
اسلام آباد: پاکستان میں آئینی اصلاحات کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس میں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے تقرر کے طریقہ کار، ججوں کی تقرری، اور ازخود نوٹس کے اختیارات میں اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں متعدد آئینی ترامیم کی منظوری دی ہے۔
نئی ترامیم کے تحت، آرٹیکل 177 میں ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق دوہری شہریت رکھنے والا کوئی شخص سپریم کورٹ کا جج نہیں بن سکے گا۔ مزید برآں، سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے ہائی کورٹ میں کم از کم 5 سال جج کی حیثیت سے خدمات انجام دینا ضروری ہوگا، جبکہ کسی وکیل کے لیے سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے 15 سال کی وکالت کی شرط لازمی ہوگی۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت کے حوالے سے بھی آرٹیکل 179 میں ترمیم کی گئی ہے، جس کے تحت چیف جسٹس کا تقرر تین سال کے لیے کیا جائے گا، اور وہ 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ وزیر قانون نے اس ضمن میں کہا کہ ماضی میں چیف جسٹس کا ٹینیور مختلف رہا ہے، بعض کا چھ سال جبکہ بعض کا چند ماہ رہا ہے۔ اس ترمیم کا مقصد چیف جسٹس کی مدت کو ایک طے شدہ دورانیے تک محدود کرنا ہے۔
ازخود نوٹس کے حوالے سے بھی بڑی تبدیلی کی گئی ہے۔ آرٹیکل 184 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے، اور عدالت کو صرف ان درخواستوں پر ہی فیصلے دینے کا اختیار ہوگا جو اس کے دائرہ اختیار میں آئیں گی۔
آرٹیکل 191 اے کے تحت سپریم کورٹ میں آئینی بینچز کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی، جس میں تمام صوبوں کے ججوں کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ ہر آئینی بینچ کم از کم 5 ججوں پر مشتمل ہوگا، اور ان بینچز کو سپریم جوڈیشل کونسل کے تین سینیئر جج تشکیل دیں گے۔ تمام زیر التوا اور زیر سماعت آئینی مقدمات اور اپیلیں آئینی بینچز کو منتقل کی جائیں گی۔
آرٹیکل 215 میں ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کو اپنی مدت پوری ہونے کے بعد بھی نئے کمشنر اور اراکین کی تقرری تک عہدے پر کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
آرٹیکل 255 میں ترمیم کے مطابق، اگر کسی شخص کے سامنے حلف اٹھانا ممکن نہ ہو تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا صوبائی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو حلف لینے کا اختیار حاصل ہوگا۔
یہ ترامیم عدلیہ کے کردار کو مزید مستحکم بنانے اور آئینی طریقہ کار میں شفافیت لانے کے لیے اہم قرار دی جا رہی ہیں۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/amendmaahh12h.jpg