Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
آپ انصاری صاحب کی پوسٹ نمبر بتیس سے اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف کرتے ہیں ؟
جی میں اس حدیثؐ سے ضرور اتفاق کرتا ہوں کہ علم کسی کی میراث نہیں۔ نہ کسی مسلمان کی نہ کسی غیر مسلم کی۔
آپ کے مذہب کی بنیاد آدھے سچ اور سفید جھوٹ پر رکھی گئی ہے. اسلئے گلہ بنتا نہیں لیکن توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہیں
لیکن اس بات سے شدید ترین اختلاف رکھتا ہوں۔ میں بہت بڑی بڑی ہستیوں اور اہل بیت کی مثالیں تو نہیں دونگا، صرف ایک چھوٹی سی مثال علاّمہ محمد اقبال کی ضرور دونگا کہ اگر ایسی ہی سوچ انھوں نے رکھی ہوتی تو قائد اعظم محمد علی جناح کو کبھی مسلم لیگ میں شامل نہ کرتے۔
علامہ اقبال اور محمد علی جناح نامی دو بغیر داڑھی والے مسلمانوں نے اسلام کی روئے زمین پر وہ خدمت کی ہے کہ پچھلے سو سالوں میں تمام مولویوں نے مل کر نہیں کی۔ آج اسی لیئے، شیعہ ہو یا سنی، ان دونوں کے نام کے ساتھ بخوشی رحمتہ اللہ علیہ کا استعمال کرتا ہے۔
لہٰذا، میں اپنی ذاتی مسلک میں، جو ابھی میں ایجاد کر رہا ہوں، ایسے نظائر کی اہمیت اور فوقیت زیادہ ہے۔
علامہ اقبال اور محمد علی جناح نامی دو بغیر داڑھی والے مسلمانوں نے اسلام کی روئے زمین پر وہ خدمت کی ہے کہ پچھلے سو سالوں میں تمام مولویوں نے مل کر نہیں کی۔ آج اسی لیئے، شیعہ ہو یا سنی، ان دونوں کے نام کے ساتھ بخوشی رحمتہ اللہ علیہ کا استعمال کرتا ہے۔
لہٰذا، میں اپنی ذاتی مسلک میں، جو ابھی میں ایجاد کر رہا ہوں، ایسے نظائر کی اہمیت اور فوقیت زیادہ ہے۔
ایک بار صاف الفاظ میں بتا دیں
کیا اسلام سائنس سے متعلق رہنمائی کرتا ہے یا نہیں ؟
یہ سوال مجھ سے براہ راست تو نہیں پوچھا گیا، لہٰذا اگر مفت کی ٹانگ اڑانے کا سہرا میرے سر نہ باندھا جائے تو تھریڈ کے موضوع کے حساب سے کچھ اس ضمن میں گوش گزار کرنا چاہوں گا۔
ہم جب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مذہب سائنس میں رہنمائی کرتا ہے یا نہیں تو اس سوال کو خود نہیں پرکھتے کہ اسکا مقصد کیا ہے؟
کیا ہم مذہب کو سائنس کا کوئی مضمون سمجھتے ہیں؟ یا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کا بنیادی ہدف لوگوں کو سائنس کے علوم کی تعلیم دینا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ مذہب تو صرف سائنسدانوں کے لیئے ہی ہوا، اس میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے لیئے تو کچھ نہیں۔
لیکن، اگر ہم مذہب کا ہدف تمام لوگوں کی بھلائی سمجھتے ہیں، تو اس کے مضمرات اور ظواہر میں ہمیں ایسی باتیں ملنی چاہیئں جو انسان کی طرز معاشرت، فکر و اقدار کا احاطہ کرتی ہوں۔ ہاں سوچ کو مائل و مبذول کرنے کے لیئے اگر مذہب ایسے حقائق پر روشنی ڈالتا ہے جو سائنس کی مدد سے سمجھے اور پرکھے جا سکتے ہیں، تو یہ ایک ثانوی امر ہے۔ کیونکہ جو سائنس کا علم رکھتے ہیں، ان کی توجّہ حاصل کرنے کے لیئے یہ ایک احسن طریقہ ہے۔ بنیادی نکات وہی ہیں جو تمام انسانیت و انسانی معاشروں کی فلاح و بہبود کے لیئے ضروری ہیں۔
دیکھیں، سائنس پڑھ کر آپ ایٹم بم ضرور بنا سکتے ہیں، لیکن اس ایٹم بم کو کیوں بنانا ہے اور کب اور کہاں استعمال کرنا ہے، یہ سائنس کے پیرائے سے باہر ہے۔ اس کے لیئے سب سے پہلے آپ کی اقدار ضروری ہیں، جن کی بدولت آپ طرز معاشرت و فکر و استدلال میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ اس ایٹم بم کو چلانے کا اختیار کس کے پاس ہونا چاہیئے؟ یہ سوال بھی سائنس کے احاطے میں نہیں آتا۔ اس کے لیئے قوانین چاہیئے ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ قوانین بھی بدلتے حالات اور علم کی روشنی میں اپنی جزویات میں مدّو جزر کا شکار ہوسکتے ہیں، لہٰذا اصول قانون کو وضع کرنا ضروری ہے، کہ تمام زمانوں کے لیئے رائج قوانین ان سے رہنمائی حاصل کریں۔ فکر کے زاویے درست کیئے جائیں اور انسانی و معاشرتی کردار کی تصحیح کی جاسکے۔ یہ وہ امور ہیں جو سائنس کے علم سے بہت بلند مقام رکھتے ہیں۔ سائنس کا علم ان کے تابع ہے۔ اور جو علم تابع ہو وہ علم حاکم کے کچھ حصّے کی تشریح میں تو استعمال کیا جاستکتا ہے، لیکن اس کا مکمّل احاطہ نہیں کرسکتا۔
اگر اس بات کو ایسے سمجھیں کہ زمینی علوم میں ہم فلسفے کو تمام علوم کی ماں تصوّر کرتے ہیں۔ علم فلسفہ کی ایک شاخ میٹا فزکس ہے جسمیں تمام سائنسی علوم کو یکجاہ کیا گیا ہے۔ لیکن فلسفے کی دیگر شاخیں بھی ہیں، جن میں منطق، سیاسیات، جمالیات اور اخلاقیات علٰیحدہ ہیں اور اس کی تشریحات سائنسی بنیادوں پر کبھی بھی کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، کیونکہ یہ نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی اس کی کوئی تُک بنتی ہے۔
تو اگر مذہب کا ہدف انسان و معاشرے کی کردار سازی ہے، تو سائنس کا اس سے تعلق ہی کیا ہے؟ ماسوائے اسکے کہ ان مثالوں کے استعمال سے لوگوں کو مرکزی ہدف کی طرف اشارے دیئے جائیں۔
ہم جب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مذہب سائنس میں رہنمائی کرتا ہے یا نہیں تو اس سوال کو خود نہیں پرکھتے کہ اسکا مقصد کیا ہے؟
کیا ہم مذہب کو سائنس کا کوئی مضمون سمجھتے ہیں؟ یا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کا بنیادی ہدف لوگوں کو سائنس کے علوم کی تعلیم دینا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ مذہب تو صرف سائنسدانوں کے لیئے ہی ہوا، اس میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے لیئے تو کچھ نہیں۔
لیکن، اگر ہم مذہب کا ہدف تمام لوگوں کی بھلائی سمجھتے ہیں، تو اس کے مضمرات اور ظواہر میں ہمیں ایسی باتیں ملنی چاہیئں جو انسان کی طرز معاشرت، فکر و اقدار کا احاطہ کرتی ہوں۔ ہاں سوچ کو مائل و مبذول کرنے کے لیئے اگر مذہب ایسے حقائق پر روشنی ڈالتا ہے جو سائنس کی مدد سے سمجھے اور پرکھے جا سکتے ہیں، تو یہ ایک ثانوی امر ہے۔ کیونکہ جو سائنس کا علم رکھتے ہیں، ان کی توجّہ حاصل کرنے کے لیئے یہ ایک احسن طریقہ ہے۔ بنیادی نکات وہی ہیں جو تمام انسانیت و انسانی معاشروں کی فلاح و بہبود کے لیئے ضروری ہیں۔
دیکھیں، سائنس پڑھ کر آپ ایٹم بم ضرور بنا سکتے ہیں، لیکن اس ایٹم بم کو کیوں بنانا ہے اور کب اور کہاں استعمال کرنا ہے، یہ سائنس کے پیرائے سے باہر ہے۔ اس کے لیئے سب سے پہلے آپ کی اقدار ضروری ہیں، جن کی بدولت آپ طرز معاشرت و فکر و استدلال میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ اس ایٹم بم کو چلانے کا اختیار کس کے پاس ہونا چاہیئے؟ یہ سوال بھی سائنس کے احاطے میں نہیں آتا۔ اس کے لیئے قوانین چاہیئے ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ قوانین بھی بدلتے حالات اور علم کی روشنی میں اپنی جزویات میں مدّو جزر کا شکار ہوسکتے ہیں، لہٰذا اصول قانون کو وضع کرنا ضروری ہے، کہ تمام زمانوں کے لیئے رائج قوانین ان سے رہنمائی حاصل کریں۔ فکر کے زاویے درست کیئے جائیں اور انسانی و معاشرتی کردار کی تصحیح کی جاسکے۔ یہ وہ امور ہیں جو سائنس کے علم سے بہت بلند مقام رکھتے ہیں۔ سائنس کا علم ان کے تابع ہے۔ اور جو علم تابع ہو وہ علم حاکم کے کچھ حصّے کی تشریح میں تو استعمال کیا جاستکتا ہے، لیکن اس کا مکمّل احاطہ نہیں کرسکتا۔
اگر اس بات کو ایسے سمجھیں کہ زمینی علوم میں ہم فلسفے کو تمام علوم کی ماں تصوّر کرتے ہیں۔ علم فلسفہ کی ایک شاخ میٹا فزکس ہے جسمیں تمام سائنسی علوم کو یکجاہ کیا گیا ہے۔ لیکن فلسفے کی دیگر شاخیں بھی ہیں، جن میں منطق، سیاسیات، جمالیات اور اخلاقیات علٰیحدہ ہیں اور اس کی تشریحات سائنسی بنیادوں پر کبھی بھی کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، کیونکہ یہ نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی اس کی کوئی تُک بنتی ہے۔
تو اگر مذہب کا ہدف انسان و معاشرے کی کردار سازی ہے، تو سائنس کا اس سے تعلق ہی کیا ہے؟ ماسوائے اسکے کہ ان مثالوں کے استعمال سے لوگوں کو مرکزی ہدف کی طرف اشارے دیئے جائیں۔