Zia Hydari
Chief Minister (5k+ posts)
14ربیع الاول سنہ 3ھ ہجری کی چاندنی رات جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابونائلہ رضی اللہ عنہ، بمع ساتھیوں کے،گستاخ رسول خبیث کعب بن اشرف، کو قتل کیاتھا۔
اس کا تعلق بنونبھان سے تھا اور اس کی ماں قبیلہ بنی نضیر سے تھی ۔ یہ بڑا مالدار اور سرمایہ دار تھا۔ اس کا قلعہ مدنیے کے جنوب میں بنونضیر کی آبادی کے پیچے واقع تھا۔
کعب بن اشرف کے قتل کے بارے میں روایات کا احوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ کعب بن اشرف سے کون نمٹے گا؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی ہے، تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر عرض کیا: “یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں! انہوں نے عرض کیا : “تو آپ مجھے کچھ کہنے کی اجازت عطا فرمائیں ۔”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کہہ سکتے ہو۔
اس کے بعد محمد جن مسلمہ ، کعب بن اشرف کے پاس تشریف لے گئے اور اس خبیث سے کہا کہ آپ ہمیں ایک وسق یا دووسق غلہ دے دیں۔”
کعب نے کہا: “میرے پاس کچھ رہن رکھو۔”
ہتھیار رہن رکھنا طے ہوا۔
اس کے بعد دونوں میں طے ہوگیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ (ہتھیارلے کر)اس کے پاس آئیں گے۔
ابونائلہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کا اقدام کیا، یعنی کعب بن اشرف کے پاس آئے، اور اس سےطے کیا وہ اپنے رفقاّ کے ساتھ اس کے پاس آئیں گے۔
ابونائلہ رضی اللہ عنہ نے اس کے سر میں ہاتھ ڈال کر ذرا اچھی طرح پکڑلیا تو بولے: “لے لو اللہ کے اس دشمن کو”۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنی کدال لی اور اس پر وار کیا۔ کدال آرپار ہوگئی اور اللہ کا یہ دشمن وہیں ڈھیر ہوگیا۔ حملے کے دوران اس نے اتنی زبردست چیخ لگائی تھی کہ گردوپیش میں ہلچل مچ گئی تھی اور کوئی ایسا قلعہ باقی نہ بچاتھا جس پرآگ روشن نہ گی گئی ہو (لیکن ہوا کچھ بھی نہیں)، اس کا کوئی بھی ساتھی اسکی مدد کو نہ آیا، اس طرح وہ خبیث اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔
جب یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، “افلحت الوجوه”یہ چہرے کامیاب رہیں۔ ان لوگوں نے کہا، “ووجهك يا رسول الله صلى الله عليه وسلم”۔ آپ صلی اللہ کا چہرہ بھی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اور اس کے ساتھ ہی اس طاغوت کا سر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل پر اللہ کی حمد و ثناء کی اور حضرت حارث کے جسم پر، جہاں تلوار کا زخم آیا تھا اس پر لعاب دہن لگادیا جس سے وہ شفایاب ہوگئے اور آئندہ کبھی تکلیف نہ ہوئی۔(ماخوذ از ابن ہشام، صحیح بخاری، سنن ابی داؤد ۔)
طاغوت کعب بن اشرف کے قتل کے بعد کفار کے ہٹ دھرم اور ضدی دلوں میں رعب کی لہردوڑ گئی۔ ان کی سمجھ میں آگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ محسوس کرلیں گے کہ امن و امان کے ساتھ کھیلنے والوں ، ہنگامے اور اضطرابات بپا کرنے والوں اور عہدو پیمان کا احترام نہ کرنے والوں پر نصیحت کارگر نہیں ہورہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہ کریں گے، اور وہ ہمت ہار بیٹھے، یعنی سانپ تیزی کے ساتھ اپنی بلوں میں جاگھسے۔
اس کا تعلق بنونبھان سے تھا اور اس کی ماں قبیلہ بنی نضیر سے تھی ۔ یہ بڑا مالدار اور سرمایہ دار تھا۔ اس کا قلعہ مدنیے کے جنوب میں بنونضیر کی آبادی کے پیچے واقع تھا۔
کعب بن اشرف کے قتل کے بارے میں روایات کا احوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ کعب بن اشرف سے کون نمٹے گا؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی ہے، تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر عرض کیا: “یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں! انہوں نے عرض کیا : “تو آپ مجھے کچھ کہنے کی اجازت عطا فرمائیں ۔”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کہہ سکتے ہو۔
اس کے بعد محمد جن مسلمہ ، کعب بن اشرف کے پاس تشریف لے گئے اور اس خبیث سے کہا کہ آپ ہمیں ایک وسق یا دووسق غلہ دے دیں۔”
کعب نے کہا: “میرے پاس کچھ رہن رکھو۔”
ہتھیار رہن رکھنا طے ہوا۔
اس کے بعد دونوں میں طے ہوگیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ (ہتھیارلے کر)اس کے پاس آئیں گے۔
ابونائلہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کا اقدام کیا، یعنی کعب بن اشرف کے پاس آئے، اور اس سےطے کیا وہ اپنے رفقاّ کے ساتھ اس کے پاس آئیں گے۔
ابونائلہ رضی اللہ عنہ نے اس کے سر میں ہاتھ ڈال کر ذرا اچھی طرح پکڑلیا تو بولے: “لے لو اللہ کے اس دشمن کو”۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنی کدال لی اور اس پر وار کیا۔ کدال آرپار ہوگئی اور اللہ کا یہ دشمن وہیں ڈھیر ہوگیا۔ حملے کے دوران اس نے اتنی زبردست چیخ لگائی تھی کہ گردوپیش میں ہلچل مچ گئی تھی اور کوئی ایسا قلعہ باقی نہ بچاتھا جس پرآگ روشن نہ گی گئی ہو (لیکن ہوا کچھ بھی نہیں)، اس کا کوئی بھی ساتھی اسکی مدد کو نہ آیا، اس طرح وہ خبیث اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔
جب یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، “افلحت الوجوه”یہ چہرے کامیاب رہیں۔ ان لوگوں نے کہا، “ووجهك يا رسول الله صلى الله عليه وسلم”۔ آپ صلی اللہ کا چہرہ بھی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اور اس کے ساتھ ہی اس طاغوت کا سر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل پر اللہ کی حمد و ثناء کی اور حضرت حارث کے جسم پر، جہاں تلوار کا زخم آیا تھا اس پر لعاب دہن لگادیا جس سے وہ شفایاب ہوگئے اور آئندہ کبھی تکلیف نہ ہوئی۔(ماخوذ از ابن ہشام، صحیح بخاری، سنن ابی داؤد ۔)
طاغوت کعب بن اشرف کے قتل کے بعد کفار کے ہٹ دھرم اور ضدی دلوں میں رعب کی لہردوڑ گئی۔ ان کی سمجھ میں آگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ محسوس کرلیں گے کہ امن و امان کے ساتھ کھیلنے والوں ، ہنگامے اور اضطرابات بپا کرنے والوں اور عہدو پیمان کا احترام نہ کرنے والوں پر نصیحت کارگر نہیں ہورہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہ کریں گے، اور وہ ہمت ہار بیٹھے، یعنی سانپ تیزی کے ساتھ اپنی بلوں میں جاگھسے۔
بَابٌ : قَتْلُ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ
کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ
[h=1]صحیح مسلم[/h](1171)
عَنْ جَابِرٍ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ ؟ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ ائْذَنْ لِي فَلْأَقُلْ قَالَ قُلْ فَأَتَاهُ فَقَالَ لَهُ وَ ذَكَرَ مَا بَيْنَهُمَا وَ قَالَ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ أَرَادَ صَدَقَةً وَ قَدْ عَنَّانَا فَلَمَّا سَمِعَهُ قَالَ وَ أَيْضًا وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ قَالَ إِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ الآنَ وَ نَكْرَهُ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَيِّ شَيْئٍ يَصِيرُ أَمْرُهُ قَالَ وَ قَدْ أَرَدْتُ أَنْ تُسْلِفَنِي سَلَفًا قَالَ فَمَا تَرْهَنُنِي ؟ قَالَ مَا تُرِيدُ ؟ قَالَ تَرْهَنُنِي نِسَائَكُمْ قَالَ أَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ أَ نَرْهَنُكَ نِسَائَنَا ؟ قَالَ لَهُ تَرْهَنُونِي أَوْلادَكُمْ قَالَ يُسَبُّ ابْنُ أَحَدِنَا فَيُقَالُ رُهِنَ فِي وَسْقَيْنِ مِنْ تَمْرٍ وَ لَكِنْ نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ يَعْنِي السِّلاَحَ قَالَ فَنَعَمْ وَ وَاعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ بِالْحَارِثِ وَ أَبِي عَبْسِ بْنِ جَبْرٍ وَ عَبَّادِ بْنِ بِشْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ فَجَائُوا فَدَعَوْهُ لَيْلاً فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ قَالَ سُفْيَانُ قَالَ غَيْرُ عَمْرٍو قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ إِنِّي لَأَسْمَعُ صَوْتًا كَأَنَّهُ صَوْتُ دَمٍ قَالَ إِنَّمَا هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَ رَضِيعُهُ وَ أَبُو نَائِلَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ الْكَرِيمَ لَوْ دُعِيَ إِلَى طَعْنَةٍ لَيْلاً لَاَجَابَ قَالَ مُحَمَّدٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنِّي إِذَا جَائَ فَسَوْفَ أَمُدُّ يَدِي إِلَى رَأْسِهِ فَإِذَا اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ فَدُونَكُمْ قَالَ فَلَمَّا نَزَلَ نَزَلَ وَ هُوَ مُتَوَشِّحٌ فَقَالُوا نَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الطِّيبِ قَالَ نَعَمْ تَحْتِي فُلاَنَةُ هِيَ أَعْطَرُ نِسَائِ الْعَرَبِ قَالَ فَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَشُمَّ ؟ مِنْهُ قَالَ نَعَمْ فَشُمَّ فَتَنَاوَلَ فَشَمَّ ثُمَّ قَالَ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَعُودَ ؟ قَالَ فَاسْتَمْكَنَ مِنْ رَأْسِهِ ثُمَّ قَالَ دُونَكُمْ قَالَ فَقَتَلُوهُ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کعب بن اشرف (کے قتل) کا کون ذمہ لیتا ہے؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیف دی ہے۔'' سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے کہ میں اسے مار ڈالوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''ہاں!۔'' تو انہوں نے عرض کی کہ مجھے اجازت دیجیے تا کہ میں کچھ بات بناؤں(جھوٹ بولوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تجھے اختیار ہے۔'' چنانچہ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور اس نے تو ہ میں تنگ کر رکھا ہے۔ کعب نے کہا کہ ابھی کیا ہے، اللہ کی قسم !آگے چل کر تم کو بہت تکلیف ہو گی۔ وہ بولے کہ خیر اب تو ہم ا س کا اتباع کر چکے ہیں ،اب ایک دم چھوڑنا تو اچھا نہیں لگتا، مگر دیکھ رہے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ خیر میں تیرے پاس کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم کیا چیز گروی رکھنا چاہتے ہو؟ کعب نے کہا تم میرے پاس اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے جوا ب دیا ہم تیرے پاس عورتوں کو کیسے گروی رکھ دیں؟ کیونکہ تو عرب کا بے انتہا خوبصورت ہے۔ کعب بولا کہ اپنے بیٹوں کو میرے پاس گروی رکھ دو۔ وہ بولے بھلا ہم انہیں کیونکر گروی رکھ دیں؟ کل کو انہیں طعنہ دیا جائے گا کہ فلاں دو وسق کھجور کے عوض گروی رکھا گیا تھا، لیکن ہم تیرے پاس ہتھیار رکھ دیں گے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ پس انہوں نے کعب سے وعدہ کیا کہ وہ حارث، ابو عبس بن جبیر اور عباد بن بشرy کو بھی ساتھ لائیں گے۔ راوی نے کہا کہ وہ رات کو آئے اور کعب کو بلایا۔ قلعہ سے نیچے اتر کران کے پاس آنے لگا۔ ا س کی بیوی نے پوچھا کہ تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟ کعب نے جوا ب دیا کہ محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہ ) اور میرا بھائی ابو نائلہ مجھے بلا رہے ہیں (ڈرنے کی کوئی بات نہیں)۔ عورت بولی کہ اس آواز سے تو گویا خون ٹپک رہا ہے۔ کعب نے کہا یہ صرف میرا دوست محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہ )اور میرا دودھ شریک بھائی ابونائلہ ( رضی اللہ عنہ ) ہے اور عزت والے آدمی کو تو اگر رات کے وقت نیزہ مارنے کے لیے بھی بلایا جائے، تو وہ فوراً منظور کر لے۔ ادھر سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ (دو اور آدمیوں کو ساتھ لائے تھے)۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب کعب بن اشرف آئے گا، تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا، جب تم دیکھو کہ میں نے اس کے سر کو مضبوط پکڑ لیا ہے، تو تم جلدی سے اسے ماردینا۔ جب کعب ان کے پاس چادر سے سر لپیٹے ہوئے آیا اور خوشبو کی مہک اس میں پھیل رہی تھی، تب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیرے پاس سے کیسی بہترین خوشبو آ رہی ہے۔کعب نے جواب دیا کہ ہاں میری بیوی عرب کی سب سے زیادہ معطر رہنے والی عورت ہے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سونگھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پھر (دوبارہ سونگھنے کی) اجازت ہے؟ اس نے کہا ہاں ہے ۔ چنانچہ جب سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے مضبوط پکڑ لیا، تب انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کو مارو، چنانچہ انہوں نے کعب بن اشرف کو مار ڈالا۔
کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ
[h=1]صحیح مسلم[/h](1171)
عَنْ جَابِرٍ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ ؟ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ ائْذَنْ لِي فَلْأَقُلْ قَالَ قُلْ فَأَتَاهُ فَقَالَ لَهُ وَ ذَكَرَ مَا بَيْنَهُمَا وَ قَالَ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ أَرَادَ صَدَقَةً وَ قَدْ عَنَّانَا فَلَمَّا سَمِعَهُ قَالَ وَ أَيْضًا وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ قَالَ إِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ الآنَ وَ نَكْرَهُ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَيِّ شَيْئٍ يَصِيرُ أَمْرُهُ قَالَ وَ قَدْ أَرَدْتُ أَنْ تُسْلِفَنِي سَلَفًا قَالَ فَمَا تَرْهَنُنِي ؟ قَالَ مَا تُرِيدُ ؟ قَالَ تَرْهَنُنِي نِسَائَكُمْ قَالَ أَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ أَ نَرْهَنُكَ نِسَائَنَا ؟ قَالَ لَهُ تَرْهَنُونِي أَوْلادَكُمْ قَالَ يُسَبُّ ابْنُ أَحَدِنَا فَيُقَالُ رُهِنَ فِي وَسْقَيْنِ مِنْ تَمْرٍ وَ لَكِنْ نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ يَعْنِي السِّلاَحَ قَالَ فَنَعَمْ وَ وَاعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ بِالْحَارِثِ وَ أَبِي عَبْسِ بْنِ جَبْرٍ وَ عَبَّادِ بْنِ بِشْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ فَجَائُوا فَدَعَوْهُ لَيْلاً فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ قَالَ سُفْيَانُ قَالَ غَيْرُ عَمْرٍو قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ إِنِّي لَأَسْمَعُ صَوْتًا كَأَنَّهُ صَوْتُ دَمٍ قَالَ إِنَّمَا هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَ رَضِيعُهُ وَ أَبُو نَائِلَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ الْكَرِيمَ لَوْ دُعِيَ إِلَى طَعْنَةٍ لَيْلاً لَاَجَابَ قَالَ مُحَمَّدٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنِّي إِذَا جَائَ فَسَوْفَ أَمُدُّ يَدِي إِلَى رَأْسِهِ فَإِذَا اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ فَدُونَكُمْ قَالَ فَلَمَّا نَزَلَ نَزَلَ وَ هُوَ مُتَوَشِّحٌ فَقَالُوا نَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الطِّيبِ قَالَ نَعَمْ تَحْتِي فُلاَنَةُ هِيَ أَعْطَرُ نِسَائِ الْعَرَبِ قَالَ فَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَشُمَّ ؟ مِنْهُ قَالَ نَعَمْ فَشُمَّ فَتَنَاوَلَ فَشَمَّ ثُمَّ قَالَ أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَعُودَ ؟ قَالَ فَاسْتَمْكَنَ مِنْ رَأْسِهِ ثُمَّ قَالَ دُونَكُمْ قَالَ فَقَتَلُوهُ
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کعب بن اشرف (کے قتل) کا کون ذمہ لیتا ہے؟ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیف دی ہے۔'' سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہے کہ میں اسے مار ڈالوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''ہاں!۔'' تو انہوں نے عرض کی کہ مجھے اجازت دیجیے تا کہ میں کچھ بات بناؤں(جھوٹ بولوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تجھے اختیار ہے۔'' چنانچہ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم سے صدقہ مانگا ہے اور اس نے تو ہ میں تنگ کر رکھا ہے۔ کعب نے کہا کہ ابھی کیا ہے، اللہ کی قسم !آگے چل کر تم کو بہت تکلیف ہو گی۔ وہ بولے کہ خیر اب تو ہم ا س کا اتباع کر چکے ہیں ،اب ایک دم چھوڑنا تو اچھا نہیں لگتا، مگر دیکھ رہے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ خیر میں تیرے پاس کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بن اشرف نے کہا کہ میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم کیا چیز گروی رکھنا چاہتے ہو؟ کعب نے کہا تم میرے پاس اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے جوا ب دیا ہم تیرے پاس عورتوں کو کیسے گروی رکھ دیں؟ کیونکہ تو عرب کا بے انتہا خوبصورت ہے۔ کعب بولا کہ اپنے بیٹوں کو میرے پاس گروی رکھ دو۔ وہ بولے بھلا ہم انہیں کیونکر گروی رکھ دیں؟ کل کو انہیں طعنہ دیا جائے گا کہ فلاں دو وسق کھجور کے عوض گروی رکھا گیا تھا، لیکن ہم تیرے پاس ہتھیار رکھ دیں گے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ پس انہوں نے کعب سے وعدہ کیا کہ وہ حارث، ابو عبس بن جبیر اور عباد بن بشرy کو بھی ساتھ لائیں گے۔ راوی نے کہا کہ وہ رات کو آئے اور کعب کو بلایا۔ قلعہ سے نیچے اتر کران کے پاس آنے لگا۔ ا س کی بیوی نے پوچھا کہ تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟ کعب نے جوا ب دیا کہ محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہ ) اور میرا بھائی ابو نائلہ مجھے بلا رہے ہیں (ڈرنے کی کوئی بات نہیں)۔ عورت بولی کہ اس آواز سے تو گویا خون ٹپک رہا ہے۔ کعب نے کہا یہ صرف میرا دوست محمد بن مسلمہ ( رضی اللہ عنہ )اور میرا دودھ شریک بھائی ابونائلہ ( رضی اللہ عنہ ) ہے اور عزت والے آدمی کو تو اگر رات کے وقت نیزہ مارنے کے لیے بھی بلایا جائے، تو وہ فوراً منظور کر لے۔ ادھر سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ (دو اور آدمیوں کو ساتھ لائے تھے)۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب کعب بن اشرف آئے گا، تو میں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا، جب تم دیکھو کہ میں نے اس کے سر کو مضبوط پکڑ لیا ہے، تو تم جلدی سے اسے ماردینا۔ جب کعب ان کے پاس چادر سے سر لپیٹے ہوئے آیا اور خوشبو کی مہک اس میں پھیل رہی تھی، تب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تیرے پاس سے کیسی بہترین خوشبو آ رہی ہے۔کعب نے جواب دیا کہ ہاں میری بیوی عرب کی سب سے زیادہ معطر رہنے والی عورت ہے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا مجھے اپنا سر سونگھنے کی اجازت دیتے ہو؟ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سونگھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پھر (دوبارہ سونگھنے کی) اجازت ہے؟ اس نے کہا ہاں ہے ۔ چنانچہ جب سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے مضبوط پکڑ لیا، تب انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کو مارو، چنانچہ انہوں نے کعب بن اشرف کو مار ڈالا۔
Last edited: