پنجاب حکومت کی نئی ایجوکیشن پالیسی

RashidAhmed

Moderator
Staff member
Siasat.pk Web Desk
Vp0zTCFsxW7bzndo.jpg

پنجاب حکومت نے کل تعلیمی پالیسی جاری کی اس پالیسی کے کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پرائمری تک بچوں کو تعلیم اردو میڈیم میں دی جائے گی جبکہ انگلش بطور لینگویج پڑھائی جائے گی۔ اسکے علاوہ پنجاب حکومت دوسری شفٹ میں ایوننگ سکولز بھی شروع کرے گی تاکہ جو بچے سکولز سے باہر ہیں یا صبح کے وقت سکول نہیں آسکتے وہ دوپہر کی شفٹ میں پڑھ سکیں ۔۔ پنجاب حکومت سکولز میں بچوں کی تعداد بڑھانے اور تعلیمی معیار کو ٹھیک کرنے کیلئے دو بڑے اقدام اٹھانے جارہی ہے۔ پہلا یہ کہ جو والدین بچوں کو سکول نہیں بھیجتے وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور صحت سہولت کارڈ کے حقدار نہیں ہوں گے۔ میرے خیال سے ساتھ ساتھ حکومت کو یہ بھی کرنا چاہئے کہ جو والدین بچوں کو سکول نہ بھیجیں وہ نہ صرف بے نظیرانکم سپورٹ اور صحت سہولت کارڈ سے محروم رہیں بلکہ وہ جب تک اپنے بچے کو سکول داخل نہ کرائیں انہیں روزانہ کی بنیاد پر 100 یا دو سو روپے جرمانہ کیا جائے اور انکے بچوں کو چائلڈپروٹیکشن بیورو بھیج دیا جائے اور وہاں انکی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔

جبکہ بچوں کو معیاری تعلیم دینے کیلئے اساتذہ کو وکلاء کی طرز پر لائسنس جاری کئے جائیں گے یعنی سکولوں میں وہی پڑھاسکیں گے جن کے پاس ٹیچنگ لائسنس ہوگا۔ ہمارے گلی محلوں میں جو سکولز ہیں وہاں زیادہ تر غیر معیاری تعلیم دی جاتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ سکول پیسے بچانے کیلئے کم تنخواہ پر میٹرک پاس استانیاں رکھ لیتا ہے جن میں سے اکثریت نہ صرف پرائمری، مڈل بلکہ میٹرک کو بھی پڑھارہی ہوتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا یہ لائسنس اہلیت کی بنیاد ٹیسٹ لیکر جاری ہوگا؟ کوئی ٹیچنگ کے کریش پروگرام کے بعدجاری ہوگا؟ کیا یہ لائسنس پرائمری، مڈل یا میٹرک کے الگ الگ لیول پر ہوگا یا تمام لیول کیلئے ہوگا؟

میرے خیال سے اردو میڈیم اچھا آئیڈیا ہے بچے کو اسی زبان میں تعلیم دینی چاہئے جو وہ سجھتا ہو، ہماری مادری زبان اردو ہے۔ باقی جب تعلیمی نصاب سامنے آئے گا تبھی پتہ چل سکے گاکہ یہ کتنا آسان اور قابل فہم ہے، کیا یہ نصاب ماضی کی طرح رٹا سسٹم کی بنیاد پر ہوگا؟ میری پنجاب حکومت کو تعلیمی نصاب میں امپروؤمنٹ کیلئے کچھ تجاویز ہوں گی

پہلی تجویز تو یہ ہے کہ نصاب ایسا بنایا جائے جو رٹا سسٹم کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ اتنا آسان ہو کہ بچہ تصاویر دیکھ کر ہی سمجھ سکے اور استاد کو تفصیل سے سمجھانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ کمزور سٹوڈنٹس کو کھیل کود میں ہی ساری بات سمجھادی جائے

دوسری تجویز یہ ہے کہ جو کتابیں تیار کی جائیں اسکا کاغذ معیاری اور مختلف رنگوں والا ہو جو بچوں میں اٹریکشن پیدا کرے ۔ ماضی میں جوکتابیں آتی رہیں اس میں یا تو غیر معیاری کاغذ استعمال ہوتا رہا ہے یا اخباری کاغذ۔۔

رٹا سسٹم پر یکسر پابندی عائد کردی جائے اور ایسے اساتذہ کی حوصلہ شکنی کی جائے جو سٹوڈنٹس کو رٹا لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام کا بیڑہ غرق بھی رٹا سسٹم نے کیا ہے۔ رٹا لگاکر سٹوڈنٹ سبق تو یاد کرلیتا ہے اور امتحان میں تمام سوالات کے جواب لکھ کر پاس بھی ہوجاتا ہے لیکن یہ رٹا پریکٹیکل لائف میں کام نہیں آتا۔

بچوں کو رائٹنگ سکھانے کیلئے ڈوٹ والی کتابیں اچھا آئیڈیا ہے لیکن ساتھ ساتھ وائٹ بورڈ کو بھی عام کیا جائے۔ ماضی میں تختی یا سلیٹ کا رواج عام ہوتا تھا جسکی وجہ سے بچے چھوٹی کلاس سے لکھنا شروع کردیتے تھے۔

ہر سال گرمیوں میں سکول کی جو چھٹیاں ہوتی ہیں اساتذہ کی یہ چھٹی بندکرادی جائے اور انہیں ٹیچنگ ٹریننگ دی جائے
ہر سکول والدین کیساتھ رابطے میں رہے ، سکول والدین کے فون نمبرز لازمی اپنے ریکارڈ میں رکھے اور والدین کیساتھ ماہانہ یا سہ ماہی میٹنگ کا پابند ہو ، والدین اور سکول آن بورڈ رہے۔ جو بچہ کئی کئی دن بغیر بتائے سکول سے دور رہے انکے والدین سے سکول خود رابطہ کرے۔

ایوننگ کلاسز میں مارننگ کلاس کے ایسے بچوں کو بھی آنے کا آپشن دیا جائے جو کمزور ہوں اور وہ ایوننگ کلاس میں ٹیوشن کے طور پر آسکیں

سرکاری سکول کے اساتذہ پر ٹیوشن پڑھانے یا سکول کے بعد اپنی اکیڈمی کھولنے یا کسی اکیڈمی میں پڑھانے پر پابندی لگائی جائے

ایک کلاس میں سٹوڈنٹس کی تعداد ایک مخصوص تعداد سے زیادہ نہ ہو۔ سٹوڈنٹس کی تعداد ایک مخصوص تعداد سے بڑھ جائے تو مزید نیا سیکشن شروع کیا جائے۔

علاقہ کے ڈی ای او ، وزیر تعلیم، محکمہ ایجوکیشن کے افسران خود سکولز جائیں اور تعلیمی معیار کا جائزہ لیں۔۔ بہتر یہی ہوگا کہ ہر ضلع کی بنیاد پر ایجوکیشن انسپکٹرز بھرتی کئے جائیں جو نہ صرف روزانہ کی بنیاد پر سکولز میں جاکر بچوں کی اہلیت جانچیں، تعلیمی معیار کا جائزہ لیں بلکہ سکولز کی سہولیات کو بھی دیکھیں اور سکول کے بچوں کے والدین سے ملاقات کرکے ان سے فیڈبیک لیں۔

سکولز کی ریٹنگز بھی جاری کی جائیں جیسے اے ریٹنگ میں وہ سکولز ہوں جن کے سٹوڈنٹس نے ضلع بھر میں نمایا ں کارکردگی دکھائی ہو اور ان کا تعلیمی معیار سب سے اچھا ہو۔ ایسے سکولز کے اساتذہ اور نمایاں طلباء کو خصوصی انعامات دئیے جائیں اور ان سکولز کی اساتذہ کی تنخواہیں بھی زیادہ ہوں۔


حاصل کلام: پنجاب حکومت کی تعلیمی پالیسی اچھی ہے لیکن بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے ۔ تعلیمی پالیسی جو ہے وہی رہے مستقبل میں اسے تبدیل کرنے کی بجائے اس میں امپروؤمنٹ کی جائے ناں کہ پھر سے نئے سرے سے بنائی جائے۔ تعلیمی پالیسی کو قانونی تحفظ حاصل ہو، ایسا نہ ہو کہ کل کو کسی اور جماعت کی حکومت آئے اور وہ پالیسی کو ختم کرکے پھر سے نئے پالیسی سکولز اور سٹوڈنٹس پر مسلط کرے۔


 
Totally agree on this point(Unfortunately few people understand this). The education(knowledge) must and must be learned in Mother language.The best way to learn or get knowledge(for what we go to school and col, UNIV) is through mother language. English should be only for learning as a language that suite best only for communication.It should not have any more importance.

One question for all
those living outside PK, in your daily work while you have to calculate something, analyse something deeply etc etc, i mean you have to use your brain are you using your mind in enlgish,french,spanish, duetch?? are your thoughts come from these language or from your mother language???
 

pkpatriot

Chief Minister (5k+ posts)
Govt Policy is good but how will you ensure equal education for all.?

But where is "same curriculum for all policy".
It is repearedly said but not implemented.

For private schools..
Fix maximum fee that xan be charged.
salary structure for private teachers.
Make school bus compulsory to cater traffic problems and ensure equality.
Enforcec Playground and lab requirements in private schools.