پاکستان کو نئی پہچان دینے والے ڈاکٹر مبشر رحمانی کے بارے میں آپ کیا جانتے

khalid100

Minister (2k+ posts)


شیما صدیقیاپ ڈیٹ 14 جنوری 2021

5ffed3d13498c.jpg


گزشتہ سال کے آخر میں ایک اہم خبر سامنے آئی کہ کلیری ویٹ اینالیٹکس (clarivate analytics) نے پاکستانی کمپیوٹر سائنٹسٹ ڈاکٹر مبشر رحمانی کو دنیا کے ایک فیصد بہترین محققین کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ کمپیوٹر سائنس کے میدان میں یہ اعزاز نوبل پرائز جیسی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مبشر کو بہترین تحقیقی مقالوں کی بنیاد پر اس اعزاز کا مستحق سمجھا گیا۔


ہر سال کلیری ویٹ دنیا کو درپیش مسائل پر کام کرنے والے محققین اور تخلیقی مضامین کی ایک فہرست جاری کرتی ہے۔ تازہ فہرست میں 26 نوبل انعام یافتہ افراد سمیت 21 شعبوں میں 6 ہزار 400 محققین بھی شامل ہیں۔ اس فہرست میں دنیا بھر کے بہترین تحقیقی مقالوں کے حوالے دیے جاتے ہیں تاکہ محققین، سائنسدان اور طلبہ و طالبات تازہ مضامین اور مختلف شعبوں میں نئی پیش رفت سے مستفید ہوسکیں۔


کلیری ویٹ کی تازہ فہرست میں پاکستانی نوجوان ڈاکٹر مبشر رحمانی کا تعارف، اس دہائی کے سب سے زیادہ اثر انگیز کمپیوٹر سائنٹسٹ کے طور پر درج ہے اور ان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ انہوں نے 100 سے زائد تحقیقی مقالے اور تجزیاتی رپورٹس لکھیں۔ ساتھ ہی ان کے 12 تحقیقی مضامین کو کمپیوٹر سائنس کے محققین نے اپنی تحقیق میں بطور حوالہ شامل کیا۔ یعنی ان کے کام کو بطور سند استعمال کرتے ہوئے ان کے کام کو سراہا گیا۔


مبشر حسین رحمانی 3 کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ایک کتاب Block Chain Technology کے موضوع پر ہے۔ دیگر کے عنوانات Transportation and Power ،Grid in Smart Cities اور Wireless Sensor Network ہیں۔
ڈاکٹر مبشر حسین کی ابتدائی اور پروفیشنل تعلیم کراچی میں ہوئی۔ وہ انجینئر بننے سے لے کر کلیری ویٹ کی تازہ فہرست کا حصہ بننے کی کہانی کچھ اس طرح سناتے ہیں کہ انہوں نے 2004ء میں اپنی انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی اور ایک سال میں انہیں فرانس کی ساربورن یونیورسٹی کے سپر لیک انسٹیٹیوٹ میں MPhil to PhD کرنے کی اسکالر شپ مل گئی۔ اس کے بعد انہوں نے ساربون یونیورسٹی کے ’کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ لیبارٹری‘ سے اپنا پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ اپنے کام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کا سارا کام نیٹ ورک اور ٹیلی کمیونیکیشن کے موضوع پر تھا۔ 'میرے کام کا نمایاں پہلو یہ بھی تھا کہ مجھے یہ اعزاز Very honorable PhD award کے ساتھ دیا گیا۔ یہ فرانس کا پی ایج ڈی ڈگری کا سب سے بڑا اعزاز ہے'۔


چونکہ مبشر حسین حکومتِ پاکستان کے پیسوں پر پی ایچ ڈی کرنے گئے تھے اس لیے انہیں واپس آکر پاکستان میں کام کرنا تھا۔ پاکستان واپسی پر انہوں نے کومسیٹ یونیورسٹی (COMSATS) کے واہ کینٹ کیمپس میں الیکٹریکل سسٹم کا مضمون پڑھایا۔ کومسیٹ کے واہ کیمپس کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں پاکستان آرڈینینس فیکٹری میں اسلحہ تیار کیا جاتا ہے۔

5ffed3d1ca04b.jpg



پی ایچ ڈی اور کومسیٹ میں بطور لیکچرر پڑھانے کے بعد انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کا سوچا اور ایک بار پھر آئرلینڈ کے Waterford انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں Post Doc میں داخلہ لے لیا اور اب 2 سالوں سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر آئرلینڈ ہی کے کارک انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی (سی آئی ٹی) کے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھا رہے ہیں۔ اپنے حالیہ کام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'میرا سارا کام وائرلیس، سینسر نیٹ ورک، بلاک چین اور کوگنیٹیو ٹیکنالوجی پر ہے'۔

یہ اعزاز بہنوں اور مفتی نعیم میمن کے نام​


ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ’میں اپنا یہ اعزاز، اپنی بہنوں اور اپنی پسندیدہ شخصیت حیدرآباد کے مفتی محمد نعیم میمن کے نام کرتا ہوں۔ بہنوں کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب کا میری زندگی میں بہت بڑا کردار ہے۔ جب میں عام پاکستانی نوجوانوں کی طرح دین اور دنیاوی تعلیم میں الجھا ہوا تھا، اس وقت انہوں نے مجھے درست راہ دکھائی۔ ان کے اس احسان نے مجھے آج دنیا کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت دی‘۔


اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'میں ان کو اپنا محسن اس لیے بھی مانتا ہوں کہ انجینئرنگ کے دوسرے سال میرے ذہن میں آیا کہ میں انجینئرنگ کی تعلیم چھوڑ دوں۔ دین کا کام سیکھوں اور تبلیغ پر چلا جاؤں۔ اس وقت انہوں نے مجھے کہا ’بھائی کیسی باتیں کر رہے ہو۔ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنا، اس میں اچھے نمبر لانا بھی دین ہے۔ یہی ہمارا دین کہتا ہے‘۔


اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مبشر حسین نے کہا کہ 'آج بھی اکثر نوجوانوں کے ذہن میں آتا ہے کہ ہمیں دین اور ملک کی خدمت کرنی چاہیے، اور یہ سب دنیاوی تعلیم چھوڑ دینی چاہیے۔ لیکن اگر روشن ذہن والے بزرگوں کا فیض حاصل ہوجائے تو بہتر رہنمائی حاصل ہوتی ہے'۔

کئی بار ذہنی الجھن کا شکار رہا​


مبشر حسین بتاتے ہیں کہ دورانِ تعلیم اور زندگی کے مختلف ادوار میں آج کا نوجوان کئی بار ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے۔ اچھے نمبر، اچھے کالج میں داخلہ اور پھر اچھی نوکری کا دباؤ۔ ڈاکٹر مبشر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے اور انہیں جہاں صحت اور تندرستی برقرار رکھنے کے لیے ورزش اور خوراک کا خیال رکھنے کا کہا جاتا ہے وہیں انہیں احساس دلائیں کہ ذہنی صحت کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے اور ہمارے لیے بحیثیت خاندان اور دوست اپنے اطراف کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ انہیں بروقت فیصلہ سازی کی ترغیب دیں اور ان کی مثبت ذہن سازی کریں۔


ڈاکٹر مبشر نے بتایا کہ انہوں نے بھی کئی بار ذہنی دباؤ محسوس کیا۔ ’یقیناً سب کے لیے ہی مختلف فیصلے کرنا ایک مشکل امر رہا ہے، لیکن میری خوش بختی یہ رہی کہ میرے ساتھ میرا خاندان خاص کر بہنوں اور مفتی نعیم کا تعاون رہا جنہوں نے اس دباؤ سے نکلنے میں مدد کی‘۔

5ffed3d264c96.jpg


ڈاکٹر مبشر نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’انٹر کے بعد پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے کے 2 راستے تھے۔ ایک این ای ڈی یونیورسٹی میں داخلہ لوں، جہاں مجھے سافٹ ویئر ٹیکنالوجی کے شعبے میں داخلہ نہیں مل رہا تھا، جبکہ مہران انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں میرا پہلا نمبر تھا اور مجھے ٹیکنالوجی بھی میری مرضی کی ’کمپیوٹر سسٹم انجینئرنگ‘ مل رہی تھی۔ اگرچہ NED یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہر نوجوان کا خواب ہوتا ہے، لیکن میں نے گھر کے بڑوں اور اپنے استاد کے مشورے سے مہران یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اگر گھر والوں اور استاد کی رہنمائی نہ ہوتی تو میں الجھن کا شکار رہتا اور یکسوئی کے ساتھ تعلیم مکمل نہ کرسکتا تھا‘۔

مشکل اور مختلف فیصلوں نے زندگی کو آسان بنایا​


ڈاکٹر مبشر بتاتے ہیں کہ ’میں نے ساری زندگی محنت پر یقین رکھا ہے۔ NED یونیورسٹی چھوڑ کر مہران میں داخلہ لینے کے فیصلے سے لے کر پہلی نوکری تک اور پھر 17 گریڈ کی نوکری چھوڑ کر پی ایج ڈی کرنے کے فیصلے تک ہمیشہ محنت اور مسلسل کوشش اور خود پر یقین رکھنے کی وجہ سے آج اس مقام پر ہوں‘۔


مشکل فیصلے کے حوالے سے ڈاکٹر مبشر کا کہنا تھا کہ ’ڈیفینس منسٹری کی طرف سے مجھے 17 گریڈ کی نوکری مل رہی تھی اور دوسری طرف میرے پاس پی ایچ ڈی اسکالرشپ کا خط بھی آگیا۔ میرے ذہن کو الجھنا ہی تھا۔ میں اچھی نوکری کرلوں اور زندگی میں آسانی کا راستہ تلاش کروں یا پھر پی ایج ڈی کا مشکل اور محنت طلب راستہ لوں‘۔


وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں بھی خاندان کی مدد کے ساتھ انہیں مفتی نعیم صاحب کی رہنمائی حاصل رہی۔ ان کا سادہ سوال تھا کہ 17گریڈ کی سرکاری نوکری میں تم کہاں تک جاسکتے ہو؟ 19, 20 یا بہت ہوا تو 21 گریڈ سے ریٹائر ہوجاؤ گے، لیکن اگر اسکالرشپ پر چلے جاتے ہو تو زیادہ اچھے طریقے سے پاکستان کی خدمت کرسکو گے‘۔
 

Bubber Shair

Chief Minister (5k+ posts)
او بھای جان چھوڑو، نیا پاکستان، نئی پہچان ،نیا مفتی اور نیا امتحان، ہماری عوام پہلے ہی ان نت نئی تبدیلیوں اور پہچانوں والے نوسر بازوں کے ہاتھوں بہت خوار ہیں
کوی دوسری بات کرو اسطرح کے ہزاروں پھرتے ہیں ساڑھے چھ ہزار کی فہرست میں نام آنا کونسی بڑی خوبی ہے وہی بات ہوی کہ دوڑ میں سیکنڈ آگیا کیونکہ دوڑنے والے صرف دو تھے ،اور یہ ڈگری نوبل انعام کے برابر کیسے ہوگئی، پھدو سمجھا ہوا ہے؟ اسطرح کے آرٹیکل لکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ، مجھے تو یہ مفتی نعیم کی مشہوری زیادہ لگ رہی ہے، سیدھی طرح لکھو کہ اس کے ابا نے اسے پڑھنے میں مدد دی لیکن مشہوری کیلئے ابا کی بجاے ابا کا نام مفتی نعیم لکھنا ضروری تھا
 

asallo

Senator (1k+ posts)
او بھای جان چھوڑو، نیا پاکستان، نئی پہچان ،نیا مفتی اور نیا امتحان، ہماری عوام پہلے ہی ان نت نئی تبدیلیوں اور پہچانوں والے نوسر بازوں کے ہاتھوں بہت خوار ہیں
کوی دوسری بات کرو اسطرح کے ہزاروں پھرتے ہیں ساڑھے چھ ہزار کی فہرست میں نام آنا کونسی بڑی خوبی ہے وہی بات ہوی کہ دوڑ میں سیکنڈ آگیا کیونکہ دوڑنے والے صرف دو تھے ،اور یہ ڈگری نوبل انعام کے برابر کیسے ہوگئی، پھدو سمجھا ہوا ہے؟ اسطرح کے آرٹیکل لکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ، مجھے تو یہ مفتی نعیم کی مشہوری زیادہ لگ رہی ہے، سیدھی طرح لکھو کہ اس کے ابا نے اسے پڑھنے میں مدد دی لیکن مشہوری کیلئے ابا کی بجاے ابا کا نام مفتی نعیم لکھنا ضروری تھا
Patwaryon ka rik ho masla hai her eik ko apne jaisa no ser baz samjhte hain
 

asallo

Senator (1k+ posts)


شیما صدیقیاپ ڈیٹ 14 جنوری 2021

5ffed3d13498c.jpg


گزشتہ سال کے آخر میں ایک اہم خبر سامنے آئی کہ کلیری ویٹ اینالیٹکس (clarivate analytics) نے پاکستانی کمپیوٹر سائنٹسٹ ڈاکٹر مبشر رحمانی کو دنیا کے ایک فیصد بہترین محققین کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ کمپیوٹر سائنس کے میدان میں یہ اعزاز نوبل پرائز جیسی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مبشر کو بہترین تحقیقی مقالوں کی بنیاد پر اس اعزاز کا مستحق سمجھا گیا۔


ہر سال کلیری ویٹ دنیا کو درپیش مسائل پر کام کرنے والے محققین اور تخلیقی مضامین کی ایک فہرست جاری کرتی ہے۔ تازہ فہرست میں 26 نوبل انعام یافتہ افراد سمیت 21 شعبوں میں 6 ہزار 400 محققین بھی شامل ہیں۔ اس فہرست میں دنیا بھر کے بہترین تحقیقی مقالوں کے حوالے دیے جاتے ہیں تاکہ محققین، سائنسدان اور طلبہ و طالبات تازہ مضامین اور مختلف شعبوں میں نئی پیش رفت سے مستفید ہوسکیں۔


کلیری ویٹ کی تازہ فہرست میں پاکستانی نوجوان ڈاکٹر مبشر رحمانی کا تعارف، اس دہائی کے سب سے زیادہ اثر انگیز کمپیوٹر سائنٹسٹ کے طور پر درج ہے اور ان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ انہوں نے 100 سے زائد تحقیقی مقالے اور تجزیاتی رپورٹس لکھیں۔ ساتھ ہی ان کے 12 تحقیقی مضامین کو کمپیوٹر سائنس کے محققین نے اپنی تحقیق میں بطور حوالہ شامل کیا۔ یعنی ان کے کام کو بطور سند استعمال کرتے ہوئے ان کے کام کو سراہا گیا۔


مبشر حسین رحمانی 3 کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ایک کتاب Block Chain Technology کے موضوع پر ہے۔ دیگر کے عنوانات Transportation and Power ،Grid in Smart Cities اور Wireless Sensor Network ہیں۔
ڈاکٹر مبشر حسین کی ابتدائی اور پروفیشنل تعلیم کراچی میں ہوئی۔ وہ انجینئر بننے سے لے کر کلیری ویٹ کی تازہ فہرست کا حصہ بننے کی کہانی کچھ اس طرح سناتے ہیں کہ انہوں نے 2004ء میں اپنی انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی اور ایک سال میں انہیں فرانس کی ساربورن یونیورسٹی کے سپر لیک انسٹیٹیوٹ میں MPhil to PhD کرنے کی اسکالر شپ مل گئی۔ اس کے بعد انہوں نے ساربون یونیورسٹی کے ’کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ لیبارٹری‘ سے اپنا پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ اپنے کام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کا سارا کام نیٹ ورک اور ٹیلی کمیونیکیشن کے موضوع پر تھا۔ 'میرے کام کا نمایاں پہلو یہ بھی تھا کہ مجھے یہ اعزاز Very honorable PhD award کے ساتھ دیا گیا۔ یہ فرانس کا پی ایج ڈی ڈگری کا سب سے بڑا اعزاز ہے'۔


چونکہ مبشر حسین حکومتِ پاکستان کے پیسوں پر پی ایچ ڈی کرنے گئے تھے اس لیے انہیں واپس آکر پاکستان میں کام کرنا تھا۔ پاکستان واپسی پر انہوں نے کومسیٹ یونیورسٹی (COMSATS) کے واہ کینٹ کیمپس میں الیکٹریکل سسٹم کا مضمون پڑھایا۔ کومسیٹ کے واہ کیمپس کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں پاکستان آرڈینینس فیکٹری میں اسلحہ تیار کیا جاتا ہے۔

5ffed3d1ca04b.jpg



پی ایچ ڈی اور کومسیٹ میں بطور لیکچرر پڑھانے کے بعد انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کا سوچا اور ایک بار پھر آئرلینڈ کے Waterford انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں Post Doc میں داخلہ لے لیا اور اب 2 سالوں سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر آئرلینڈ ہی کے کارک انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی (سی آئی ٹی) کے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھا رہے ہیں۔ اپنے حالیہ کام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'میرا سارا کام وائرلیس، سینسر نیٹ ورک، بلاک چین اور کوگنیٹیو ٹیکنالوجی پر ہے'۔

یہ اعزاز بہنوں اور مفتی نعیم میمن کے نام​


ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ’میں اپنا یہ اعزاز، اپنی بہنوں اور اپنی پسندیدہ شخصیت حیدرآباد کے مفتی محمد نعیم میمن کے نام کرتا ہوں۔ بہنوں کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب کا میری زندگی میں بہت بڑا کردار ہے۔ جب میں عام پاکستانی نوجوانوں کی طرح دین اور دنیاوی تعلیم میں الجھا ہوا تھا، اس وقت انہوں نے مجھے درست راہ دکھائی۔ ان کے اس احسان نے مجھے آج دنیا کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت دی‘۔


اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'میں ان کو اپنا محسن اس لیے بھی مانتا ہوں کہ انجینئرنگ کے دوسرے سال میرے ذہن میں آیا کہ میں انجینئرنگ کی تعلیم چھوڑ دوں۔ دین کا کام سیکھوں اور تبلیغ پر چلا جاؤں۔ اس وقت انہوں نے مجھے کہا ’بھائی کیسی باتیں کر رہے ہو۔ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنا، اس میں اچھے نمبر لانا بھی دین ہے۔ یہی ہمارا دین کہتا ہے‘۔


اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مبشر حسین نے کہا کہ 'آج بھی اکثر نوجوانوں کے ذہن میں آتا ہے کہ ہمیں دین اور ملک کی خدمت کرنی چاہیے، اور یہ سب دنیاوی تعلیم چھوڑ دینی چاہیے۔ لیکن اگر روشن ذہن والے بزرگوں کا فیض حاصل ہوجائے تو بہتر رہنمائی حاصل ہوتی ہے'۔

کئی بار ذہنی الجھن کا شکار رہا​


مبشر حسین بتاتے ہیں کہ دورانِ تعلیم اور زندگی کے مختلف ادوار میں آج کا نوجوان کئی بار ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے۔ اچھے نمبر، اچھے کالج میں داخلہ اور پھر اچھی نوکری کا دباؤ۔ ڈاکٹر مبشر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے اور انہیں جہاں صحت اور تندرستی برقرار رکھنے کے لیے ورزش اور خوراک کا خیال رکھنے کا کہا جاتا ہے وہیں انہیں احساس دلائیں کہ ذہنی صحت کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے اور ہمارے لیے بحیثیت خاندان اور دوست اپنے اطراف کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ انہیں بروقت فیصلہ سازی کی ترغیب دیں اور ان کی مثبت ذہن سازی کریں۔


ڈاکٹر مبشر نے بتایا کہ انہوں نے بھی کئی بار ذہنی دباؤ محسوس کیا۔ ’یقیناً سب کے لیے ہی مختلف فیصلے کرنا ایک مشکل امر رہا ہے، لیکن میری خوش بختی یہ رہی کہ میرے ساتھ میرا خاندان خاص کر بہنوں اور مفتی نعیم کا تعاون رہا جنہوں نے اس دباؤ سے نکلنے میں مدد کی‘۔

5ffed3d264c96.jpg


ڈاکٹر مبشر نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’انٹر کے بعد پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے کے 2 راستے تھے۔ ایک این ای ڈی یونیورسٹی میں داخلہ لوں، جہاں مجھے سافٹ ویئر ٹیکنالوجی کے شعبے میں داخلہ نہیں مل رہا تھا، جبکہ مہران انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں میرا پہلا نمبر تھا اور مجھے ٹیکنالوجی بھی میری مرضی کی ’کمپیوٹر سسٹم انجینئرنگ‘ مل رہی تھی۔ اگرچہ NED یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہر نوجوان کا خواب ہوتا ہے، لیکن میں نے گھر کے بڑوں اور اپنے استاد کے مشورے سے مہران یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اگر گھر والوں اور استاد کی رہنمائی نہ ہوتی تو میں الجھن کا شکار رہتا اور یکسوئی کے ساتھ تعلیم مکمل نہ کرسکتا تھا‘۔

مشکل اور مختلف فیصلوں نے زندگی کو آسان بنایا​


ڈاکٹر مبشر بتاتے ہیں کہ ’میں نے ساری زندگی محنت پر یقین رکھا ہے۔ NED یونیورسٹی چھوڑ کر مہران میں داخلہ لینے کے فیصلے سے لے کر پہلی نوکری تک اور پھر 17 گریڈ کی نوکری چھوڑ کر پی ایج ڈی کرنے کے فیصلے تک ہمیشہ محنت اور مسلسل کوشش اور خود پر یقین رکھنے کی وجہ سے آج اس مقام پر ہوں‘۔


مشکل فیصلے کے حوالے سے ڈاکٹر مبشر کا کہنا تھا کہ ’ڈیفینس منسٹری کی طرف سے مجھے 17 گریڈ کی نوکری مل رہی تھی اور دوسری طرف میرے پاس پی ایچ ڈی اسکالرشپ کا خط بھی آگیا۔ میرے ذہن کو الجھنا ہی تھا۔ میں اچھی نوکری کرلوں اور زندگی میں آسانی کا راستہ تلاش کروں یا پھر پی ایج ڈی کا مشکل اور محنت طلب راستہ لوں‘۔


وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں بھی خاندان کی مدد کے ساتھ انہیں مفتی نعیم صاحب کی رہنمائی حاصل رہی۔ ان کا سادہ سوال تھا کہ 17گریڈ کی سرکاری نوکری میں تم کہاں تک جاسکتے ہو؟ 19, 20 یا بہت ہوا تو 21 گریڈ سے ریٹائر ہوجاؤ گے، لیکن اگر اسکالرشپ پر چلے جاتے ہو تو زیادہ اچھے طریقے سے پاکستان کی خدمت کرسکو گے‘۔
Sir yeh saab aap ne urdu main likha hai badi mehnat ka kaam hai. I tried but failed. By the way itna time kahan se mila aap ko ?
 

khalid100

Minister (2k+ posts)
Sir yeh saab aap ne urdu main likha hai badi mehnat ka kaam hai. I tried but failed. By the way itna time kahan se mila aap ko ?

Bhai it is a news on Dawn TV's website. Link is in Title of the post. Copying here again :-)