دین میں غلو کرنے سے بچو۔ ۔

ابابیل

Senator (1k+ posts)
۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! بچو تم دین میں غلو کرنے سے کیونکہ تم سے پہلے لوگ (قومیں) دین میں اسی غلو کیوجہ سے تباہ وبرباد ہوئے ۔ -- سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 1189 حدیث مرفوع۔ مزید دیکھئے؛ سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 969 حدیث مرفوع اور اور یہی کتاب حدیث 971 اور مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 14 حدیث مرفوع اور یہی کتاب حدیث 1138

دین میں غلو کرنے سے بچو۔ ۔ ۔ ۔

قُلْ يٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِکُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا کَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ (المائدۃ:۷۷)
کہو کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین (کی بات) میں ناحق مبالغہ نہ کرو، اور ایسے لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جو (خود بھی) پہلے گمراہ ہوئے اوردیگر لوگوں کو گمراہ کر گئے اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے ۔
غلو کی صراحت کے ساتھ ممانعت تو انہی دو آیات کریمہ میں ہے لیکن اس مفہوم کی قرآن مجید میں آیات کریمہ بہت کثرت کے ساتھ ہیں جن میں دین میں غلو سے منع کردیا گیا ہے۔ مثلاً : ملاحظہ فرمائیں ، سورۃ المائدۃ : ۷۲،۷۳ ، سورۃ التوبۃ : ۳۰ ، سورۃ الکھف : ۲۸ ، اور دیگر بہت سی آیات لیکن سوال یہ ہے کہ دین میں یہ غلو ہے کیا جس سے اس قدر سختی کے ساتھ منع کر دیا گیا ہے۔

غلو کا مفہوم:

غلو کے لغوی معنی توحد اعتدال سے تجاوز، افراط وتفریط اور کسی کے مقام ومرتبہ میںکمی و بیشی کرنے کے ہیں۔ جیسا کہ ائمہ لغت نے صراحت فرمائی ہے ۔ (ملاحظہ فرمائیں : الصحاح ۶/۲۴۴۸ ، المقاییس ۴/۳۸۸ ، المفردات : ۳۷۵ ، اللسان : ۵/۳۲۹۰ ، التاج : ۲۰، ۲۲ ، المصباح ۱۷۲)
اور اس کے اصطلاحی معنی بقول علامہ مناوی رحمہ اللہ '' دین میں تعلب ، تشدد اور حد اعتدال سے تجاوز کے ہیں ۔ ( التوقیف : ۲۵۳)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ '' دین میںغلو کے معنی افراط وتفریط کے ہیں ، جیسا کہ یہودیوں نے اور عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں افراط وتفریط سے کام لیا۔ یہودیوں نے ان کی شان اس قدر گھٹا دی کہ وہ انہیں ایک شریف انسان بھی نہیں سمجھتے تھے اور عیسائیوں نے ان کی شان اس قدر بڑھا دی کہ انہیں انسان کی بجائے اللہ سمجھنا شروع کر دیا ۔
(تفسیرالقرطبی ۶/۷۷)


غلو کی انواع واقسام :

غلو کے بارے میں وارد آیات واحادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ دین میں غلو کی کئی قسمیں ہیں ۔ ان میں سے چند اقسام کی طرف اشارہ کیا جاتاہے۔
عقائد میں غلو :
عقائد میں غلو سے مراد یہ ہے کہ قرآن وسنت میں ہمیں جن عقائد کی تعلیم دی گئی ہے ان کو چھوڑ کر ہم خود ساختہ عقائد کو اختیار کرلیں۔ خود ساختہ یا انسانوں کے بنائے ہوئے عقائد پر کتنا ہی خوشنما لیبل کیوں نہ لگا دیا جائے ، دین وشریعت کے نقطہ نظر سے وہ عقائد بہر حال باطل قرار پائیں گے ۔ جیسا کہ اہل کتاب نے ازراہِ کذب وافتراء اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ کہا :
اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ (المائدۃ:۷۳)
'' اللہ تین کا تیسرا ہے۔''
یا جیسے عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ اللہ یا اللہ کے بیٹے ہیں، یا یہودیوں نے اس بات کو عقیدہ کے طور پر اختیار کر لیا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام تو ایک شریف انسان بھی نہیں ہیں ( معاذ اللہ) یا جیسے بعض نام کےمسلمانوں نے بھی بعض عظیم شخصیتوں کے بارے میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ ان کو بھی ان تمام صفات سے موصوف قرار دے دیا جو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص ہیں۔

مشکل کشا اور حاجت روا صرف اللہ کی ذات ہے ، نفع ونقصان صرف اسی کے قبضہ اختیار میں ہے۔ دعائیں اور فریادیں صرف وہی سنتا ہے اولاد دینا یا نہ دینا صرف اسی کی مرضی ومشیئت پر منحصر ہے ۔ الغرض یہ تمام صفات جو اللہ کی ذات پاک سے مخصوص ہیں انہیں غیر اللہ میںتسلیم کیاجائے تو یہ دین میں غلو کی بدترین شکل ہے، جسے شرک کے نام سے بھی موسوم کیاجاتاہے اور شرک اللہ تعالیٰ کے ہاں ناقابل معافی گناہ ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَکَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا (النساء:۴۸)
اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے اور جس نے اللہ کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا
دین میں غلو سے سختی کے ساتھ ممانعت کے باوجود افسوس کہ بہت سے مسلمانوں نے بھی دین میں غلو کو اختیار کرلیا، مولانا حالی نے ایسے ہی غالی مسلمانوں کا شکوہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔



کرے گر غیر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
کہے آگ کو اپنا قبلہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے



قرآن مجید میں غلو:
قرآن مجید میں غلو سے بڑی سختی کے ساتھ منع کیاگیا تھا مگر افسوس کہ قرآن مجید کے بہت سے ماننے والوں نے خود قرآن مجید ہی میں غلو سے کا م لیناشروع کردیا۔ قرآن مجید میں کئی طرح سے غلو سے کام لیا گیا۔مثلاً :
(۱) غلو کی ایک صورت تو یہ اختیار کی گئی کہ بعض لوگوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ اس کا ترجمہ کرنا گناہ ہے بلکہ اسے کفر قرار دیا گیا اور اس سے درحقیقت وہ اپنی ان خرافات اور بدعات پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں جسے انہوں نے دین کے نام سے ایجاد کر رکھا ہے۔ جبکہ دین میں اس کا نہ صرف یہ کہ قطعا کوئی حکم نہیں بلکہ قرآن وسنت میں ان سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔

(۲) قرآن مجید میں غلو کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنی مرضی ومشیئت کے مطابق اس کی تفسیر بیان کی جائے۔ پہلے سے تصورات ونظریات قائم کر لئے جائیں اور پھر قرآنی آیات کو توڑ مروڑ کر ان کی تائید میں پیش کیا جائے۔ قرآن مجید نے اس بیماری کا نام ''تحریف'' بھی رکھا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کی اس بیماری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
يُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ (المائدۃ:۴۱)
''(صحیح) باتوں کو ان کے مقامات (میں ثابت ہونے) کے بعد بدل دیتے ہیں۔''
افسوس بعض مسلمانوں نے اپنے ائمہ وفقہاء کی تائید کرتے ہوئے ان کے افکار ونظریات کو دین کا درجہ دے دیا، خواہ وہ قرآن وسنت کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ غلو سے کام لیتےہوئے یہاں تک کہہ دیاگیا۔
کل آیۃ أو حدیث یخالف ما علیہ أصحابنا فہو مؤول أو منسوخ ۔ ( أصول الکرخی)
''ہر وہ آیت اور ہر وہ حدیث جو ہمارے بزرگوں کے مذہب کے خلاف ہو گی ، ہم اس کی تاویل کریں گے یا اسے منسوخ قرار دے دیں گے۔''
یعنی اسے مانیں گے نہیں، یہ ذہنیت غلو پر مبنی ہے جب کہ صحیح فکر یہ ہے کہ اگر کوئی بات قرآن وحدیث سے ثابت ہوجائے یا کسی بات کی تائید آیت وحدیث سے ہوجائے تو اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :​



إنما كان قول المؤمنين إذا دعوا إلى اللـه ورسوله ليحكم بينهم أن يقولوا سمعنا وأطعنا ۚ وأولئك هم المفلحون ﴿٥١﴾ ومن يطع اللـه ورسوله ويخش اللـه ويتقه فأولئك هم الفائزون ﴿٥٢

''مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب اللہ تعالی اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔اور جو شخص اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اور اس سے ڈرے گا تو ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔''
قرآن مجید صحیفہ ہدایت ہے ، ہدایت ومعرفت الٰہی کا اصلی ذریعہ ہے اور شریعت کے احکام ومسائل کا پہلا بنیادی ماخذ ہے ۔ لہذا اسے معرفت الٰہی اور ہدایت حاصل کرنے ہی کے لئے پڑھا جائے، دین وشریعت کے احکام ومسائل اس سے سیکھے جائیں اور ان کی تشریح وتوضیح رسول اللہ ﷺ کی سنت مطہرہ سے معلوم کی جائے۔ اگر آپ نے قرآن وسنت کے بجائے آراء الرجال یعنی لوگوں کی قیل وقال کو دین وشریعت کا درجہ دینا شروع کردیا اور قرآن وسنت میں تأویل وتحریف سے کام لینا شروع کردیا یا بلا تحقیق احکام قرآن وسنت کو منسوخ قرار دے دیا تو بلاشبہ یہ شدید ضلالت وگمراہی ہے ،

ایسی گمراہی جو آپ کو دین سے بہت دور لے جائے گی کیونکہ جو شخص اپنے فساد طبیعت کے باعث علاج کو ہی بیماری بنا لے گا وہ کب اس بات کا حق دار ہے کہ اسے شفا نصیب ہو جو شخص گلہائے رنگ رنگ کی بہار دکھانے والے کسی چمن زار میں جاکر بھی پھولوں کی بجائے کانٹوں سے اپنے دامن کو بھرتا ہے تو وہ کب اس بات کا سزاوار ہے کہ پھولوں کی بوئے عطر بیز سے اس کے مشام جان معطر ہوں اور جو شخص بیت اللہ میں جاکر بھی بتوں ہی کو یاد کرے وہ کب اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے دل میں اللہ کی محبت کا چراغ جلے یا توحید کے نور سے اس کے دل میں کرن کرن اجالاہو بعینہ جو شخص دین وشریعت کے احکام ومسائل کے سلسلہ میں آراء الرجال یعنی لوگوں کے قیل وقال کو قرآن وسنت پر ترجیح دیتا ہے ، وہ کب اس بات کا سزاوار ہے کہ اسے دین کا فہم نصیب ہو۔
(۳) بہر حال قرآن مجید کے بارے میں غلو کی ایک بدترین صورت یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کے صریح احکام کو ماننے کے بجائے اور رسول اکرم ﷺ کی سنت مطہرہ سے کسبِ فیض کے بجائے ائمہ وفقہاء کرام کے اقوال کو ترجیح دی جائے، حالانکہ تمام ائمہ کرام اور فقہاء عظام نے قرآن وسنت کے دامن سے وابستگی کی بے حد تاکید فرمائی ہے۔
(۴) ہمارے ان بہت سے قراء کا قرآن مجید کی قرأت وتلاوت کا انداز بھی غلو ہی کے ضمن میں آئے گا، جو قرأت وتجوید کے اصولوں سے تجاوز کرتے ہوئے بے حد تطویل، تکلف اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور خوش الحانی کے مظاہرہ میں قواعد وضوابط کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔


اسی طرح کچھ لوگ قرآن مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بجائے پانچ سات ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر اسے اتنا اونچا رکھ دیتے ہیں کہ اس تک کسی کا ہاتھ نہ پہنچنے پائے۔ یہ اور اس طرح کی دیگر بہت سی صورتیں ہیں جو ہم نے قرآن مجید میں غلو کے باب میں اختیار کر رکھی ہیں۔

غلو کے نتائج :

علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے کہ ''ہم نے اور ہم سے پہلے لوگوں نے بھی یہ دیکھا ہے کہ جو شخص دین میں غلو سے کام لیتاہے وہ حقیقت میں دین سے محروم ہوجاتاہے۔ یہ بات ممنوع نہیں ہے کہ عبادت کے سلسلہ میں اکمل انداز کو اختیار کیاجائے کیونکہ یہ بات تو دین میں انتہائی قابل ستائش ہے۔ ممنوع یہ ہے کہ ایسا افراط اختیار کیاجائے جس کا نتیجہ یہ ہوکہ انسان اکتاجائے اور پھر اس عبادت کو بجاہی نہ لاسکے یا وہ نفل عبادت ہی میں ایسا مبالغہ کرے کہ فرض عبادت ترک ہوجائے یا فرض عبادت کا وقت ہی ختم ہوجائے۔ مثلاً ایک شخص ساری رات تہجد گزاری اور شب زندہ داری میں گزارے اور پھر رات کے آخری حصہ میں اس پر نیند کا اس قدر غلبہ ہو جائے کہ نمازِ فجر باجماعت ادا نہ کرسکے یا وہ بیدار ہی طلوع آفتاب کے بعد ہوتو نفلی عبادت میں ایسا مبالغہ شریعت میں ممنوع ہے، جس سے فرائض کے ادا کرنے میں کوتاہی ہو ۔ (الفتح ۱/۱۱۷)

دین میں کمی و بیشی ممنوع ہے :

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : '' شریعت میں جو بات مقرر کردی گئی ہے اس پر اپنی طرف سے اضافہ کرنے سے نبی اکرم ﷺ نے منع فرمادیا ہے ۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بندہ اگر از خود اپنے آپ پر سختی کا سبب بنے گا مثلا جو لوگ وضو یا غسل کے مسئلہ میں وسوسوں کا شکار رہتے ہیں اور اس سلسلہ میں بے پناہ تکلیف اٹھاتے ہیں اور وضو وغسل میں اس طرح مبالغہ سے کام لیتے ہیں کہ ان کا وضو اورغسل کبھی مکمل ہوتاہی نہیں ۔ شرعی طور پر سختی کی مثال انسان کاکسی کام کے لئے نذر ماننا ہے ، نذر مان کر انسان خود اپنے آپ ہی کو سختی میں مبتلا کرلیتا ہے کہ شرعا نذر کا پورا کرنا ضروری ہوجاتاہے ۔ ( إغاثۃ اللہفان ۱/۱۳۲)

غلو باعث ہلاکت ہے :

تشدد اور غلو کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو بے جا طور پر سختی اور مصیبت میں ڈال لیتاہے۔ اسی وجہ سے شریعت میں غلو سے منع کر دیاگیا ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے تو اسے سابقہ قوموں کی ہلاکتوں کا سبب بھی قرار دیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حج میں رمی جمار کے لئے رسول اللہ ﷺ نے مجھے کنکریاں لانے کا حکم دیا تو میں چھوٹی چھوٹی سی کنکریاں چن کر لایا اور جب میں نے انہیں آپ کے دست مبارک پر رکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا :
بِأَمْثَالِ ہَؤُلَاءِ وَإِيَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ فَإِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ( النسائی ، حدیث: ۲۸۶۳ ، سنن ابن ماجہ : ۳۰۲۹)
'' اس طرح کی کنکریاں ہونی چاہئیں توتم دین میں غلو کرنے سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو ہی نے ہلاک کردیا تھا۔''


آپ ﷺ کے فرمانے کا مقصد یہ تھا کہ رمی جمار کے لئے بس چھوٹی چھوٹی ہی کنکریاں کافی ہیں۔ تکلف اور تشدد سے کام لیتے ہوئے بڑے بڑے کنکر استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ افسوس کہ بہت سے حجاج کرام رمی جمار کے وقت اس ارشاد نبوی ﷺ کو بھول جاتے ہیں اور وہ کنکریوں کے بجائے بڑے کنکر بلکہ پتھر استعمال کرتے ہیں اور بعض حضرات تو غلو کی انتہاء کردیتے ہیں کہ وہ کنکریوں کے بجائے جوتے استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ اپنی دانست میں یہ حضرات شاید اپنی غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ ایمان کا اولین تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے جو حدود مقرر فرمادی ہیں انہی کی پابندی کی جائے اور ان سے سر موتجاوز نہ کیاجائے کیونکہ حدود شریعت سے تجاوز دنیا میں ہلاکت کا سبب بنتاہے اور آخرت میں یہ شافع روز جزاء رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا سبب بنے گا جیسا کہ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :


صنفان من أمتي لن تنالہما شفاعتي ولن أشفع لہما ولن يدخلا في شفاعتي: سلطان غشوم عسوف، وغال مارق في الدين(الترغیب والترہیب لقوام السنۃ :۳/۷۶)

'' میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں ، جن کو میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔ ظالم اور غاصب بادشاہ اور دین میں غلو کرنے والے لوگ ۔''


دین تو آسان ہے :

انسان اپنی مرضی سے دین کو ہوا بنا لے تو الگ بات ہے ورنہ اللہ رب ذوالجلال نے اپنے دین کو بہت آسان بنایا ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلاَّ غَلَبَہُ (صحیح البخاری مع الفتح ۳۹/۱ )
بے شک دین آسان ہے اور جوشخص دین میں سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا۔''
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے زیادہ تفصیل کے ساتھ فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں انہیں ضائع نہ کرو کچھ حدود مقررکردیئے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو کچھ چیزوں کو حرام قرار دے دیاہے ان کے قریب نہ جاؤ اور کچھ چیزوں کو بھولے بغیر ترک کر دیا ہے ان کے بارے میںکریدنہ کرو۔ (جامع الاصول ۵/۵۹)


جیساکہ صحیح بخاری کی مذکورہ بالا حدیث میں ہے اللہ کا دین آسان ہے ، دین کے احکام کو پورا کرنا اس وقت مشکل ہوگا جب کوئی انسان از خود اپنے اوپر ایسی پابندیاں عائد کرلے جن کا دین میں حکم نہ ہو ۔ بطورِ مثال ہم یہاں صحیح بخاری ہی کی ایک حدیث پیش کرتے ہیں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک بوڑھے انسان کو دیکھا جسے اس کے دوبیٹے گھسیٹ کر (بیت اللہ کی طرف) لے جارہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا: اس کا کیا ماجرا ہے ' انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ اس نے نذر مانی تھی کہ یہ پیدل چل کر بیت اللہ جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس بات سے بے نیاز ہے کہ یہ اپنے آپ کو عذاب میں ڈالے ' اور پھر آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ سواری پر سوار ہوجاؤ۔ '' ( بخاری ، حدیث : ۱۸۶۵)


اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَا النَّبِيُّ صلى اللہ عليہ وسلم يَخْطُبُ إِذَا ہُوَ بِرَجُلٍ قَائِمٍ فَسَأَلَ عَنْہُ فَقَالُوا أَبُو إِسْرَائِيلَ نَذَرَ أَنْ يَقُومَ ، وَلاَ يَقْعُدَ ، وَلاَ يَسْتَظِلَّ ، وَلاَ يَتَکَلَّمَ وَيَصُومَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى اللہ عليہ وسلم مُرْہُ فَلْيَتَکَلَّمْ وَلْيَسْتَظِلَّ وَلْيَقْعُدْ وَلْيُتِمَّ صَوْمَہُ.
کہ نبی مکرم ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہے ، آپ ﷺ نے اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے عرض کیا ، اس کا نام ابو اسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ یہ کھڑا رہے گا ، بیٹھے گا نہیں ، نہ یہ سا یہ استعمال کرے گا اور نہ کسی سے بات کرے گا اورروزے سے رہے گا یہ سن کر نبیﷺ نے فرمایا : ''اسے حکم دو کہ یہ بات کرے، سایہ استعمال کرے اور بیٹھ جائے اور اپنے روزے کو پورا کرے۔ (بخاری ، حدیث : ۶۷۰۴)
روزہ رکھنا حکم شریعت ہے لیکن اس میں اس قسم کی اپنے اوپر پابندیاں عائد کر لینا، جس طرح ابو اسرائیل نے اپنے اوپر عائد کی تھیں ، دین میں غلو ہے اور دین میں غلو

اختیار کرکے انسان اپنے آپ کو از خود مشکلات میں مبتلا کرلیتاہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بار خطبہ میں ارشاد فرمایا :

يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّ اللَّہَ تَعَالَى فَرَضَ عَلَيْکُمُ الْحَجَّ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ أَفِي کُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللہِ ثَلاَثَ مِرَاتٍ فَجَعَلَ يُعْرِضُ عَنْہُ ، ثُمَّ قَالَ لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَوْ وَجَبَتْ مَا قُمْتُمْ بِہَا ، ثُمَّ قَالَ دَعُونِي مَا تَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِکُمْ سُؤَالِہِمْ وَاخْتِلاَفِہِمْ عَلَى أَنْبِيَائِہِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَہَيْتُکُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوہُ

''لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض قرار دیا ہے ۔ لہٰذا حج کیا کرو۔''ایک شخص نے عرض کیا '' یا رسول اللہ ﷺ کیا ہر سال ، اس نے سوال تین بار دوہرایا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں یہ کہہ دیتا ہاں تو ہر سال حج ادا کرنا واجب ہوجاتا اور تمہیں اس کی استطاعت نہ ہوتی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا ''مجھے چھوڑ دو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء سے کثرت سوال اور اختلاف کے باعث ہی ہلاک ہوئے تھے، جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو مقدور بھر استطاعت بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اسے چھوڑ دو۔'' ( صحیح مسلم ، حدیث : ۱۳۳۷)

غلو شرک تک پہنچا دیتاہے :

قرآن مجید کےمطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ غلو انسان کو شرک جیسی مہلک بیماری میں مبتلا کردیتاہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے انبیاء کرام کی شان میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ انہوں نے سیدناعزیر اور سیدنا عیسی علیہما السلام کو اللہ کے بیٹے قرار دے دیا ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی جو لم یلد ولم یولد کے اوصاف سے اتصاف پذیر ہے ، کوئی انسان خواہ وہ مقام ومرتبہ کے اعتبار سے کتنے ہی اونچے مقام پر کیوں فائز نہ ہو' اس کا بیٹا کیسے ہوسکتاہے مگر غلو کی کرشمہ سازی ملاحظہ کیجئے کہ اس نے انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیا ہے اور خالق ومخلوق کے درمیان فرق کو ملحوظ نہ رہنے دیا ۔ قوموں کو تباہ وبرباد کرنے والا یہ ایسا شدید مرض ہے کہ رحمۃ للعالمین ، سرور دنیا ودین ﷺ فکر مند رہے کہ سابقہ امتوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آپ کی امت بھی کہیں اس میں مبتلا نہ ہوجائے۔ آخر وقت تک آپ ﷺ کو یہ فکر دامن گیر رہا حتی کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت بالکل آخری لمحات میں آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :
لَعْنَۃُ اللہِ عَلَى الْيَہُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِہِمْ مَسَاجِدَ (البخاری ، حدیث : ۴۳۵ ، ومسلم ، حدیث : ۵۳۱)

''یہود ونصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا۔''

اس حدیث کے راوی ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : یحذر ما صنعوا '' کہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کو یہود ونصاریٰ کے ان جیسے افعال کے ارتکاب سے ڈرارہے تھے کیونکہ انبیاء واولیاء کی شان میں غلو ان کی عبادت کا سبب بن جاتاہے اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :

لاَ تُطْرُونِي کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُولُوا عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہ(صحیح البخاری ، حدیث : ۳۴۴۵)

''میری شان میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جیسے عیسائیوں نے ابن مریم کی شان میں مبالغہ سے کام لیا تھا۔ میں تو اللہ کا بندہ ہوں لہذا مجھے عبد اللہ اور رسول اللہ کہو۔''
آپ ﷺ نے اپنی امت کو بڑی سختی کے ساتھ غلو سے منع فرمایا ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور تین بار ارشاد فرمایا :
ہلک المتنطعون (صحیح مسلم ، حدیث : ۲۶۷)
''غلو کرنے والے ہلاک ہوگئے۔''
''متنطعون'' ان لوگوں کو کہتے ہیں جو حد اعتدال سے تجاوز کرتےہوئے اپنے اقوال وافعال میں بے حد مبالغہ اور غلو سے کا م لیں۔

اسلام دین اعتدال ہے :

اسلام دین جمال وکمال ہے ، یہ راہ اعتدال ہے ، جس میں کوئی افراط وتفریط نہیں ۔ امام جعفر طحاوی رحمہ اللہ نے اسلام کا تعارف کرواتے ہوئے لکھا ہے :
'' ارض وسماء میں اللہ کا دین ایک ہی ہے اور وہ ہے دین اسلام ، جو غلو وتقصیر ، تشبیہ وتعطیل، جبر وقدر اور امن ومایوسی (امید وخوف) کے درمیان ہے ۔'' ( شرح عقیدۃ طحاویہ ص : ۵۸۵)
ابن عقیل نے ایک دلچسپ بات لکھی ہے اور وہ یہ کہ مجھ سے ایک شخص نے پوچھا کہ پانی میں بے شمار غوطے لگانے کے باوجود مجھے یہ شک ہوتاہے کہ معلوم نہیں کہ غسل صحیح ہوا بھی ہے یا نہیں ، تو اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ، میں نے کہا جناب! میری رائے یہ ہے کہ جائیں آپ سے تو نماز ہی ساقط ہوگئی ہے ، اس نے پوچھا وہ کیسے ، میں نے کہا اس لئے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے :
رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاَثَۃٍ عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَبْرَأَ وَعَنِ الصَّبِىِّ حَتَّى يَکْبَرَ
'' تین شخص مرفوع القلم ہیں ۔ مجنون حتی کہ صحت یاب ہوجائے ۔ سویا ہوا حتی کہ بیدار ہوجائے اور بچہ حتی کہ بالغ ہوجائے۔''(ابوداود)
اور جوشخص پانی میں بار بار غوطہ لگانے کے باوجود یہ شک کرے کہ معلوم نہیں اس کے جسم کو پانی لگا ہے یا نہیں تووہ مجنون ہے اور مجنون مرفوع القلم ہے اور اس سے نماز (اور دیگر تمام فرائض وواجبات ) ساقط ہیں۔ (اغاثۃ اللہفان ، امام ابن القیم ج ۱،ص:۱۵۴)

ہمارے بہت سے صوفی منش احباب جو طہارت ' وضو اور غسل کے بارے میں اسی قسم کی تشکیک میں مبتلا رہتے ہیں ، انہیں اپنے طرز عمل پر خاص غور فرمانا چاہیے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شریعت نے ہر قسم کے غلو اور تشدد سے منع کیا ہے خواہ اس کا تعلق عقائد سےہویا اعمال سے ۔ ( فتح المجید ، ص:۲۲۷)
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیطان بڑا عیار ہے اور اس کی ایک بہت عجیب تدبیر یہ ہے کہ وہ انسانی نفوس کو ٹٹول کر یہ جائزہ لے لیتاہے کہ کس کی طبیعت افراط کی طرف مائل ہے اور کس کی تفریط کی طرف اور پھر جس کی طرف کسی کی طبیعت کا میلان ہوتاہے وہ اپنی دسیسہ کاریوں سے اسے اسی طرف لگا دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت یا تو وادی تقصیر میں سرگرداں ہوتی ہے یا وادی مبالغہ وغلو میں حیران یعنی یا تو وہ احکام شریعت پر عمل کرنے میں کوتاہی اور دون ہمتی کا ثبوت دیتے ہیں یا اس قدر مبالغہ اور غلو سے کام لیتے ہیں کہ حد اعتدال سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب کہ بہت قلیل سعادت مند ہی ایسے ہوتے ہیں جو صراط مستقیم پر رہتے ہیں، جس کا رسول اللہ ﷺ نے تعین فرمایا ہے اور بلاشبہ آپ ﷺ کا عمل اور طریقہ ہی راہِ اعتدال ہے۔ (اغاثۃ اللہفان ، ج۱،ص:۱۳۷)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص دینی اعمال میں غلو سے کام لے گا اور نرمی کے پہلو کو ترک کرے گا تو بالآخر وہ عاجز ودرماندہ ہوجائے گا۔ آپ نے مزید فرمایا کہ یہ بھی غلو ہے کہ انسان رخصت کی جگہ عزیمت کو اختیار کرے ۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی کسی مجبوری ومعذوری اور بیماری کی وجہ سے پانی کے استعمال سے عاجز وقاصر ہے اور اس صورت میں اسے تیمم کرنے کی ضرورت ہے مگر وہ اس رخصت سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور تیمم نہیں کرتا بلکہ پانی ہی کے استعمال کرنے پر اصرار کرتاہے تو وہ یقینا نقصان اٹھائے گا۔ (فتح الباری ۱/۱۱۷)

خلاصہ کلام :



خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام دین اعتدال ہے اس کی پاکیزہ تعلیمات میں حسن وجمال ہے ، جن کے مطابق بلاکم وکاست عمل ہی میں دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی کا راز مضمر ہے جبکہ دین میں اپنی طرف سے افراط وتفریط کا نام غلو ہے اور غلو حرام ہے۔ کیونکہ غلو کے درج ذیل نقصانات ہیں۔
۱) غلو انسان کو شرک میں مبتلا کرکے اللہ تعالیٰ سے دور کردیتاہے اور جہنم میں پہنچا دیتاہے۔
۲) غلو کے نتیجہ میں انسان نہ صرف یہ کہ اپنے عمل کو ہمیشہ جاری نہیں رکھ سکتا بلکہ تنگ آکر بسا اوقات ترک بھی کردیتاہے۔
۳) غلو اس بات کی علامت ہے کہ انسان کا ایمان اور اس کی عقل کمزور ہے اور اس پر شیطان نے تسلط جمالیا ہے۔
۴) غلو انسان کی جہالت اور فہمِ دین میں نقص کی دلیل ہے۔
۵) غلو انسان کو شیطانی وسوسوں میں مبتلا کردیتاہے۔
۶) غلو کرنے والے کا دل تنگ ہوکر حزن وملال میں مبتلا ہوجاتاہے ۔
اللہ ربّ ذوالجلال والاکرام سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے فضل وکرم کے ساتھ غلو سے محفوظ رکھے اور افراط وتفریط کے بغیر اعتدال یعنی اپنے پسندیدہ دین اسلام کے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا ربّ العالمین

 
Last edited by a moderator:

jaanmark

Chief Minister (5k+ posts)
please always code fully [FONT=PDMS_IslamicFont]وہ لوگ (بھی) کافر ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ خدا تین میں کا تیسرا ہے حالانکہ اس معبود یکتا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اگر یہ لوگ ایسے اقوال (وعقائد) سے باز نہیں آئیں گے تو ان میں جو کافر ہوئے ہیں وہ تکلیف دینے والا عذاب پائیں گے (۷۳)

not part of the line , like you done [/FONT]
'' اللہ تین کا تیسرا ہے thanks
:jazak:
 

musakhan786

Senator (1k+ posts)
Ababel bhai; mein app ki post zaroor pudta hoon and thanks for sharing such wonderfull knowledge. Bhai carry on doing your good work bus aik request bhai firqo mein nahi pudna.
 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)
محترم ابابیل، کیا آپ ان اشعار میں لگائے گئے اس الزام کو ثابت کرسکتے ہیں؟؟؟؟؟

نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں


کیونکہ میں تو کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جو یہ کرتا ہو جسکا ان اشعار میں الزام لگایا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔
آپ بتا دیں کہ یہ کیسے اور کیونکر اور کہاں ہوتا ہے؟؟؟؟؟؟
ممنون ہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔


 

Resonant

MPA (400+ posts)
ابن تیمیہ کو ارباباّ من دون اللہ کے مرتبے پر فائز کردینا بھی غلو ہے۔۔۔۔۔۔
اپنی نام نہاد تو حید کی فہم کو تمام مسلمانوں پر تھوپنا بھی غلو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے آپ کو درست اور باقی سب مسلمانوں کو گمراہ، بدعتی، مشرک، اور کافر سمجھنا بھی بدترین غلو ہے۔۔۔
 

ابابیل

Senator (1k+ posts)
محترم ابابیل، کیا آپ ان اشعار میں لگائے گئے اس الزام کو ثابت کرسکتے ہیں؟؟؟؟؟

نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں


کیونکہ میں تو کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جو یہ کرتا ہو جسکا ان اشعار میں الزام لگایا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔
آپ بتا دیں کہ یہ کیسے اور کیونکر اور کہاں ہوتا ہے؟؟؟؟؟؟
ممنون ہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔



نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں


اسلام کے نزدیک توحید کا تصور یہ ہے کہ پوری مخلوق کی حاجت روائی مصائب و مشکلات کو حل کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی ساری کائنات کا خالق، مالک، رازق اور مدبر و منتظم ہے۔ ساری طاقتیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ اکیلا ہی ساری نعمتوں کا مالک ہے۔ اس لیے اپنی حاجتوں کی طلب میں صرف اسی کی طرف رجوع کیا جائے، صرف اسی کو پکارا جائے اور اسی کے سامنے عجز و نیاز کا اظہار کیا جائے مگر کچھ مسلمانوں کا یہ عقیدہ اس کے برعکس ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے تدبیر امور کے اختیارات و تصرفات اپنے بعض بندوں کو عطا کر دیئے ہیں، جن کی وجہ سے وہ مخلوق کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کر سکتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ لوگ انہیں مصیبت کے وقت پکارتے، ان کے سامنے اپنا دامن پھیلاتے اور ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں۔
ان کے عقائد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تمام اختیارات اور کائنات کا سارا نظام اپنے مقرب بندوں کے سپرد کر دیا ہے، اور خود اللہ تعالیٰ کی ذات معاذاللہ معطل و معزول ہو کر رہ گئی ہے۔ اب کٹھن اور دشوار گزار حالات میں ان بندوں سے استغاثہ کیا جائے، انہی سے مدد مانگی جائے، انہی سے شفا طلب کی جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں، تمام اختیارات ان کے ہاتھ میں ہیں، وہ زمین و آسمان کے مالک ہیں جسے چاہیں عطا کریں اور جسے چاہیں محروم رکھیں۔ زندگی و موت، رزق و شفا غرضیکہ تمام خدائی اختیارات ان کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔



اس سلسلے میں ان کی کتب سے نصوص و عبارات ذکر کرنے سے قبل یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مشرکین مکہ کے عقائد بھی ان عقائد سے مختلف نہ تھے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ان عقائد کی تردید کی اور ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عشق و محبت کے تمام دعووں کے باوجود ان عقائد کو پھر سے اپنا لیا ہے۔
اب اس سلسلے میں اللہ کا ارشاد سنئے اور پھر ان کے عقائد کا موازنہ کیجئے۔ ۔ ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لااَاآ اِٰلہَ اِلَّا ہُوَ یُحْی وَ یُمِیْتُ [اعراف ]"کوئی معبود نہیں اس کے سوا وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے۔ "
بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَ ہُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُ [ملک ]"اسی کے ہاتھ میں حکومت ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ "
بِیَدِہ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّ ہُوَ یُجِیْرُ وَ لااَا یُجَارُ عَلَیْہِ [مومنون ] "اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے۔ اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا۔
بِیَدِہ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ [یاسین ] "اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ "
اِنَّ اﷲَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ [ذاریات ]
"بیشک اللہ ہی سب کو روزی پہنچانے والا ہے، قوت والا ہے، مضبوط ہے۔ "
وَ مَا مِنْ دَآبةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُہَا [سورہ ھود ] "کوئی جاندار زمین پر ایسا نہیں کہ اللہ کے ذمہ اس کا رزق نہ ہو"۔
وَ کَاَیِّنْ مِّنْ دَآبةٍٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَا اَﷲُ یَرْزُقُہَا وَ اِیَّاکُمْ وَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ [عنکبوت] "اور کتنے ہی جاندار ہیں جو اپنی غذا اٹھا کر نہیں رکھتے۔ اللہ ہی انہیں روزی دیتا ہے اور تم کو بھی، اور وہی خوب سننے والا ہے اور خوب جاننے والا ہے۔ "
اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآء وَ یَقْدِر [السباء] "میرا پروردگار زیادہ روزی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے، اور تنگ کر دیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے۔ "
اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآء وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآء وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآء وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآء بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر
[آل عمران]
اے سارے ملکوں کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دے دے اور تو جس سے چاہے حکومت چھین لے، تو جسے چاہے عزت دے اور تو جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ "
قرآن کریم نے انسانیت کو توحید سے آشنا کر کے اس بہت بڑا احسان کیا ہے۔ رسول کائنات صلی اللہ علیہ و سلم اپنے تیرہ سالہ مکی دور میں اسی فکر کو لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرتے رہے۔ اسلام نے انسانیت کو بندوں کی غلامی سے نجات دے کر اور ان طوق و سلاسل کو جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان حائل ہو گئی تھی، اپنی مقدس تعلیمات سے پاش پاش کر کے براہ راست انہیں اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پر جھکا دیا۔ ۔ ۔ ۔ مگر بریلوی حضرات ان شکستہ زنجیروں کے ٹکڑوں کو اکھٹا کر کے انسان کو انسان کا محتاج و گداگر بنا رہے ہیں اور مخلوق کو مخلوق کی غلامی کا درس دے رہے ہیں !
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمیٰ وَ الْبَصِیْرُ [فاطر] "نابینا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے۔ "
یہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جو توحید کی بصیرت سے بہرہ ور ہوں۔ توحید کے تصور کے بغیر امت اسلامیہ کا اتحاد ممکن نہیں ہے۔ توحید سے کنارہ کشی اختیار کر کے دوسرے مشرکانہ افکار و نظریات کی تعلیم دینا امت محمدیہ کے درمیان اختلافات کے بیج بونے کے مترادف ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
کَانَ النَّاسُ اُمةً وَّاحِدَۃًاقف فَبَعَثاَ اﷲُ النَّبِینَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَص وَ اَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَتْہُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًام بَیْنَہُمْ فَہَدَی اﷲُ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہ ط وَ اﷲُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
"لوگ ایک ہی امت تھے، پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دینے اور ڈرانے والے۔ اور ان کے ساتھ کتب حق نازل کیں کہ وہ لوگوں کے درمیان اس بات کا فیصلہ کریں جس میں وہ اختلاف رکھتے تھے۔ اور کسی نے اس میں اختلاف نہیں کیا، مگر انہی نے جنہیں وہ ملی تھی، انہی کی ضد کے باعث، بعد اس کے کہ انہیں کھلی ہوئی نشانیاں پہنچ چکی تھیں، پھر
اللہ نے اپنے فضل سے انہیں جو ایمان والے تھے ہدایت دی، اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست بتا دیتا ہے۔ [بقرہ]
آج حالت یہ ہے کہ شرک،قبر پرستی اور بدعات و خرافات کا ایک سیلاب ہے اور مسلمان اس میں بہے جا رہے ہیں۔ شیطان نے ان کے دل و دماغ کو مسخر کر لیا ہے اور وہ اس کی پیروی کو اپنی نجات کا سبب سمجھ رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :
قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالا اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا [الکہف ]
" آپ کہہ دیجئے کہ کیا ہم تمہیں ان لوگوں (کا پتہ) بتائیں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل ہی گھاٹے میں ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جن کی ساری محنت دنیا ہی کی زندگی میں غارت ہو کر رہی اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ وہ بڑے اچھے کام کر رہے ہیں۔ "
نیز ان کے متعلق ارشاد ہے :

اَعْیُنُہُمْ فِیْ غِطَآئٍ عَنْ ذِکْرِیْ وَ کَانُوْا لایَسْتَطِیْعُوْنَ سَمْعًاع اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَنْ یَّّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْ اَوْلِیَآء اِنَّآ اَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ نُزُلا
[کہف ]
"ان کی آنکھوں پر میری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا اور وہ سن بھی نہیں سکتے تھے۔ کیا پھر بھی کافروں کا خیال ہے کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز قرار دے لیں؟ بے شک ہم نے دوزخ کو کافروں کی مہمانی کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ "
اب اس سلسلے میں ان کی نصوص ملاحظہ فرمائیں :
جناب احمد رضا بریلوی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے اور آپ کی شان میں غلو کرتے ہوئے کہتے ہیں :

کن کا رنگ دکھاتے ہیں یہ
مالک کل کہلاتے ہیں یہ
قادر کل کے نائب اکبر
ان کے ہاتھوں میں ہر کنجی ہے


مسلمانوں کے نام ایک غیر مسلم شاعر کا پیام


ایک ہی پربھو کی پوجا ہم اگر کرتے نہیں
ایک ہی در پر مگر سر آپ بھی دھرتے نہیں

اپنی سجدہ گاہ دیوی کا اگر استھان ہے
آپ کے سجدوں کا مرکز قبر جو بے جان ہے

اپنے معبودوں کی گنتی ہم اگر رکھتے نہیں
آپ کے مشکل کشاؤں کو بھی گن سکتے نہیں

جتنے کنکر اتنے شنکر یہ اگر مشہور ہے
ساری درگاہوں پہ سجدہ آپ کا دستور ہے

اپنے دیوی دیوتاؤں کو اگر ہے اختیار
آپ کے ولیوں کی طاقت کا نہیں حدوشمار

وقتِ مشکل ہے اگر نعرہ مرا بجرنگ بلی
آپ بھی وقتِ ضرورت نعرہ زن ہیں یاعلی

لیتا ہے اوتار پربھو جبکہ اپنے دیس میں
آپ کہتے ہیں خدا ہے مصطفٰے کے بھیس میں

جس طرح ہم ہیں بجاتے مندروں میں گھنٹیاں
تربتوں پر آپ کو دیکھا بجاتے تالیاں

ہم بھجن کرتے ہیں گاکر دیوتا کی خوبیاں
آپ بھی قبروں پہ گاتے جھوم کر قوّالیاں

ہم چڑھاتے ہیں بتوں پر دودھ یا پانی کی دھار
آپ کو دیکھا چڑھاتے مرغ چادر ،شاندار

بت کی پوجا ہم کریں، ہم کو ملےنارِ سقر
آپ پوجیں قبر تو کیونکر ملے جنّت میں گھر؟

آپ مشرک، ہم بھی مشرک معاملہ جب صاف ہے
جنّتی تم،دوزخی ہم، یہ کوئی انصاف ہے

مورتی پتّھر کی پوجیں گر! تو ہم بدنام ہیں
آپسنگِ نقشِپا پوجیں تو نیکو نام ہیں

کتنا ملتا جلتا اپنا آپ سے ایمان ہے
آپ کہتے ہیں مگر ہم کو تو بے ایمان ہے

شرکیہ اعمال سے گر غیر مسلم ہم ہوئے
پھر وہی اعمال کرکے آپ کیوں مسلم ہوئے

ہم بھی جنّت میں رہیں گے تم اگر ہو جنّتی
ورنہ دوزخ میں ہمارے ساتھ ہوں گے آپ بھی

ہے یہ نیّر کی صدا سن لو مسلماں غور سے
اب نہ کہنا دوزخی ہم کو کسی بھی طور سے


(اوم پر کاش نیّر، لدھیانوی )
 

ابابیل

Senator (1k+ posts)
محترم ابابیل، کیا آپ ان اشعار میں لگائے گئے اس الزام کو ثابت کرسکتے ہیں؟؟؟؟؟

نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں


کیونکہ میں تو کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جو یہ کرتا ہو جسکا ان اشعار میں الزام لگایا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔
آپ بتا دیں کہ یہ کیسے اور کیونکر اور کہاں ہوتا ہے؟؟؟؟؟؟
ممنون ہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔



اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
لوگوں نے ۔۔ اماموں ۔۔ کا رتبہ نبی سے کیا الله تعالی سے بڑھا دیا ہے۔
امام کو وہ مقام محمود اور وہ بلند درجہ اور ایسی تکوینی حکومت حاصل ہوتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم و اقتدار کے سامنے سرنگوں وتابع فرمان ہوتا ہے۔ خمینی الحکومۃ اسلامیہ ص ۹۱امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد کہ تمام فرشتوں اور تمام پیغمبروں نے میرے لئے اسی طرح اقرار کیا جس طرح محمدﷺ کے لئے کیا تھا اور میں لوگوں کو جنت او ردوزخ میں بھیجنے والا ہوں ۔ اصو ل کافی ص ۱۱۷
ائمہ پر بھی بندوں کی دن رات کے اعمال پیش ہوتے ہیں ۔
اصول کافی ص ۱۴۲

ائمہ اپنی موت کا وقت بھی جانتے ہیں اور ان کی موت ان کے اختیار میں ہوتی ہے ۔
اصول کافی ص ۱۵۹

ائمہ دنیا اور آخرت کے مالک ہیں وہ جس کو چاہیں دے دیں اور بخش دیں ۔

اصول کافی ۲۵۹

امام کے بغیر یہ دنیا قائم نہیں رہ سکتی

اصول کافی ص ۱۰۴

ائمہ کو اختیار ہے جس چیز کو چاہیں حلال یا حرام قرار دیں ۔

صول کافی ص ۲۷۸

ائمہ کو ماکان وما یکون کا علم حاصل تھا

اصول کافی ص ۱۶۰

امام کو ماضی اور مستقبل کا پورا پورا علم ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی چیز امام سے مخفی نہیں ہوتی

اصول کافی ص ۱۴۰

 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)


شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کا حکم دین میں غلو کرنے اور کوتاہی کرنے والوں کے بیچ درمیانی راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جس بات کا بھی حکم دیتا ہے تو شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس میں دو چیزیں داخل کر دے افراط یا تفریط۔ (الوصیۃ الکبریٰ)
اور مسلمان کو بطور خاص ان چھ قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا چاہئے، کیونکہ ایسا غلو نادانستگی میں بھی سرذد ہوسکتا ہے،
1۔ دین میں غلو سے بچیں
لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ (المائدۃ77)
تم اپنے دین میں ناحق (زیادتی) نہ کرو۔
2۔غل (کینہ) سے بچیں
لَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا (سورۃ الحشر،10)
ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ ہونے دیجیئے۔
3۔غرور سے بچیں
لَا تُصَعِّرْ* خَدَّكَ لِلنَّاسِ (سورۃ لقمان،18)
لوگو۔! اپنے رخ مت پھیرو۔
4۔غفلت سے بچیں
لَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ (سورۃ لاعراف:205)
توغفلت کرنے والوں میں سے مت ہو۔
5۔غیبت سے بچیں
وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا (سورۃ الحجرات:12)
ایک دوسرے کی غیبت سے بچو۔
6۔غصہ سے بچیں
وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ (سورۃ ال عمران:159)
غصہ سے پوری طرح بچیں۔
 

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)

نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں


اسلام کے نزدیک توحید کا تصور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


(اوم پر کاش نیّر، لدھیانوی )


محترم ابابیل
میں نے آپ کی گزارشات کو آپکی پوسٹوں میں ملاحظہ کیا۔ آپ کا جواب دینے کا شکریہ۔

میرا آپ سے تھوڑا سا نظریاتی اختلاف ہے۔ اور وہ اختلاف صرف سمجھ کا ہے۔ باقی آپ اور میں دونوں قرآن اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن و سُنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کو اپنی دلیل بناتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے بھی اپنی پہلی پوسٹ میں بہت سی قرآنی آیات اور کُچھ احادیث کو اپنی دلیل کے طور پر پیش کیا۔

پس گفتگو کو اس طرح آگے بڑھاتے ہیں کہ میں اور آپ ایک دوسرے کی بات کو سمجھ سکیں۔ اور اللہ رب العزت ہی سے مدد کی دعا ہے۔ اللھم صلی علی محمد و آل محمد۔

جیسا کہ آپ نے قرآن سے استدلال کیا۔ میں بھی آپ سے قرآن کی کُچھ آیات کا مطلب جاننا چاہتا ہوں۔ کیونکہ ایک مسلمان کیلیے قرآن ایک بڑی دلیل ہے، اگر اُس کا صحیح مطلب اخذ کیا جائے۔ نیچے چند آیات قرآنی درج ہیں۔ جن سے میں اپنی یہ گفتگو شروع کرنا چاہوں گا۔


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اسم اللہ کے ساتھ الرحمان الرحیم
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
سورۃ فاتحہ آیت (1)۔
الحمد اللہ کی جو رب ہے تمام عالمین کا۔

َومَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
سورۃ الانبیا آیت نمر (107)۔
اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام عالمین کیلیے رحمت

وتَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا
سورۃ الفرقان آیت نمبر (۱)۔
اور برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر الفرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام عالمین کو آگاہ کرے۔ (تمام عالمین کیلیے نذیر ہو)۔

وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
سورۃ آلعمران (3) آیت نمبر 81
اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے اس بات کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق کرئے تو تم لازمی اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اُس کی مدد کرنا، فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا ؟ سب نے عرض کی، ہم نے اقرار کیا، فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔

محترم ابابیل آپ سے التماس ہے کہ آپ مجھے ان آیات کا مطلب مختصر سی تشریح کے ساتھ سمجھائیں۔ تاکہ ہم آپس میں مزید بات کو آگے بڑھا سکیں۔ آپ خود بھی ایک بات نوٹ کریں کہ میں نے بھی آپ سے صرف قرآنی آیات کے متعلق ہی سوال کیا ہے۔ یعنی ہم مسلمان قرآن اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات پر ہی ایمان رکھتے ہیں۔ میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ ضرور ان قرآنی آیات پر تبصرہ کریں گے جس سے ان آیات کا مفہوم واضح ہو جائے گا اور میں آپ سے گفتگو کو مزید آگے بڑھا سکوں گا۔ شکریہ

 
Last edited:

ابابیل

Senator (1k+ posts)



محترم ابابیل
میں نے آپ کی گزارشات کو آپکی پوسٹوں میں ملاحظہ کیا۔ آپ کا جواب دینے کا شکریہ۔

میرا آپ سے تھوڑا سا نظریاتی اختلاف ہے۔ اور وہ اختلاف صرف سمجھ کا ہے۔ باقی آپ اور میں دونوں قرآن اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن و سُنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کو اپنی دلیل بناتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے بھی اپنی پہلی پوسٹ میں بہت سی قرآنی آیات اور کُچھ احادیث کو اپنی دلیل کے طور پر پیش کیا۔

پس گفتگو کو اس طرح آگے بڑھاتے ہیں کہ میں اور آپ ایک دوسرے کی بات کو سمجھ سکیں۔ اور اللہ رب العزت ہی سے مدد کی دعا ہے۔ اللھم صلی علی محمد و آل محمد۔

جیسا کہ آپ نے قرآن سے استدلال کیا۔ میں بھی آپ سے قرآن کی کُچھ آیات کا مطلب جاننا چاہتا ہوں۔ کیونکہ ایک مسلمان کیلیے قرآن ایک بڑی دلیل ہے، اگر اُس کا صحیح مطلب اخذ کیا جائے۔ نیچے چند آیات قرآنی درج ہیں۔ جن سے میں اپنی یہ گفتگو شروع کرنا چاہوں گا۔


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اسم اللہ کے ساتھ الرحمان الرحیم
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
سورۃ فاتحہ آیت (1)۔
الحمد اللہ کی جو رب ہے تمام عالمین کا۔

َومَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
سورۃ الانبیا آیت نمر (107)۔
اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام عالمین کیلیے رحمت

وتَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا
سورۃ الفرقان آیت نمبر (۱)۔
اور برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندے پر الفرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام عالمین کو آگاہ کرے۔ (تمام عالمین کیلیے نذیر ہو)۔

وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
سورۃ آلعمران (3) آیت نمبر 81
اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے اس بات کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق کرئے تو تم لازمی اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اُس کی مدد کرنا، فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا ؟ سب نے عرض کی، ہم نے اقرار کیا، فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔

محترم ابابیل آپ سے التماس ہے کہ آپ مجھے ان آیات کا مطلب مختصر سی تشریح کے ساتھ سمجھائیں۔ تاکہ ہم آپس میں مزید بات کو آگے بڑھا سکیں۔ آپ خود بھی ایک بات نوٹ کریں کہ میں نے بھی آپ سے صرف قرآنی آیات کے متعلق ہی سوال کیا ہے۔ یعنی ہم مسلمان قرآن اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات پر ہی ایمان رکھتے ہیں۔ میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ ضرور ان قرآنی آیات پر تبصرہ کریں گے جس سے ان آیات کا مفہوم واضح ہو جائے گا اور میں آپ سے گفتگو کو مزید آگے بڑھا سکوں گا۔ شکریہ



[FONT=_PDMS_Saleem_QuranFont] الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [/FONT]


سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے
[FONT=_PDMS_Saleem_QuranFont] الْحَمْدُ لِلَّهِ[/FONT] کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی کی طرف سے ہیں۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اساب ہمیں عطا فرمائے۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بیشمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔ اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے شائق ہے۔
[FONT=_PDMS_Saleem_QuranFont] الْحَمْدُ لِلَّهِ[/FONT] یہ ثناء کا کلمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ثناء خود آپ کی ہے اور اسی ضمن میں یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو [FONT=_PDMS_Saleem_QuranFont] الْحَمْدُ لِلَّهِ[/FONT] ۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
ترجمہ : اور ہم نے آپﷺ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔ (سورہ الانبیا ء : آیہ 107)
اسکا مطلب یہ ہے کہ جو آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان لے آئے گا، اس نے گویا اس رحمت کو قبول کر لیا اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا ، نتیجتاََ دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو گا اور چونکہ آپ ﷺ کی رسالت پورے جہان کے لیئے ہے، اس لیئے آپ ﷺ پورے جہان کے لیئے رحمت بن کر یعنی اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دین و دنیا کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیئے آئے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس اعتبار سے بھی نبیﷺ کو جہان والوں کے لیئےرحمت قرار دیا ہے کہ آپﷺ کی وجہ سے یہ امت ، بالکلیہ تباہی و بربادی سے محفوظ کر دی گئی ہے ۔ جسے پچھلی قومیں اور امتیں حرفِ غلط کی طرح مٹا دی جاتی رہیں ، امت ِ محمدیہ (جو امت اجابت اور امت دعوت کے اعتبار سے پوری نوع انسانی پر مشتمل ہے) پر اسطرح کا کلی عذاب نہیں آئے گا ۔ اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے لیئےبد دعا نہ کرنا ، یہ بھی آپ ﷺ کی رحمت کا ایک حصہ تھا ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا، انما انا رحمۃ مھداۃ صحیح الجامع الصغیر 2345 ،، میں رحمت مجسم بن کر آیا ہوں جو اللہ کی طرف سے اہلِ جہان کے لیئے ایک ہدیہ ہے ،، اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اصل رحمت توحید کو اپنا لینا اور شرک سے بچ جانا ہے۔

وتَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا
سورۃ الفرقان آیت نمبر (۱)۔


بہت با برکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تا کہ وہ تمام لوگوں کے لیئے آگاہ کرنے والا بن جائے
فرقان کے معنی ہیں حق و باطل ، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان فرق کرنے والا ، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کر دی ہے ، اس لیئے اسے فرقان سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کی نبوت عالمگیر ہے اور آپ ﷺ تمام انسانوں اور جنوں کے لیئے ہادی و راہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں۔


وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
سورۃ آلعمران (3) آیت نمبر 81

جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لیئے اس پر ایمان لانا اور اسکی مدد کرنا ضروری ہے ۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا ہمیں اقرار ہے ، فرمایا اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔

یعنی ہر نبی سے یہ وعدہ لیا گیا کہ اسکی زندگی اور دور نبوت میں اگر دوسرا نبی آئے گا تو اس پر ایمان لانا اور اسکی مدد کرنا ضروری ہو گا ، جب نبی کی موجودگی میں آنے والے نئے نبی پر خود اس نبی کو ایمان لانا ضروری ہے تو ان کی امتوں کے لیئے تو اس نئے نبی ایمان لانا بطریق اولیٰ ضروری ہے ، یعنی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بابت تمام نبیوں سے عہد لیا گیا کہ ان کے دور میں وہ آجائیں تو اپنی نبوت ختم کر کے ان پر ایمان لانا ہو گا

 
Last edited:

Zoq_Elia

Senator (1k+ posts)

[FONT=_PDMS_Saleem_QuranFont] الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [/FONT]


سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے
[FONT=_PDMS_Saleem_QuranFont] الْحَمْدُ لِلَّهِ[/FONT] کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی کی طرف سے ہیں۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اساب ہمیں عطا فرمائے۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بیشمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔ اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے شائق ہے۔
[FONT=_PDMS_Saleem_QuranFont] الْحَمْدُ لِلَّهِ[/FONT] یہ ثناء کا کلمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ثناء خود آپ کی ہے اور اسی ضمن میں یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو [FONT=_PDMS_Saleem_QuranFont] الْحَمْدُ لِلَّهِ[/FONT] ۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
ترجمہ : اور ہم نے آپﷺ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔ (سورہ الانبیا ء : آیہ 107)
اسکا مطلب یہ ہے کہ جو آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان لے آئے گا، اس نے گویا اس رحمت کو قبول کر لیا اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا ، نتیجتاََ دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو گا اور چونکہ آپ ﷺ کی رسالت پورے جہان کے لیئے ہے، اس لیئے آپ ﷺ پورے جہان کے لیئے رحمت بن کر یعنی اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دین و دنیا کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیئے آئے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس اعتبار سے بھی نبیﷺ کو جہان والوں کے لیئےرحمت قرار دیا ہے کہ آپﷺ کی وجہ سے یہ امت ، بالکلیہ تباہی و بربادی سے محفوظ کر دی گئی ہے ۔ جسے پچھلی قومیں اور امتیں حرفِ غلط کی طرح مٹا دی جاتی رہیں ، امت ِ محمدیہ (جو امت اجابت اور امت دعوت کے اعتبار سے پوری نوع انسانی پر مشتمل ہے) پر اسطرح کا کلی عذاب نہیں آئے گا ۔ اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے لیئےبد دعا نہ کرنا ، یہ بھی آپ ﷺ کی رحمت کا ایک حصہ تھا ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا، انما انا رحمۃ مھداۃ صحیح الجامع الصغیر 2345 ،، میں رحمت مجسم بن کر آیا ہوں جو اللہ کی طرف سے اہلِ جہان کے لیئے ایک ہدیہ ہے ،، اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اصل رحمت توحید کو اپنا لینا اور شرک سے بچ جانا ہے۔

وتَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا
سورۃ الفرقان آیت نمبر (۱)۔


بہت با برکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تا کہ وہ تمام لوگوں کے لیئے آگاہ کرنے والا بن جائے
فرقان کے معنی ہیں حق و باطل ، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان فرق کرنے والا ، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کر دی ہے ، اس لیئے اسے فرقان سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کی نبوت عالمگیر ہے اور آپ ﷺ تمام انسانوں اور جنوں کے لیئے ہادی و راہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں۔


وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ
سورۃ آلعمران (3) آیت نمبر 81

جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لیئے اس پر ایمان لانا اور اسکی مدد کرنا ضروری ہے ۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا ہمیں اقرار ہے ، فرمایا اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔

یعنی ہر نبی سے یہ وعدہ لیا گیا کہ اسکی زندگی اور دور نبوت میں اگر دوسرا نبی آئے گا تو اس پر ایمان لانا اور اسکی مدد کرنا ضروری ہو گا ، جب نبی کی موجودگی میں آنے والے نئے نبی پر خود اس نبی کو ایمان لانا ضروری ہے تو ان کی امتوں کے لیئے تو اس نئے نبی ایمان لانا بطریق اولیٰ ضروری ہے ، یعنی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بابت تمام نبیوں سے عہد لیا گیا کہ ان کے دور میں وہ آجائیں تو اپنی نبوت ختم کر کے ان پر ایمان لانا ہو گا


محترم ابابیل آپکے جواب کا شکریہ اور میرے جواب میں کُچھ مصروفیات کیوجہ سے ٹھوڑی دیر ہونے پر معذرت بھی

یقیناً تمام حمد اللہ کیلیے ہی سزاوار ہے اور وہی اُسکے لائق ہے۔ اُسی اللہ نے اپنے حبیب احمد کا نام محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) رکھا ہے۔ اور خود اُسکی حمد کی ہے۔ اور حمد کرنے والوں سے اُسکی حمد کروائی ہے۔ اور اُسے مقام محمود پر فائز کیا ہے۔

اللہ رب العزت ہی تمام جہانوں کا حقیقی پالنہار ہے۔ اور اُسی اللہ نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا۔ جو کہ تمام جہانوں کیلیے ذِکر (نصیحت) ہے۔ اور اپنے اُس محبوب بندے کے بھیجے جانے کو ہی تمام جہانوں کیلیے رحمت قرار دیا اور اُسی پر الفرقان کو نازل کیا اور اُسی کو تمام جہانوں کیلیے نذیر بنا دیا۔

میرا اِن تین آیات کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اللہ رب العالمین ہے اور اللہ کے جس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہم اُمت ہیں وہ رحمت للعالمین اور نذیر للعالمین ہے۔ آسان الفاظ میں جہان تک اللہ کی خدائی ہے وہاں تک اللہ نے اپنے بندے محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رحمت اور نذیر قرار دیا ہے۔

خدا کی تخلیق کردہ کائنات کا ادراک ہمارے اذھان سے ناممکن ہے۔ ایک سائنسدان کے بقول اس کائنات میں ہمارے نظام شمسی کی مثال ایسی ہے جیسے صحرائے اعظم میں ریت کا ایک ذرہ۔ میں کہتا ہوں کہ خود اُس نے اللہ کی کائنات کا جتنا ادراک کیا ہے اُس کی وُقعت ایک ذرے سے زیادہ نہیں۔ اللہ ہی اپنی تخلیق کو بہتر جانتا ہے۔ یا جسے وہ اس بات کا علم دے۔

آخری آیت جو درج کی اُسکے درج کرنے کا مقصد یہ تھا کہ انبیاء کرام علیھم السلام (نبی کی جمع، نبی یعنی اللہ کی طرف سے خبر دینے والا) عالمین میں فضیلت یافتہ ہستیاں ہیں۔ اور اُن سب کو جو کتاب و حکمت دی گئی یا اور فضیلتیں دی گئیں وہ خدا تعالٰی کی عبودیت کے ساتھ ساتھ ایک آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے کی بدولت اور اُن کے صدقے ہی میں اللہ نے عنایت فرمائی۔ اور اُس رسول پر ایمان لانے اور اُسکی مدد کرنے کو تمام انبیاء پر فرض قرار دیا۔ آسان الفاظ میں اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت و رسالت تو بہت پہلے سے جاری و ساری ہے۔ جب اللہ نے مخصوص ارواح کو نبوت کے عھدے کیلیے چن لیا جنھیں تمام جہانوں پر فضیلت بھی دی تو اللہ نے اپنی معبودیت کے ساتھ اپنے عبد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اقرار بھی اُن سے لیا۔ اور اس بات پر اُنھیں ایک دوسرے پر گواہ ٹھہرایا اور خود اُن سب پر گواہ ہوگیا۔ پس یہ آیت صریح دلیل ہے اس حدیث پر جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اُس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کی درمیانی حالت میں تھے یا جسم اور روح کے درمیان تھے۔ اور یہ حدیث اصول حدیث کے مطابق بھی سنداً اور متناً صحیح ہے۔ دیکھیے یہ لنک اور یہ لنک

جو مطالب میں نے اخذ کیے ہیں اگر آپ یہاں تک مجھ سے متفق ہیں تو بات کو آگے بڑھائیں گے۔ ورنہ آپ میری جن باتوں سے اختلاف کرتے ہیں وہ بیان کریں۔ تاکہ اُن باتوں کے واضح ہو جانے کے بعد بات کو مزید آگے بڑھایا جائے۔


إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
سورۃ الاحزاب (33) آیت نمبر 56
بیشک اللہ اور اُس کے فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر خوب درود اور سلام بھیجا کرو جیسا کہ بھیجنے کا حق ہے۔

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو آدم علیہ السلام سے بھی پہلے النبی تھے۔ پس اللہ اور اُسکے ملائکہ کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوٰۃ (درود) بھیجنا تو بہت پہلے سے جاری و ساری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللھم صل علی محمد و آل محمد



 
Last edited: