لا فَتى اِلاّ عَلِىّ، لا سَیفَ اِلاّ ذُو الفَقار

London Bridge

Senator (1k+ posts)
3384653325248639770.jpeg


امیر المؤمنین امام علی (ع) مکتب تشیع کے پہلے امام ، رسول خدا (ص) کے داماد ، کاتب وحی، اہل سنت کے نزدیک چوتھے خلیفہ، حضرت فاطمہ (س) کے شریک حیات اور گیارہ شیعہ آئمہ کے والد اور جد امجد ہیں۔

تمام شیعہ اور اکثر سنی مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔
کعبہ میں آپ کی ولادت کی روایت کو سید رضی، شیخ مفید، قطب راوندی اور ابن شہر آشوب سمیت تمام شیعہ علماء اور حاکم نیشاپوری، حافظ گنجی شافعی، ابن جوزی حنفی، ابن صباغ مالکی، حلبی اور مسعودی سمیت بیشتر سنی علماء متواتر (مسَلَّمہ) سمجھتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام کی جہادی زندگی


ابن قتیبہ نے لکھا ہے: امام علی جس کسی کے ساتھ بھی لڑے، اس کو زمین پر دے مارا۔

ابن قتیبہ، المعارف، بیروت: دار الکتب العلمیہ، ص 121

ابن ابی الحدید کہتا ہے: امام علی کی جسمانی قوت ضرب المثل میں بدل گئی ہے۔ آپ ہی تھے جنہوں نے در خیبر اکھاڑا اور ایک جماعت نے وہ دروازہ دوبارہ لگانے کی کوشش کی لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے ہبَل نامی بت کو جو حقیقتاً بڑا بت تھا، کعبہ کے اوپر سے زمین پر دے مارا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک بہت بڑی چٹان کو اکھاڑ دیا اور اس کے نیچے سے پانی ابل پڑا، جبکہ آپ کے لشکر میں شامل تمام افراد مل کر بھی اس کو ہلانے میں ناکام ہو چکے تھے۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 21

جہاد میں شرکت:

امام علی (ع) نے اسلام کے غزوات اور سرایا میں بہت ہی مؤثر کردار ادا کیا۔ غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں رسول خدا کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف لڑے۔ آپ (ع) نے اسلام اور مسلمین کے خلاف لڑی جانے والی تمام جنگوں حضرت محمد (ص) کے بعد دوسری اسلامی عسکری شخصیت کے عنوان سے کردار ادا کیا ہے۔

طبقات الکبری، ابن سعد، ج 3، ص 24


جنگ بدر:


جنگ بدر، یا غزوہ بدر مسلمانوں اور کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی جو بروز جمعہ 17 رمضان المبارک سن 2 ہجری کو بدر کے کنوؤں کے کنارے واقع ہوئی۔

انساب الاشراف، بلاذری، ج1، ص2883

اس جنگ میں مسلمانوں نے مشرکین کو ہلاک کر دیا، جن میں کفر و شرک کے بعض بڑے بڑے نام: ابو جہل، عتبہ، شیبہ، امیہ وغیرہ بھی شامل تھے۔

عرب روایات کے مطابق عمومی حملے سے قبل افراد کے درمیان تن بہ تن لڑائی ہوتی تھی۔ چنانچہ اموی خاندان کا عتبہ ابن ربیعہ اور اس کا بیٹا ولید اور بھائی شیبہ، نے پیغمبر سے کہا: ہمارے مقابلے کے لیے ہمارے ہم رتبہ آدمی روانہ کریں۔ حضرت محمد (ص)، نے على (ع)، حمزہ اور عبیدة ابن حارث کو ان کے مقابلے کے لیے بھجوایا۔ علی (ع) نے ولید کو اور حمزہ نے عتبہ کو زیادہ فرصت دیئے بغیر ہلاک کر دیا اور پھر جا کر عبیدہ کی مدد کر کے ان کے دشمن کو بھی ہلاک کر ڈالا۔

تاریخ طبری، طبری، ج 2، ص 148

نیز اس جنگ میں حنظلہ، عاص ابن سعید اور طعیمہ ابن عدی سمیت قریش کے تقریبا 20 بہادر جنگجو، امام علی کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے۔

سیرہ ابن شام، ج 1، ص 708-713

جنگ احد:

جنگ احد میں مسلمانوں کی پہلی صف میں سب سے آگے علىؑ، حمزہ ، اور ابو دجانہ وغیرہ لڑ رہے تھے، جنہوں نے دشمنوں کی صفوں کو کمزور کر دیا۔ رسول خدا (ص) کو ہر طرف سے لشکر قریش کے مختلف گروہوں کی طرف سے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جو بھی گروہ آپؐ پر حملہ کرتا، علیؑ آپ (ص) کے حکم سے اس پر حملہ کر دیتے تھے۔ اس جان نثاری کے صلے میں جبرائیل نازل ہوئے اور رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہو کر علیؑ کے ایثار کی تعریف و تمجید کی اور عرض کیا:

یہ ایثار اور قربانی کی انتہاء ہے جو وہ دکھا رہے ہیں۔

رسول خدا (ص) نے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا:

إِنَّہ ُمِنِّي وَأَنَا مِنْہ ،

وہ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔

اس کے بعد ایک ندا آسمان سے سنائی دی:

لا سیف الا ذوالفقار و لا فتٰی الا علي۔

ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور علی کے سوا کوئی جوان نہیں ہے۔

ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج‏2، ص‏107

جنگ خندق (احزاب):

جنگ خندق میں رسول خدا (ص) نے اصحاب کے ساتھ مشورہ کیا تو سلمان فارسی نے رائے دی کہ مدینہ کے اطراف میں ایک خندق کھودی جائے، جو حملہ آوروں اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو۔

سیرہ ابن‌ ہشام، ج3، ص235

کئی دن تک لشکر اسلام اور لشکر کفر خندق کے دو کناروں پر آمنے سامنے رہے اور کبھی کبھی ایک دوسرے کی طرف تیر یا پتھر پھینکتے تھے، بالآخر لشکر کفار سے عمرو ابن عبدود اور اس کے چند ساتھی خندق کے سب سے تنگ حصے سے گزر کر دوسری طرف مسلمانوں کے سامنے آنے میں کامیاب ہوئے۔ علی (ع) نے رسول خدا (ص) سے درخواست کی کہ انہیں عمرو کا مقابلہ کرنے کا اذن دیں اور آپ (ص) نے اذن دے دیا۔ علی (ع) نے عمرو کو زمین پر گرا کر ہلاک کر دیا۔

تاریخ طبری، ج2، ص574-573

جب علی (ع) عمرو کا سر لے کر رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (ص) نے فرمایا:

ضَربَةُ عَليٍ يَومَ الخَندَقِ اَفضَلُ مِن عِبادَةِ الثَّقَلَینِ۔

روز خندق علی کا ایک وار جن و انس کی عبادت سے افضل ہے۔

بحار الانوار مجلسی، ج‏20، ص‏216

بغدادی،تاریخ بغداد، ج 13 ص 18

جنگ خیبر:

جنگ خیبر ماہ جمادی الاولی سن 7 ہجری میں واقع ہوئی، جب رسول خدا نے یہودیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے قلعوں پر حملہ کرنے کا فرمان جاری کیا رسول خدا (ص) نے فرمایا:

لأعطين الراية رجلا يحب اللہ ورسولہ و يحبہ اللہ ورسولہ،

میں کل پرچم ایسے فرد کے سپرد کر رہا ہوں جو خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اسے دوست رکھتے ہیں۔

سیرہ ابن ہشام، ج 2، ص 328

صحیح مسلم، ج 15، ص 178-179

صبح کے وقت رسول خدا (ص) نے علی (ع) کو بلایا اور پرچم ان کے سپرد کر دیا۔

علیؑ اپنی ذوالفقار لے کر میدان جنگ میں اترے اور جب ڈھال ہاتھ سے گر گئی تو آپ نے ایک قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر اسے ڈھال قرار دیا اور جنگ کے آخر تک اسے ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔

شیخ مفید، الارشاد، 590

فتح مکہ:

رسول خدا (ص) ماہ مبارک رمضان سن 8 ہجری کو فتح مکہ کی غرض سے مدینہ سے خارج ہوئے۔ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے لشکر اسلام کا پرچم سعد ابن عبادہ کے ہاتھ میں تھا، لیکن سعد نے جنگ ، خون ریزی اور انتقام جوئی کے بارے میں باتیں کیں۔ پیغمبر اسلام (ص) کو جب اس بارے میں معلوم ہوا تو، آپ نے امام علی (ع) کو کہا کہ اس سے تم پرچم لے لو۔ فتح مکہ کے بعد رسول خدا کی ہدایت پر تمام بتوں کو توڑ دیا گیا اور آپ (ص) کی ہدایت پر علی (ع) نے آپ (ص) کے دوش پر کھڑے ہو کر سارے بتوں کو توڑ دیا۔ امام علیؑ نے خزاعہ کے بت کو کعبہ کے اوپر سے نیچے گرا دیا اور مستحکم بتوں کو زمین سے اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیا۔

السیرہ الحلبیہ، حلبى، ج 3، ص 30

جنگ حنین:

جنگ حنین سن 8 ہجری میں واقع ہوئی۔ اس غزوہ کا سبب یہ تھا کہ قبیلہ ہواز اور قبیلہ ثقیف کے اشراف نے فتح مکہ کے بعد رسول اللہ کی طرف اپنے خلاف جنگ کے آغاز کے خوف سے حفظ ما تقدم کے تحت مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ علی (ع) اس جنگ میں مہاجرین کے علمبرار تھے اور آپ نے 40 کے قریب دشمنوں کو ہلاک کر دیا۔

المغازی، واقدی، ج3، ص885

المغازی، واقدی، ج3، ص902 و 904

جنگ تبوک:

وہ واحد غزوہ کہ جس میں علی (ع) نے رسول اللہ (ص) کے ساتھ، خود رسول اللہ کے حکم کے مطابق شرکت نہیں کی، وہ غزوہ تبوک تھا۔ علی (ع) رسول اللہ (ص) کی ہدایت پر مدینہ میں ٹہرے تا کہ آپ (ص) کی غیر موجودگی میں مسلمانوں اور اسلام کو منافقین کی سازشوں سے محفوظ رکھیں۔

علی (ع) کے مدینہ میں ٹھہرنے کے بعد، منافقین نے علی (ع) کے خلاف تشہیری مہم کا آغاز کیا اور علی نے فتنے کی آگ بجھانے کی غرض سے اپنا اسلحہ اٹھایا اور مدینے سے باہر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منافقین کی تشہیری مہم کی اطلاع دی۔

یہی وہ موقع تھا جب رسول اللہ نے حدیث منزلت ارشاد فرمائی کہ:

میرے بھائی علی! مدینہ واپس پلٹ جاؤ، کیونکہ وہاں کے معاملات سلجھانے کے لیے تمہارے اور میرے بغیر کسی میں اہلیت نہیں ہے۔ پس تم میرے اہل بیت اور میرے گھر اور میری قوم کے اندر میرے جانشین ہو ! کہ تم خوشنود نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے، جو موسی سے ہارون کی تھی، سوا اس کے میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

شیخ مفید، الارشاد، ج 1، ص 156

سیرہ ابن ہشام، ج 4، ص 163

امام علی (ع) 19 رمضان سن 40 ہجری کی صبح مسجد کوفہ میں نماز فجر کے وقت عبد الرحمن ابن ملجم مرادی نامی خارجی ملعون کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور 21 رمضان کو جام شہادت نوش کر گئے۔

حضرت علی علیہ السلام نے محراب میں گر کر اسی حالت میں فرمایا:

بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ،

خدائے کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا۔


 

Citizen X

President (40k+ posts)
I'm afraid as time goes on, and more centuries pass, our brothers will slowly start attributing divinity or messengership to Hazrat Ali r.a. It has already started with the Nusairi Shia of Syria who believe Hazrat Ali r.a is a reincarnation of god ( nauzubillah )
 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نےفرمایا :
میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک محبت میں غلو کرنے والا، جو میری ایسی تعریف کرے گا کہ مجھ میں نہیں ہے، دوسرا بغض رکھنے والا کہ میری عداوت اس کو میرے اوپر بہتان لگانے پر آمادہ کرے گی۔ (مسند امام احمد)۔


نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)جلد اول صفحہ 261 میں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
"عنقریب میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک محبت کرنے والااور حد سے بڑھ جانے والا، جس کو محبت خلاف حق کی طرف لے جائے۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا جس کو بغض خلاف حق کی طرف لے جائےاور سب سے بہتر حال میرے متعلق درمیانی گروہ کا ہے جو نہ زیادہ محبت کرے ، نہ بغض رکھے، پس اس درمیانی حالت کو اپنے لیے ضروری سمجھو اور سواد اعظم یعنی بڑی جماعت کے ساتھ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور خبردار جماعت سے علیحدگی نہ اختیار کرنا کیونکہ جو انسان جماعت سے الگ ہو جاتا ہےوہ شیطان کے حصہ میں جاتا ہے، جیسے کہ گلہ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیے کا حصہ بنتی ہے۔آگاہ ہو جاؤ جو شخص تم کو جماعت سے الگ ہونے کی تعلیم دے اس کو قتل کر دینا اگرچہ وہ میرے اس عمامہ کے نیچے ہو۔"

نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)جلددوم صفحہ354 میں بھی ہے:
میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہوں گے۔ ایک محبت کرنے والا حد سے بڑھ جانے والا اور دوسرا بہتان لگانے والا مفتری۔

اے اللہ!۔۔۔ہم مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرمان کے مطابق ان دونوں گروہوں کے علاوہ جو ہلاک ہونے والے ہیں صرف اس گروہ میں سے ہونے کی توفیق عطا فرما۔۔۔جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہے۔ نیز اتباع و پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق اور نور ایمان عطا فرما۔ آمین!
 

چاند

Politcal Worker (100+ posts)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نےفرمایا :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)جلد اول صفحہ 261 میں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
"عنقریب میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک محبت کرنے والااور حد سے بڑھ جانے والا، جس کو محبت خلاف حق کی طرف لے جائے۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا جس کو بغض خلاف حق کی طرف لے جائےاور سب سے بہتر حال میرے متعلق درمیانی گروہ کا ہے جو نہ زیادہ محبت کرے ، نہ بغض رکھے، پس اس درمیانی حالت کو اپنے لیے ضروری سمجھو اور سواد اعظم یعنی بڑی جماعت کے ساتھ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور خبردار جماعت سے علیحدگی نہ اختیار کرنا کیونکہ جو انسان جماعت سے الگ ہو جاتا ہےوہ شیطان کے حصہ میں جاتا ہے، جیسے کہ گلہ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیے کا حصہ بنتی ہے۔آگاہ ہو جاؤ جو شخص تم کو جماعت سے الگ ہونے کی تعلیم دے اس کو قتل کر دینا اگرچہ وہ میرے اس عمامہ کے نیچے ہو۔"

نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)جلددوم صفحہ354 میں بھی ہے:
میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہوں گے۔ ایک محبت کرنے والا حد سے بڑھ جانے والا اور دوسرا بہتان لگانے والا مفتری۔

اے اللہ!۔۔۔ہم مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرمان کے مطابق ان دونوں گروہوں کے علاوہ جو ہلاک ہونے والے ہیں صرف اس گروہ میں سے ہونے کی توفیق عطا فرما۔۔۔جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہے۔ نیز اتباع و پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق اور نور ایمان عطا فرما۔ آمین!


علی کی حد کیا ہے؟
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
I'm afraid as time goes on, and more centuries pass, our brothers will slowly start attributing divinity or messengership to Hazrat Ali r.a. It has already started with the Nusairi Shia of Syria who believe Hazrat Ali r.a is a reincarnation of god ( nauzubillah )


غالبا" آپ کی مراد نصیری فرقہ سے ہے جنہوں نے حضرت علی (ع) کو الوہیت کے مقام پر پہنچا دیا۔ آپ کی توجہ کے لئے اس ضمن میں یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ فرقہ نصیریہ کا شیعت سے ہرگز کوئی تعلق نہیں ۔ شیعوں کے تمام مراجع، علماء اور مفتیان کرام کا یہ متفقہ فیصلہ اور فتوی' ہے کہ "نصیری" اور ان جیسا عقیدہ رکھنے والے (خواہ کوئی بھی ہو) دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ آپ کی درستگی کے لئے یہاں ایک اور وضاحت بھی ضروری ہے کہ نصیری فرقہ کوئی آج یا کل پیدا نہیں ہوا یہ مولا علی(ع) کے دور میں بھی موجود تھے ۔ حضرت علی(ع) نے انہیں بہت سمجھایا کہ میں نعوذ باللہ معبود نہیں اس کا ادنی' عبد ہوں ۔نہ ماننے پر ان کے خلاف قتال کیا۔ لیکن یہاں یہ امر قابل فکر اور توجہ ہے کہ آخر نصیریوں نے دور حضرت ( ع) میں مولا علی میں ایسا کیا مظہر دیکھا کہ مولا کو ( نعوذ باللہ) اللہ کا درجہ دے ڈالا ۔
دیکھئے ہم آج چودہ سو سال بعد پیدا ہونے والوں نے تو مولا علی(ع) کا دور نہیں دیکھا ہم تک ان کی جو بھی فضیلت اور بزرگی پہنچی ہے اس کا ماخذ،قول خدا و رسول(ص) کتب اسلامی تاریخ اور روایات ہیں پھر بھی موجودہ دور میں فکر انسانی شان اور مقام حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔
مانا نصیریوں نے انتہائی سنگین غلطی کی اور مقام کفر تک جا پہنچے پھر بھی ان وجوہات کا پتہ لگانا بھی ضروری ہے کہ انہوں نے آخر حضرت علی (ع) کی شخصیت میں ایسا کیا دیکھا کہ گھبرا کر انہیں اپنا رب پکارنے لگے۔
یہ بھی کیا اتفاق ہے کہ اس دنیا میں ایک ہستی ایسی ہے جس پر خدا ہونے کا دھوکہ (گناہ عظیم) ہوا اور کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جن پر آج تک بحث و مباحثہ جاری ہے کہ وہ مسلم و مومن تھےیا کافر و منافق؟؟
جناب عالی آپ حضرت علی(ع) کی شان اقدس سے نکل کر فی الحال اس بات پر اب غور وفکر کیجئے داتا گنج بخش علی ہجویری کی شان میں کہے گئے اس مصرعہ کا کیا کیجئے گا
گنج بخش فیض عالم ۔
مظہر نور خدا
 
Last edited:

Citizen X

President (40k+ posts)


غالبا" آپ کی مراد نصیری فرقہ سے ہے جنہوں نے حضرت علی (ع) کو الوہیت کے مقام پر پہنچا دیا۔ آپ کی توجہ کے لئے اس ضمن میں یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ فرقہ نصیریہ کا شیعت سے ہرگز کوئی تعلق نہیں ۔ شیعوں کے تمام مراجع، علماء اور مفتیان کرام کا یہ متفقہ فیصلہ اور فتوی' ہے کہ "نصیری" اور ان جیسا عقیدہ رکھنے والے (خواہ کوئی بھی ہو) دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ آپ کی درستگی کے لئے یہاں ایک اور وضاحت بھی ضروری ہے کہ نصیری فرقہ کوئی آج یا کل پیدا نہیں ہوا یہ مولا علی(ع) کے دور میں بھی موجود تھے ۔ حضرت علی(ع) نے انہیں بہت سمجھایا کہ میں نعوذ باللہ معبود نہیں اس کا ادنی' عبد ہوں ۔نہ ماننے پر ان کے خلاف قتال کیا۔ لیکن یہاں یہ امر قابل فکر اور توجہ ہے کہ آخر نصیریوں نے دور حضرت ( ع) میں مولا علی میں ایسا کیا مظہر دیکھا کہ مولا کو ( نعوذ باللہ) اللہ کا درجہ دے ڈالا ۔ دیکھئے ہم تو آج چودہ سو سال بعد پیدا ہونے والوں نے تو مولا علی(ع) کا دور نہیں دیکھا ہم تک ان جو بھی فضیلت اور بزرگی پہنچی ہے اس کا ماخذ،قول خدا و رسول(ص) کتب اسلامی تاریخ اور روایات ہیں پھر بھی موجودہ دور میں فکر انسانی شان اور مقام حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ مانا نصیریوں نے انتہائی سنگین غلطی کی اور مقام کفر تک جا پہنچے پھر بھی ان وجوہات کا پتہ لگانا بھی ضروری ہے کہ انہوں نے آخر حضرت علی (ع) کی شخصیت میں ایسا کیا دیکھا کہ گھبرا کر انہیں اپنا رب پکارنے لگے۔ یہ بھی کیا اتفاق ہے کہ اس دنیا میں ایک ہستی ایسی ہے جس پر خدا ہونے کا دھوکہ (گناہ عظیم) ہوا اور کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جن پر آج تک بحث و مباحثہ جاری ہے کہ وہ مسلم و مومن تھےیا کافر و منافق؟؟
جناب عالی آپ حضرت علی(ع) کی شان اقدس سے نکل کر فی الحال اس بات پر اب غور وفکر کیجئے داتا گنج بخش علی ہجویری کی شان میں کہے گئے اس شعر کا کیا کیجئے گا
گنج بخش فیض عالم ۔
مظہر نور خدا
I just gave an example, some of your preachers have already called him greater than all the Prophets and stopped just short of Prophet Muhammed s.a.w, some, those members are present here who also say the Quran was revealed to both the Prophet s.a.w and Hazrat Ali r.a along with a lot of such beliefs.

So I was just commenting how long it before it bleeds into the mainstream and the status of Hazrat Ali r.a is raised to that of a prophet and then to divinity i.e the same path the Christians took and unless something is done about it soon and that has to come from someone with in your own sect, there is dire need for a reformer.
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
(پھرشیعہ کہاں سے آئے؟؟؟)
اکبر بادشاہ کے دور میں شیعوں اور سنیوں کا جھگڑا ہوگیا،
سنیوں نے بات بادشاہ تک پہنچا دی،
بادشاہ نے اپنے دربار میں ہی ایک مناظرہ کا حکم دیا،
تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

شیعوں نے یہ شرط رکھی کہ مناظرہ میں ملاں دوپیازہ (جو بادشاہ کا وزیر تھا) نہیں بولے گا،
جسے منظور کر لیا گیا۔

مناظرہ والے دن ملاں دوپیازہ سب سے پہلے دربار میں آیا اور اپنے جوتے بادشاہ کے تخت پر رکھ دیے۔
جب تمام شیعہ اور سنی حاضر ہوچکے تو بادشاہ سلامت بھی تشریف لے آئے...

لیکن اپنی مسند پر جوتے دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھا کہ یہ کس نے رکھے ہیں؟
سب نے ملا دوپیازہ کی طرف اشارہ کیا، بادشاہ نے ملاں سے اس کی وجہ پوچھی۔
ملا نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر یاد دلایا کہ مجھے بولنے کی اجازت نہیں ہے۔
بادشاہ نے سٹپٹا کر کہا، تم بس یہ بتا دو کہ جوتے یہاں کیوں رکھے ہیں؟
ملاں دوپیازہ نے کہا:
"اصل میں نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب سنی نماز پڑھنے کیلئے مسجد جاتے تھے تو شیعے ان کی جوتیاں چرا لیتے تھے۔"
"نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں شیعہ تھے ہی نہیں،
بادشاہ سلامت ملاں دوپیازہ جھوٹ بول رہا ہے۔"
ایک شیعہ ذاکر نے چلاتے ہوئے کہا۔

ملاں دوپیازہ نے کہا،
"مجھے بھول ہوگئی، یہ واقعہ سیدنا صدیق اکبر رضی الله عنہ کے دور کا ہے۔"

شیعہ ذاکر نے دوبارہ کہا کہ اس وقت شیعہ نہیں تھے۔
ملا دوپیازہ نے پھر حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے دور کا حوالہ دیا،

لیکن شیعہ نے اسے بھی رد کردیا۔
یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ اور حضرت علی کرم الله وجہ کے دور کا حوالہ دیا، لیکن شیعہ نے اسے بھی رد کردیا کہ ان کے دور میں شیعہ نہیں تھے۔

اب ملا دوپیازہ نے کہا،
"جب تم نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم، اور خلفاء راشدین کے دور میں نہیں تھے
تو پھر آئے کہاں سے ہو؟"
 
Last edited:

Citizen X

President (40k+ posts)
(پھرشیعہ کہاں سے آئے؟؟؟)
اکبر بادشاہ کے دور میں شیعوں اور سنیوں کا جھگڑا ہوگیا،
سنیوں نے بات بادشاہ تک پہنچا دی،
بادشاہ نے اپنے دربار میں ہی ایک مناظرہ کا حکم دیا،
تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

شیعوں نے یہ شرط رکھی کہ مناظرہ میں ملاں دوپیازہ (جو بادشاہ کا وزیر تھا) نہیں بولے گا،
جسے منظور کر لیا گیا۔

مناظرہ والے دن ملاں دوپیازہ سب سے پہلے دربار میں آیا اور اپنے جوتے بادشاہ کے تخت پر رکھ دیے۔
جب تمام شیعہ اور سنی حاضر ہوچکے تو بادشاہ سلامت بھی تشریف لے آئے...

لیکن اپنی مسند پر جوتے دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھا کہ یہ کس نے رکھے ہیں؟
سب نے ملا دوپیازہ کی طرف اشارہ کیا، بادشاہ نے ملاں سے اس کی وجہ پوچھی۔
ملا نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر یاد دلایا کہ مجھے بولنے کی اجازت نہیں ہے۔
بادشاہ نے سٹپٹا کر کہا، تم بس یہ بتا دو کہ جوتے یہاں کیوں رکھے ہیں؟
ملاں دوپیازہ نے کہا:
"اصل میں نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب سنی نماز پڑھنے کیلئے مسجد جاتے تھے تو شیعے ان کی جوتیاں چرا لیتے تھے۔"
"نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں شیعہ تھے ہی نہیں،
بادشاہ سلامت ملاں دوپیازہ جھوٹ بول رہا ہے۔"
ایک شیعہ ذاکر نے چلاتے ہوئے کہا۔

ملاں دوپیازہ نے کہا،
"مجھے بھول ہوگئی، یہ واقعہ سیدنا صدیق اکبر رضی الله عنہ کے دور کا ہے۔"

شیعہ ذاکر نے دوبارہ کہا کہ اس وقت شیعہ نہیں تھے۔
ملا دوپیازہ نے پھر حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے دور کا حوالہ دیا،

لیکن شیعہ نے اسے بھی رد کردیا۔
یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ اور حضرت علی کرم الله وجہ کے دور کا حوالہ دیا، لیکن شیعہ نے اسے بھی رد کردیا کہ ان کے دور میں شیعہ نہیں تھے۔

اب ملا دوپیازہ نے کہا،
"جب تم نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم، اور خلفاء راشدین کے دور میں نہیں تھے
تو پھر آئے کہاں سے ہو؟"
These are just made up stories to tell small children
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
(پھرشیعہ کہاں سے آئے؟؟؟)
اکبر بادشاہ کے دور میں شیعوں اور سنیوں کا جھگڑا ہوگیا،
سنیوں نے بات بادشاہ تک پہنچا دی،
بادشاہ نے اپنے دربار میں ہی ایک مناظرہ کا حکم دیا،
تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

شیعوں نے یہ شرط رکھی کہ مناظرہ میں ملاں دوپیازہ (جو بادشاہ کا وزیر تھا) نہیں بولے گا،
جسے منظور کر لیا گیا۔

مناظرہ والے دن ملاں دوپیازہ سب سے پہلے دربار میں آیا اور اپنے جوتے بادشاہ کے تخت پر رکھ دیے۔
جب تمام شیعہ اور سنی حاضر ہوچکے تو بادشاہ سلامت بھی تشریف لے آئے...

لیکن اپنی مسند پر جوتے دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھا کہ یہ کس نے رکھے ہیں؟
سب نے ملا دوپیازہ کی طرف اشارہ کیا، بادشاہ نے ملاں سے اس کی وجہ پوچھی۔
ملا نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر یاد دلایا کہ مجھے بولنے کی اجازت نہیں ہے۔
بادشاہ نے سٹپٹا کر کہا، تم بس یہ بتا دو کہ جوتے یہاں کیوں رکھے ہیں؟
ملاں دوپیازہ نے کہا:
"اصل میں نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب سنی نماز پڑھنے کیلئے مسجد جاتے تھے تو شیعے ان کی جوتیاں چرا لیتے تھے۔"
"نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں شیعہ تھے ہی نہیں،
بادشاہ سلامت ملاں دوپیازہ جھوٹ بول رہا ہے۔"
ایک شیعہ ذاکر نے چلاتے ہوئے کہا۔

ملاں دوپیازہ نے کہا،
"مجھے بھول ہوگئی، یہ واقعہ سیدنا صدیق اکبر رضی الله عنہ کے دور کا ہے۔"

شیعہ ذاکر نے دوبارہ کہا کہ اس وقت شیعہ نہیں تھے۔
ملا دوپیازہ نے پھر حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے دور کا حوالہ دیا،

لیکن شیعہ نے اسے بھی رد کردیا۔
یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ اور حضرت علی کرم الله وجہ کے دور کا حوالہ دیا، لیکن شیعہ نے اسے بھی رد کردیا کہ ان کے دور میں شیعہ نہیں تھے۔

اب ملا دوپیازہ نے کہا،
"جب تم نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم، اور خلفاء راشدین کے دور میں نہیں تھے
تو پھر آئے کہاں سے ہو؟"

قیصر مرزا ! جس طرح ماضی میں تم اسی فورم پر من گھڑت (گھریلو ساختہ) حدیثیں تحریر کرتے اور رسول اکرم (ص) پرنعوذ باللہ بہتان باندھتے ہو ئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے اور اس فورم کے ممبران نے تمہاری اجتماعی اور تاریخی چھترول کی تھی ۔ یاد تو ہوگا
وہ کہتے ہیں ناں چور ،چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نا جائے ۔تم آج پھر عادت سے مجبور ایک گھڑنتو اور دروغ گوئی پر مبنی فرضی قصہ لے آ گئے ہو۔ چلو

اچھا ہی ہوا اسی بہانے ہمیں اصل واقعہ بیان کرنے کا موقعہ مل گیا تو سنو

مشہور شیعہ عالم علامہ حلی ( 1250-1325عیسوی) کے ہاتھوں ، بادشاہ "خدا بندہ" کے شیعہ ہونے کا خوبصورت قصہ
تفصیل کچھ یوں ہے کہ 709 قمری کو ایلخانیان سلسلے کے گیارہویں بادشاہ "خدا بندہ "نے شیعہ مذہب اختیار کر لیااور شیعہ مذہب کو پھیلانے میں اہم خدمات انجام دیں اور جب تبریز گیا اور وہاں کے تخت پر بیٹھا تو اسے "بخشے گئے بادشاہ "کا لقب دیا گیا۔ انہی کے حکم سے ملک میں نئے سکے رائج کرنے کا حکم دیا گیا جن کے ایک طرف پیامبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کے نام نقش کئے گئے اور دوسری طرف اس کا اپنا نام۔
بادشاہ کی طرف سے اپنی بیوی کو تین بار طلاق دینے کا مسئلہ پیش آیا۔ ایک دن بادشاہ کو غصہ آیا اور ایک ہی مجلس میں تین بار اپنی بیوی کو تجھے طلاق ہے کا صیغہ دہرایا۔ بعد میں بادشاہ کو اپنے اس کام پر شرمندگی ہوئی۔ اسلام کے بڑے بڑے علماء کو بلایا گیا اور ان سے اس مسئلے کا حل پوچھا۔ سب علماء کا ایک ہی جواب تھا: "اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دیں، اور پھر وہ کسی مرد کے ساتھ شادی (حلالہ) کر لیں، پھر وہ اگر طلاق دیتا ہے تو آپ دوبارہ اس عورت کے ساتھ شادی کر سکتے ہیں۔" بادشاہ نے پوچھا: "ہر مسئلے میں کچھ نہ کچھ اختلاف اور گنجائش ہوتی ہے۔ اس مسئلے میں ایسا کچھ نہیں ہے؟" سب علماء نے مل کر کہا: "نہیں۔ اس کے علاوہ کوئی راہ حل نہیں۔" وہاں بیٹھا ایک وزیر بولا: "میں ایک عالم دین کو جانتا ہوں جو عراق کے حلًہ شہر میں رہتے ہیں اور ان کے مطابق اس طرح کی طلاق باطل ہے۔" (اس کی مراد علًامہ حلی تھے)۔ خدا بندہ نے علامہ حلی کو خط لکھ کر اپنے پاس بلا لیا۔ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے علامہ حلی نے حلہ سے سلطانیہ (زنجان کے قریب کا ایک علاقہ) کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔ بادشاہ کے حکم سے ایک بہت بڑی مجلس کا اہتمام کیا گیا اور تمام مذاہب کے علماء کو دعوت دی گئی جن میں اہل سنت کے چاروں فقہوں کے بڑے علماء شامل تھے۔ علًامہ حلًی کا اس مجلس میں آنے کا انداز سب سے مختلف اور عجیب تھا۔ جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے، تمام اہل مجلس کو سلام کیا اور پھر جا کے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے۔ دوسرے مذاہب کے علماء نے فورا اعتراض کیا: "بادشاہ حضور! کیا ہم نے نہیں کہا تھارافضیوں کے علماء میں عقل کی کمی ہوتی ہے


علمائے اہل سنت نے علامہ حلی سے تین سوال کیے:

۱۔ کیوں اس مجلس میں آتے ہوئے بادشاہ کے سامنے نہیں جھکے؟ اور بادشاہ کو سجدہ نہیں کیا؟

۲۔ کیوں آدابِ مجلس کی رعایت نہ کی اور بادشاہ کے ساتھ جا کے بیٹھ گئے؟

۳۔ کیوں اپنے جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے آگئے؟

علامہ حلی نے جواب دیا: پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ پیامبر اکرم (ص) حکومت میں سب سے بلند مرتبہ رکھتے تھے، جبکہ لوگ (صحابہ) ان کو صرف سلام کرتے تھے، سجدہ نہیں کرتے تھے۔ قرآن کریم کا بھی یہی حکم ہے: (... فَاِذا دَخَلْتُمْ بُیُوتا فَسَلِّمُوا عَلَی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّةً مِنْ عِنْدِاللّهِ مبارَکَةً طَیِّبَةً...)ترجمہ: پس جب گھروں میں داخل ہوں تو اپنے اوپر سلام کرو، اور خدا کی طرف سے بھی پر برکت اور پاکیزہ سلام ہو۔ اور تمام علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ غیر خدا کے لیے سجدہ جائز نہیں۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اس مجلس میں سوائے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی کے کوئی اور نشست خالی نہ تھی، اس لیے میں وہاں جا کے بیٹھ گیا۔

اور جہاں تک تعلق ہے تیسرے سوال کا کہ کیوں اپنےجوتے ہاتھ میں لیے آیا اور یہ کام کوئی عاقل انسان نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے ڈر تھا کہ باہر بیٹھے حنبلی مذہب کے لوگ میرے جوتے نہ چرا لیں۔ چونکہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ابو حنیفہ نے آپ(ص) کی جوتے چرا لیے تھے۔ حنفی فقہ کے علماء بول پڑے: بے جا تہمت مت لگائیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں امام ابوحنیفہ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ علًامہ حلی نے کہا: میں بھول گیا تھا وہ شافعی تھے جنہوں نے آپ (ص) کے جوتے چرا لیے تھے۔ شافعی مذہب کے علماء نے فریاد بلند کی: تہمت مت لگائیں۔ امام شافعی تو امام ابو حنیفہ کے روز وفات پیدا ہوئے تھے۔ علًامہ حلًی نے کہا: غلطی ہوگئی۔ وہ مالک تھے جنہوں نے چوری کی تھی۔ مالکی مذہب کے علماء فورا بول پڑے: چپ رہیں۔ امام مالک اور پیامبر اکرم (ص) کے درمیان سو سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ علًامہ حلی نے کہا: پھر تو یہ چوری کا کام احمد بن حنبل کا ہوگا۔ حنبلی علماء بول پڑے کہ امام احمد بن حنبل تو ان سب کے بعد کے ہیں۔

اسی وقت علامہ حلی نے بادشاہ کی طرف رخ کیا اور کہا: آپ نے دیکھ لیا کہ یہ سارے علماء اعتراف کر چکے کے اہل سنت کے چاروں اماموں میں سے کوئی ایک بھی پیامبر اکرم(ص) کے زمانے میں نہیں تھے۔ پس کیا بدعت ہے جو یہ لوگ لے کر آئے ہیں؟ اپنے مجتہدین میں سے چار لوگوں کو چن لیا ہے اور ان کے فتوی پر عمل کرتے ہیں۔ ان کے بعد کوئی بھی عالم دین چاہے جتنا بھی قابل ہو، متقی ہو، پرہیزگار ہو، اس کےفتوی پر عمل نہیں کیا جاتا۔ بادشاہ خدا بندہ نے اہل سنت کے علماء کی طرف رخ کر کے کہا: سچ ہے کیا کہ اہل سنت کے اماموں میں سے کوئی بھی پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں نہیں تھا؟ علماء نے جواب دیا: جی ہاں۔ ایسا ہی ہے۔ یہاں علامہ حلی بول پڑے: صرف شیعہ مذہب ہے جس نے اپنا مذہب امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ سے لیا ہے۔ وہ علیؑ جو رسول خدا (ص) کی جان تھے، چچا زاد تھے، بھائی تھے اور ان کے وصی تھے۔ شاہ خدا نے کہا: ان باتوں کو فی الحا ل رہنے دو، میں نے تمہیں ایک اہم کام کے لیے بلایا ہے۔ کیا ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں درست ہیں؟ علامہ نے کہا: آپ کی دی ہوئی طلاق باطل ہے۔ چونکہ طلاق کی شرائط پوری نہیں ہیں۔ طلاق کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ دو عادل مرد طلاق کے عربی صیغے کو سن لیں۔ کیا آپ کی طلاق کو دو عادل لوگوں نے سنا ہے؟ بادشاہ نے کہا : نہیں۔ علامہ نے کہا: پس یہ طلاق حاصل نہیں ہوئی اور آپ کی بیوی اب بھی آپ پر حلال ہے۔ (اگر طلاق حاصل ہوتی بھی تو ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ، ایک طلاق کے حکم میں ہیں۔)

اس کے بعد بھی علامہ نے اہل سنت علماء کے ساتھ کئی مناظرے کئے اور ان کے تمام اشکالات کے جوابات دئیے۔ شاہ خدا بندہ نے اسی مجلس میں شیعیت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد علامہ حلی کا شمار بادشاہ کے مقربین میں سے ہونے لگا اور انہوں نے حکومتی امکانات سے اسلام اور تشیع کو مضبوط کرنے کے لیے استفادہ کیا۔

حسن اتفاق یہ کہ شاہ خدا بندہ اور علامہ حلًی دونوں ایک ہی سال میں ، یعنی 726 ہجری میں اس دنیا سے انتقال کر گئے۔


Allamah Al-Hilli
 

Citizen X

President (40k+ posts)

قیصر مرزا ! جس طرح ماضی میں تم اسی فورم پر من گھڑت (گھریلو ساختہ) حدیثیں تحریر کرتے اور رسول اکرم (ص) پرنعوذ باللہ بہتان باندھتے ہو ئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے اور اس فورم کے ممبران نے تمہاری اجتماعی اور تاریخی چھترول کی تھی ۔ یاد تو ہوگا
وہ کہتے ہیں ناں چور ،چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نا جائے ۔تم آج پھر عادت سے مجبور ایک گھڑنتو اور دروغ گوئی پر مبنی فرضی قصہ لے آ گئے ہو۔ چلو

اچھا ہی ہوا اسی بہانے ہمیں اصل واقعہ بیان کرنے کا موقعہ مل گیا تو سنو

مشہور شیعہ عالم علامہ حلی ( 1250-1325عیسوی) کے ہاتھوں ، بادشاہ "خدا بندہ" کے شیعہ ہونے کا خوبصورت قصہ
تفصیل کچھ یوں ہے کہ 709 قمری کو ایلخانیان سلسلے کے گیارہویں بادشاہ "خدا بندہ "نے شیعہ مذہب اختیار کر لیااور شیعہ مذہب کو پھیلانے میں اہم خدمات انجام دیں اور جب تبریز گیا اور وہاں کے تخت پر بیٹھا تو اسے "بخشے گئے بادشاہ "کا لقب دیا گیا۔ انہی کے حکم سے ملک میں نئے سکے رائج کرنے کا حکم دیا گیا جن کے ایک طرف پیامبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کے نام نقش کئے گئے اور دوسری طرف اس کا اپنا نام۔
بادشاہ کی طرف سے اپنی بیوی کو تین بار طلاق دینے کا مسئلہ پیش آیا۔ ایک دن بادشاہ کو غصہ آیا اور ایک ہی مجلس میں تین بار اپنی بیوی کو تجھے طلاق ہے کا صیغہ دہرایا۔ بعد میں بادشاہ کو اپنے اس کام پر شرمندگی ہوئی۔ اسلام کے بڑے بڑے علماء کو بلایا گیا اور ان سے اس مسئلے کا حل پوچھا۔ سب علماء کا ایک ہی جواب تھا: "اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دیں، اور پھر وہ کسی مرد کے ساتھ شادی (حلالہ) کر لیں، پھر وہ اگر طلاق دیتا ہے تو آپ دوبارہ اس عورت کے ساتھ شادی کر سکتے ہیں۔" بادشاہ نے پوچھا: "ہر مسئلے میں کچھ نہ کچھ اختلاف اور گنجائش ہوتی ہے۔ اس مسئلے میں ایسا کچھ نہیں ہے؟" سب علماء نے مل کر کہا: "نہیں۔ اس کے علاوہ کوئی راہ حل نہیں۔" وہاں بیٹھا ایک وزیر بولا: "میں ایک عالم دین کو جانتا ہوں جو عراق کے حلًہ شہر میں رہتے ہیں اور ان کے مطابق اس طرح کی طلاق باطل ہے۔" (اس کی مراد علًامہ حلی تھے)۔ خدا بندہ نے علامہ حلی کو خط لکھ کر اپنے پاس بلا لیا۔ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے علامہ حلی نے حلہ سے سلطانیہ (زنجان کے قریب کا ایک علاقہ) کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔ بادشاہ کے حکم سے ایک بہت بڑی مجلس کا اہتمام کیا گیا اور تمام مذاہب کے علماء کو دعوت دی گئی جن میں اہل سنت کے چاروں فقہوں کے بڑے علماء شامل تھے۔ علًامہ حلًی کا اس مجلس میں آنے کا انداز سب سے مختلف اور عجیب تھا۔ جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے، تمام اہل مجلس کو سلام کیا اور پھر جا کے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے۔ دوسرے مذاہب کے علماء نے فورا اعتراض کیا: "بادشاہ حضور! کیا ہم نے نہیں کہا تھارافضیوں کے علماء میں عقل کی کمی ہوتی ہے


علمائے اہل سنت نے علامہ حلی سے تین سوال کیے:

۱۔ کیوں اس مجلس میں آتے ہوئے بادشاہ کے سامنے نہیں جھکے؟ اور بادشاہ کو سجدہ نہیں کیا؟

۲۔ کیوں آدابِ مجلس کی رعایت نہ کی اور بادشاہ کے ساتھ جا کے بیٹھ گئے؟

۳۔ کیوں اپنے جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے آگئے؟

علامہ حلی نے جواب دیا: پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ پیامبر اکرم (ص) حکومت میں سب سے بلند مرتبہ رکھتے تھے، جبکہ لوگ (صحابہ) ان کو صرف سلام کرتے تھے، سجدہ نہیں کرتے تھے۔ قرآن کریم کا بھی یہی حکم ہے: (... فَاِذا دَخَلْتُمْ بُیُوتا فَسَلِّمُوا عَلَی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّةً مِنْ عِنْدِاللّهِ مبارَکَةً طَیِّبَةً...)ترجمہ: پس جب گھروں میں داخل ہوں تو اپنے اوپر سلام کرو، اور خدا کی طرف سے بھی پر برکت اور پاکیزہ سلام ہو۔ اور تمام علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ غیر خدا کے لیے سجدہ جائز نہیں۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اس مجلس میں سوائے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی کے کوئی اور نشست خالی نہ تھی، اس لیے میں وہاں جا کے بیٹھ گیا۔

اور جہاں تک تعلق ہے تیسرے سوال کا کہ کیوں اپنےجوتے ہاتھ میں لیے آیا اور یہ کام کوئی عاقل انسان نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے ڈر تھا کہ باہر بیٹھے حنبلی مذہب کے لوگ میرے جوتے نہ چرا لیں۔ چونکہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ابو حنیفہ نے آپ(ص) کی جوتے چرا لیے تھے۔ حنفی فقہ کے علماء بول پڑے: بے جا تہمت مت لگائیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں امام ابوحنیفہ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ علًامہ حلی نے کہا: میں بھول گیا تھا وہ شافعی تھے جنہوں نے آپ (ص) کے جوتے چرا لیے تھے۔ شافعی مذہب کے علماء نے فریاد بلند کی: تہمت مت لگائیں۔ امام شافعی تو امام ابو حنیفہ کے روز وفات پیدا ہوئے تھے۔ علًامہ حلًی نے کہا: غلطی ہوگئی۔ وہ مالک تھے جنہوں نے چوری کی تھی۔ مالکی مذہب کے علماء فورا بول پڑے: چپ رہیں۔ امام مالک اور پیامبر اکرم (ص) کے درمیان سو سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ علًامہ حلی نے کہا: پھر تو یہ چوری کا کام احمد بن حنبل کا ہوگا۔ حنبلی علماء بول پڑے کہ امام احمد بن حنبل تو ان سب کے بعد کے ہیں۔

اسی وقت علامہ حلی نے بادشاہ کی طرف رخ کیا اور کہا: آپ نے دیکھ لیا کہ یہ سارے علماء اعتراف کر چکے کے اہل سنت کے چاروں اماموں میں سے کوئی ایک بھی پیامبر اکرم(ص) کے زمانے میں نہیں تھے۔ پس کیا بدعت ہے جو یہ لوگ لے کر آئے ہیں؟ اپنے مجتہدین میں سے چار لوگوں کو چن لیا ہے اور ان کے فتوی پر عمل کرتے ہیں۔ ان کے بعد کوئی بھی عالم دین چاہے جتنا بھی قابل ہو، متقی ہو، پرہیزگار ہو، اس کےفتوی پر عمل نہیں کیا جاتا۔ بادشاہ خدا بندہ نے اہل سنت کے علماء کی طرف رخ کر کے کہا: سچ ہے کیا کہ اہل سنت کے اماموں میں سے کوئی بھی پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں نہیں تھا؟ علماء نے جواب دیا: جی ہاں۔ ایسا ہی ہے۔ یہاں علامہ حلی بول پڑے: صرف شیعہ مذہب ہے جس نے اپنا مذہب امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ سے لیا ہے۔ وہ علیؑ جو رسول خدا (ص) کی جان تھے، چچا زاد تھے، بھائی تھے اور ان کے وصی تھے۔ شاہ خدا نے کہا: ان باتوں کو فی الحا ل رہنے دو، میں نے تمہیں ایک اہم کام کے لیے بلایا ہے۔ کیا ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں درست ہیں؟ علامہ نے کہا: آپ کی دی ہوئی طلاق باطل ہے۔ چونکہ طلاق کی شرائط پوری نہیں ہیں۔ طلاق کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ دو عادل مرد طلاق کے عربی صیغے کو سن لیں۔ کیا آپ کی طلاق کو دو عادل لوگوں نے سنا ہے؟ بادشاہ نے کہا : نہیں۔ علامہ نے کہا: پس یہ طلاق حاصل نہیں ہوئی اور آپ کی بیوی اب بھی آپ پر حلال ہے۔ (اگر طلاق حاصل ہوتی بھی تو ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ، ایک طلاق کے حکم میں ہیں۔)

اس کے بعد بھی علامہ نے اہل سنت علماء کے ساتھ کئی مناظرے کئے اور ان کے تمام اشکالات کے جوابات دئیے۔ شاہ خدا بندہ نے اسی مجلس میں شیعیت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد علامہ حلی کا شمار بادشاہ کے مقربین میں سے ہونے لگا اور انہوں نے حکومتی امکانات سے اسلام اور تشیع کو مضبوط کرنے کے لیے استفادہ کیا۔

حسن اتفاق یہ کہ شاہ خدا بندہ اور علامہ حلًی دونوں ایک ہی سال میں ، یعنی 726 ہجری میں اس دنیا سے انتقال کر گئے۔


Allamah Al-Hilli
Ek kahani ka jawab doosri kahani se
 

Citizen X

President (40k+ posts)
I'm afraid as time goes on, and more centuries pass, our brothers will slowly start attributing divinity or messengership to Hazrat Ali r.a. It has already started with the Nusairi Shia of Syria who believe Hazrat Ali r.a is a reincarnation of god ( nauzubillah )
I'm actually shocked to see this!! Well guess I was wrong, centuries didn't need to pass, worse is already happening ...... ?
 

معصوم خان

Politcal Worker (100+ posts)

قیصر مرزا ! جس طرح ماضی میں تم اسی فورم پر من گھڑت (گھریلو ساختہ) حدیثیں تحریر کرتے اور رسول اکرم (ص) پرنعوذ باللہ بہتان باندھتے ہو ئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے اور اس فورم کے ممبران نے تمہاری اجتماعی اور تاریخی چھترول کی تھی ۔ یاد تو ہوگا
وہ کہتے ہیں ناں چور ،چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نا جائے ۔تم آج پھر عادت سے مجبور ایک گھڑنتو اور دروغ گوئی پر مبنی فرضی قصہ لے آ گئے ہو۔ چلو

اچھا ہی ہوا اسی بہانے ہمیں اصل واقعہ بیان کرنے کا موقعہ مل گیا تو سنو

مشہور شیعہ عالم علامہ حلی ( 1250-1325عیسوی) کے ہاتھوں ، بادشاہ "خدا بندہ" کے شیعہ ہونے کا خوبصورت قصہ
تفصیل کچھ یوں ہے کہ 709 قمری کو ایلخانیان سلسلے کے گیارہویں بادشاہ "خدا بندہ "نے شیعہ مذہب اختیار کر لیااور شیعہ مذہب کو پھیلانے میں اہم خدمات انجام دیں اور جب تبریز گیا اور وہاں کے تخت پر بیٹھا تو اسے "بخشے گئے بادشاہ "کا لقب دیا گیا۔ انہی کے حکم سے ملک میں نئے سکے رائج کرنے کا حکم دیا گیا جن کے ایک طرف پیامبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کے نام نقش کئے گئے اور دوسری طرف اس کا اپنا نام۔
بادشاہ کی طرف سے اپنی بیوی کو تین بار طلاق دینے کا مسئلہ پیش آیا۔ ایک دن بادشاہ کو غصہ آیا اور ایک ہی مجلس میں تین بار اپنی بیوی کو تجھے طلاق ہے کا صیغہ دہرایا۔ بعد میں بادشاہ کو اپنے اس کام پر شرمندگی ہوئی۔ اسلام کے بڑے بڑے علماء کو بلایا گیا اور ان سے اس مسئلے کا حل پوچھا۔ سب علماء کا ایک ہی جواب تھا: "اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ آپ اپنی بیوی کو طلاق دیں، اور پھر وہ کسی مرد کے ساتھ شادی (حلالہ) کر لیں، پھر وہ اگر طلاق دیتا ہے تو آپ دوبارہ اس عورت کے ساتھ شادی کر سکتے ہیں۔" بادشاہ نے پوچھا: "ہر مسئلے میں کچھ نہ کچھ اختلاف اور گنجائش ہوتی ہے۔ اس مسئلے میں ایسا کچھ نہیں ہے؟" سب علماء نے مل کر کہا: "نہیں۔ اس کے علاوہ کوئی راہ حل نہیں۔" وہاں بیٹھا ایک وزیر بولا: "میں ایک عالم دین کو جانتا ہوں جو عراق کے حلًہ شہر میں رہتے ہیں اور ان کے مطابق اس طرح کی طلاق باطل ہے۔" (اس کی مراد علًامہ حلی تھے)۔ خدا بندہ نے علامہ حلی کو خط لکھ کر اپنے پاس بلا لیا۔ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے علامہ حلی نے حلہ سے سلطانیہ (زنجان کے قریب کا ایک علاقہ) کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔ بادشاہ کے حکم سے ایک بہت بڑی مجلس کا اہتمام کیا گیا اور تمام مذاہب کے علماء کو دعوت دی گئی جن میں اہل سنت کے چاروں فقہوں کے بڑے علماء شامل تھے۔ علًامہ حلًی کا اس مجلس میں آنے کا انداز سب سے مختلف اور عجیب تھا۔ جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے، تمام اہل مجلس کو سلام کیا اور پھر جا کے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے۔ دوسرے مذاہب کے علماء نے فورا اعتراض کیا: "بادشاہ حضور! کیا ہم نے نہیں کہا تھارافضیوں کے علماء میں عقل کی کمی ہوتی ہے


علمائے اہل سنت نے علامہ حلی سے تین سوال کیے:

۱۔ کیوں اس مجلس میں آتے ہوئے بادشاہ کے سامنے نہیں جھکے؟ اور بادشاہ کو سجدہ نہیں کیا؟

۲۔ کیوں آدابِ مجلس کی رعایت نہ کی اور بادشاہ کے ساتھ جا کے بیٹھ گئے؟

۳۔ کیوں اپنے جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے آگئے؟

علامہ حلی نے جواب دیا: پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ پیامبر اکرم (ص) حکومت میں سب سے بلند مرتبہ رکھتے تھے، جبکہ لوگ (صحابہ) ان کو صرف سلام کرتے تھے، سجدہ نہیں کرتے تھے۔ قرآن کریم کا بھی یہی حکم ہے: (... فَاِذا دَخَلْتُمْ بُیُوتا فَسَلِّمُوا عَلَی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّةً مِنْ عِنْدِاللّهِ مبارَکَةً طَیِّبَةً...)ترجمہ: پس جب گھروں میں داخل ہوں تو اپنے اوپر سلام کرو، اور خدا کی طرف سے بھی پر برکت اور پاکیزہ سلام ہو۔ اور تمام علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ غیر خدا کے لیے سجدہ جائز نہیں۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اس مجلس میں سوائے بادشاہ کے ساتھ والی کرسی کے کوئی اور نشست خالی نہ تھی، اس لیے میں وہاں جا کے بیٹھ گیا۔

اور جہاں تک تعلق ہے تیسرے سوال کا کہ کیوں اپنےجوتے ہاتھ میں لیے آیا اور یہ کام کوئی عاقل انسان نہیں کرتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے ڈر تھا کہ باہر بیٹھے حنبلی مذہب کے لوگ میرے جوتے نہ چرا لیں۔ چونکہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ابو حنیفہ نے آپ(ص) کی جوتے چرا لیے تھے۔ حنفی فقہ کے علماء بول پڑے: بے جا تہمت مت لگائیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں امام ابوحنیفہ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ علًامہ حلی نے کہا: میں بھول گیا تھا وہ شافعی تھے جنہوں نے آپ (ص) کے جوتے چرا لیے تھے۔ شافعی مذہب کے علماء نے فریاد بلند کی: تہمت مت لگائیں۔ امام شافعی تو امام ابو حنیفہ کے روز وفات پیدا ہوئے تھے۔ علًامہ حلًی نے کہا: غلطی ہوگئی۔ وہ مالک تھے جنہوں نے چوری کی تھی۔ مالکی مذہب کے علماء فورا بول پڑے: چپ رہیں۔ امام مالک اور پیامبر اکرم (ص) کے درمیان سو سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ علًامہ حلی نے کہا: پھر تو یہ چوری کا کام احمد بن حنبل کا ہوگا۔ حنبلی علماء بول پڑے کہ امام احمد بن حنبل تو ان سب کے بعد کے ہیں۔

اسی وقت علامہ حلی نے بادشاہ کی طرف رخ کیا اور کہا: آپ نے دیکھ لیا کہ یہ سارے علماء اعتراف کر چکے کے اہل سنت کے چاروں اماموں میں سے کوئی ایک بھی پیامبر اکرم(ص) کے زمانے میں نہیں تھے۔ پس کیا بدعت ہے جو یہ لوگ لے کر آئے ہیں؟ اپنے مجتہدین میں سے چار لوگوں کو چن لیا ہے اور ان کے فتوی پر عمل کرتے ہیں۔ ان کے بعد کوئی بھی عالم دین چاہے جتنا بھی قابل ہو، متقی ہو، پرہیزگار ہو، اس کےفتوی پر عمل نہیں کیا جاتا۔ بادشاہ خدا بندہ نے اہل سنت کے علماء کی طرف رخ کر کے کہا: سچ ہے کیا کہ اہل سنت کے اماموں میں سے کوئی بھی پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں نہیں تھا؟ علماء نے جواب دیا: جی ہاں۔ ایسا ہی ہے۔ یہاں علامہ حلی بول پڑے: صرف شیعہ مذہب ہے جس نے اپنا مذہب امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ سے لیا ہے۔ وہ علیؑ جو رسول خدا (ص) کی جان تھے، چچا زاد تھے، بھائی تھے اور ان کے وصی تھے۔ شاہ خدا نے کہا: ان باتوں کو فی الحا ل رہنے دو، میں نے تمہیں ایک اہم کام کے لیے بلایا ہے۔ کیا ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں درست ہیں؟ علامہ نے کہا: آپ کی دی ہوئی طلاق باطل ہے۔ چونکہ طلاق کی شرائط پوری نہیں ہیں۔ طلاق کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ دو عادل مرد طلاق کے عربی صیغے کو سن لیں۔ کیا آپ کی طلاق کو دو عادل لوگوں نے سنا ہے؟ بادشاہ نے کہا : نہیں۔ علامہ نے کہا: پس یہ طلاق حاصل نہیں ہوئی اور آپ کی بیوی اب بھی آپ پر حلال ہے۔ (اگر طلاق حاصل ہوتی بھی تو ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ، ایک طلاق کے حکم میں ہیں۔)

اس کے بعد بھی علامہ نے اہل سنت علماء کے ساتھ کئی مناظرے کئے اور ان کے تمام اشکالات کے جوابات دئیے۔ شاہ خدا بندہ نے اسی مجلس میں شیعیت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد علامہ حلی کا شمار بادشاہ کے مقربین میں سے ہونے لگا اور انہوں نے حکومتی امکانات سے اسلام اور تشیع کو مضبوط کرنے کے لیے استفادہ کیا۔

حسن اتفاق یہ کہ شاہ خدا بندہ اور علامہ حلًی دونوں ایک ہی سال میں ، یعنی 726 ہجری میں اس دنیا سے انتقال کر گئے۔


Allamah Al-Hilli
اشکے وئی اشکے! تجھ جیسے لوطئیے لومڑ کو بھی آخر کار مولا علی ہی کے ذکر میں پناہ لینی پڑی ورنہ پہلے تُو گندی کہانیاں لکھ لکھ کر خود کو ہر دنیاوی علوم کا ماہر سمجھنے لگ پڑا تھا۔
ابھی انسان کا بچہ بننے کی کوشش کررہا ہے یا اسی طرح کسی گدھے کے پیٹ کے ساتھ چمٹا ہوا ہے؟؟
ابھی میں فارغ ہوگیا ہوں اپنے کاموں سے جنہوں نے میرا ایک سال کھالیا ہے، اس لئے اب تیری ہر پلیت آئی ڈی اور اس سے اُگلے جانے والے الفاظ پر میری ویسی کڑی نظر رہے گی جیسی تجھ پر بچپن میں رکھی جاتی تو آج کالی مریل ٹانگیں کھول کھول کر تجھے نہ چلنا پڑتا۔
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نےفرمایا :
میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک محبت میں غلو کرنے والا، جو میری ایسی تعریف کرے گا کہ مجھ میں نہیں ہے، دوسرا بغض رکھنے والا کہ میری عداوت اس کو میرے اوپر بہتان لگانے پر آمادہ کرے گی۔ (مسند امام احمد)۔


نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)جلد اول صفحہ 261 میں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
"عنقریب میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک محبت کرنے والااور حد سے بڑھ جانے والا، جس کو محبت خلاف حق کی طرف لے جائے۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا جس کو بغض خلاف حق کی طرف لے جائےاور سب سے بہتر حال میرے متعلق درمیانی گروہ کا ہے جو نہ زیادہ محبت کرے ، نہ بغض رکھے، پس اس درمیانی حالت کو اپنے لیے ضروری سمجھو اور سواد اعظم یعنی بڑی جماعت کے ساتھ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور خبردار جماعت سے علیحدگی نہ اختیار کرنا کیونکہ جو انسان جماعت سے الگ ہو جاتا ہےوہ شیطان کے حصہ میں جاتا ہے، جیسے کہ گلہ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیے کا حصہ بنتی ہے۔آگاہ ہو جاؤ جو شخص تم کو جماعت سے الگ ہونے کی تعلیم دے اس کو قتل کر دینا اگرچہ وہ میرے اس عمامہ کے نیچے ہو۔"

نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)جلددوم صفحہ354 میں بھی ہے:
میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہوں گے۔ ایک محبت کرنے والا حد سے بڑھ جانے والا اور دوسرا بہتان لگانے والا مفتری۔

اے اللہ!۔۔۔ہم مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرمان کے مطابق ان دونوں گروہوں کے علاوہ جو ہلاک ہونے والے ہیں صرف اس گروہ میں سے ہونے کی توفیق عطا فرما۔۔۔جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہے۔ نیز اتباع و پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق اور نور ایمان عطا فرما۔ آمین!
او نسل یذید نہج البلاغہ مولا کے خطبات اور خطوط پر مبنی کتب ہے تو اس کو شیعہ سنی کی کتب میں تقسیم کر رہا ہے بڈھے

مولا کا قول حق ہے یہ ہم ہی ہیں جو مولا کی محبت میں نہ تو حد سے آگے تجاوز کر گئے نہ ہی ان کےبغض میں ان کے فضائل کو شک کی نظرسے دیکھنے والے نہ ہی ان کے مقابل کو ان سے زیادہ افضل جاننے والے ہم ہی وہ شیعہ ہیں جن کے بارے رسول کائنات نے فرمایا علی اور اس کے شیعہ خیر البریہ ہیں
تو ان نواصب میں شامل ہے جو کے ان کے فضائل پر شک کی نظر رکھتا ہے کونسا ایسا تھریڈ ہوگا جدھر آ کر تو نے ان کے فضائل پر سوال نہیں اٹھاے ہوں گے
خود کو تو بریلوی کہتا ہے مگر ہے تو پکا ناصبی نجس العین تو اس گروہ میں ہے جو ان کے بغض میں اس دنیا میں بھی جلتا رہے گا اور آخرت میں تو ہے ہی جہنم کا ایندھن
 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)
ہم ہی وہ شیعہ ہیں جن کے بارے رسول کائنات اور علی نے فرمایا


حضرت علی کرم اللہ وجہہ نےفرمایا :
میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک محبت میں غلو کرنے والا، جو میری ایسی تعریف کرے گا کہ مجھ میں نہیں ہے، دوسرا بغض رکھنے والا کہ میری عداوت اس کو میرے اوپر بہتان لگانے پر آمادہ کرے گی۔ (مسند امام احمد)۔

نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)جلد اول صفحہ 261 میں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:

"عنقریب میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک محبت کرنے والااور حد سے بڑھ جانے والا، جس کو محبت خلاف حق کی طرف لے جائے۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا جس کو بغض خلاف حق کی طرف لے جائےاور سب سے بہتر حال میرے متعلق درمیانی گروہ کا ہے جو نہ زیادہ محبت کرے ، نہ بغض رکھے، پس اس درمیانی حالت کو اپنے لیے ضروری سمجھو اور سواد اعظم یعنی بڑی جماعت کے ساتھ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور خبردار جماعت سے علیحدگی نہ اختیار کرنا کیونکہ جو انسان جماعت سے الگ ہو جاتا ہےوہ شیطان کے حصہ میں جاتا ہے، جیسے کہ گلہ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیے کا حصہ بنتی ہے۔آگاہ ہو جاؤ جو شخص تم کو جماعت سے الگ ہونے کی تعلیم دے اس کو قتل کر دینا اگرچہ وہ میرے اس عمامہ کے نیچے ہو۔"

نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)جلددوم صفحہ354 میں بھی ہے:
میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہوں گے۔ ایک محبت کرنے والا حد سے بڑھ جانے والا اور دوسرا بہتان لگانے والا مفتری۔

اے اللہ!۔۔۔ہم مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرمان کے مطابق ان دونوں گروہوں کے علاوہ جو ہلاک ہونے والے ہیں صرف اس گروہ میں سے ہونے کی توفیق عطا فرما۔۔۔جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہے۔ نیز اتباع و پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق اور نور ایمان عطا فرما۔ آمین!​
 

منتظر

Minister (2k+ posts)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نےفرمایا :
میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک محبت میں غلو کرنے والا، جو میری ایسی تعریف کرے گا کہ مجھ میں نہیں ہے، دوسرا بغض رکھنے والا کہ میری عداوت اس کو میرے اوپر بہتان لگانے پر آمادہ کرے گی۔ (مسند امام احمد)۔

نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)جلد اول صفحہ 261 میں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:

"عنقریب میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک محبت کرنے والااور حد سے بڑھ جانے والا، جس کو محبت خلاف حق کی طرف لے جائے۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا جس کو بغض خلاف حق کی طرف لے جائےاور سب سے بہتر حال میرے متعلق درمیانی گروہ کا ہے جو نہ زیادہ محبت کرے ، نہ بغض رکھے، پس اس درمیانی حالت کو اپنے لیے ضروری سمجھو اور سواد اعظم یعنی بڑی جماعت کے ساتھ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور خبردار جماعت سے علیحدگی نہ اختیار کرنا کیونکہ جو انسان جماعت سے الگ ہو جاتا ہےوہ شیطان کے حصہ میں جاتا ہے، جیسے کہ گلہ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیے کا حصہ بنتی ہے۔آگاہ ہو جاؤ جو شخص تم کو جماعت سے الگ ہونے کی تعلیم دے اس کو قتل کر دینا اگرچہ وہ میرے اس عمامہ کے نیچے ہو۔"

نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)جلددوم صفحہ354 میں بھی ہے:
میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہوں گے۔ ایک محبت کرنے والا حد سے بڑھ جانے والا اور دوسرا بہتان لگانے والا مفتری۔

اے اللہ!۔۔۔ہم مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرمان کے مطابق ان دونوں گروہوں کے علاوہ جو ہلاک ہونے والے ہیں صرف اس گروہ میں سے ہونے کی توفیق عطا فرما۔۔۔جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہے۔ نیز اتباع و پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق اور نور ایمان عطا فرما۔ آمین!​
آوے مکار انسان تجھ سے جو پوچھا ہے اس کا جواب دے کیا تو ہر تھریڈ میں جو فضائل مولاے کائنات پر مبنی ہو ان پر اشکال نہیں کھڑا کرتا ہے ؟
جن دو گروپس کی بات کر رہا ہے ان میں سے ایک تم ہو جن کو ناصبی کہا جاتا ہے دوسرا گروہ غالی کا ہے
ہم نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی علی ولی الله کا کلمہ پڑھ کر دو بنیادی کام کیے ایک تو علی ولی الله پڑھ کر ختم نبوت پر مہر لگادی کے رسالت مآب خاتم الانبیا ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں اے گا اسی لیے ہمارے ہاں سے کوئی نبوت کا دعوه نہیں کرتا اس کے برعکس تمارے ہاں کتنوں نے نبوت کا دعوه کیا ابھی ایک صدی ہی گزری ہے کے مرزا غلام قادیانی جو کے دیو بندی اور اہلحدیث بھی رہا اس نے نبوت کا دعوه کیا
ددوسرا بنیادی کام علی ولی الله کا کلمہ پڑھ کر ہم نے غالیوں سے برأت کا اعلان کر دیا کے علی خدا نہیں نعوذ باللہ وہ ایک بندہ ہے خدا کا اور الله کا ولی ہے
تو میانہ روی کس کی طرف سے ہے ہماری طرف سے یا تماری طرف سے ؟ ابھی ثابت کرتا ہوں کچھ سوال کر کے
کیا تم علی علیہ سلام کو مولا مانتے ہو یا نہیں اس کا جواب دو ؟ یہ فرمان رسول ہے غدیر کے مقام سے
کیا تم علی کو حق مانتے ہو یا نہیں یہ بھی فرمان رسول ہے ؟
کیا تم علی کو قل ایمان مانتے ہو یا نہیں یہ بھی فرمان رسول ہے
کیا تم رسول خدا کے اس فرمان کو مانتے ہو کے علی سے جنگ مجھ سے جنگ مجھ سے جنگ الله سے جنگ ہے
کیا جن جن لوگوں نے مولا علی سے جنگ کی ان کو تم باغی مانتے ہو یا نہیں؟
کیا جنگ جمل جنگ صفین پر علی حق پر تھے یا نہیں ؟
جن جن نے بیعت نہیں کی آپ کی تم ان کو کیا درجہ دیتے ہو بقول تم نواصب کے ابو بکر عمر عثمان کو نہ ماننے والا کافر ہے کیا یہی کلیہ مولا علی کو نہ ماننے والوں پر لاگو ہو گا یا نہیں ؟ یا ان کے لیے کوئی قرانی آیات یا حدیث بنی ہو بنو امیہ کی فیکٹری سے ؟ ہے تو وہ ہی دکھا دو
کیاوہ جو علی علیہ سلام پر سب شتم کرے تم اس کو امیر المومنین نہیں مانتے ؟
کیا قاتل مولاے کائنات عبدالرحمان ابن ملجم تم لوگوں کے ہاں ثقہ راوی نہیں ؟
ابن عمر نے مولا علی کی بیعت نہیں کی پر یذید کی کر لی طلحہ زبیر نے بیعت کر کے توڑ دی اس بارے تمارا کیا عقیدہ ہے
ابھی بہت سوالات باقی ہیں تم نے یہ نہج البلاغہ کا حوالہ لگا کر خود کو پھر پھنسا لیا ہے تم ایک جاہل مطلق ہو جس کو معلوم ہی نہیں کے وہ کیا لکھ رہا ہے

ابھی تک تو تم نے نہج البلاغہ سے مولا علی کا قران کی تلاوت کرنا اپنی ولادت کے موقے پر ثابت ہی نہیں کیا پتہ نہیں کونسے چھاپے خانے میں چھپوا رہے ہو وہ کتاب
مجھے ان کے جوابات ایک ایک کر کے دو ابھی تو تمارے عقیدہ توحید پر بھی آنا ہے جن کا عقیدہ ہو نعوذ باللہ الله جہنم میں پاؤں رکھتا ہے یعنی کے الله وجود انسانی رکھتا ہے تم تو ہو ہی اس بنا پر کافر مجھ سے سوالات نہیں کرنا یہ پورا فورم دیکھ رہا ہے تم کو جوابات دینے ہیں اور اپنے عقیدے کا دفاح سوال کے جوابات دے کر کیا جاتا ہے نہ کے سوالات کو گول کر کے بےتکے وہی صدیوں پرانے سوالات
 

منتظر

Minister (2k+ posts)
(پھرشیعہ کہاں سے آئے؟؟؟)
اکبر بادشاہ کے دور میں شیعوں اور سنیوں کا جھگڑا ہوگیا،
سنیوں نے بات بادشاہ تک پہنچا دی،
بادشاہ نے اپنے دربار میں ہی ایک مناظرہ کا حکم دیا،
تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

شیعوں نے یہ شرط رکھی کہ مناظرہ میں ملاں دوپیازہ (جو بادشاہ کا وزیر تھا) نہیں بولے گا،
جسے منظور کر لیا گیا۔

مناظرہ والے دن ملاں دوپیازہ سب سے پہلے دربار میں آیا اور اپنے جوتے بادشاہ کے تخت پر رکھ دیے۔
جب تمام شیعہ اور سنی حاضر ہوچکے تو بادشاہ سلامت بھی تشریف لے آئے...

لیکن اپنی مسند پر جوتے دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھا کہ یہ کس نے رکھے ہیں؟
سب نے ملا دوپیازہ کی طرف اشارہ کیا، بادشاہ نے ملاں سے اس کی وجہ پوچھی۔
ملا نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر یاد دلایا کہ مجھے بولنے کی اجازت نہیں ہے۔
بادشاہ نے سٹپٹا کر کہا، تم بس یہ بتا دو کہ جوتے یہاں کیوں رکھے ہیں؟
ملاں دوپیازہ نے کہا:
"اصل میں نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب سنی نماز پڑھنے کیلئے مسجد جاتے تھے تو شیعے ان کی جوتیاں چرا لیتے تھے۔"
"نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں شیعہ تھے ہی نہیں،
بادشاہ سلامت ملاں دوپیازہ جھوٹ بول رہا ہے۔"
ایک شیعہ ذاکر نے چلاتے ہوئے کہا۔

ملاں دوپیازہ نے کہا،
"مجھے بھول ہوگئی، یہ واقعہ سیدنا صدیق اکبر رضی الله عنہ کے دور کا ہے۔"

شیعہ ذاکر نے دوبارہ کہا کہ اس وقت شیعہ نہیں تھے۔
ملا دوپیازہ نے پھر حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے دور کا حوالہ دیا،

لیکن شیعہ نے اسے بھی رد کردیا۔
یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ اور حضرت علی کرم الله وجہ کے دور کا حوالہ دیا، لیکن شیعہ نے اسے بھی رد کردیا کہ ان کے دور میں شیعہ نہیں تھے۔

اب ملا دوپیازہ نے کہا،
"جب تم نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم، اور خلفاء راشدین کے دور میں نہیں تھے
تو پھر آئے کہاں سے ہو؟"
قیصر مرزائی تم نے اپنے جد مرزا غلام قادیانی لعنت الله علیہ کی سنت پر عمل کرتے ہوے شیعہ عالم دین علامہ حلی کے واقیے کو جو کے حقیقت ہے اس کو رد بدل کر کے اپنی دجالی دکھاتے ہوے ہمارے اوپر ہی تھوپ دیا اس پر تم پر جتنی بھی لعن کی جاے وہ کام ہے کیوں کے جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہوتی ہے اصل حقیقت کیا ہے وہ تم بھی اور اس فورم پر موجود دوسرے نواصب بھی پڑھ لیں تاکہ ان کو اپنی حقیقت بارے معلوم پڑ جاے کے اصل حقیقت ہے کیا

‏1906 سے پہلے کوئی اہلِ حدیث نہیں تھا

‏1896 سے پہلے کوئی بریلوی نہیں تھا
‏1867 سے پہلے کوئی دیوبندی نہیں تھا
‏250 ہجری سے پہلے کوئی حنبلی نہیں تھا۔
‏200 ہجری سے پہلےکوئی مالکی اور شافعی نہیں تھا ۔
‏150 ہجری سے پہلےکوئی حنفی نہیں تھا ۔
‏‏لیکن حضرت محمد مصطفیٰ(ص)کی حیات میں "یا علی انت و شیعتک ھم الفائزون" یعنی --أے علی تُو اور تیرے شیعۃ ہی کامیاب ہیں-- کا اعلان بزبانِ پیغمبر عام تھا اور قرآن پاک بھی حضرت ابراھیم (ع) کے شیعہ ہونے اور حضرت موسیٰ(ع) کے شیعہ کا ذکر کرتا ہے!!

‏پھر وفاتِ پیغمبر (ص) تک کوئی سنی نہیں تھا ----- صرف مسلمان تھے یا منافق .... أے دعوئِ مسلمانی کرنیوالے مسلمانوں: "اسلام میں پوری طرح داخل ہو جاؤ"---تاکہ تم امیرالمومنین (ع) کے پرچم تلے صاحبانِ ایمان ہو جاؤ....

دنیاے اسلام میں صرف اور صرف شیعہ ہی وہ مذھب ہے جو کے رسول خدا کے زمانہ ظاہری حیات میں بھی موجود تھا باقی تمام مذاہب دھوکہ ہیں اور یہ دشمنان محمد و آل محمد کے بناے ہوے ہیں سو کالڈ اہلسنت کے تمام ائمہ ہمارے امام محمد باقر اور امام صادق علیہ سلام کے شاگرد تھے
 

Forceful

Politcal Worker (100+ posts)
(پھرشیعہ کہاں سے آئے؟؟؟)
اکبر بادشاہ کے دور میں شیعوں اور سنیوں کا جھگڑا ہوگیا،
سنیوں نے بات بادشاہ تک پہنچا دی،
بادشاہ نے اپنے دربار میں ہی ایک مناظرہ کا حکم دیا،
تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

شیعوں نے یہ شرط رکھی کہ مناظرہ میں ملاں دوپیازہ (جو بادشاہ کا وزیر تھا) نہیں بولے گا،
جسے منظور کر لیا گیا۔

مناظرہ والے دن ملاں دوپیازہ سب سے پہلے دربار میں آیا اور اپنے جوتے بادشاہ کے تخت پر رکھ دیے۔
جب تمام شیعہ اور سنی حاضر ہوچکے تو بادشاہ سلامت بھی تشریف لے آئے...

لیکن اپنی مسند پر جوتے دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھا کہ یہ کس نے رکھے ہیں؟
سب نے ملا دوپیازہ کی طرف اشارہ کیا، بادشاہ نے ملاں سے اس کی وجہ پوچھی۔
ملا نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر یاد دلایا کہ مجھے بولنے کی اجازت نہیں ہے۔
بادشاہ نے سٹپٹا کر کہا، تم بس یہ بتا دو کہ جوتے یہاں کیوں رکھے ہیں؟
ملاں دوپیازہ نے کہا:
"اصل میں نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب سنی نماز پڑھنے کیلئے مسجد جاتے تھے تو شیعے ان کی جوتیاں چرا لیتے تھے۔"
"نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں شیعہ تھے ہی نہیں،
بادشاہ سلامت ملاں دوپیازہ جھوٹ بول رہا ہے۔"
ایک شیعہ ذاکر نے چلاتے ہوئے کہا۔

ملاں دوپیازہ نے کہا،
"مجھے بھول ہوگئی، یہ واقعہ سیدنا صدیق اکبر رضی الله عنہ کے دور کا ہے۔"

شیعہ ذاکر نے دوبارہ کہا کہ اس وقت شیعہ نہیں تھے۔
ملا دوپیازہ نے پھر حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے دور کا حوالہ دیا،

لیکن شیعہ نے اسے بھی رد کردیا۔
یکے بعد دیگرے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ اور حضرت علی کرم الله وجہ کے دور کا حوالہ دیا، لیکن شیعہ نے اسے بھی رد کردیا کہ ان کے دور میں شیعہ نہیں تھے۔

اب ملا دوپیازہ نے کہا،
"جب تم نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم، اور خلفاء راشدین کے دور میں نہیں تھے
تو پھر آئے کہاں سے ہو؟"
As other members have mentioned here, if you're Mirzai (as it appears to me thru your name) you have no right to speak on Muslim's internal differences. Anyways, you're welcome to debate on Islam and Mirzaaiat. Yo're free to represent Mirziat and we Muslims would counter you from Quran and hadith.
 

Forceful

Politcal Worker (100+ posts)
قیصر مرزائی تم نے اپنے جد مرزا غلام قادیانی لعنت الله علیہ کی سنت پر عمل کرتے ہوے شیعہ عالم دین علامہ حلی کے واقیے کو جو کے حقیقت ہے اس کو رد بدل کر کے اپنی دجالی دکھاتے ہوے ہمارے اوپر ہی تھوپ دیا اس پر تم پر جتنی بھی لعن کی جاے وہ کام ہے کیوں کے جھوٹوں پر خدا کی لعنت ہوتی ہے اصل حقیقت کیا ہے وہ تم بھی اور اس فورم پر موجود دوسرے نواصب بھی پڑھ لیں تاکہ ان کو اپنی حقیقت بارے معلوم پڑ جاے کے اصل حقیقت ہے کیا

‏1906 سے پہلے کوئی اہلِ حدیث نہیں تھا

‏1896 سے پہلے کوئی بریلوی نہیں تھا
‏1867 سے پہلے کوئی دیوبندی نہیں تھا
‏250 ہجری سے پہلے کوئی حنبلی نہیں تھا۔
‏200 ہجری سے پہلےکوئی مالکی اور شافعی نہیں تھا ۔
‏150 ہجری سے پہلےکوئی حنفی نہیں تھا ۔
‏‏لیکن حضرت محمد مصطفیٰ(ص)کی حیات میں "یا علی انت و شیعتک ھم الفائزون" یعنی --أے علی تُو اور تیرے شیعۃ ہی کامیاب ہیں-- کا اعلان بزبانِ پیغمبر عام تھا اور قرآن پاک بھی حضرت ابراھیم (ع) کے شیعہ ہونے اور حضرت موسیٰ(ع) کے شیعہ کا ذکر کرتا ہے!!

‏پھر وفاتِ پیغمبر (ص) تک کوئی سنی نہیں تھا ----- صرف مسلمان تھے یا منافق .... أے دعوئِ مسلمانی کرنیوالے مسلمانوں: "اسلام میں پوری طرح داخل ہو جاؤ"---تاکہ تم امیرالمومنین (ع) کے پرچم تلے صاحبانِ ایمان ہو جاؤ....

دنیاے اسلام میں صرف اور صرف شیعہ ہی وہ مذھب ہے جو کے رسول خدا کے زمانہ ظاہری حیات میں بھی موجود تھا باقی تمام مذاہب دھوکہ ہیں اور یہ دشمنان محمد و آل محمد کے بناے ہوے ہیں سو کالڈ اہلسنت کے تمام ائمہ ہمارے امام محمد باقر اور امام صادق علیہ سلام کے شاگرد تھے
Brother, You're not supposed to indulge in argument with Qaiser Mirzai or any Mirzai since they do not believe in Finality of Prophethood of Mohammad (PBUH) and Quran as the Last Book of Allah. Please refrain from Mirzaaiz and Mirziat.
Jazak Allah