عید الفطر: اس بار ’پریم چند کا حامد‘ کیوں عیدگاہ نہیں جائے گا؟

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
عید الفطر: اس بار ’پریم چند کا حامد‘ کیوں عیدگاہ نہیں جائے گا؟

اس بار حامد عیدگاہ نہیں جائے گا، نہ ہی اپنے کسی چاہنے والے کے لیے کوئی تحفہ خریدے گا، جیسے کہ پریم چند کی کتاب عید گاہ میں اس نے دادی کے لیے چمٹا خریدا تھا۔
حامد کے پاس تو غربت کی وجہ سے نئے کپڑے نہیں تھے لیکن اس بار حامد جیسے لاکھوں مسلمان بچوں نے ’اس عید نئے کپڑے نہیں‘ اور ’پیسوں کو ضرورت مندوں کو زکوۃ‘ کا فیصلہ کر رکھا ہے۔

رمضان اور عید کو ’قانونی دائروں میں رہ کر منانے‘، ’ذمہ دار شہری ہونے کا فرض نبھانے‘، سوشل ڈسٹینسنگ، لاک ڈاون وغیرہ کے پیش نظر ماہ مبارک کے دوران پڑھی جانے والی خصوصی ’نمازوں کو گھر پر ادا کرنے‘، افطار کی دعوتوں سے بچنے اور عالمی وبا کے دوران ’انسانیت کی حفاظت کے ذمہ داری نبھانے‘ جیسی باتیں تقریباً ایک ماہ پہلے روزوں کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھیں۔

انڈیا میں ماہ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی ذاتی پیغامات، واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا پر یہ بات ہونے لگی کہ اس بار عید کی خریداری نہ کر کے کسی ضرورت مند خاندان کے لیے کھانے پینے کی اشیا کا انتظام کیا جائے، کسی بچے کی سکول فیس ادا کی جائے، کسی کے گھر کا کرایہ بھرا جائے اور رمضان کے صحیح معنی کو نبھایا جائے۔

سرکردہ صحافی رامشرن جوشی ان باتوں کو مسلم معاشرے میں ’نئی صبح کی شروعات‘ کے طور پر دیکھتے ہیں تو سیاسی تجزیہ کار بھارت بھوشن کا خیال ہے کہ یہ ’مسلم معاشرے میں ہونے والی تبدیلی کے عمل کا حصہ ہے جس کی شروعات شہریت کے قانون کے خلاف مظاہروں سے ہوئی تھی۔‘

یہیں انسانی حقوق کے کارکن سلطان خان کے مطابق اسے برادری میں ابھرنے والی نئی قیادت کی چھاپ کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے جو نئی سوچ کو ایک نئی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

\

رمضان شروع ہونے تک کورونا وائرس سے ممکنہ طور پر ہونے والی تباہی کا اندازہ ہو گیا تھا اور کئی وفاقی وزرا، کئی ریاستی حکومتوں اور میڈیا کے ایک حصے نے تبلیغی جماعت کے کیس کو فرقہ وارانہ رنگ دینا شروع کر دیا تھا۔

چوبیس مارچ کو اچانک ہونے والے لاک ڈاون کے اعلان اور اس کے بعد سڑکوں پر اپنے گھروں کی اور جانے کی کوشش کرتے مزدوروں کے سیلاب کے درمیان دلی میں مقیم تبلیغی جماعت کے صدر دفتر میں ہونے والے ایک مذہبی اجتماع کا معاملہ سامنے آیا تھا جس کے بعد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی پوری ذمہ داری تبلیغی جماعت کے سر ڈالی جانے لگی۔

کچھ عناصر نے اسے ’مسلم جان بوجھ کر کورونا پھیلا رہے ہیں‘ جیسا موڑ دینے کی بھی پوری کوشش کی۔

مصنفہ رخشندہ جلیل کہتی ہیں کہ مسلم معاشرے کا سب سے بڑا طبقہ، جس میں پڑھے لکھے نوجوان بھی شامل ہے، اس طرح کے الزامات سے بےحد صدمے میں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ برادری کے کچھ لوگ سوچ رہے ہیں کہ عید کی خریداری اس لیے بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے بازاروں میں بھیڑ لگے گی اور وائرس کے پھیلاؤ کی ذمہ داری پھر سے ان پر تھوپی جائے گی۔


سوشل میڈیا پر پیغامات
کئی واٹس ایپ گروپس میں ایسے پیغامات گردش کر رہے ہیں کہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے خریداری اور عیدی دینے کی رسم پر قابو رکھیں ورنہ ’سوشل ڈسٹینسنگ عید کی شاپنگ کی نذر ہو جائے گی‘۔ اس کے علاوہ ’مسلم خواتین کو نہیں ملک کی فکر، چاہتی ہیں کورونا پھیلانا‘ جیسی سرخیوں کے ساتھ ٹی وی چینل تیار بیٹھے ہیں۔

اسی طرح بعض پیغامات میں تو ٹی وی اینکرز کے ناموں کے ساتھ بتایا گیا ہے کون سا اینکر اس معاملے پر کون سی ہیڈ لائن چلا سکتا ہے۔

دلی کے بھجن پورا علاقے میں رہنے والے ای جی ملک کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک پیغام کہیں سے فارورڈ ہو کر آیا تھا: ’یوں بھی فسادات اور موجودہ حالات کے دوران ان میں جوش وخروش سے تہوار منانے کی خواہش نہیں ہے۔‘

شیشے کا کاروبار کرنے والے ای جی ملک نے اپنے بیٹے کو بھی عید کی شاپنگ نہ کرنے کی تاکید کی ہے اور ارادہ ہے کہ اس سے بچنے والے پانچ ہزار روپے وہ علی گڑھ میں اپنے گاؤں جا کر ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں گے۔

مسلم معاشرے اور سیاست کو قریب سے دیکھنے والے مصنف رشید کدوائی کہتے ہیں کہ ’نو ٹو عید شاپنگ‘ جیسی مہم تو بابری مسجد گرائے جانے کے بعد بھی نہیں چلی تھی اور جامع مسجد کے احمد بخاری اور چند دیگر مذہبی رہنماوں نے جب بابری مسجد اور عید کو جوڑنے کی کوشش کی تھی تو جانے مانے عالم علی میاں نے اس سے صاف انکار کر دیا تھا۔


ذمہ داریوں کا مہینہ
رشید کدوائی کہتے ہیں رمضان ’ذمہ داریوں کا مہینہ ہے‘ جس کے دوران تمام صحت مند مسلمانوں سے روزہ رکھنے، خاص عبادت کرنے اور اس کے ذریعے اپنی کردار کو بہتر بنانے کا حکم ہے اور اسی حکم کو اللہ کی رضا کے مطابق پورا کر لینے کو عید کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس میں نئے کپڑے بنوانے یا سویّاں کھانے کی کوئی قید نہیں، یہ سب صرف رسمیں ہیں۔

لیکن اس بار نو_ٹو_عید_شاپنگ کے بارے میں جو اپیلیں جاری ہو رہی ہیں ان میں رمضان میں کسی کی مدد کرنے اور اور ماہ مبارک کو اس کے صحیح معنی میں منانے کی بات ہو رہی ہے۔
رمضان شروع ہونے سے لگ بھگ ایک ہفتہ پہلے اسلام کے الگ الگ فرقوں: شعیہ، سنی، اہل حدیث وغیرہ سے تعلق رکھنے والے رہنماوں نے مشترکہ طور پر ایک تفصیلی اپیل جاری کی جس میں معاشرے اور ملک کی طرف ذمہ داریوں کی بات کی گئی تھی۔

اپیل میں کہا گیا کہ مسلمان سحری اور افطار گھر پر ہی کھائیں، نماز کے لیے مسجد نہ جائیں، بنا ضرورت باہر نہ نکلیں، نہ ہی کسی طرح کی دعوتوں کا انتظام کریں اور رشتہ داروں، پڑوسیوں اور ضرورت مندوں کی مدد کریں۔



اس کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان خلیل الرحمان سجاد نومانی کی طرف سے ایک ویڈیو اپیل جاری کی گئی جسے آئی آئی ٹی اور انجینئیرنگ سے منسلک کچھ افراد نے ایک مختصر فلم کی شکل دے دی ہے۔ ان کے مطابق اس کا مقصد ’قوم میں بیداری پیدا کرنا اور دوسرے مذاہب میں اسلام کی بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔‘


تبدیلی کی آواز
بھارت بھوشن کے مطابق علماوں کے نظریے میں آئی تبدیلی کے پیچھے قیادت میں آئی تبدیلی ہے۔ "جو شہریت کے نئے قانون کے خلاف مہم کے وقت پرانی قیادت کے ہاتھوں سے نکل کر نئے ابھرنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔‘

اور پرانی قیادت شاید اس وجہ سے بدلنے کے لیے مجبور ہو گئی ہے۔

بھارت بھوشن کہتے ہیں کہ شہریت کے قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں، جنہیں وہ ’مسلم سیاست کا سیکیولرائزنگ لمحہ‘ کہتے ہیں، شامل نوجوانوں نے روایتی مذہبی رہنماوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے تھوپے گئے لیڈروں کو پاس تک نہیں بھٹکنے دیا۔ حالانکہ ایسا کرنے سے کوئی ایک چہرہ لیڈر بن کر سامنے نہیں آیا لیکن اسے قیادت کے جمہوری ہونے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

تاہم لکھنو کے مشہور مذہبی ادارے فرنگی محل سے منسلک نعیم الرحمان صدیقی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ چیزوں کو اس طرح ’سیاہ اور سفید‘ کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔

نعیم الرحمان صدیقی کہتے ہیں: ’علما بھی ان حالات سے بےخبر نہیں کہ شراب کی دکانوں پر لگی بھیڑ اور وہاں نہ ہونے کے برابر سوشل ڈسٹینسنگ پر کوئی میڈیا یا حکام ہنگامہ کھڑا نہیں کرتے، لیکن بات جب مسلمانوں کی آتی ہے تو ہر طرف سے سوال کھڑے ہونے لگتے ہیں۔‘

رخشندہ جلیل مسلمانوں میں پیدا ہونے والی اس بیداری کو اہم سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس میں مزید کام کی ضرورت ہے کیونکہ تمام کوششوں کے بعد بھی علی گڑھ کے جمال پورا بازار میں عید کی خریداری کرنے والوں کا رش لگ گیا تھا۔

لاک ڈاون کے اعلان کے بعد مسلمان رہنماوں نے نماز جمعہ کو باجماعت ادا نہ کرنے اور مسجدوں میں نہ جانے کی جو اپیل کی تھی اسے بھی کئی لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ دلی کے قریب واقع نوئیڈا میں چھت پر باجماعت نماز ادا کرنے پر پولیس نے کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا۔


لمحہ فکریہ
حالانکہ برادری کے ایک حصے میں یہ پریشانی بھی ہے کہ لاک ڈاون کے دوران حکومت کی طرف سے نافذ کیے گئے اقدامات اور مسلمانوں کے اپنے فیصلے، جیسے کہ نماز کا باجماعت نہ ہونا، یا نماز جمعہ مساجد میں نہ ادا کرنا، کہیں حکومت کی طرف سے ہمیشہ کے لیے نافد نہ ہو جائیں۔

نماز، روزہ اور عید سے ہٹ کر بھی اس دوران مسلمانوں کی طرف سے اقدامات سامنے آئے جن میں پونے کی ایک مسجد کو قرنطینہ مرکز بنانے کی پیشکش، کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہونے والے کئی ہندوؤں کی مسلمانوں کے ہاتھوں آخری رسومات ادا ہونا اور لاک ڈاون سے پریشان لوگوں کی معاشی مدد کرنا شامل ہیں۔

جماعت اسلامی کی طلبا تنظیم سٹوڈنٹ اسلامک آرگانائیزیشن کے جنرل سیکرٹری سید اظہرالدین لاکھوں بے گھر مزدوروں اور غریب روزہ داروں کی معاشی مدد کرنے کا دعوی کرتے ہیں تو کیمبرج میں ریسرچ سکالر ممتاز نیّر کہتے ہیں کہ انہوں نے اور ان کے دوستوں نے بہار سے لے کر مہاراشٹر تک لوگوں میں راشن کٹ بانٹے ہیں۔

بھوپال میں مقیم سماجی کارکن عاصمہ خان کہتی ہیں کہ ضرورت مندوں کی مدد کا جذبہ نوجوان مسلمانوں میں اچانک پیدا نہیں ہوا ہے اور یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم کا حصہ ہے لیکن شاید پہلے نیکی کر دریا میں ڈال والی بات تھی اور اب شاید سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ باتین سامنے آ رہی ہیںَ۔

رام شرن جوشی کا خیال ہے کہ مسلمان برادری میں اٹھنے والے یہ چھوٹے چھوٹے مثبت قدم، جن میں انڈین شہری ہونے کا احساس بہت گہرا ہے، کس اور جائیں گے، یہ بات آنے والے دنوں میں ملک کی سیاست اور اس سے پیدا ہونے والے حالات طے کرے گی لیکن فی الحال جو ہو رہا ہے اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔


سورس
 
Last edited by a moderator:

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
غلامی کے احساس کا مر جانا ہی اصل غلامی ہے۔
مجموعی اجتماعی شعور ہی آزادی کی جانب پہلا قدم ہے۔ اب انڈیا کے مسلمانوں کے شعور میں یہ بات آگئی ہے کہ بی جے پی آر ایس ایس سے بچانے کے لیے انہیں خود کوئی کردار ادا کرنا ہے۔
 
Last edited:

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
ہمارے محترم دوست نے پریم چند کے افسانہ عید گاہ کو حوالہ دیا۔ یہ ایثار اور قربانی سے متعلق ایک عجیب افسانہ ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
عید گاہ۔۔۔ از پریم چند

رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید آئی۔ کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے۔ بچے کی طرح پر تبسم درختوں پر کچھ عجیب ہریاول ہے۔ کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے۔ آسمان پر کچھ عجیب فضا ہے۔ آج کا آفتاب دیکھ کتنا پیارا ہے گویا دُنیا کو عید کی خوشی پر مبارکباد دے رہا ہے۔ گاؤں میں کتنی چہل پہل ہے۔ عید گاہ جانے کی دھوم ہے۔ کسی کے کرتے میں بٹن نہیں ہیں تو سوئی تاگا لینے دوڑے جا رہا ہے۔ کسی کے جوتے سخت ہو گئے ہیں۔ اسے تیل اور پانی سے نرم کر رہا ہے۔ جلدی جلدی بیلوں کو سانی پانی دے دیں۔ عید گاہ سے لوٹتے لوٹتے دوپہر ہو جائے گی۔ تین کوس کا پیدل راستہ پھر سینکڑوں رشتے قرابت والوں سے ملنا ملانا۔ دوپہر سے پہلے لوٹنا غیر ممکن ہے۔ لڑکے سب سے زیادہ خوش ہیں۔ کسی نے ایک روزہ رکھا، وہ بھی دوپہر تک۔ کسی نے وہ بھی نہیں لیکن عید گاہ جانے کی خوشی ان کا حصہ ہے۔ روزے بڑے بوڑھوں کے لئے ہوں گے، بچوں کے لئے تو عید ہے۔ روز عید کا نام رٹتے تھے آج وہ آ گئی۔ اب جلدی پڑی ہوئی ہے کہ عید گاہ کیوں نہیں چلتے۔ انہیں گھر کی فکروں سے کیا واسطہ؟ سویّوں کے لئے گھر میں دودھ اور شکر میوے ہیں یا نہیں، اس کی انہیں کیا فکر؟ وہ کیا جانیں ابا کیوں بدحواس گاؤں کے مہاجن چودھری قاسم علی کے گھر دوڑے جا رہے ہیں، ان کی اپنی جیبوں میں تو قارون کا خزانہ رکھا ہوا ہے۔ بار بار جیب سے خزانہ نکال کر گنتے ہیں۔ دوستوں کو دکھاتے ہیں اور خوش ہو کر رکھ لیتے ہیں۔ ان ہی دو چار پیسوں میں دُنیا کی سات نعمتیں لائیں گے۔ کھلونے اور مٹھائیاں اور بگل اور خدا جانے کیا کیا۔ سب سے زیادہ خوش ہے حامد۔ وہ چار سال کا غریب خوب صورت بچہ ہے، جس کا باپ پچھلے سال ہیضہ کی نذر ہو گیا تھا اور ماں نہ جانے کیوں زرد ہوتی ہوتی ایک دن مر گئی۔ کسی کو پتہ نہ چلا کہ بیماری کیا ہے؟ کہتی کس سے؟ کون سننے والا تھا؟ دل پر جو گزرتی تھی سہتی تھی اور جب نہ سہا گیا تو دُنیا سے رُخصت ہو گئی۔ اب حامد اپنی بوڑھی دادی امینہ کی گود میں سوتا ہے اور اتنا ہی خوش ہے۔ اس کے ابا جان بڑی دُور روپے کمانے گئے تھے اور بہت سی تھیلیاں لے کر آئیں گے۔ امی جان اللہ میاں کے گھر مٹھائی لینے گئی ہیں۔ اس لئے خاموش ہے۔ حامد کے پاؤں میں جوتے نہیں ہیں۔ سر پر ایک پرانی دھرانی ٹوپی ہے جس کا گوٹہ سیاہ ہو گیا ہے پھر بھی وہ خوش ہے۔ جب اس کے ابّا جان تھیلیاں اور اماں جان نعمتیں لے کر آئیں گے تب وہ دل کے ارمان نکالے گا۔ تب دیکھے گا کہ محمود اور محسن آذر اور سمیع کہاں سے اتنے پیسے لاتے ہیں۔ دُنیا میں مصیبتوں کی ساری فوج لے کر آئے، اس کی ایک نگاہِ معصوم اسے پامال کرنے کے لئے کافی ہے۔

حامد اندر جا کر امینہ سے کہتا ہے، ’’تم ڈرنا نہیں امّاں! میں گاؤں والوں کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ بالکل نہ ڈرنا لیکن امینہ کا دل نہیں مانتا۔ گاؤں کے بچے اپنے اپنے باپ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ حامد کیا اکیلا ہی جائے گا۔ اس بھیڑ بھاڑ میں کہیں کھو جائے تو کیا ہو؟ نہیں .... امینہ اسے تنہا نہ جانے دے گی۔ ننھی سی جان۔ تین کوس چلے گا تو پاؤں میں چھالے نہ پڑ جائیں گے؟

مگر وہ چلی جائے تو یہاں سوّیاں کون پکائے گا، بھوکا پیاسا دوپہر کو لوٹے گا، کیا اس وقت سوّیاں پکانے بیٹھے گی۔ رونا تو یہ ہے کہ امینہ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس نے فہمین کے کپڑے سیے تھے۔ آٹھ آنے پیسے ملے تھے۔ اس اٹھنی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی آئی تھی اس عید کے لئے لیکن گھر میں پیسے اور نہ تھے اور گوالن کے پیسے اور چڑھ گئے تھے، دینے پڑے۔ حامد کے لئے روز دو پیسے کا دودھ تو لینا پڑتا ہے اب کُل دو آنے پیسے بچ رہے ہیں۔
سمیع: سنا ہے چودھری صاحب کے قبضہ میں بہت سے جنات ہیں۔ کوئی چیز چوری چلی جائے، چودھری صاحب اس کا پتہ بتا دیں گے اور چور کا نام تک بتا دیں گے۔ جمعراتی کا بچھڑا اس دن کھو گیا تھا۔ تین دن حیران ہوئے، کہیں نہ ملا، تب جھک مار کر چودھری کے پاس گئے۔ چودھری نے کہا، مویشی خانہ میں ہے اور وہیں ملا۔ جنات آ کر انہیں سب خبریں دے جایا کرتے ہیں۔

اب ہر ایک کی سمجھ میں آ گیا کہ چودھری قاسم علی کے پاس کیوں اس قدر دولت ہے اور کیوں وہ قرب و جوار کے مواضعات کے مہاجن ہیں۔ جنات آ کر انہیں روپے دے جاتے ہیں۔ آگے چلئے یہ پولیس لائن ہے۔ یہاں پولیس والے قواعد کرتے ہیں۔ رائٹ لپ، پھام پھو۔
نوری نے تصحیح کی، ’’یہاں پولیس والے پہرہ دیتے ہیں۔ جب ہی تو انہیں بہت خبر ہے۔ اجی حضرت یہ لوگ چوریاں کراتے ہیں۔ شہر کے جتنے چور ڈاکو ہیں سب ان سے ملے رہتے ہیں۔ رات کو سب ایک محلّہ میں چوروں سے کہتے ہیں اور دوسرے محلّہ میں پکارتے ہیں جاگتے رہو۔ میرے ماموں صاحب ایک تھانہ میں سپاہی ہیں۔ بیس روپے مہینہ پاتے ہیں لیکن تھیلیاں بھر بھر گھر بھیجتے ہیں۔ میں نے ایک بار پوچھا تھا، ماموں اتنے روپے آپ چاہیں تو ایک دن میں لاکھوں بار لائیں۔ ہم تو اتنا ہی لیتے ہیں جس میں اپنی بدنامی نہ ہو اور نوکری بنی رہے۔
حامد نے تعجب سے پوچھا، ’’یہ لوگ چوری کراتے ہیں تو انہیں کوئی پکڑتا نہیں؟ ‘‘ نوری نے اس کی کوتاہ فہمی پر رحم کھا کر کہا، ’’ارے احمق! انہیں کون پکڑے گا، پکڑنے والے تو یہ خود ہیں لیکن اللہ انہیں سزا بھی خوب دیتا ہے۔ تھوڑے دن ہوئے ماموں کے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا مال متاع جل گیا۔ ایک برتن تک نہ بچا۔ کئی دن تک درخت کے سائے کے نیچے سوئے، اللہ قسم پھر نہ جانے کہاں سے قرض لائے تو برتن بھانڈے آئے۔‘‘

بستی گھنی ہونے لگی۔ عید گاہ جانے والوں کے مجمعے نظر آنے لگے۔ ایک سے ایک زرق برق پوشاک پہنے ہوئے۔ کوئی تانگے پر سوار کوئی موٹر پر چلتے تھے تو کپڑوں سے عطر کی خوشبو اُڑتی تھی۔
دہقانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سر و سامانی سے بے حس اپنی خستہ حالی میں مگر صابر و شا کر چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔
وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہو گئی ہے۔ املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے۔ جس پر جاجم بچھا ہوا ہے اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسرے خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔ کئی قطاریں کھڑی ہیں جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رُتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پُر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کئے ہوئے ہے۔
نماز ختم ہو گئی ہے لوگ باہم گلے مل رہے ہیں۔ کچھ لوگ محتاجوں اور سائلوں کو خیرات کر رہے ہیں۔ جو آج یہاں ہزاروں جمع ہو گئے ہیں۔ ہمارے دہقانوں نے مٹھائی اور کھلونوں کی دُکانوں پر یورش کی۔ بوڑھے بھی ان دلچسپیوں میں بچوں سے کم نہیں ہیں۔
یہ دیکھو ہنڈولا ہے ایک پیسہ دے کر آسمان پر جاتے معلوم ہوں گے۔ کبھی زمین پر گرتے ہیں یہ چرخی ہے لکڑی کے گھوڑے، اُونٹ، ہاتھی منجوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک پیسہ دے کر بیٹھ جاؤ اور پچیس چکروں کا مزہ لو۔ محمود اور محسن دونوں ہنڈولے پر بیٹھے ہیں۔ آذر اور سمیع گھوڑوں پر۔‘‘
ان کے بزرگ اتنے ہی طفلانہ اشتیاق سے چرخی پر بیٹھے ہیں۔ حامد دور کھڑا ہے تین ہی پیسے تو اس کے پاس ہیں۔ ذرا سا چکر کھانے کے لئے وہ اپنے خزانہ کا ثلث نہیں صَرف کر سکتا۔ محسن کا باپ بار بار اسے چرخی پر بلاتا ہے لیکن وہ راضی نہیں ہوتا۔ بوڑھے کہتے ہیں اس لڑکے میں ابھی سے اپنا پرایا آ گایا ہے۔ حامد سوچتا ہے، کیوں کسی کا احسان لوں؟ عسرت نے اسے ضرورت سے زیادہ ذکی الحس بنا دیا ہے۔ سب لو گ چرخی سے اُترتے ہیں۔ کھلونوں کی خرید شروع ہوتی ہے۔ سپاہی اور گجریا اور راجہ رانی اور وکیل اور دھوبی اور بہشتی بے امتیاز ران سے ران ملائے بیٹھے ہیں۔ دھوبی راجہ رانی کی بغل میں ہے اور بہشتی وکیل صاحب کی بغل میں۔ واہ کتنے خوبصورت.... بولا ہی چاہتے ہیں۔ محمود سپاہی پر لٹو ہو جاتا ہے خاکی وردی اور پگڑی لال، کندھے پر بندوق، معلوم ہوتا ہے ابھی قواعد کے لئے چلا آ رہا ہے۔ محسن کو بہشتی پسند آیا۔ کمر جھکی ہوئی ہے اس پر مشک کا دہانہ ایک ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہے۔ دوسرے ہاتھ میں رسی ہے، کتنا بشاش چہرہ ہے، شاید کوئی گیت گا رہا ہے۔ مشک سے پانی ٹپکتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ نوری کو وکیل سے مناسبت ہے۔ کتنی عالمانہ صورت ہے، سیاہ چغہ نیچے سفید اچکن، اچکن کے سینہ کی جیب میں سنہری زنجیر، ایک ہاتھ میں قانون کی کتاب لئے ہوئے ہے۔ معلوم ہوتا ہے، ابھی کسی عدالت سے جرح یا بحث کر کے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سب دو دو پیسے کے کھلونے ہیں۔ حامد کے پاس کل تین پیسے ہیں۔ اگر دو کا ایک کھلونا لے لے تو پھر اور کیا لے گا؟ نہیں .... کھلونے فضول ہیں۔ کہیں ہاتھ سے گر پڑے تو چور چور ہو جائے۔ ذرا سا پانی پڑ جائے تو سارا رنگ دُھل جائے۔ ان کھلونوں کو لے کر وہ کیا کرے گا، کس مصرف کے ہیں؟
محسن کہتا ہے، ’’میرا بہشتی روز پانی دے جائے گا صبح شام۔‘‘
نوری بولی، ’’اور میرا وکیل روز مقدمے لڑے گا اور روز روپے لائے گا‘‘
حامد کھلونوں کی مذمت کرتا ہے۔ مٹی کے ہی تو ہیں، گریں تو چکنا چور ہو جائیں، لیکن ہر چیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ذرا دیر کے لئے انہیں ہاتھ میں لے سکتا۔ یہ بساطی کی دکان ہے، طرح طرح کی ضروری چیزیں، ایک چادر بچھی ہوئی ہے۔ گیند، سیٹیاں، بگل، بھنورے، ربڑ کے کھلونے اور ہزاروں چیزیں۔ محسن ایک سیٹی لیتا ہے محمود گیند، نوری ربڑ کا بت جو چوں چوں کرتا ہے اور سمیع ایک خنجری۔ اسے وہ بجا بجا کر گائے گا۔ حامد کھڑا ہر ایک کو حسرت سے دیکھ رہا ہے۔ جب اس کا رفیق کوئی چیز خرید لیتا ہے تو وہ بڑے اشتیاق سے ایک بار اسے ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگتا ہے، لیکن لڑکے اتنے دوست نواز نہیں ہوتے۔ خاص کر جب کہ ابھی دلچسپی تازہ ہے۔ بے چارہ یوں ہی مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔

کھلونوں کے بعد مٹھائیوں کا نمبر آیا، کسی نے ریوڑیاں لی ہیں، کسی نے گلاب جامن، کسی نے سوہن حلوہ۔ مزے سے کھا رہے ہیں۔ حامد ان کی برادری سے خارج ہے۔ کمبخت کی جیب میں تین پیسے تو ہیں، کیوں نہیں کچھ لے کر کھاتا۔ حریص نگاہوں سے سب کی طرف دیکھتا ہے۔
محسن نے کہا، ’’حامد یہ ریوڑی لے جا کتنی خوشبودار ہیں۔‘‘
حامد سمجھ گیا یہ محض شرارت کہے۔ محسن اتنا فیاض طبع نہ تھا۔ پھر بھی وہ اس کے پاس گیا۔ محسن نے دونے سے دو تین ریوڑیاں نکالیں۔ حامد کی طرف بڑھائیں۔ حامد نے ہاتھ پھیلایا۔ محسن نے ہاتھ کھینچ لیا اور ریوڑیاں اپنے منھ میں رکھ لیں۔ محمود اور نوری اور سمیع خوب تالیاں بجا بجا کر ہنسنے لگے۔ حامد کھسیانہ ہو گیا۔ محسن نے کہا۔
’’اچھا اب ضرور دیں گے۔ یہ لے جاؤ۔ اللہ قسم۔‘‘
حامد نے کہا، ’’رکھیے رکھیے.... کیا میرے پاس پیسے نہیں ہیں؟‘‘
سمیع بولا، ’’تین ہی پیسے تو ہیں، کیا کیا لو گے؟‘‘
محمود بولا، ’’تم اس سے مت بولو، حامد میرے پاس آؤ۔ یہ گلاب جامن لے لو‘‘
حامد: ’’مٹھائی کون سی بڑی نعمت ہے۔ کتاب میں اس کی برائیاں لکھی ہیں۔‘‘
محسن: لیکن جی میں کہہ رہے ہو گے کہ کچھ مل جائے تو کھا لیں۔ اپنے پیسے کیوں نہیں نکالتے؟‘‘
محمود: اس کی ہوشیاری میں سمجھتا ہوں۔ جب ہمارے سارے پیسے خرچ ہو جائیں گے، تب یہ مٹھائی لے گا اور ہمیں چڑا چڑا کر کھائے گا۔

حلوائیوں کی دُکانوں کے آگے کچھ دُکانیں لوہے کی چیزوں کی تھیں کچھ گلٹ اور ملمع کے زیورات کی۔ لڑکوں کے لئے یہاں دلچسپی کا کوئی سامان نہ تھا۔ حامد لوہے کی دُکان پر ایک لمحہ کے لئے رک گیا۔ دست پناہ رکھے ہوئے تھے۔ وہ دست پناہ خرید لے گا۔ ماں کے پاس دست پناہ نہیں ہے۔ توے سے روٹیاں اتارتی ہیں تو ہاتھ جل جاتا ہے۔ اگر وہ دست پناہ لے جا کر اماں کو دے دے تو وہ کتنی خوش ہوں گی۔ پھر ان کی انگلیاں کبھی نہیں جلیں گی، گھر میں ایک کام کی چیز ہو جائے گی۔ کھلونوں سے کیا فائدہ۔ مُفت میں پیسے خراب ہوتے ہیں۔ ذرا دیر ہی تو خوشی ہوتی ہے پھر تو انہیں کوئی آنکھ اُٹھا کر کبھی نہیں دیکھتا۔ یا تو گھر پہنچتے پہنچتے ٹوٹ پھوٹ کر برباد ہو جائیں گے یا چھوٹے بچے جو عید گاہ نہیں جا سکتے ہیں ضد کر کے لے لیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ دست پناہ کتنے فائدہ کی چیز ہے۔ روٹیاں توے سے اُتار لو، چولھے سے آگ نکال کر دے دو۔ اماں کو فرصت کہاں ہے بازار آئیں اور اتنے پیسے کہاں ملتے ہیں۔ روز ہاتھ جلا لیتی ہیں۔ اس کے ساتھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ سبیل پر سب کے سب پانی پی رہے ہیں۔ کتنے لالچی ہیں۔ سب نے اتنی مٹھائیاں لیں کسی نے مجھے ایک بھی نہ دی۔ اس پر کہتے ہیں میرے ساتھ کھیلو۔ میری تختی دھو لاؤ۔ اب اگر یہاں محسن نے کوئی کام کرنے کو کہا تو خبر لوں گا، کھائیں مٹھائی.... آپ ہی منہ سڑے گا، پھوڑے پھنسیاں نکلیں گی۔ آپ ہی زبان چٹوری ہو جائے گی، تب پیسے چرائیں گے اور مار کھائیں گے۔ میری زبان کیوں خراب ہو گی۔ اس نے پھر سوچا، اماں دست پناہ دیکھتے ہی دوڑ کر میرے ہاتھ سے لے لیں گی اور کہیں گی۔ میرا بیٹا اپنی ماں کے لئے دست پناہ لایا ہے، ہزاروں دُعائیں دیں گی۔ پھر اسے پڑوسیوں کو دکھائیں گی۔ سارے گاؤں میں واہ واہ مچ جائے گی۔ ان لوگوں کے کھلونوں پر کون انہیں دُعائیں دے گا۔ بزرگوں کی دُعائیں سیدھی خدا کی درگاہ میں پہنچتی ہیں اور فوراً قبول ہوتی ہیں۔ میرے پاس بہت سے پیسے نہیں ہیں۔ جب ہی تو محسن اور محمود یوں مزاج دکھاتے ہیں۔ میں بھی ان کو مزاج دکھاؤں گا۔ وہ کھلونے کھیلیں، مٹھائیاں کھائیں میں غریب سہی۔ کسی سے کچھ مانگنے تو نہیں جاتا۔ آخر ابا کبھی نہ کبھی آئیں گے ہی پھر ان لوگوں سے پوچھوں گا کتنے کھلونے لو گے؟ ایک ایک کو ایک ٹوکری دوں اور دکھا دوں کہ دوستوں کے ساتھ اس طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ جتنے غریب لڑکے ہیں سب کو اچھے اچھے کرتے دلوا دوں گا اور کتابیں دے دوں گا، یہ نہیں کہ ایک پیسہ کی ریوڑیاں لیں تو چڑا چڑا کر کھانے لگیں۔

دست پناہ دیکھ کر سب کے سب ہنسیں گے۔ احمق تو ہیں ہی سب۔ اس نے ڈرتے ڈرتے دُکاندار سے پوچھا، ’’یہ دست پناہ بیچو گے؟‘‘
دکاندار نے اس کی طرف دیکھا اور ساتھ کوئی آدمی نہ دیکھ کر کہا، وہ تمہارے کام کا نہیں ہے۔
’’بکاؤ ہے یا نہیں؟‘‘
’’بکاؤ ہے جی اور یہاں کیوں لاد کر لائے ہیں‘‘
’’تو بتلاتے کیوں نہیں؟ کے پیسے کا دو گے؟‘‘
’’چھ پیسے لگے لگا‘‘
حامد کا دل بیٹھ گیا۔ کلیجہ مضبوط کر کے بولا، تین پیسے لو گے؟ اور آگے بڑھا کہ دُکاندار کی گھرکیاں نہ سنے، مگر دُکاندار نے گھرکیاں نہ دیں۔ دست پناہ اس کی طرف بڑھا دیا اور پیسے لے لئے۔
حامد نے دست پناہ کندھے پر رکھ لیا، گویا بندوق ہے اور شان سے اکڑتا ہوا اپنے رفیقوں کے پاس آیا۔
محسن نے ہنستے ہوئے کہا، ’’یہ دست پناہ لایا ہے۔ احمق اسے کیا کرو گے؟‘‘
حامد نے دست پناہ کو زمین پر پٹک کر کہا، ’’ذرا اپنا بہشتی زمین پر گرا دو، ساری پسلیاں چور چور ہو جائیں گی بچو کی‘‘
محمود: ’’تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے؟‘‘
حامد: ’’کھلونا کیوں نہیں ہے؟ ابھی کندھے پر رکھا، بندوق ہو گیا‘‘ ہاتھ میں لے لیا فقیر کا چمٹا ہو گیا، چاہوں تو اس سے تمہاری ناک پکڑ لوں۔ ایک چمٹا دوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے۔ تمہارے کھلونے کتنا ہی زور لگائیں، اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ میرا بہادر شیر ہے یہ دست پناہ۔‘‘
سمیع متاثر ہو کر بدلا، ’’میری خنجری سے بدلو گے؟ دو آنے کی ہے‘‘
حامد نے خنجری کی طرف حقارت سے دیکھ کر کہا، ’’میرا دست پناہ چاہے تو تمہاری خنجری کا پیٹ پھاڑ ڈالے۔ بس ایک چمڑے کی جھلی لگا دی، ڈھب ڈھب بولنے لگی۔ ذرا سا پانی لگے تو ختم ہو جائے۔ میرا بہادر دست پناہ تو آگ میں، پانی میں، آندھی میں، طوفان میں برابر ڈٹا رہے گا۔ میلہ بہت دور پیچھے چھوٹ چکا تھا۔ دس بج رہے تھے۔ گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ اب دست پناہ نہیں مل سکتا تھا۔ اب کسی کے پاس پیسے بھی تو نہیں رہے، حامد ہے بڑا ہوشیار۔ اب دو فریق ہو گئے، محمود، محسن اور نوری ایک طرف، حامد یکہ و تنہا دوسری طرف۔ سمیع غیر جانبدار ہے جس کی فتح دیکھے گا اس کی طرف ہو جائے گا۔ مناظرہ شروع ہو گیا۔ آج حامد کی زبان بڑی صفائی سے چل رہی ہے۔ اتحادِ ثلاثہ اس کے جارحانہ عمل سے پریشان ہو رہا ہے۔ ثلاثہ کے پاس تعداد کی طاقت ہے، حامد کے پاس حق اور اخلاق، ایک طرف مٹی ربڑ اور لکڑی کی چیزیں دوسری جانب اکیلا لوہا جو اس وقت اپنے آپ کو فولاد کہہ رہا ہے۔ وہ روئیں تن ہے صف شکن ہے اگر کہیں شیر کی آواز کان میں آ جائے تو میاں بہشتی کے اوسان خطا ہو جائیں۔ میاں سپاہی مٹکی بندوق چھوڑ کر بھاگیں۔ وکیل صاحب کا سارا قانون پیٹ میں سما جائے۔ چغے میں، منہ میں چھپا کر لیٹ جائیں۔ مگر بہادر یہ رُستمِ ہند لپک کر شیر کی گردن پر سوار ہو جائے گا اور اس کی آنکھیں نکال لے گا۔
محسن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کہا، ’’اچھا تمہارا دست پناہ پانی تو نہیں بھر سکتا۔ حامد نے دست پناہ کو سیدھا کر کے کہا کہ یہ بہشتی کو ایک ڈانٹ پلائے گا تو دوڑا ہوا پانی لا کر اس کے دروازے پر چھڑکنے لگے گا۔ جناب اس سے چاہے گھڑے مٹکے اور کونڈے بھر لو۔
محسن کا ناطقہ بند ہو گیا۔ نوری نے کمک پہنچائی، ’’بچہ گرفتار ہو جائیں تو عدالت میں بندھے بندھے پھریں گے۔ تب تو ہمارے وکیل صاحب ہی پیروی کریں گے۔ بولئے جناب‘‘
حامد کے پاس اس وار کا دفیعہ اتنا آسان نہ تھا، دفعتاً اس نے ذرا مہلت پا جانے کے ارادے سے پوچھا، ’’اسے پکڑنے کون آئے گا؟‘‘
محمود نے کہا، ’’یہ سپاہی بندوق والا‘‘
حامد نے منھ چڑا کر کہا یہ بے چارے اس رستم ہند کو پکڑ لیں گے؟ اچھا لاؤ ابھی ذرا مقابلہ ہو جائے۔ اس کی صورت دیکھتے ہی بچہ کی ماں مر جائے گی، پکڑیں گے کیا بے چارے‘‘
محسن نے تازہ دم ہو کر وار کیا، ’’تمہارے دست پناہ کا منھ روز آگ میں جلا کر ے گا۔‘‘ حامد کے پاس جواب تیار تھا، ’’آگ میں بہادر کودتے ہیں جناب۔ تمہارے یہ وکیل اور سپاہی اور بہشتی ڈرپوک ہیں۔ سب گھر میں گھس جائیں گے۔ آگ میں کودنا وہ کام ہے جو رُستم ہی کر سکتا ہے۔‘‘
نوری نے انتہائی جدت سے کام لیا، ’’تمہارا دست پناہ باورچی خانہ میں زمین پر پڑا رہے گا۔ میرا وکیل شان سے میز کرسی لگا کر بیٹھے گا۔ اس جملہ نے مُردوں میں بھی جان ڈال دی، سمیع بھی جیت گیا۔’’ بے شک بڑے معرکے کی بات کہی، دست پناہ باورچی خانہ میں پڑا رہے گا‘‘
حامد نے دھاندلی کی، میرا دست پناہ باورچی خانہ میں رہے گا، وکیل صاحب کرسی پر بیٹھیں گے تو جا کر انہیں زمین پر پٹک دے گا اور سارا قانون ان کے پیٹ میں ڈال دے گا۔
اس جواب میں بالکل جان نہ تھی، بالکل بے تکی سی بات تھی لیکن قانون پیٹ میں ڈالنے والی بات چھا گئی۔ تینوں سورما منھ تکتے رہ گئے۔ حامد نے میدان جیت لیا، گو ثلاثہ کے پاس ابھی گیند سیٹی اور بت ریزرو تھے مگر ان مشین گنوں کے سامنے ان بزدلوں کو کون پوچھتا ہے۔ دست پناہ رستمِ ہند ہے۔ اس میں کسی کو چوں چرا کی گنجائش نہیں۔‘‘

فاتح کو مفتوحوں سے خوشامد کا مزاج ملتا ہے۔ وہ حامد کو ملنے لگا اور سب نے تین تین آنے خرچ کئے اور کوئی کام کی چیز نہ لا سکے۔ حامد نے تین ہی پیسوں میں رنگ جما لیا۔ کھلونوں کا کیا اعتبار۔ دو ایک دن میں ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ حامد کا دست پناہ تو فاتح رہے گا۔ ہمیشہ صلح کی شرطیں طے ہونے لگیں۔
محسن نے کہا، ’’ذرا اپنا چمٹا دو۔ ہم بھی تو دیکھیں۔ تم چاہو تو ہمارا وکیل دیکھ لو حامد! ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ فیاض طبع فاتح ہے۔ دست پناہ باری باری سے محمود، محسن، نور اور سمیع سب کے ہاتھوں میں گیا اور ان کے کھلونے باری باری حامد کے ہاتھ میں آئے۔ کتنے خوبصورت کھلونے ہیں، معلوم ہوتا ہے بولا ہی چاہتے ہیں۔ مگر ان کھلونوں کے لئے انہیں دُعا کون دے گا؟ کون کون ان کھلونوں کو دیکھ کر اتنا خوش ہو گا جتنا اماں جان دست پناہ کو دیکھ کر ہوں گی۔ اسے اپنے طرزِ عمل پر مطلق پچھتاوا نہیں ہے۔ پھر اب دست پناہ تو ہے اور سب کا بادشاہ۔ راستے میں محمود نے ایک پیسے کی ککڑیاں لیں۔ اس میں حامد کو بھی خراج ملا حالانکہ وہ انکار کرتا رہا۔ محسن اور سمیع نے ایک ایک پیسے کے فالسے لئے، حامد کو خراج ملا۔ یہ سب رستم ہند کی برکت تھی۔

گیارہ بجے سارے گاؤں میں چہل پہل ہو گئی۔ میلے والے آ گئے۔ محسن کی چھوٹی بہن نے دوڑ کر بہشتی اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور مارے خوشی جو اچھلی تو میاں بہشتی نیچے آ رہے اور عالمِ جاودانی کو سدھارے۔ اس پر بھائی بہن میں مار پیٹ ہوئی۔ دونوں خوب روئے۔ ان کی اماں جان یہ کہرام سن کر اور بگڑیں۔ دونوں کو اوپر سے دو دو چانٹے رسید کئے۔ میاں نوری کے وکیل صاحب کا حشر اس سے بھی بدتر ہوا۔ وکیل زمین پر یا طاق پرتو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی پوزیشن کا لحاظ تو کرنا ہی ہو گا۔ دیوار میں دو کھونٹیاں گاڑی گئیں۔ ان پر چیڑ کا ایک پرانا پڑا رکھا گیا۔ پڑے پر سرخ رنگ کا ایک چیتھڑا بچھا دیا گیا جو منزلۂ قالین کا تھا۔ وکیل صاحب عالم بالا پہ جلوہ افروز ہوئے۔ یہیں سے قانونی بحث کریں گے۔ نوری ایک پنکھا لے کر جھلنے لگی۔ معلوم نہیں پنکھے کی ہوا سے یا پنکھے کی چوٹ سے وکیل صاحب عالم بالا سے دُنیائے فانی میں آ رہے۔ اور ان کی مجسمۂ خاکی کے پرزے ہوئے۔ پھر بڑے زور کا ماتم ہوا اور وکیل صاحب کی میت پارسی دستور کے مطابق کوڑے پر پھینک دی گئی تاکہ بے کار نہ جا کر زاغ و زغن کے کام آ جائے۔
اب رہے میاں محمود کے سپاہی۔ وہ محترم اور ذی رُعب ہستی ہے اپنے پیروں چلنے کی ذلت اسے گوارا نہیں۔ محمود نے اپنی بکری کا بچہ پکڑا اور اس پر سپاہی کو سوار کیا۔ محمود کی بہن ایک ہاتھ سے سپاہی کو پکڑے ہوئے تھی اور محمود بکری کے بچہ کا کان پکڑ کر اسے دروازے پر چلا رہا تھا اور اس کے دونوں بھائی سپاہی کی طرف سے ’’تھونے والے داگتے لہو‘‘ پکارتے چلتے تھے۔ معلوم نہیں کیا ہوا، میاں سپاہی اپنے گھوڑے کی پیٹھ سے گر پڑے اور اپنی بندوق لئے زمین پر آ رہے۔ ایک ٹانگ مضروب ہو گئی۔ مگر کوئی مضائقہ نہیں، محمود ہوشیار ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹر نگم اور بھاٹیہ اس کی شاگردی کر سکتے ہیں اور یہ ٹوٹی ٹانگ آناً فاناً میں جوڑ د ے گا۔ صرف گولر کا دودھ چاہئے۔ گولر کا دودھ آتا ہے۔ ٹانگ جوڑی جاتی ہے لیکن جوں ہی کھڑا ہوتا ہے، ٹانگ پھر الگ ہو جاتی ہے۔ عملِ جراحی ناکام ہو جاتا ہے۔ تب محمود اس کی دوسری ٹانگ بھی توڑ دیتا ہے۔ اب وہ آرام سے ایک جگہ بیٹھ سکتا ہے۔ ایک ٹانگ سے تو نہ چل سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا۔ اب وہ گوشہ میں بیٹھ کر ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلے گا۔

اب میاں حامد کا قصہ سنئے۔ امینہ اس کی آواز سنتے ہی دوڑی اور اسے گود میں اُٹھا کر پیار کرنے لگی۔ دفعتاً اس کے ہاتھ میں چمٹا دیکھ کر چونک پڑی۔
’’یہ دست پناہ کہاں تھا بیٹا؟‘‘
’’میں نے مول لیا ہے، تین پیسے میں۔‘‘
امینہ نے چھاتی پیٹ لی۔ ’’یہ کیسا بے سمجھ لڑکا ہے کہ دوپہر ہو گئی۔ نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ لایا کیا یہ دست پناہ۔ سارے میلے میں تجھے اور کوئی چیز نہ ملی۔‘‘
حامد نے خطاوارانہ انداز سے کہا، ’’تمہاری انگلیاں توے سے جل جاتی تھیں کہ نہیں؟‘‘
امینہ کا غصہ فوراً شفقت میں تبدیل ہو گیا۔ اور شفقت بھی وہ نہیں جو منہ پر بیان ہوتی ہے اور اپنی ساری تاثیر لفظوں میں منتشر کر دیتی ہے۔ یہ بے زبان شفقت تھی۔ دردِ التجا میں ڈوبی ہوئی۔ اُف کتنی نفس کشی ہے۔ کتنی جانسوزی ہے۔ غریب نے اپنے طفلانہ اشتیاق کو روکنے کے لئے کتنا ضبط کیا۔ جب دوسرے لڑکے کھلونے لے رہے ہوں گے، مٹھائیاں کھا رہے ہوں گے، اس کا دل کتنا لہراتا ہو گا۔ اتنا ضبط اس سے ہوا۔ کیونکہ اپنی بوڑھی ماں کی یاد اسے وہاں بھی رہی۔ میرا لال میری کتنی فکر رکھتا ہے۔ اس کے دل میں ایک ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ اس کے ہاتھ میں دُنیا کی بادشاہت آ جائے اور وہ اسے حامد کے اوپر نثار کر دے۔

اور تب بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ بڑھیا امینہ ننھی سی امینہ بن گئی۔ وہ رونے لگی۔ دامن پھیلا کر حامد کو دُعائیں دیتی جاتی تھی اور آنکھوں سے آنسو کی بڑی بڑی بوندیں گراتی جاتی تھی۔ حامد اس کا راز کیا سمجھتا اور نہ شاید ہمارے بعض ناظرین ہی سمجھ سکیں گے۔۔