PDF



۔4- أخرج الحاكم في (المستدرك على الصحيحين ج4 ص397-398)۔

حدثني أبو بكر محمد بن أحمد بن بالويه ثنا بشر بن موسى الأسدي ثنا الحسن بن موسى الأشيب ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: رأيت النبي صلى الله عليه وآله وسلم فيما يرى النائم نصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم فقلت: يا نبي الله ما هذا؟ قال: "هذا دم الحسين وأصحابه لم أزل ألتقطه منذ اليوم". قال: فأحصي ذلك اليوم فوجدوه قتل قبل ذلك بيوم.
قال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه. ووافقه الذهبي.

۔5- قال الخطيب التبريزي في (مشكاة المصابيح ج3 ص1741-1742 ح6172 تحقيق محمد ناصر الدين الألباني)۔

"وعن ابن عبَّاس، قال: رأيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم ذاتَ يوم بنصف النهار، أشعثَ أغبرَ، بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي أنتَ وأمي، ما هذا؟ قال: "هذا دم الحسين وأصحابه ، ولم أزل ألتقطه منذ اليوم" فأحصي ذلك الوقت فأجد قُتِل ذلك الوقت. رواهما البيهقي في "دلائل النبوة" وأحمد الأخير".قال الألباني: وسنده صحيح.



۔6 - أورد الذهبي في (سير أعلام النبلاء ج3 ص315)۔

"حمَّاد بن سلمة ، عن عمَّارِ بنِ أبي عمَّار ، عن ابنِ عباس : رأيتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم في النوم نصفَ النهار، أشعثَ أغبر ، وبيده قارورةٌ فيها دم . قلتُ : يا رسولَ الله ما هذا ؟ قال : هذا دمُ الحسين وأصحابِه ، لم أزل منذُ اليوم ألتقطُه . فأُحصي ذلك اليوم ، فوجدوه قُتِلَ يومئذ".قال المحقق: وسنده قوي كما قال الحافظ ابن كثير في "البداية" 8/200 . وهو في "تهذيب ابن عساكر" 4/343.

۔7- قال ابن كثير في (البداية والنهاية ج11 ص573)۔

"وقال الإمامُ أحمدُ: حَدَّثنا عبدُ الرحمنِ وعَفّان ، ثنا حَمَّادُ بنُ سَلَمةَ ، عن عَمَّارِ بنِ أبي عَمَّارٍ، عن ابنِ عباسٍ قال : رأيْتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم في المَنامِ بنِصفِ النَّهارِ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، معه قارُورةٌ فيها دمٌ، فقلتُ : بأبي أنتَ وأمي يا رسولَ اللهِ، ما هذا ؟! قال : "هذا دَمُ الحسينِ وأصحابِه ، لم أَزَلْ أَلْتَقِطُه منذ اليومِ". قال عَمَّارٌ: فأَحْصَيْنا ذلك اليومَ فوَجَدْناه قد قُتِل في ذلك اليوم. تفَرَّد به أحمدُ ، وإسنادُه قويٌّ".قال الدكتور عبد الله بن عبد المحسن التركي: إسناده صحيح
(11.4 M)PDF


۔8- قال الهيثمي في (مجمع الزوائد ج9 ص193-194، كتاب المناقب، باب مناقب الحسين بن علي)۔

"وعن ابن عباس قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في المنام بنصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم يتلقطه أويبيع فيها شيئاً فقلت: ما هذا؟ قال: دم الحسين وأصحابه فلم أزل أتتبعه منذ اليوم . رواه أحمد والطبراني ورجال أحمد رجال الصحيح".

۔9- قال البوصيري في (إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة ج7 ص238 ح6754 طبعة دار الوطن، الرياض)۔

"وعن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس - رضي الله عنهما - قال : "رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار وهو قائم أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقلت : بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما هذا ؟ قال : هذا دم الحسين وأصحابه لم أزل ألتقطه منذ اليوم. قال : [فأحصينا ذلك اليوم فوجدوه قتل في ذلك اليوم]".رواه أبو بكر بن أبي شيبة وأحمد بن حنبل وأحمد بن منيع وعبد بن حميد بسند صحيح".
وفي طبعة مكتبة الرشد (ج9 ص318 ح9054)۔


۔10- قال مقبل بن هادي الوادعي في (الجامع الصحيح مما ليس في الصحيحين ج4 ص66 ح2475 طبعة دار الآثار، صنعاء، اليمن)۔

"قال الإمام أحمد رحمه الله في "فضائل الصحابة" (ج2 ص778): حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارٍ، هُوَ ابْنُ أَبي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم في المَنَامِ بِنِصْفِ النَّهَارِ، أَشْعَثَ أَغْبَرَ مَعَهُ قَارُورَةٌ فِيهَا دَمٌ يَلْتَقِطُهُ، أَوْ يَتَتَبَّعُ فِيهَا شَيْئاً، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا؟ قَالَ: "دَمُ الحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ، لَمْ أَزَلْ أَتَتَبَّعُهُ مُنْذُ اليَوْمِ". قَالَ عَمَّارٌ: فَحَفِظْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، فَوَجَدْنَاهُ قَتِلَ ذَلِكَ اليَوْمَ عليه السلام.حَدَّثَنَا عَفَّانُ بنُ مُسلِمٍ، نَا حَمَّادٌ قَالَ: أَنَا عَمَّارُ بْنُ أَبي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم فِيمَا يَرَى النَّائِمُ بِنِصْفِ النَّهَارِ - قَائِلٌ -، أَشْعَثَ أَغْبَرَ، بِيَدِهِ قارُورَةٌ فِيهَا دَمٌ، فَقَالَ: بِأَبي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا؟ قَالَ: "دَمُ الحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ، فَلَمْ أَزَلْ أَلْتَقِطُهُ مُنْذُ اليَوْمِ" فَأَحْصَيْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، فَوَجَدُوهُ قُتِلَ في ذَلِكَ اليَوْمِ عليه السلام.هذا حديث صحيحٌ على شرط مسلم".


۔11- أوردَته أم شعيب الوادعية في (الصحيح المسند من فضائل أهل بيت النبوة ص80 ح106)۔

تبصرہ
ا
ن صحیح روای
ات سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امام حسینؑ کی شہادت پر سخت غمگین تھے. اور آج مسلمان سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے امام حسینؑ[FONT=&amp] کا غم مناتے ہیں اور غمگین ہوتے ہیں

[/FONT] ام سلمہؓ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عاشوراء کے روز خواب میں دیکھنا

ام سلمیٰ ٰؓ سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے ? آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی ہے .آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی. میں نے عرض کی، یارسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ? ارشاد فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسینؑ کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے

[FONT=&amp]مندرجہ بالا روایت مندرجہ ذیل کتب اھل سنت میں موجود ہیں
[/FONT] [FONT=&amp]جامع ترمذی // ابوعیسی ٰ ترمذی //ص 1028//حدیث:3771//باب:مناقب حسن و حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] //طبع الاولیٰٰ 1426ھ ، دار الکتب العربی بیروت[/FONT] [FONT=&amp]مستدرک//امام حاکم //تلخیص:علامہ ذہبی//ج 4//ص 387//ح:6895//باب ذکر ام المومنین ام سلمہ[/FONT][FONT=&amp]ؓ[/FONT][FONT=&amp] //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان،جز:5[/FONT] [FONT=&amp]تہذیب التہذیب // ابن حجر عسقلانی // ج 2//ص 356//ترجمہ: امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] // طبع الاولی ھند[/FONT] [FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:11//ص 574//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت

[/FONT]
ام المومنین ام ُُسلمہؓ کی کیفیت شہادت حسینؑ کو سننے کے بعد شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں ام المومنین ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا کہ ہم نے داد خواہ کی آواز سنی وہ ام سلمہؓ کے پاس آکر کہنے لگا، حسینؑ قتل ہوگئے ہیں ،ام سلمہؓ نے کہا: انھون نے یہ کام کر دیا ہے اللہ تعالیٰٰ ان کی قبروں یا گھروں کوآگ سے بھر دے اور بھر ام سلمہؓ غم کی شدت سے بے ہوش ہوگئیں

[FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:11//ص 574//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت[/FONT] [FONT=&amp]تاریخ دمشق//ابن عساکر//ج 14//ص 238//طبع 1415ھ ، دارالفکر بیروت[/FONT] [FONT=&amp]مندرجہ بالا روایت کی صحت سند کے لحاظ سے حسن کے درجہ کی ہے

[/FONT]
حدیث نمبر:4 ایک اور روایت میں ہے کہ پھر جبرائیلؑ نے کہا کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے قتل گاہ کی مٹی دکھائوں ،وہ چند مٹھیاں لے کر آئے جسے میں نے ایک بوتل میں رکھ دیا. ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ جب قتل حسینؑ کی رات آئی تومیں نے ایک کہنے والے کو کہتے سنا اے حسینؑ کو جہالت سے قتل کرنے والو! تمہیں عذاب و ذلت کی خوشخبری ہو تم پر ابن دائود، موسیٰٰ اور عیسی ٰٰ علیہم السلام کی زبان س لعنت پڑچکی ہے ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں رو پڑی اور میں نے بوتل کو کھولا تو مٹی خون ہو کر بہہ پڑی

حدیث نمبر:
5 الملا کی روایت اور احمد کی زیادۃ المسند میں ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ مٹی مجھے دے دی اور فرمایاا کہ یہ زمین کی مٹی ہے جہاں اسے قتل کیا جائے گا.جب یہ مٹی لہو ہو جائے تو سمجھ لینا کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے .ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک بوتل میں رکھ دیا اور میں کہا کرتی تھی کہ ایک دن یہ خون میں تبدیل ہوجائے گی .وہ بہت بڑا دن ہوگا اور ام سلمہؓ ہی روایت میں ہے کہ قتل حسینؑ کے روز میں نے اسے پکڑا تو وہ خون ہوگئی تھی

الصواعق المحرقہ // ابن حجر مکی // تحقیق:عبدالوھاب عبد الطیف//ص 192// فصل: ثالث//طبع سوم 1410 ھ ، کتب خانہ مجیدیہ ملتان پاکستان


آسمان و زمین کا رونا

44_29.png
Sahih International
And the heaven and earth wept not for them, nor were they reprieved.

Urdu
سو ان پر نہ تو آسمان وزمین روئے اور نہ انہیں مہلت ملی


آسمان و زمین شھدا کربلاؑ کے غم میں گریہ کناں ہوں گے
حدیث نمبر 9: ابو نعیم حضرت اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم امام حسینؑ[FONT=&amp] کی قبر کے مقام پر پہنچے تو حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے فرمایا: یہاں ان کی سواریاں بیٹھیں گی.یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کا خون بہے گا.آل محمد علیہم السلام کے نوجوانوں کو اس میدان میں شہید کیا جائے گا اورآسمان وزمین ان کے غم میں گریہ کناں ہوں گے

[/FONT]
[FONT=&amp] الخصائص الکبریٰٰ //جلال الدین سیوطی //ج 2//ص 362//اردو ترجمہ:مقبول احمد//طبع جون 2007، جز:2 ضیاءاالقرآن باکستان//باب:اخبار شہادت امام حسین[/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]ؑ

[/FONT][/FONT][/FONT]

آخر میں، میں اپنے قارئین کے لیے صحیح روایات سے حضرت علی کرم اللہ وجہھ کے اس فقرہ کی وضاحت کرتا چلوں جس میں آپ فرماتے ہیں کہ زمین و آسمان حضرت امام حسینؑ کی شہادت پر نوحہ کناں ہوں گے

ما رُفِعَ بالشَّامِ حَجَرٌ يومَ قُتِلَ الحسينِ بنِ عليٍّ إلَّا عن دمٍ
الراوي: محمد بن مسلم بن شهاب الزهري المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/199
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح‏‏

قال لي عبدُ الملكِ أيُّ واحدٍ أنت إنْ أعلمتَني أيَّ علامةٍ كانت يومَ قُتِلَ الحُسَينُ بنُ عليٍّ فقال قلْتُ لم تُرفَعْ حَصاةٌ ببيتِ المقدسِ إلَّا وُجِدَ تحتَها دمٌ عَبيطٌ فقال لي عبدُ الملكِ إنِّي وإيَّاك في هذا الحديثِ لَقرينان
الراوي: محمد بن مسلم بن شهاب الزهري المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/199
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات

ما رُفع بالشامِ حجرٌ يومَ قُتل الحسينُ إلا عن دمٍ

الراوي: محمد بن مسلم بن عبيدالله المحدث: ابن الوزير اليماني - المصدر: العواصم والقواصم - الصفحة أو الرقم: 8/55
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح

ما رُفِعَ حجرٌ بالشَّامِ يومَ قُتِلَ الحسَينُ بنُ عليٍّ إلَّا عن دمٍ
الراوي: محمد بن مسلم بن عبيدالله المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 236
خلاصة حكم المحدث: إسناده رجاله رجال الصحيح

قالَ لي عبدُ الملكِ بنُ مرْوانَ أيُّ واحدٍ أنتَ إن أعلَمتَني أيُّ علامةٍ كانت يومَ قتلِ الحسينِ بنِ عليٍّ؟ قلتُ لم تُرفَعْ حصاةٌ ببيتِ المقدسِ إلَّا وُجِدَ تحتَها دمٌ عبيطٍ فقالَ لي عبدُ الملكِ إنِّي وإيَّاكَ في هذا الحديثِ لقرينانِ
الراوي: محمد بن مسلم بن عبيدالله المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 235
خلاصة حكم المحدث: إسناده رجاله ثقات

لما قتل الحسين بن علي انكسفت الشمس كسفة حتى بدت الكواكب نصف النهار حتى ظننا أنها هي
الراوي: أبو قبيل المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/200
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن‏‏

لما قتل الحسين بن علي انكسفت الشمس كسفة حتى بدت الكواكب نصف النهار حتى ظننا أنها هي

الراوي: أبو قبيل المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 236
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

لما قُتل الحسينُ انكسفتِ الشمسُ كسفةً حتى بدتِ الكواكبُ نصفَ النهارِ حتى ظننَّا أنها هي
الراوي: أبو قبيل حيي بن هانئ المعافري المحدث: ابن الوزير اليماني - المصدر: العواصم والقواصم - الصفحة أو الرقم: 8/55
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن وله شواهد

عن أم حكيم قالت: قتل الحسين فمكثت السماء أياما مثل العلقة
.
الراوي: - المحدث: ابن الوزير اليماني - المصدر: العواصم والقواصم - الصفحة أو الرقم: 8/55
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح

ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے
کہ حضرت امام حسینؑ کے قتل والے دن شام میں اور بیت المقدس میں جس پتھر کو بھی اُٹھایا گیا اُس کے نیچے سے خون جاری ہو گیا اور اُس دن اتنا سخت (مکمل) سورج گرہن لگا کہ دوپہر کو آسمان پر تارے نظر آنے لگے اور آسمان کئی دنوں تک سُرخی مائل رہا اور لوگ گمان کرنے لگے کہ قیامت آنے والی ہے۔
rlcf1s.jpg



With all your references, you proved that feeling the pain of death of loved ones in natural. Prophet Mohemmed (P.B.U.H) had two male children by the name of Ibrahim and Qasim. Both died in young age and there is minute differences among Ulema(Scholars) about their ages We have no, I wold again say NO, proof that Prophet Mohemmed (P.B.U.H) beat him, bleed him and no such activity is reported by any of the member.

Not such kind of activities performed by Prophet Mohemmed (P.B.U.H) upon the death of Hazrat Hamza, Hazrat (R.A), Hazrat Khadeeja (R.A) and any other person.

I believe you now understand the difference between so called "Matam" which is performed publicly and feeling grief upon the death of loved ones and human beings. Matam is not allowed in Sunnat and in Islam.

 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
Prophet Muhammad (pbuh) has forbidden crying out loud and wailing over the dead person

حسین کا اصل غم تہے کہو یہ مسلمان قوم ان کے ساتھ نہی ہے


ہے حوصلہ ان کا ساتھ دینے کا ؟

Hazor ko 40 sal yeh nahi pata tha mein nabi hon ...


یزید جیسے کردار والے حکمران چننا اور ویسا ہی طرز حکومت پسند کرنا اور غم حیسن رضی الله منانا حسینیت نہیں یزدیت ہے

یار پیلیا صاحب مجھے نہیں پتہ کہ کون تمہاری میل بھر لمبی پوسٹ پڑہتا ہے۔ اتنا لکھو کہ لوگ پڑہ سکیں۔ صفحے بھرنے سے کوئی بات میں وزن نہیں آتا۔

حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى لسان اطہر سے "سيد الشہداء " كا لقب معین طور پر ، عم رسول شہید اُحد حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضى اللہ عنہ کے ليے ادا ہوا ہے
۔



With all your references, you proved that feeling the pain of death of loved ones in natural. Prophet Mohemmed (P.B.U.H) had two male children by the name of Ibrahim and Qasim. Both died in young age and there is minute differences among Ulema(Scholars) about their ages We have no, I wold again say NO, proof that Prophet Mohemmed (P.B.U.H) beat him, bleed him and no such activity is reported by any of the member.

Not such kind of activities performed by Prophet Mohemmed (P.B.U.H) upon the death of Hazrat Hamza, Hazrat (R.A), Hazrat Khadeeja (R.A) and any other person.

I believe you now understand the difference between so called "Matam" which is performed publicly and feeling grief upon the death of loved ones and human beings. Matam is not allowed in Sunnat and in Islam.


ضا۔ ساتھ دیے گئےآن لائن حوالہ جات بھی ملاحظہ کرلیجیے گا





Narrated Abu Burda: That his father said, "When Umar was stabbed, Suhaib started crying: O my brother! 'Umar said, 'Don't you know that the Prophet said: The deceased is tortured for the weeping of the living'?" (Sahih Bukhari, Book #23, Hadith #377)


Narrated Jabir bin 'Abdullah : On the day of the Battle of Uhud, my father was brought and he had been mayhemed and was placed in front of Allah's Apostle and a sheet was over him. I went intending to uncover my father but my people forbade me; again I wanted to uncover him but my people forbade me. Allah's Apostle gave his order and he was shifted away. At that time he heard the voice of a crying woman and asked, "Who is this?" They said, "It is the daughter or the sister of Amr." He said, "Why does she weep? (or let her stop weeping), for the angels had been shading him with their wings till he (i.e. the body of the martyr) was shifted away." (Sahih Bukhari,Book #23, Hadith #381)

Narrated 'Aisha: When the Prophet got the news of the death of Ibn Haritha, Ja'far and Ibn Rawaha he sat down andwomen of Ja'far. The Prophet ordered him to forbid them. The man went and came back saying that he had told them but they did not listen to him. The Prophet (p.b.u.h) said, "Forbid them." So again he went and came back for the third time and said, "O Allah's Apostle! By Allah, they did not listen to us at all." ('Aisha added): Allah's Apostle ordered him to go and put dust in their mouths. I said, (to that man) "May Allah stick your nose in the dust (i.e. humiliate you)! You could neither (persuade the women to) fulfill the order of Allah's Apostle nor did you relieve Allah's Apostle from fatigue. " looked sad and I was looking at him through the chink of the door. A man came and told him about the crying of the
(Sahih Bukhari, Book #23, Hadith #386)

Anas b. Malik reported that Allah's Messenger (may peace be upon him) came to a woman who had been weeping for her (dead) child, and said to her: Fear Allah and show endurance. She (not recognising him) said: You have not been afflicted as I have been. When he (the Holy Prophet) had departed, it was said to her that he was the Messenger of Allah (may peace be upon him), she was mortally shocked. She came to his door and she did not find doorkeepers at his door. She said: Messenger of Allah. I did not recognise you. He said: Endurance is to be shown at first blow, or at the first blow.
(Sahih Muslim, Book #004, Hadith #2013)

'Abdullah b. 'Umar reported that Hafsa wept for 'Umar (when he was about to due). He ('Umar) said: Be quiet, my daughter. Don't you know that the Messenger of Allah (may peace be upon him) had said:" The dead is punished because of his family's weeping over it"?
(Sahih Muslim, Book #004, Hadith #2015)

Ibn 'Umar reported: When 'Umar was wounded he fainted, and there was a loud lamentation over him. When he regained consciousness he said: Didn't you know that the Messenger of Allah (may peace be upon him) said:" The dead is punished because of the weeping of the living"?
(Sahih Muslim, Book #004, Hadith #2018)
 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
With all your references, you proved that feeling the pain of death of loved ones in natural. Prophet Mohemmed (P.B.U.H) had two male children by the name of Ibrahim and Qasim. Both died in young age and there is minute differences among Ulema(Scholars) about their ages We have no, I wold again say NO, proof that Prophet Mohemmed (P.B.U.H) beat him, bleed him and no such activity is reported by any of the member.

Not such kind of activities performed by Prophet Mohemmed (P.B.U.H) upon the death of Hazrat Hamza, Hazrat (R.A), Hazrat Khadeeja (R.A) and any other person.

I believe you now understand the difference between so called "Matam" which is performed publicly and feeling grief upon the death of loved ones and human beings. Matam is not allowed in Sunnat and in Islam.

[FONT=&amp]
[/FONT]
محترم ارسلان بهائی
اس پوسٹ کا مقصد ماتم کے جواز کا شرعی جائزہ نہیں تھا بلکہ یہ پوسٹ انصاف ٹائیگر کے اس کمنٹ کے جواب میں تھی۔

Hazor ko 40 sal yeh nahi pata tha mein nabi hon magar hussain ko goad lay kar 60 sal baad ka event bata diya or kon loag marain gain yah nahi bataya .. Lagay raho brain washing mein yahan sab bikta hai .. Yeh bhi ajeeb baat hai Jo baat 60 sal Pahlay he Kisi ke khatay mein likhnay Walay na Likh do ke woh youn karay ga tu OSS likhay Walay ke khilaf jalos nikalo jis na Kia woh tu mohra tha jis ki apni koi marzi na thi ...

لیکن اُس پوسٹ سے بھی جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ نیچے درج ہے اور اصل پوسٹ میں بھی بیان ہے۔
[FONT=&amp]کربلا جانا، [/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]شُھدا [/FONT][/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]کربلا[/FONT] کی زیارت کرنا[/FONT][/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]،[/FONT] سارا دن شُھدا کربلا کا ذکر کرنا اور اُنکی یاد منانا، غم زدہ ہونا، گری[/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]ہ[/FONT] کرنا رونا، غم زدہ حالت بنانا، سر کے بالوں کو نہ سنوارنا اور سر میں خاک ڈالنا، غم حسینؑ میں چہرے اور داڑھی کو خاک آلود کرنا، خاک کربلا کی زیارت کرنا، تعزیہ داری[/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]، [/FONT] حضرت امام حُسین کے قاتلوں پر لعنت کرنا اور اُن سے سخت بیزار رہنا، شُھدا کربلا پر درود و سلام بھیجنا، اپنے آپ کو عزاداری حُسین میں تھکا دینا
[/FONT]

آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کروں گا کہ آپ واقعات کربلا کو عام طریقے پر لیتے ہوئے یوں کہیں کہ
feeling the pain of death of loved ones in natural.

حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف سے اللہ کی رضا کی خاطر اور کلمہ حق بلند کرنے کیلیے کربلا قربانی اور ایثار کی نادر ترین مثال ہے اور حق و باطل میں تمیز پیدا کرنے والی واضح اور نا مٹنے والی لکیر ہے۔ اور دشمنوں کی طرف سے ظلم و بربریت اور درندگی اور احسان فراموشی اور بددیانتی کی آخری حد ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آٓلہ وسلم کا اپنی قبر مبارک سے اُٹھ کر بے قرار ہو کر کربلا چلے جانا نیچرل (عام بات) نہیں۔ فرشتوں کا بار بار آ کر خبر دینا کوئی عام بات نہیں۔ کربلا وہ واقعہ ہے جس کی دھوم فرشتوں میں تھی اور نہ ہی حضرت امام حسین علیہ السلام عام ہستی ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کی محبت کا وجوب اس امت کی گردن پر ہے۔ اور بغیر اُنکی محبت کے وہ مومن نہیں۔

 
Last edited:

Sam Sam

Senator (1k+ posts)
شروع سے بتائیں ذراتفصیل سے بیان فرمائیں

جہالت کا علاج تو علم ہے لیکن تعصب کا کوئی علاج نہیں
صحیح احادیث کا انکار کرنا ہے تو کردو۔ کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ اپنے عمل کے تم خودذمہ دار ہو کوئی اور نہیں۔


یوم عاشور، شہادت امام حُسینؑ اور سُنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنھم


عزاداری امام حسینؑ سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سنت علی کرم اللہ وجہہ سے ثابت ہے

امام حسینؑ کی عزاداری میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گریہ فرمایا ہے اور غم حسینؑ میں رونا سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے ، امام حسینؑ کی ولادت کے وقت اور مختلف اوقات میں فرشتے امام حسینؑ کی شہادت کی خبر لاتے تھے اور خاک کربلا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل صحیح روایات سے ثابت ہے

حدیث نمبر: ا ام المومنین عائشہؓ یا ام المومنین ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ آج ہمارے گھر میں فرشتہ آیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا .فرشتے نے مجھے بتایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کا یہ بیٹا حسینؑ قتل کیا جائے گا ،اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہے تو میں اس زمین کی کچھ مٹی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دے سکتا ہوں جہاں پر حسینؑ قتل ہونگے.پھر رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فرشت
[FONT=&amp]ہ میرے لئے مٹی لایا جو کہ لال رنگ کی تھی
[/FONT] [FONT=&amp]محقق کتاب فضائل صحابہ ، کہتا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے
[/FONT]
[FONT=&amp]محقق کتاب فضائل صحابہ ڈاکڑ وصی اللہ بن محمد عباس کی تحقیق مزید
[/FONT]
مندرجہ بالا روایت کے حاشیہ میں محقق کہتا ہے کہ اس روایت کی تخریج مسند احمد میں بھی ہے ، ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ احمد نے اس کو روایت کیا ہے اور اس کے رجال ، الصحیح کے رجال ہیں . طبرانی نے بھی اسے عائشہؓ سے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے .احمد نے بھی مسند میں نجی کے ساتھ اس کی اسناد صحیح کے ساتھ تخریج کی ہے اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں
[FONT=&amp]فضائل صحابہ //احمد بن حنبل //تحقیق:ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس //ج : 2 // طبع الاولیٰٰ 1403ھ ،جز2،جامعہ ام القری مکہ سعودیہ//ص 770//حدیث:1357[/FONT] [FONT=&amp]

مندرجہ بالا حدیث مسند احمد بن حنبل میں بھی ہے، ہم یہاں اس حدیث کی تحقیق پیش کر رہے ہیں جو کہ محقق مسند نے انجام دی ہے[/FONT] محقق کتاب کہتا ہے کہ یہ حدیث اپنے طریق کے ساتھ حسن کے درجہ کی ہے .اس کے بعد محقق کتاب نے اس حدیث کے شواھد ذکر کئے ہیں احمد نے فضائل صحابہ میں، طبرانی نے معجم کبیر میں، ھیثمی نے مجمع الزوائد میں اور کہا ہے کہ اس کے رجال الصحیح کے رجال ہیں ،ابن طھمان نے مشیختہ میں، عاصم نے 2 مختلف طریق سے احاد و المثانی میں ، طبرانی نے معجم میں 5 مختلف طریق سے، حاکم نے مستدرک میں، بیھقی نے 2 مختلف طریق سےدلائل میں، ابن شیبہ نے مصنف میں، اور دارقطنی نے العل میں 2 مختلف طریق سے خبر شہادت امام حسینؑ کو نقل کیا ہے
[FONT=&amp]مسند احمد // احمد بن حنبل // تحقیق: شعیب الارنوط و دیگرمحقیقین// ج : 44// طبع بیروت موسستہ رسالہ،جز 50 // ص 143//حدیث:26524[/FONT] [FONT=&amp]

علامہ ذہبی نے اپنی کتاب تاریخ اسلام میں شہادت امام حسین[/FONT]ؑ سے متعلق تمام اخبار کو نقل کیا ہے اور جناب ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا والی مندرجہ بالا روایت کے متعلق کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہیں . اس کو احمد اودیگر کئی لوگوں نے روایت کیا ہے
[FONT=&amp]تاریخ اسلام // محمد ذہبی // تحقیق: ڈاکٹر عمر عبدالسلام // ج: 5 حوادث : 61 ھجری // طبع اولیٰٰ 1410 ھ ،جز53، دارُُ الکتاب العربی // ص[/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp]104[/FONT] [/FONT] [FONT=&amp]

حدیث نمبر: 2[/FONT]
انس بن مالک
ؓ صحابی سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے اللہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی اجازت مانگی ،اللہ نے اجازت دے دی، اور اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ام ُُسلمہؓ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمہؓ کو کہا ہے کہ تم دروازے پر بیٹھ جائو اورکسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا، انس بن مالکؓ کہتا ہے کہ ام سلمہٰؓ دروازے کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک حسینؑ ابن علیؑ حجرے میں آگئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسینؑ کو گلے لگایا اور ان کو بوسا لیا. تب فرشتے نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں ? آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا: ہاں، فرشتہ بولا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت ان کو قتل کرے گی، اس نے مزید کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہیں تو میں وہ زمین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا سکتا ہوں جہاں ان کو قتل کیا جا ئے گا. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا کہ ہاں دیکھاو ، چنانچہ فرشتے نے ہاتھ جھٹکا اورمٹی سے بھرا ہوا ہاتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھایا. وہ مٹی سرخ رنگ کی تھی، جو بعد میں ام سلمہؓ نے اپنے کپڑے میں سنبھال لی ثابت کہتا ہے کہ ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کربلا کی مٹی ہے
محقق کتاب ،حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن
[FONT=&amp]
مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 6// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14، دار المامون التراث بیروت // ص 129 // حدیث:3402[/FONT]
[FONT=&amp]
حدیث نمبر : 3
[/FONT]
انس بن مالک
ؓ صحابی سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے اللہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی اجازت مانگی، اللہ نے اجازت دے دی، اور اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ام ُُسلمہؓ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ام سلمہؓ کو کہا ہے کہ تم دروازے پر بیٹھ جاو اور کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا، انس بن مالکؓ کہتا ہے کہ ام سلمہٰؓ دروازے کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک حسین ابن علی کرم اللہ وجہھ حجرے میں آگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت پر سوار ہوگئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسینؑ کو گلے لگایا اور ان کو بوسا لیا .تب فرشتے نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں ? آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا: ہاں، فرشتہ بولا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت ان کو قتل کرے گی ، اس نے مزید کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہیں تو میں وہ زمین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا سکتا ہوں جہاں ان کو قتل کیا جا ئے گا. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا کہ ہاں دیکھاو، چنانچہ فرشتے نے ہاتھ جھٹکا اورمٹی سے بھرا ہوا ہاتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھایا. وہ مٹی سرخ رنگ کی تھی، جو بعد میں ام سلمہؓ نے اپنے کپڑے میں سنبھال لی ثابت کہتا ہے کہ ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کربلا کی مٹی ہے

محقق کتاب کہتا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے.اور اس نے دیگر کتب حدیث سے اس کی تخریج کی ہے

[FONT=&amp]الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان// ابن حبان //محقق: شعیب الارنوط// ج 15// طبع الاولیٰٰ 1408ھ ، جز 18، موسستہ الرسالہ // ص 142// حدیث:6742[/FONT] [FONT=&amp]البانی نے صحیح ابن حبان کی تعلیقات میں مندرجہ بالا حدیث کو صحیح لغیرہ کہا ہے[/FONT] [FONT=&amp]التعلیقات الحسان علیٰ صحیح ابن حبان // ناصرالدین البانی // ج 9 //طبع دار با وزیر ، جز 12، ص 406//حدیث:6707[/FONT] [FONT=&amp]

حدیث نمبر: 4
[/FONT]
عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہھ کے ساتھ جا رہے تھے، ہم نینوٰی سے گزرے، جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے، تب حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا، میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غضبناک کیا ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، تب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا نہیں، ابھی جبریل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسینؑ دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے. تب جبرئل نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسینؑ شہید ہونگے? میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا
محقق کتاب، حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن ، اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں محقق کتاب کہتا ہے نینوٰی، نبی یونس
ؑ کا گائوں تھا، موصل عراق میں اور یہ نینوٰی وہی کربلا کی زمین ہے جہاں پر امام حسینؑ شہید ہوئے تھے [FONT=&amp]
مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 1// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14 دار المامون التراث بیروت // ص 298 // حدیث:363[/FONT]

نوٹ : انشاء اللہ ، اب ہم سلفی علماء کی معتبر کتب سے احادیث کی تخریج کریں گے جس کو انھوں نے صحیح قرار دیا ہے

علامہ ناصر الدین البانی اور اخبار شہادت امام حسینؑ

علامہ البانی نے اپنی کتب میں احادیث خبر شہادت امام حسینؑ کو صحیح کہا ہے . چنانچہ اپنی کتاب صحیح جامع صغیر میں لکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میرے امت میرے بیٹے یعنی حسینؑ کو قتل کرے گی اور میرے لیئےحسینؑ کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے علامہ
البانی اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہتا ہے کہ یہ صحیح ہے
[FONT=&amp]صحیح جامع الصغیر // ناصر الدین البانی // ج: 1 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ عرب،جز 2 // ص : 73// حدیث : 61[/FONT]
مندرجہ بالا روایت البانی اپنی کتاب سلسلتہ الصحیحہ میں بھی لکھتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میرے امت میرے بیٹے یعنی حسینؑ کو قتل کرے گی اور میرے لیئےحسینؑ کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے اس کو حاکم نے بھی لکھا ہے اور بیھقی اپنی دلائل میں بھی اس روایت کو اس طرح لے کر
آئے ہیں

ام الفضل بنت الحارث نے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس داخل ہوئیں اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! میں نے آج بُُرا خواب دیکھا ہے .آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ کیا دیکھا ہے ? کہنے لگی کہ وہ بہت برا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ وہ کیا ہے ? کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے. تم نے اچھا خواب دیکھا ہے. حضرت فاطمہ علیہا السلام بچے کو جنم دے گی
ں، انشاء اللہ لڑکا ہوگا اور وہ تیری گود میں ہوگا .چنانچہ فاطمہ علیہا السلام نے امام حسینؑ کو جنم دیا. لہذٰٰا وہ میری گود میں آیے جیسے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا .میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گئی اور میں نے بچے کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گود میں رکھ دیا .اس کے بعد میری توجہ ذرا سی مبذول ہوگئی. پھر جو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھیں آنسو ٹپکا رہی تھیں. کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں آپ کو کیا ہوا ? فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرائیل آئے انہوں نے مجھے خبر دی کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو قتل کر گی، اور میرے لیئےحسینؑ کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے

حاکم نے اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ بخاری ومسلم ک شرط کے مطابق حدیث ہے مگر ذہبی نے کہا ہے کہ یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے مگر البانی یہاں ذہبی کا رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں (البانی) یہ کہتا ہوں کہ ہمارے پاس بہت سے شواھد موجود ہیں جواس کوصحیح قرار دیتے ہیں جن میں سے احمد بن حنبل نے بھی درج کئے ہیں اور ان میں سے ایک شواھد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ آج ہمارے گھر میں فرشتہ آیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا .فرشتے نے مجھے بتایا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کا یہ بیٹا حسینؑ قتل کیا جائے گا ،اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چاہے تو میں اس زمین کی کچھ مٹی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دے سکتا ہوں جہاں پر حسینؑ قتل ہونگے.پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : فرشت
ہ میرے لئے مٹی لایا جو کہ لال رنگ کی تھی
[FONT=&amp]سلسلتہ الاحادیث الصحیحتہ // ناصر الدین البانی // ج 2 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ// ص 464تا465//حدیث:821،822[/FONT] [FONT=&amp]

ایک اور مقام پر البانی اخبار شہادت حسین کی تخریج اس طرح کرتا ہے[/FONT]
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل ابھی میرے پاس سے گئے ہیں اور مجھے خبر دی ہے کہ حسینؑ کو دریائے فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا احمد بن حنبل نے مسند میں روایت نقل کی ہے کہ عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہھ کے ساتھ جا رہے تھے، ہم نینوٰی سے گزرے، جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے، تب حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا، میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غضبناک کیا ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ، تب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کہا نہیں، ابھی جبرئیل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسینؑ دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے. تب جبرئیل نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسینؑ شہید ہونگے?میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئیل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد علامہ البانی کہتا ہے کہ اس روایت کی اسناد ضعیف ہے. نجی جو کہ عبد اللہ کا باپ ہے.اس کو کوئی نہیں جانتا کہ یہ کون ہے جیسا کہ ذہبی نے کہا ہے .ابن حبان کے سوا کسی نے اس کو ثقہ نہیں کہا ہے .اس کا بیٹا اس سے زیادہ مشہور ہے مگر البانی کہتا ہے کہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کو احمد نے روایت کیا ہے، اس طرح ابو یعلیٰٰ ، بزا اور طبرانی نے اور اس کے تمام رجال ثقات میں سے ہیں.اوراس روایت کو صرف نجی نے نقل نہیں کیا بلکہ اور بھی رواۃ سے یہ مروی ہے البانی مزید کہتا ہے اس حدیث کے شواہد نے اس کو قوی بنادیا ہے اور یہ حدیث حقیقت میں صحیح کے درجے کو پہنچ جاتی ہے. نوٹ:اھل حدیث کے عالم حافظ زبیر علی زئی نے مسند احمد والی حدیث جو کہ نجی سے مروی ہے اس کی سند کو حسن کہا ہے اور کہا ہے کہ عبد اللہ بن نجی اور اس کا باپ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں اور ان کی حدیث حسن کے درجے سے کم نہیں ہوتی ملاحظہ کریں : نیل المقصود فی تحقیق سنن ابن داود:227

اس کے بعد البانی نے شہادت امام حسینؑ سے متعلق 6 طریق نقل کئے ہیں بطور شواھد جو کہ ا س حدیث کو قوی بنا دیتے ہیں مختلف شواھد نقل کرنے کے بعد البانی کہتا ہے کہ میں (البانی) ایک جملہ میں یہ بات کہتا ہوں کہ یہ حدیث اپنے مختلف معانی اور تفسیر کے ساتھ، مختلف صحیح طریق نے اس کو صحیح بنا دیا ہے. اگر چہ کچھ رواۃ میں کمزوری ہے مگر بطور بجموعہ یہ احادیث صحیح اور حسن کے درجے کی ہیں

[FONT=&amp]سلسلتہ الاحادیث الصحیحتہ // ناصر الدین البانی // ج 3 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ// ص 159تا162//حدیث:[/FONT][FONT=&amp] 1171[/FONT]

اخبار شہادت امام حسین ؑ
[FONT=&amp]اور حافظ ابن کثیر

[/FONT]
حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں مقتل حسینؑ کے متعلق احادیث کو لکھا ہے. ابن کثیر اس طرح سُُرخی دیتا ہے امام حسینؑ کے قتل کے متعلق اخبار ابن کثیر لکھتا ہے کہ حدیث میں امام حسینؑ کے قتل کے متعلق بیان ہوا ہے

ابن کثیر پہلی روایت بارش کے فرشتے والی لے کر آیا ہے جو کہ انس بن مالک سے مروی ہے، اس روایت کے مطابق ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا نے خاک کربلا کو لے اپنے کپڑے کے پلو سے باندھ لیا

نوٹ : واضح رہے کہ بارش کے فرشتے والی روایت سند کے لحاظ سے حسن کے درجہ کی ہے

اس کے بعد ایک روایت ابن کثیر نقل کرتا ہے کہ حضرت ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک روز پہلو کے بل لیٹے تھے،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیدار ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حیران تھے، پھر لیٹے تو سو گئے، پھر بیدار ہوئے تو پہلی بار کے مقابلہ میں کم حیران تھے، پھر لیٹے اور بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ میں سرخ مٹی تھی، جسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الٹ پلٹ رہے تھے، میں نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ مٹی کیسی ہے? فرمایا جبرئیل نے مجھے بتایا ہے کہ یہ سر زمین عراق میں حسینؑ کے قتل ہونے کی جگہ ہے، میں نے کہا اے جبرئیل ! مجھے اس زمین کی مٹی دکھائیے جہاں حسینؑ قتل ہونگے پس یہ اس زمین کی مٹی ہے اس کے بعد ابن کثیر نے ام الفضل بنت حارث والی روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہادت حسینؑ کی خبر پر گریہ فرمایا
نوٹ: ہم مندرجہ بالا سطور میں ام الفضل اور بارش کے فرشتے والی روایت نقل کر آئیں ہیں اس لئے ان کی تکرار نہیں کی

[FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:9//ص 234//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت //باب:اخبار مقتل حسین[/FONT]

[FONT=&amp]اخبار شہادت امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] اور حافظ ابو نعیم اصفہانی[/FONT]

ابو نعیم اصفہانی نے بھی دلائل النبوہ میں امام حسینؑ کی شہادت کی احادیث کو جمع کیا ہے ابو نعیم اصفہانی سرخی اس طرح قائم کرتے ہیں امام حسینؑ کی شہادت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو ارشادات فرمائے

پہلی روایت انس بن مالک سے لے کر آئ
ے ہیں، جو خبر بارش کے فرشتے والی جو کہ ہم مندرجہ بالا سطور میں مکمل نقل کر آے ہیں اس روایت کے متعلق محقق کتاب ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی اس طرح لکھتے ہیں اس روایت کو بیہقی نے ، احمد نے مسند میں روایت کیا ہے اور ابو یعلی ٰٰ ، بزار اور طبرانی نے عمارۃ بن زاذان کی سند سے روایت کیا ہے اور عمارۃ بن زاذان کو ایک جماعت نے ثقہ کہا ہے اور بعض نے ضعیف کہاہے. اور بقیہ رجال ابو یعلی ٰ رجال الصحیح ہیں، مجمع الزوائد میں یہ بات ہیثمی نے کہی ہے ابو نعیم ایک اور روایت لاتے ہیں جو کہ اس طرح ہے سلیمان بن احمد کی روایت میں ہے کہ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سونگھا یعنی خاک کو، تو فرمایا کرب اور بلا کی بو ہے اس میں، تو کہتے ہیں ہم سنا کرتے تھے کہ حسین بن علی کرم اللہ وجہھ کربلا میں شہید ہوں گے اسی طرح ایک اور روایت بھی نقل ہوئی ہے انس بن حارث سے روایت ہے کہ میں نےسنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما رہے تھے میرا بیٹا سرزمین عراق میں شہید ہوگا، تو جو شخص وہ دور پائے اس کی مدد کرے ،، کہتے ہیں چنانچہ یہ انس امام حسینؑ کے ساتھ شہید ہوئے
[FONT=&amp]دلائل النبوہ //ابونعیم اصفہانی //ج 2//ص 553//طبع الثانیہ 1406ھ ،جز 2 دارالنفائس بیروت//محقق: ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی//حدیث:[/FONT][FONT=&amp] 492،493[/FONT]

[FONT=&amp] اخبار شہادت امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] اور حافظ جلال الدین سیوطی

[/FONT]
حافظ جلال الدین سیوطی نے بھی اپنی کتاب "الخصائص الکبریٰٰ " میں شہادت امام حسینؑ کے حوالے سے اخبار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تخریج کی ہے باب اس طرح قائم کرتے ہیں: حضرت امام حسینؑ کی شہادت سے آگاہ فرمانا

حدیث نمبر1: پہلی حدیث حاکم اور بیہقی سے حضرت ام الفضل بنت حارث والی نقل کی ہے (جس کوہم اوپر علام البانی کی تخریج میں نقل کر آئیں ہیں )،اس لئے تکرار نہیں کر رہے

حدیث نمبر 2: یہ حدیث ابن راہویہ ، بیہقی اور ابو نعیم سے نقل کی ہے ،جناب ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے ، اس حدیث کو ہم ابن کثیر کی تخریج میں نقل کر آئیں ہیں ،ملاحظہ کریں وہاں

حدیث نمبر 3: یہ بیہقی اور ابو نعیم سے انس بن مالک والی روایت بارش کے فرشتہ والی ہے جس میں فرشتہ خبر شہادت امام حسینؑ لے کر آتا ہے،مندرجہ بالا سطور میں مراجع کریں

حدیث نمبر 4: ابو نعیم حضرت ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ امام حسن
ؑ و حسینؑ میرے گھر میں کھیل رہے تھے. جبرئیل اترے اور امام حسینؑ کی طرف اشارہ کر کے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت آپ کے بعد آپ کے فرزند کو شہید کر دے گی. جبرئیل مقتل کی مٹی بھی لائے جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سونگھا تو فرمایا اس سے کرب و بلا ء کی بُُو آرہی ہے ، پھر فرمایا: اے ام سلمہؓ ! جب وہ مٹی خون بن جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا شہید کر دیا گیا ہے،چنانچہ میں وہ مٹی ایک شیشی میں محفوظ کر لی

حدیث نمبر 5: ابن عساکر محمد بن عمرو بن حسن سے روایت کرتے ہیں کہ نہر کربلاء کے پاس ہم امام حسینؑ کے ساتھ تھے .آپ
ؑ نے شمر ذی الجوشن کی طرف دیکھا تو فرمایا اللہ اور رسول نے سچ فرمایا.رسول
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا : گویا میں ایک چتکبرے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اھل بیت علیہم السلام کا خون پی رہا ہے اور شمر برص کے مرض میں مبتلا تھا

حدیث نمبر 6: انس بن حارث والی روایت ،جس میں نصرت حسینؑ کا کہا گیا ہے اوپر ابو نعیم کی تخریج میں ملاحظہ کریں

حدیث نمبر 7: بیہقی سے روایت نقل کی ہے جس میں جبرئیل خاک کربلا رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھاتے ہیں ،ملاحظہ کریں مندرجہ بالا سطور میں

حدیث نمبر 8: جنگ صفین جاتے وقت گریہ علی کرم اللہ وجہھ مقام کربلا پر اور خبر شہادت دینا امام حسینؑ کی، ملاحظہ کریں مندرجہ بالا سطور میں

حدیث نمبر 9: ابو نعیم حضرت اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم امام حسینؑ
[FONT=&amp] کی قبر کے مقام پر پہنچے تو حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے فرمایا: یہاں ان کی سواریاں بیٹھیں گی.یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کا خون بہے گا.آل محمد علیہم السلام کے نوجوانوں کو اس میدان میں شہید کیا جائے گا اور آسمان وزمین ان کے غم میں گریہ کناں ہوں گے[/FONT]

[FONT=&amp] الخصائص الکبریٰٰ //جلال الدین سیوطی //ج 2//ص 362//اردو ترجمہ:مقبول احمد//طبع جون 2007، جز:2 ضیاءاالقرآن باکستان//باب:اخبار شہادت امام حسین[/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]ؑ
[/FONT] [/FONT][/FONT]
[FONT=&amp]
اخبار شہادت امام حسین[/FONT]
ؑ اور حافظ بیہقی


اب ہم حافظ بیہقی کی کتاب "دلائل النبوہ " سے اخبار شہادت امام حسینؑ کو نقل کریں گے . دلائل النبوہ کتاب کے متعلق علامہ ذہبی کہتے ہیں "اس کتاب کو حرز جان بنانا چاہیئے یہ سراسر نور ھدایت ہے " (المستطرفہ ،ص 165) حافظ بیہقی باب اس طرح قائم کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خبر دینا اپنے نواسے ابوعبداللہ حسین بن علی بن ابی طالب
علیہم السلام کے شہید ہونے کی پھر ایسے ہی ہوا جیسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خبر دی تھی اور اس موقع پر جو کرامات ظاھر ہوئیں جو دلالت کرتی تھیں ان کے نانا کی نبوت کی صحت پر

حدیث نمبر:1 پہلی حدیث جناب ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے نقل کی گئی ہے جس کے مطابق جبرئیل نے شہادت امام حسینؑ دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اور خاک کربلا دی ، مکمل حدیث مندرجہ بالا سطور میں حافظ ابن کثیر کی تخریج میں ملاحظہ کریں حافظ بیہقی اس حدیث کا متابع بھی لائے ہیں

حدیث نمبر:2 یہ حدیث ام الفضل بنت حارث والی ہے جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ولادت و شہادت امام حسینؑ کی خبر دی، یہ حدیث بھی ہم اوپر نقل کر آئیں ہیں

حدیث نمبر: 3 یہ حدیث بارش کے فرشتے والی ہے جس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شہادت امام حسینؑ کی خبر دیتا ہے اور خاک کربلا کی زیارت کراتا ہے محقق دلائل النبوہ ڈاکٹر عبدالمعطی قلعی حاشیہ میں لکھتا ہے اس روایت (بارش کے فرشتے والی) کو مسند احمد بھی نقل کیا ہے اور صاحب مجمع الزوائد کہتا ہے : اس کو طبرانی نے بھی روایت کیا ہے اور اسناد حسن ہے

حدیث نمبر: 4 ابوسلمہؓ بن عبدالرحمان کہتے ہیں کہ عائشہؓ کا ایک بالا خانہ تھا .حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب جبرئیل سے ملنے کا ارادہ کرتے تھے تو اس میں ملتے تھے .ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس پر چڑھ گئے اور عائشہؓ سے کہا کہ ان کی طرف نہ جھانک
یں، کہتے ہیں کہ اوپڑ کی سیڑھی عائشہؓ کے حجرے میں سے تھی.امام حسینؑ داخل ہوئے اور اوپر چڑھ گئے ، ان کو معلوم نہ ہو سکا حتیٰٰ کہ وہ بالا خانے میں پہنچ گئے . جبرئیل نے پوچھا یہ کون ہیں ?فرمایا یہ میرا بیٹا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسین
ؑ[FONT=&amp] کو پکڑ کر اپنی ران پر بٹھا لیا.جبرئیل نے کہاعنقریب اس کوآپ کی امت قتل کرے گی .رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ میری امت ? انہوں نے کہا جی ہاں ! اگر آپ چاہیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس سر زمین کی خبر دوں جس میں وہ قتل کئے جائیں گے.جبرئیل نے مقام الطف عراق کی طرف اشارہ کیا اور انہوں نے سُُرخ مٹی وہاں سے لے لی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وہ مٹی دکھا دی
[/FONT] [FONT=&amp]دلائل النبوہ //حافظ بیہقی // سفر سادس // ص 468// تحقیق:ڈاکٹر عبدالمعطی قلعی // طبع الاولی 1408 ھ ، جز 7،دارالکتب العلمیہ بیروت

[/FONT] اخبار شہادت امام حسینؑ اور ابن حجر مکی

[FONT=&amp] اب ہم ابن حجر مکی کی مشہور زمانہ کتاب صواعق المحرقہ سے شہادت امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] کے متعلق اخبار کی تخریج کریں گے

[/FONT] حدیث نمبر : 1 پہلی حدیث ابن سعد اور طبرانی سے عائشہؓ سے لے کر آئے ہیں جس کے مطابق جبرائیل امام حسینؑ کی شہادت کے متعلق خبر لاتے ہیں اور مقتل کی مٹی بھی دیکھاتے ہیں

حدیث نمبر:2 ابودائود اور حاکم سے ام الفضل والی روایت نقل کی گئی ہے

حدیث نمبر:3 بغوی سے انس بن مالک سے بارش کے فرشتے والی حدیث لے کر آئیں ہیں جس میں شہادت امام حسینؑ کی خبر کا ذکر ہے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ابن حجر مکی کہتا ہے ابوحاتم نے اسے اپنی صحیح میں نقل کیا اور احمد نے بھی ایسی روایت بیان کی ہے اور عبد بن حمید اور ابن احمد نے بھی ایسی ہی ایک روایت بیان کی ہے لیکن اس میں یہ بیان ہوا کہ وہ فرشتہ جبرائیل تھا.اگر یہ صحیح ہے تو یہ دو واقعے ہیں اور دوسری میں اضافہ بھی ہوا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا کہ کرب و بلا کی خوشبو آتی ہے

حدیث نمبر:4 الملا کی روایت اور احمد کی زیادۃ المسند میں ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ مٹی مجھے دے دی اور فرمایاا کہ یہ زمین کی مٹی ہے جہاں اسے قتل کیا جائے گا.جب یہ مٹی لہو ہو جائے تو سمجھ لینا کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے .ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک بوتل میں رکھ دیا اور میں کہا کرتی تھی کہ ایک دن یہ خون میں تبدیل ہوجائے گی .وہ بہت بڑا دن ہوگا اور ام سلمہؓ ہی روایت میں ہے کہ قتل حسینؑ کے روز میں نے اسے پکڑا تو وہ خون ہوگئی تھی

حدیث نمبر:5 ایک اور روایت میں ہے کہ پھر جبرائیل
ؑ نے کہا کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے قتل گاہ کی مٹی دکھائوں ،وہ چند مٹھیاں لے کر آئے جسے میں نے ایک بوتل میں رکھ دیا. ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ جب قتل حسینؑ کی رات آئی تومیں نے ایک کہنے والے کو کہتے سنا اے حسینؑ کو جہالت سے قتل کرنے والو! تمہیں عذاب و ذلت کی خوشخبری ہو تم پر ابن دائود، موسیٰٰ اور عیسی ٰٰ علیہم السلام کی زبان س لعنت پڑچکی ہے ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں رو پڑی اور میں نے بوتل کو کھولا تو مٹی خون ہو کر بہہ پڑی

حدیث نمبر: 6 ابن سعد نے شعبی سے بیان کیا ہے کہ صفین کی طرف جاتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہھ کربلا سے گزرے. یہ فرات کے کنارے نینوی ٰٰ بستی کے بالمقابل ہے آپ نے وہاں کھڑے ہو کر اس زمین کا نام پوچھا. آپ کو بتایا گیا کہ اسے کربلا کہتے ہیں تو آپ رو پڑے یہاں تک کہ آپ
ؑ کے آنسوئوں سے زمین سے تر ہوگئی، پھر فرمایا،میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رو رہے تھے.میں نے عرض کیا آپ کس وجہ سے گریہ کناں ہیں ? فرمایا: ابھی جبرائیل نے آکر مجھے خبر دی ہے کہ میرا بیٹا حسینؑ فرات کے کنارے ایک جگہ قتل ہوگا جسے کربلا کہا جاتا ہے پھر جبرائیل نے ایک مٹھی پکڑ کر مجھے سنگھائی تو میں اپنے آنسوئوں کو روک نہ سکا مسند احمد نے بھی اس کو نقل کیا مختلف الفاظ کے ساتھ، مندرجہ بالا سطور ملاحظہ کریں

حدیث نمبر: 7 اس میں وہ روایت بیان کی ہے جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہھ قبرحسینؑ کی جگہ کے کے پاس سے گزرتے ہیں اور آل محمد
علیہم السلام کے خون بہنے کی جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں، مکمل حدیث مندرجہ بلا سطور میں ملاحظہ کریں

حدیث نمبر : 8 ابن سعد سے روایت بیان کی ہے ، عائشہؓ کے بالا خانہ والی ، جس میں جبرائیل شہادت حسینؑ کی خبر لاتے ہیں
[FONT=&amp]

الصواعق المحرقہ // ابن حجر مکی // تحقیق:عبدالوھاب عبد الطیف//ص 192// فصل: ثالث//طبع سوم 1410 ھ ، کتب خانہ مجیدیہ ملتان پاکستان
[/FONT] نوٹ: ہم نے جو احادیث مکمل نقل نہیں کی ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مندرجہ بالا موضوعات میں ان کو مکمل نقل کر آئ
[FONT=&amp]ے ہیں ، صرف وہ روایات لکھیں جو پہلے نہیں لکھ چکے تھے

[/FONT] نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صحابہ
ؓ کو حکم دینا کہ وہ امام حسینؑ کی نصرت کریں

حضرت انس بن حارث
ؓ ان کا شمار اھل کوفہ میں ہوتا ہے .انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ میرا بیٹا(یعنی امام حسین
ؑ ) سرزمین عراق میں شہید ہوگا پس جو شخص ان کو پائے وہ ان کی مدد کرے چنانچہ یہ انس بن حارث بھی امام حسینؑ کے ساتھ شہید ہوئے متاخرین یعنی ابن مندہ نے انس بن حارث کو صحابہ میں شمار کیا ہے ،ابن مندہ کی ابوعمر نے اور ابواحمد عسکری بے بھی موافقت کی ہے، ان دونوں نے بھی کہا ہے کہ ان کا صحابی ہونا ثابت ہے اس طرح یہ روایت صاحب اسدالغابہ "حارث بن نبیہ" کے ترجمہ میں بھی لائے ہیں اور اس میں اس چیز کا اضافہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ بیان کر رہے تھے اس وقت امام حسینؑ[FONT=&amp] ان کی گود میں تھے

[/FONT]
[FONT=&amp]اُسد الغابہ // ابن اثیر// ج 1 // ص 203//اردو ترجمہ: عبدالشکور لکھنوی // طبع پاکستان//ترجہ : انس بن حارث و حارث بن نبیہ[/FONT] [FONT=&amp]الاصابہ //ابن حجر عسقلانی //ج 1// ص 69//طبع مصر //ترجمہ: انس بن حارث

[/FONT]

عاشورہ کے روز، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حالت
[FONT=&amp]عاشورہ کے روز شہادت امام حسینؑ والے دن سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سُنت ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا
کربلا جانا، [/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp]شُھدا [/FONT][/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]کربلا[/FONT] کی زیارت کرنا[/FONT][/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]،[/FONT] سارا دن شُھدا کربلا کا ذکر کرنا اور اُنکی یاد منانا، غم زدہ ہونا، گری[/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]ہ[/FONT] کرنا رونا، غم زدہ حالت بنانا، سر کے بالوں کو نہ سنوارنا اور سر میں خاک ڈالنا، غم حسینؑ میں چہرے اور داڑھی کو خاک آلود کرنا، خاک کربلا کی زیارت کرنا، تعزیہ داری[/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp]، [/FONT] حضرت امام حُسین کے قاتلوں پر لعنت کرنا اور اُن سے سخت بیزار رہنا، شُھدا کربلا پر درود و سلام بھیجنا، اپنے آپ کو عزاداری حُسین میں تھکا دینا

[/FONT]

[FONT=&amp] مبارک[/FONT] [FONT=&amp]حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا عبد الرحمن ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في المنام بنصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم يلتقطه أو يتتبع فيها شيئا قال قلت يا رسول الله ما هذا قال دم الحسين وأصحابه لم أزل أتتبعه منذ اليوم[/FONT] [FONT=&amp]قال عمار فحفظنا ذلك اليوم فوجدنا قتل ذلك اليوم

[/FONT]
[FONT=&amp]ترجمہ
[/FONT]
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر (عاشور کے روز) کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل تھی. میں نے پوچھا: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قربان ہوں، یہ کیا ہے ? آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: یہ حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے ، میں اسے صبح سے اکٹھا کر رہا ہوں
راوی کہتا ہے کہ حساب لگایا گیا تو حسینؑ[FONT=&amp] اسی دن شہید ہوگئے تھے

[/FONT]
یہ حدیث مبارک ، مندرجہ ذیل علماء اھل سنت نے اپنی اپنی کتب میں نقل کی ہیں [FONT=&amp]
مسند احمد بن حنبل // احمد بن حنبل//تحقیق:شعيب الأرنؤوط//ج 4،ص 59تا60//حدیث: 2165//موسستہ الرسالتہ بیروت جز:50[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال شعيب الأرنؤوط : اسناده قوي على شرط مسلم[/FONT] [FONT=&amp]مسند احمد بن حنبل // احمد بن حنبل//تحقیق: أحمد شاكر//ج 4،ص26//حدیث: 2165/دارالمعارف مصر، جز:16[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال أحمد شاكر : إسناده صحيح[/FONT] [FONT=&amp]مستدرک//امام حاکم //تلخیص:علامہ ذہبی//ج 4//ص 312//ح:8368//قدیمی کتب خانہ پاکستان،جز:4[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں :قال الحاكم : هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه[/FONT] [FONT=&amp]اور علامہ ذہبی کہتا ہے:قال الذهبي : على شرط مسلم[/FONT] [FONT=&amp]فضائل صحابہ //احمد بن حنبل //تحقیق:ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس //ج : 2 // طبع الاولیٰٰ 1403ھ ،جز2،جامعہ ام القری مکہ سعودیہ//ص778//حدیث:1380[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال وصي الله بن محمد عباس : اسناده صحيح[/FONT] [FONT=&amp]اتحاف الخيرة المهرة //شہاب الدین بوصیری // ج7// ص238//ح:6754//طبع دار الوطن بیروت[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بار ے میں بوصیری کہتا ہے:وقال البوصيري : رواه ابو بكر بن ابي شيبة واحمد بن حنبل واحمد بن منيع وعبد بن حميد بسند صحيح[/FONT] [FONT=&amp]مجمع الزوائد // ہیثمی // محقق:عبداللہ محمد//ج 9//ص 310// ح:15141//طبع:دارالفکر بیروت،جز:10[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ہیثمی کہتا ہے:وقال الهيثمي : رواه أحمد والطبراني ورجال احمد رجال الصحيح[/FONT] [FONT=&amp]مشکاۃ المصابیح // الخطیب تبریزی//تحقیق:ناصر الدین البانی// ج 3 //ص 1741//ح : 6172//طبع دار الکتب اسلامی[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:قال ناصرالدین البانی : اسناده صحيح[/FONT] [FONT=&amp]تذکرۃ//قرطبی//محقق:صادق بن محمد ابراہیم //ص1120//طبع:مکتبہ دار المنھاج سعودیہ عرب[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد علامہ قرطبی کہتا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے اور سند میں کوئی طعن نہیں ہے[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے: اسناده قوي على شرط مسلم[/FONT] [FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:11//ص 573//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت[/FONT] [FONT=&amp]ابن کثیر اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے : اسناد قوی[/FONT] [FONT=&amp]اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب کہتا ہے:عبدالمحسن ترکی : اسناده صحيح[/FONT] [FONT=&amp]اُسد الغابہ // ابن اثیر// ج 1 // ص 572//اردو ترجمہ: عبدالشکور لکھنوی // طبع پاکستان//ترجہ : امام حسین ع[/FONT] [FONT=&amp]الاصابہ //ابن حجر عسقلانی //ج 2// ص 17//طبع مصر //ترجمہ: امام حسین ع[/FONT] [FONT=&amp]استیعاب//ابن عبدالبر//ج 1//ص 395//طبع:بیروت//ترجمہ : امام حسین[/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]ؑ[/FONT]

[/FONT][/FONT]

حدثنا عفَّان، حدثنا حمَّاد - هو ابن سَلَمة -، أخبرنا عمَّارعن ابن عباس، قال: رأَيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم فيما يَرى النائِمُ بِنصفِ النهار، وهو قائمٌ، أَشْعَثَ أغبرَ، بيدِه قارورةٌ فيها دَمٌ، فقلت: بأَبي أَنتَ وأُمي يا رسولَ الله، ما هذا؟ قال: "هذا دَمُ الحُسَينِ وأَصحابِه، لم أَزَلْ أَلْتَقِطُه منذُ اليومِ" فَأَحْصَيْنا ذلك اليومَ، فوجَدُوه قُتِل في ذلك اليومِ.

قال شعيب الأرنؤوط: إسناده قوي على شرط مسلم

أخرج أحمد في مسنده ج4 ص336-337 ح2553 طبعة مؤسسة الرسالة
وتجده أيضاً في مسند أحمد
(ج2 ص551 ح2165) و (ج3 ص155-156 ح2553) طبعة دار الحديث، القاهرة


وقال أحمد محمد شاكر في كلا الموضعين : إسناده صحيح

۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن عباس
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ دن کا وقت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور چہرے پر تھکاوٹ ہے اور وہ گرد آلود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ایک چھوٹی شیشی ہے جس میں خون بھرا ہے میں نے کہا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قربان یہ کیا ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: یہ خون ہے حسینؑ کا اور اصحاب حسینؑ کا جسے میں سارا دن اکٹھا کرتا رہا ہوں راوی کہتا ہے کہ حساب لگایا گیا تو حسینؑ اسی دن شہید ہوگئے تھے

اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بے شمار طریقوں سے یہ روایت نقل ہوئی ہے

۔1-أخرج أحمد في مسنده (ج4 ص59-60 ح2165 طبعة مؤسسة الرسالة)۔

حدثنا عبدُ الرحمن، حدثنا حماد بن سلمة، عن عمار بن أَبي عمارعن ابن عباس، قال: رأَيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم في المنام بنِصْفِ النهار، أَشعثَ أَغبرَ، معه قارورةٌ فيها دمٌ يَلتَقِطُه أَو يَتَّبَّعُ فيها شيئاً، قال: قلتُ: يا رسولَ الله، ما هذا؟ قال: "دَمُ الحُسينِ وأَصحابِه، لم أَزَلْ أَتتبَّعُهُ منذُ اليومِ". قال عمار: فحَفِظْنا ذلك اليومَ، فوجدناه قُتِلَ ذلك اليومَ.قال شعيب الأرنؤوط: إسناده قوي على شرط مسلم.


وأخرج في مسنده (ج4 ص336-337 ح2553)۔۔

حدثنا عفَّان، حدثنا حمَّاد - هو ابن سَلَمة -، أخبرنا عمَّارعن ابن عباس، قال: رأَيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم فيما يَرى النائِمُ بِنصفِ النهار، وهو قائمٌ، أَشْعَثَ أغبرَ، بيدِه قارورةٌ فيها دَمٌ، فقلت: بأَبي أَنتَ وأُمي يا رسولَ الله، ما هذا؟ قال: "هذا دَمُ الحُسَينِ وأَصحابِه، لم أَزَلْ أَلْتَقِطُه منذُ اليومِ" فَأَحْصَيْنا ذلك اليومَ، فوجَدُوه قُتِل في ذلك اليومِ.قال شعيب الأرنؤوط: إسناده قوي على شرط مسلم.

وتجده أيضاً في مسند أحمد (ج2 ص551 ح2165) و (ج3 ص155-156 ح2553) طبعة دار الحديث، القاهرة.
وقال أحمد محمد شاكر في كلا الموضعين : إسناده صحيح.


وأخرج في (فضائل الصحابة ج2 ص977 ح1380 طبعة دار ابن الجوزي)۔ :

حدثنا عبد الله، قال: حدثني أبي، نا عبد الرحمن، نا حماد بن سَلَمة، عن عمار هو ابن أبي عمار، عن ابن عباس، قال: "رأيتُ النبي صلى الله عليه وسلم في المنام بنصف النهار أشعث أغبر، معه قارورة فيها دم يلتقطه، أو يتتبع فيها شيئاً قلت: يا رسول الله ما هذا؟ قال: دم الحسين وأصحابه لم أزل أتتبعه منذ اليوم، قال عمار: فحفظنا ذلك اليوم فوجدناه قتل ذلك اليوم عليه السلام".قال وصي الله بن محمد عباس: إسناده صحيح.

وأخرج في (فضائل الصحابة ج2 ص978 ح1381)۔

حدثنا عبد الله، قال: حدثني أبي، قثنا عفان، نا حماد، قال: أنا عمار بن أبي عمار، عن ابن عباس، قال: "رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار قائل أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقال: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما هذا؟ قال: دمُ الحسين وأصحابه فلم أزل ألتقطه منذ اليوم، فأحصَيْنا ذلك اليوم فوجدوه قُتِل في ذلك اليوم عليه السلام".قال وصي الله بن محمد عباس: إسناده صحيح.


وأخرج في (فضائل الصحابة ج2 ص981 ح1389)۔

حدثنا إبراهيم بن عبد الله البصري، نا حجّاج، نا حماد، قثنا عمّار بن أبي عمار، عن ابن عباس، قال: "رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار أغْبر أشعث بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي وأمي يا رسول الله، ما هذا؟ قال: هذا دم الحسين وأصحابه لم أزل منذ اليوم ألتقطه فأُحْصِيَ ذلك اليوم فوجدوه قتل يومئذ".قال وصي الله بن محمد عباس: إسناده صحيح.


وأخرج في (فضائل الصحابة ج2 ص985 ح1396)۔

حدثنا إبراهيم، نا سُلَيمان بن حَرْب، عن حماد، عن عمّار بن أبي عمّار "أن ابن عباس رأى النبي صلى الله عليه وسلم في مَنامِه يوماً بنصف النهار وهو أشعث أغبر في يده قارورة فيها دم فقلت: يا رسول الله ما هذا الدم؟ قال: دم الحسين لم أزل ألتقطه منذ اليوم فأحْصِيَ ذلك اليوم فوجدوه قتل في ذلك اليوم
قال وصي الله بن محمد عباس: إسناده صحيح.
http://goo.gl/4eFjs


۔2- أخرج عَبْدُ بن حُمَيْد (المنتخب من مسند عبد بن حميد ج1 ص527 طبعة دار بلنسية، الرياض، المملكة العربية السعودية، الطبعة الثانية، 1423هـ - 2002م)۔

حدثنا الحسن بن موسى، ثنا حماد بن سلمة، عن عمار بن أبي عمار، عن ابن عباس قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم نصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم، فقلت: يا نبي الله، ما هذا؟! قال: "هذا دم الحسين وأصحابه، لم أزل ألتقطُهم منذ اليوم". قال: وأحصى ذلك اليوم فوجدوه قتل ذلك اليوم.قال مصطفى بن العدوي: سند حسن.



۔3- أخرج الطبراني في (المعجم الكبير ج3 ص110 ح2822 تحقيق حمدي عبد المجيد السلفي)۔

حدثنا علي بن عبد العزيز وأبو مسلم الكشي ثنا حجاج بن المنهال (ح).وحدثنا أبو مسلم الكشي ثنا سليمان بن حرب قالا ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما هذا؟ فقال: "دَمُ الحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ لَمْ أزَلْ ألْتَقِطُهُ مُنْذ اليَوْمِ" فأحصي ذلك اليوم، فوجد قد قتل يومئذ.
(7.3 M)PDF


وأخرج في (المعجم الكبير ج12 ص143-144 ح12837)۔

حدثنا علي بن عبد العزيز وأبو مسلم قالا ثنا حجاج بن المنهال (ح).وحدثنا يوسف القاضي ثنا سليمان بن حرب قالا ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فيها يرى النائم ذات يوم نصف النهار أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما هذه؟ قال: "هَذَا دَمُ الحُسَينِ وَأصْحَابِهِ لَمْ أزَلْ ألْتَقِطُهُ مُنْذُ اليَومِ" فأحصي ذلك اليوم فوجد قتل ذلك اليوم.
(8.8 M)
PDF



۔4- أخرج الحاكم في (المستدرك على الصحيحين ج4 ص397-398)۔

حدثني أبو بكر محمد بن أحمد بن بالويه ثنا بشر بن موسى الأسدي ثنا الحسن بن موسى الأشيب ثنا حماد بن سلمة عن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: رأيت النبي صلى الله عليه وآله وسلم فيما يرى النائم نصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم فقلت: يا نبي الله ما هذا؟ قال: "هذا دم الحسين وأصحابه لم أزل ألتقطه منذ اليوم". قال: فأحصي ذلك اليوم فوجدوه قتل قبل ذلك بيوم.
قال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه. ووافقه الذهبي.

۔5- قال الخطيب التبريزي في (مشكاة المصابيح ج3 ص1741-1742 ح6172 تحقيق محمد ناصر الدين الألباني)۔

"وعن ابن عبَّاس، قال: رأيتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم ذاتَ يوم بنصف النهار، أشعثَ أغبرَ، بيده قارورة فيها دم، فقلت: بأبي أنتَ وأمي، ما هذا؟ قال: "هذا دم الحسين وأصحابه ، ولم أزل ألتقطه منذ اليوم" فأحصي ذلك الوقت فأجد قُتِل ذلك الوقت. رواهما البيهقي في "دلائل النبوة" وأحمد الأخير".قال الألباني: وسنده صحيح.



۔6 - أورد الذهبي في (سير أعلام النبلاء ج3 ص315)۔

"حمَّاد بن سلمة ، عن عمَّارِ بنِ أبي عمَّار ، عن ابنِ عباس : رأيتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم في النوم نصفَ النهار، أشعثَ أغبر ، وبيده قارورةٌ فيها دم . قلتُ : يا رسولَ الله ما هذا ؟ قال : هذا دمُ الحسين وأصحابِه ، لم أزل منذُ اليوم ألتقطُه . فأُحصي ذلك اليوم ، فوجدوه قُتِلَ يومئذ".قال المحقق: وسنده قوي كما قال الحافظ ابن كثير في "البداية" 8/200 . وهو في "تهذيب ابن عساكر" 4/343.

۔7- قال ابن كثير في (البداية والنهاية ج11 ص573)۔

"وقال الإمامُ أحمدُ: حَدَّثنا عبدُ الرحمنِ وعَفّان ، ثنا حَمَّادُ بنُ سَلَمةَ ، عن عَمَّارِ بنِ أبي عَمَّارٍ، عن ابنِ عباسٍ قال : رأيْتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم في المَنامِ بنِصفِ النَّهارِ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، معه قارُورةٌ فيها دمٌ، فقلتُ : بأبي أنتَ وأمي يا رسولَ اللهِ، ما هذا ؟! قال : "هذا دَمُ الحسينِ وأصحابِه ، لم أَزَلْ أَلْتَقِطُه منذ اليومِ". قال عَمَّارٌ: فأَحْصَيْنا ذلك اليومَ فوَجَدْناه قد قُتِل في ذلك اليوم. تفَرَّد به أحمدُ ، وإسنادُه قويٌّ".قال الدكتور عبد الله بن عبد المحسن التركي: إسناده صحيح
(11.4 M)PDF


۔8- قال الهيثمي في (مجمع الزوائد ج9 ص193-194، كتاب المناقب، باب مناقب الحسين بن علي)۔

"وعن ابن عباس قال: رأيت النبي صلى الله عليه وسلم في المنام بنصف النهار أشعث أغبر معه قارورة فيها دم يتلقطه أويبيع فيها شيئاً فقلت: ما هذا؟ قال: دم الحسين وأصحابه فلم أزل أتتبعه منذ اليوم . رواه أحمد والطبراني ورجال أحمد رجال الصحيح".

۔9- قال البوصيري في (إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة ج7 ص238 ح6754 طبعة دار الوطن، الرياض)۔

"وعن عمار بن أبي عمار عن ابن عباس - رضي الله عنهما - قال : "رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يرى النائم بنصف النهار وهو قائم أشعث أغبر بيده قارورة فيها دم، فقلت : بأبي أنت وأمي يا رسول الله ما هذا ؟ قال : هذا دم الحسين وأصحابه لم أزل ألتقطه منذ اليوم. قال : [فأحصينا ذلك اليوم فوجدوه قتل في ذلك اليوم]".رواه أبو بكر بن أبي شيبة وأحمد بن حنبل وأحمد بن منيع وعبد بن حميد بسند صحيح".
وفي طبعة مكتبة الرشد (ج9 ص318 ح9054)۔


۔10- قال مقبل بن هادي الوادعي في (الجامع الصحيح مما ليس في الصحيحين ج4 ص66 ح2475 طبعة دار الآثار، صنعاء، اليمن)۔

"قال الإمام أحمد رحمه الله في "فضائل الصحابة" (ج2 ص778): حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارٍ، هُوَ ابْنُ أَبي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم في المَنَامِ بِنِصْفِ النَّهَارِ، أَشْعَثَ أَغْبَرَ مَعَهُ قَارُورَةٌ فِيهَا دَمٌ يَلْتَقِطُهُ، أَوْ يَتَتَبَّعُ فِيهَا شَيْئاً، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا؟ قَالَ: "دَمُ الحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ، لَمْ أَزَلْ أَتَتَبَّعُهُ مُنْذُ اليَوْمِ". قَالَ عَمَّارٌ: فَحَفِظْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، فَوَجَدْنَاهُ قَتِلَ ذَلِكَ اليَوْمَ عليه السلام.حَدَّثَنَا عَفَّانُ بنُ مُسلِمٍ، نَا حَمَّادٌ قَالَ: أَنَا عَمَّارُ بْنُ أَبي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم فِيمَا يَرَى النَّائِمُ بِنِصْفِ النَّهَارِ - قَائِلٌ -، أَشْعَثَ أَغْبَرَ، بِيَدِهِ قارُورَةٌ فِيهَا دَمٌ، فَقَالَ: بِأَبي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللهِ، مَا هَذَا؟ قَالَ: "دَمُ الحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ، فَلَمْ أَزَلْ أَلْتَقِطُهُ مُنْذُ اليَوْمِ" فَأَحْصَيْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ، فَوَجَدُوهُ قُتِلَ في ذَلِكَ اليَوْمِ عليه السلام.هذا حديث صحيحٌ على شرط مسلم".


۔11- أوردَته أم شعيب الوادعية في (الصحيح المسند من فضائل أهل بيت النبوة ص80 ح106)۔

تبصرہ
ا
ن صحیح روای
ات سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امام حسینؑ کی شہادت پر سخت غمگین تھے. اور آج مسلمان سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے امام حسینؑ[FONT=&amp] کا غم مناتے ہیں اور غمگین ہوتے ہیں

[/FONT] ام سلمہؓ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عاشوراء کے روز خواب میں دیکھنا

ام سلمیٰ ٰؓ سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا سے رونے کا سبب پوچھا اور کہا : کس شے نے آپ کو گریہ وزاری میں مبتلا کر دیا ہے ? آپ نے کہا : میں نے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کی ہے .آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سر انور اور ریش مبارک گرد آلود تھی. میں نے عرض کی، یارسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کیسی حالت بنی ہوئی ہے ? ارشاد فرمایا: میں نے ابھی ابھی حسینؑ کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے

[FONT=&amp]مندرجہ بالا روایت مندرجہ ذیل کتب اھل سنت میں موجود ہیں
[/FONT] [FONT=&amp]جامع ترمذی // ابوعیسی ٰ ترمذی //ص 1028//حدیث:3771//باب:مناقب حسن و حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] //طبع الاولیٰٰ 1426ھ ، دار الکتب العربی بیروت[/FONT] [FONT=&amp]مستدرک//امام حاکم //تلخیص:علامہ ذہبی//ج 4//ص 387//ح:6895//باب ذکر ام المومنین ام سلمہ[/FONT][FONT=&amp]ؓ[/FONT][FONT=&amp] //طبع قدیمی کتب خانہ پاکستان،جز:5[/FONT] [FONT=&amp]تہذیب التہذیب // ابن حجر عسقلانی // ج 2//ص 356//ترجمہ: امام حسین[/FONT][FONT=&amp]ؑ[/FONT][FONT=&amp] // طبع الاولی ھند[/FONT] [FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:11//ص 574//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت

[/FONT]
ام المومنین ام ُُسلمہؓ کی کیفیت شہادت حسینؑ کو سننے کے بعد شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں ام المومنین ام سلمہؓ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا کہ ہم نے داد خواہ کی آواز سنی وہ ام سلمہؓ کے پاس آکر کہنے لگا، حسینؑ قتل ہوگئے ہیں ،ام سلمہؓ نے کہا: انھون نے یہ کام کر دیا ہے اللہ تعالیٰٰ ان کی قبروں یا گھروں کوآگ سے بھر دے اور بھر ام سلمہؓ غم کی شدت سے بے ہوش ہوگئیں

[FONT=&amp]البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:11//ص 574//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت[/FONT] [FONT=&amp]تاریخ دمشق//ابن عساکر//ج 14//ص 238//طبع 1415ھ ، دارالفکر بیروت[/FONT] [FONT=&amp]مندرجہ بالا روایت کی صحت سند کے لحاظ سے حسن کے درجہ کی ہے

[/FONT]
حدیث نمبر:4 ایک اور روایت میں ہے کہ پھر جبرائیلؑ نے کہا کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کے قتل گاہ کی مٹی دکھائوں ،وہ چند مٹھیاں لے کر آئے جسے میں نے ایک بوتل میں رکھ دیا. ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ جب قتل حسینؑ کی رات آئی تومیں نے ایک کہنے والے کو کہتے سنا اے حسینؑ کو جہالت سے قتل کرنے والو! تمہیں عذاب و ذلت کی خوشخبری ہو تم پر ابن دائود، موسیٰٰ اور عیسی ٰٰ علیہم السلام کی زبان س لعنت پڑچکی ہے ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں رو پڑی اور میں نے بوتل کو کھولا تو مٹی خون ہو کر بہہ پڑی

حدیث نمبر:
5 الملا کی روایت اور احمد کی زیادۃ المسند میں ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہ مٹی مجھے دے دی اور فرمایاا کہ یہ زمین کی مٹی ہے جہاں اسے قتل کیا جائے گا.جب یہ مٹی لہو ہو جائے تو سمجھ لینا کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے .ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک بوتل میں رکھ دیا اور میں کہا کرتی تھی کہ ایک دن یہ خون میں تبدیل ہوجائے گی .وہ بہت بڑا دن ہوگا اور ام سلمہؓ ہی روایت میں ہے کہ قتل حسینؑ کے روز میں نے اسے پکڑا تو وہ خون ہوگئی تھی

الصواعق المحرقہ // ابن حجر مکی // تحقیق:عبدالوھاب عبد الطیف//ص 192// فصل: ثالث//طبع سوم 1410 ھ ، کتب خانہ مجیدیہ ملتان پاکستان


آسمان و زمین کا رونا

44_29.png
Sahih International
And the heaven and earth wept not for them, nor were they reprieved.

Urdu
سو ان پر نہ تو آسمان وزمین روئے اور نہ انہیں مہلت ملی


آسمان و زمین شھدا کربلاؑ کے غم میں گریہ کناں ہوں گے
حدیث نمبر 9: ابو نعیم حضرت اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم امام حسینؑ[FONT=&amp] کی قبر کے مقام پر پہنچے تو حضرت علی کرم اللہ وجہھ نے فرمایا: یہاں ان کی سواریاں بیٹھیں گی.یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کا خون بہے گا.آل محمد علیہم السلام کے نوجوانوں کو اس میدان میں شہید کیا جائے گا اورآسمان وزمین ان کے غم میں گریہ کناں ہوں گے

[/FONT]
[FONT=&amp] الخصائص الکبریٰٰ //جلال الدین سیوطی //ج 2//ص 362//اردو ترجمہ:مقبول احمد//طبع جون 2007، جز:2 ضیاءاالقرآن باکستان//باب:اخبار شہادت امام حسین[/FONT][FONT=&amp][FONT=&amp][FONT=&amp]ؑ

[/FONT][/FONT][/FONT]

آخر میں، میں اپنے قارئین کے لیے صحیح روایات سے حضرت علی کرم اللہ وجہھ کے اس فقرہ کی وضاحت کرتا چلوں جس میں آپ فرماتے ہیں کہ زمین و آسمان حضرت امام حسینؑ کی شہادت پر نوحہ کناں ہوں گے

ما رُفِعَ بالشَّامِ حَجَرٌ يومَ قُتِلَ الحسينِ بنِ عليٍّ إلَّا عن دمٍ
الراوي: محمد بن مسلم بن شهاب الزهري المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/199
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح‏‏

قال لي عبدُ الملكِ أيُّ واحدٍ أنت إنْ أعلمتَني أيَّ علامةٍ كانت يومَ قُتِلَ الحُسَينُ بنُ عليٍّ فقال قلْتُ لم تُرفَعْ حَصاةٌ ببيتِ المقدسِ إلَّا وُجِدَ تحتَها دمٌ عَبيطٌ فقال لي عبدُ الملكِ إنِّي وإيَّاك في هذا الحديثِ لَقرينان
الراوي: محمد بن مسلم بن شهاب الزهري المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/199
خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات

ما رُفع بالشامِ حجرٌ يومَ قُتل الحسينُ إلا عن دمٍ

الراوي: محمد بن مسلم بن عبيدالله المحدث: ابن الوزير اليماني - المصدر: العواصم والقواصم - الصفحة أو الرقم: 8/55
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح

ما رُفِعَ حجرٌ بالشَّامِ يومَ قُتِلَ الحسَينُ بنُ عليٍّ إلَّا عن دمٍ
الراوي: محمد بن مسلم بن عبيدالله المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 236
خلاصة حكم المحدث: إسناده رجاله رجال الصحيح

قالَ لي عبدُ الملكِ بنُ مرْوانَ أيُّ واحدٍ أنتَ إن أعلَمتَني أيُّ علامةٍ كانت يومَ قتلِ الحسينِ بنِ عليٍّ؟ قلتُ لم تُرفَعْ حصاةٌ ببيتِ المقدسِ إلَّا وُجِدَ تحتَها دمٌ عبيطٍ فقالَ لي عبدُ الملكِ إنِّي وإيَّاكَ في هذا الحديثِ لقرينانِ
الراوي: محمد بن مسلم بن عبيدالله المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 235
خلاصة حكم المحدث: إسناده رجاله ثقات

لما قتل الحسين بن علي انكسفت الشمس كسفة حتى بدت الكواكب نصف النهار حتى ظننا أنها هي
الراوي: أبو قبيل المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/200
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن‏‏

لما قتل الحسين بن علي انكسفت الشمس كسفة حتى بدت الكواكب نصف النهار حتى ظننا أنها هي

الراوي: أبو قبيل المحدث: الشوكاني - المصدر: در السحابة - الصفحة أو الرقم: 236
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

لما قُتل الحسينُ انكسفتِ الشمسُ كسفةً حتى بدتِ الكواكبُ نصفَ النهارِ حتى ظننَّا أنها هي
الراوي: أبو قبيل حيي بن هانئ المعافري المحدث: ابن الوزير اليماني - المصدر: العواصم والقواصم - الصفحة أو الرقم: 8/55
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن وله شواهد

عن أم حكيم قالت: قتل الحسين فمكثت السماء أياما مثل العلقة
.
الراوي: - المحدث: ابن الوزير اليماني - المصدر: العواصم والقواصم - الصفحة أو الرقم: 8/55
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح

ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے
کہ حضرت امام حسینؑ کے قتل والے دن شام میں اور بیت المقدس میں جس پتھر کو بھی اُٹھایا گیا اُس کے نیچے سے خون جاری ہو گیا اور اُس دن اتنا سخت (مکمل) سورج گرہن لگا کہ دوپہر کو آسمان پر تارے نظر آنے لگے اور آسمان کئی دنوں تک سُرخی مائل رہا اور لوگ گمان کرنے لگے کہ قیامت آنے والی ہے۔
rlcf1s.jpg


 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
Re: Prophet Muhammad (pbuh) has forbidden crying out loud and wailing over the dead person



Narrated Abu Burda: That his father said, "When Umar was stabbed, Suhaib started crying: O my brother! 'Umar said, 'Don't you know that the Prophet said: The deceased is tortured for the weeping of the living'?" (Sahih Bukhari, Book #23, Hadith #377)


Narrated Jabir bin 'Abdullah : On the day of the Battle of Uhud, my father was brought and he had been mayhemed and was placed in front of Allah's Apostle and a sheet was over him. I went intending to uncover my father but my people forbade me; again I wanted to uncover him but my people forbade me. Allah's Apostle gave his order and he was shifted away. At that time he heard the voice of a crying woman and asked, "Who is this?" They said, "It is the daughter or the sister of Amr." He said, "Why does she weep? (or let her stop weeping), for the angels had been shading him with their wings till he (i.e. the body of the martyr) was shifted away." (Sahih Bukhari,Book #23, Hadith #381)

Narrated 'Aisha: When the Prophet got the news of the death of Ibn Haritha, Ja'far and Ibn Rawaha he sat down andwomen of Ja'far. The Prophet ordered him to forbid them. The man went and came back saying that he had told them but they did not listen to him. The Prophet (p.b.u.h) said, "Forbid them." So again he went and came back for the third time and said, "O Allah's Apostle! By Allah, they did not listen to us at all." ('Aisha added): Allah's Apostle ordered him to go and put dust in their mouths. I said, (to that man) "May Allah stick your nose in the dust (i.e. humiliate you)! You could neither (persuade the women to) fulfill the order of Allah's Apostle nor did you relieve Allah's Apostle from fatigue. " looked sad and I was looking at him through the chink of the door. A man came and told him about the crying of the
(Sahih Bukhari, Book #23, Hadith #386)

Anas b. Malik reported that Allah's Messenger (may peace be upon him) came to a woman who had been weeping for her (dead) child, and said to her: Fear Allah and show endurance. She (not recognising him) said: You have not been afflicted as I have been. When he (the Holy Prophet) had departed, it was said to her that he was the Messenger of Allah (may peace be upon him), she was mortally shocked. She came to his door and she did not find doorkeepers at his door. She said: Messenger of Allah. I did not recognise you. He said: Endurance is to be shown at first blow, or at the first blow.
(Sahih Muslim, Book #004, Hadith #2013)

'Abdullah b. 'Umar reported that Hafsa wept for 'Umar (when he was about to due). He ('Umar) said: Be quiet, my daughter. Don't you know that the Messenger of Allah (may peace be upon him) had said:" The dead is punished because of his family's weeping over it"?
(Sahih Muslim, Book #004, Hadith #2015)

Ibn 'Umar reported: When 'Umar was wounded he fainted, and there was a loud lamentation over him. When he regained consciousness he said: Didn't you know that the Messenger of Allah (may peace be upon him) said:" The dead is punished because of the weeping of the living"?
(Sahih Muslim, Book #004, Hadith #2018)

محترم پاکستانی مجھے نہیں علم آپ کیوں ایسی پوسٹ اس تھریڈ کے اندر لائیں ہیں۔ اگر آپ کو حقیقت معلوم ہوتی تو شائد آپ یہ نقل شدہ تحریر بار بار مختلف جگہوں پر پوسٹ نہ کرتے۔ جیسا کہ میرے دیکھنے میں آیا ہے۔

اس میں جو احادیث حضرت عمر سے مروی بیان کی گئی ہیں کہ مردے کو اُس پر رونے والوں کی وجہ سے سزا دی جاتی ہے اُس میں حضرت عمر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سُننے میں اشتباہ ہوا ہے۔ یہی حدیث جب حضرت عبداللہ ابن عمر نے حضرت عمر سے روایت کرکے حضرت عائشہ ؓکے سامنے پیش کی تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ قرآن میں تو یہ ہےاُس دن کوئی کسی کے عمل کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا اور آپ کہہ رہے ہو کہ مردے پر اُسکے گھر والوں کے رونے کیوجہ سے عذاب ہوتا ہے؟ پھر خود ہی حضرت عائشہ نے وضاحت کی کہ خدا حضرت عمر ؓپر رحم کرے کہ اُنھیں سُننے میں دھوکا ہوا ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک یہودی کا جنازہ جا رہا تھا اور اُس کے گھر والے اُس پر رو رہے تھےتو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو اسکے گھر والے اسپر رو رہیں ہیں حالانکہ اُس پر (کفر کی موت کیوجہ سے) عذاب ہورہا ہے۔ اور یہ سارا واقعہ تفصیل سے صحیح مسلم میں حضرت عمر ؓکے زخمی ہونے والے باب کے اندر مذکور ہے۔

اور جو دوسری احادیث آپ نے درج کیں ہیں وہ واقعات کربلا پر فٹ ہی نہیں ہوتیں جبکہ میں خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا غمگین ہونا اور رونا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ظاہری حیات میں واقعات کربلا سے پہلے اورآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد عین عاشور کے دن صحیح احادیث سے درج کر چکا ہوں۔ پس میری آپ سے درخواست ہے کہ مختلف ویب سائٹوں سے اپنے نظرے کی تسکین کیلیےصرف اندھا دھند تحریریں ہی نقل کرنے پر زور نہ دیا کریں بلکہ اُن پر غور بھی کرلیاکریں۔

 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
شروع سے بتائیں ذراتفصیل سے بیان فرمائیں
تفصیل سے بیان تو کردیا ہے۔ مزید آپ کیا تفصیل چاہتے ہیں؟ آپ خود بھی تفصیل سے لکھ دیں۔
 
Status
Not open for further replies.

Back
Top