[4:58]
(اے مسلمانو)
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کو ادا کرو۔
.. . . . ..
یہ بات اب اکثر لوگ مانتے ہیں کہ امانتوں سے مراد حکومت ، عہدہ یا اختیار بھی ہے اور یہ کہ کوئی بھی عہدہ کسی اہل بندے کو ہی دیا جانا چاہیے . اس ضمن میں پاکستان کے حالات دیکھیں تو صورت حال انتہائی مایوس کن نظر آتی ہے . پاکستان میں حکومت پر ایسے لوگوں کا قبضہ رہا ہے جو ہرگز اہل نہ تھے ، اس پر مزید یہ کہ اس نظام کی بہتری کی دور دور تک کوئی امید بھی نظر نہیں آتی . "میں اب فرشتے کہاں سے لاؤ " کہہ کر خاں صاحب بھی ہار مان گئے تھے
سوال یہ ہے کہ درستگی کہاں سے اور کیسے کی جائے ، یا پھر یہ نظام قیامت تک ایسے ہی چلتا جائے گا ؟
سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں طلبہ کی ایک کثیر تعداد ہر سال بی اے کرتی ہے . بی اے میں آرٹس کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں . اور آج کے زمانے میں آرٹس کے مضامین کی کچھ اہمیت نہیں رہی
بی اے کے بعد یہی طالب علم آرٹس میں ایم اے کر لیتے ہیں ، اس کے بعد سی ایس ایس یا کسی اور طریقے سے سرکاری ملازمت حاصل کرتے ہیں ، اس کے بعد پاکستان کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے
سرکاری اداروں میں ان لوگوں کی جی حضوری کی جاتی ہے اور یہ لوگ خود کو اعلی افسر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ، اس کے بعد بنگلہ گاڑی ، آئی فون اور دیگر چونچلے پورے کرنے کے لئے رشوت کا بازار خوب گرم کرتے ہیں
ایک کمشنر ، ڈی سی او ، ریلوے کا افسر ، ایف بی آر کے لوگ زیادہ تر بی اے کی ہی پیداوار ہوتے ہیں ، اگر یہ لوگ کرپشن نہ بھی کریں تو بھی کام نہیں چل سکتا کہ یہ لوگ ویلتھ پروڈیوس نہیں کر سکتے
سٹیل مل کا انجام ہمارے سامنے ہے ، پی آئی اے تباہ ہو گئی ، ریلوے مسلسل خسارے میں ہے ، وکلا گردی کا شکار پاکستان ہے، ججز انصاف دینے کی بجائے خانہ پری میں مصروف رہتے ہیں ، سرکاری افسروں کی کروشن ضرب المثل بن چکی ہے غرض جس شعبے کو بھی دیکھیں تباہی ہی تباہی نظر آتی ہے
اس کے علاوہ خاں صاحب نے کئی بار ان اداروں کو احکامات دیے جو کہ کبھی پورے نہ ہو سکے ، وجہ یہی تھی کہ یہ سرکاری افسران ان کاموں کے اہل نہ تھے مزید یہ کہ کمیشن وصول کیے بغیر یہ لوگ فائل آگے نہیں چلنے دیتے
ہم حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اداروں میں قابل لوگ بھرتی کیے جایئں . اور ان قابل لوگوں سے کام بھی لیا جائے . یعنی یہ لوگ ادارے چلائیں بھی اور ساتھ ساتھ نئے نئے طریقے کار سوچ کر ویلتھ جنریشن بھی کریں
(اے مسلمانو)
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کو ادا کرو۔
.. . . . ..
یہ بات اب اکثر لوگ مانتے ہیں کہ امانتوں سے مراد حکومت ، عہدہ یا اختیار بھی ہے اور یہ کہ کوئی بھی عہدہ کسی اہل بندے کو ہی دیا جانا چاہیے . اس ضمن میں پاکستان کے حالات دیکھیں تو صورت حال انتہائی مایوس کن نظر آتی ہے . پاکستان میں حکومت پر ایسے لوگوں کا قبضہ رہا ہے جو ہرگز اہل نہ تھے ، اس پر مزید یہ کہ اس نظام کی بہتری کی دور دور تک کوئی امید بھی نظر نہیں آتی . "میں اب فرشتے کہاں سے لاؤ " کہہ کر خاں صاحب بھی ہار مان گئے تھے
سوال یہ ہے کہ درستگی کہاں سے اور کیسے کی جائے ، یا پھر یہ نظام قیامت تک ایسے ہی چلتا جائے گا ؟
سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں طلبہ کی ایک کثیر تعداد ہر سال بی اے کرتی ہے . بی اے میں آرٹس کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں . اور آج کے زمانے میں آرٹس کے مضامین کی کچھ اہمیت نہیں رہی
بی اے کے بعد یہی طالب علم آرٹس میں ایم اے کر لیتے ہیں ، اس کے بعد سی ایس ایس یا کسی اور طریقے سے سرکاری ملازمت حاصل کرتے ہیں ، اس کے بعد پاکستان کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے
سرکاری اداروں میں ان لوگوں کی جی حضوری کی جاتی ہے اور یہ لوگ خود کو اعلی افسر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ، اس کے بعد بنگلہ گاڑی ، آئی فون اور دیگر چونچلے پورے کرنے کے لئے رشوت کا بازار خوب گرم کرتے ہیں
ایک کمشنر ، ڈی سی او ، ریلوے کا افسر ، ایف بی آر کے لوگ زیادہ تر بی اے کی ہی پیداوار ہوتے ہیں ، اگر یہ لوگ کرپشن نہ بھی کریں تو بھی کام نہیں چل سکتا کہ یہ لوگ ویلتھ پروڈیوس نہیں کر سکتے
سٹیل مل کا انجام ہمارے سامنے ہے ، پی آئی اے تباہ ہو گئی ، ریلوے مسلسل خسارے میں ہے ، وکلا گردی کا شکار پاکستان ہے، ججز انصاف دینے کی بجائے خانہ پری میں مصروف رہتے ہیں ، سرکاری افسروں کی کروشن ضرب المثل بن چکی ہے غرض جس شعبے کو بھی دیکھیں تباہی ہی تباہی نظر آتی ہے
اس کے علاوہ خاں صاحب نے کئی بار ان اداروں کو احکامات دیے جو کہ کبھی پورے نہ ہو سکے ، وجہ یہی تھی کہ یہ سرکاری افسران ان کاموں کے اہل نہ تھے مزید یہ کہ کمیشن وصول کیے بغیر یہ لوگ فائل آگے نہیں چلنے دیتے
ہم حکومت سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اداروں میں قابل لوگ بھرتی کیے جایئں . اور ان قابل لوگوں سے کام بھی لیا جائے . یعنی یہ لوگ ادارے چلائیں بھی اور ساتھ ساتھ نئے نئے طریقے کار سوچ کر ویلتھ جنریشن بھی کریں