جندڑی .........ایک پیار بھری کہانی

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)




جندڑی ایک پرائیویٹ کہانی ھے , جسے چند دوستوں کے اصرار پر لکھا گیا تھا ... وہ جو اچھی کہانیاں پڑھنے کا فن جانتے ہیں ، اور اسے اتنا پسند کیا گیا کہ میں نے چاہا اسے آپ کے ساتھ بھی شیر کیا جائے. اب یہ کہانی ایک آپ بیتی ہے یا جگ بیتی، اسکا فیصلہ تو آپ کریں گے، میں صرف یہ کہونگا کہ میں کوئی پروفیشنل رائیٹر نہیں ہوں ، بلکہ اسی فورم کا ایک ا ممبر ہوں اور یہ کہانی میں نے بس تفریحا" لکھی تھی، اور شائد یہ میری پہلی اور آخری کہانی بھی ثابت ہو! امید ہے یہ !کہانی آپ سب کو پسند آے گی!.... اپنی رائے سے ضرور نوازئیے گا.... شکریہ

جندڑی


جندڑی کا عام مطلب ھے میری جان، وہ قوت جو ہر جاندار کو رواں دواں رکھتی ہے، اور جب جان نکل جاتی ہے تو باقی مٹی کا ڈھیر رہ جاتا ہے! جو دھرتی ماں کے سینے میں دفن ہو جاتا ہے ... جندڑی ایک نوکرانی تھی، جسے ایک جاگیردار کے بیٹے سے محبّت ہو گی تھی . اسکا پورا نام تو جند وڈی تھا جو پنجاب میں ایک عام سا نام ھے ...اور کچھ لوگ اسے جندو بھی کہتے ہی. . . .وہ چھوٹے جاگیردار کی زندگی میں آندھی کی طرح آئی اور تھوڑے ہی عرصے میں دونوں ایک دوسرے سے بہت پیار کرنے لگے ..اور وہ جندو سے جندڑی بن گی ! میں چاہوں گا کہ کہانی شروع کرنے سے پہلے میں آپ کو جندڑی کے بارے میں مزید کچھ بتاؤں.



جندو صحیح معنوں میں بہت ہی خوبصورت تھی . ابھی تو وہ صرف اپنے سولہویں سال میں تھی، لیکن ابھی سے وہ حسن و جوانی کا ایک مکمل شاہکار تھی. اور پیار و محبّت کے سارے جذبات و احساسات سے نہ صرف بخوبی واقف تھی، بلکہ وہ اپنے ان جذبات کا اظہار کرنا بھی خوب جانتی تھی. میں نے اپنے اسکول کے دنوں میں ایک فلم "آہ " دیکھی تھی، جس میں نرگس اور راجکپور نے کام کیا تھا.. .نرگس کی خوبصورتی اور اس کی معصوم سی مسکراہٹ میرے دل و دماغ پر چھا گئی اور میں کئی سالوں تک اسکے شاہانہ حسن میں گرفتار رہا. میری طرح کا ایک ںوخیز دل، جو ہر وقت محبّت کا متلاشی ہو، وہ تو پہلی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر ہی فدا ہو جاتا ہے ، اور وہ تو نرگس تھی! اس گانے کی طرح ...چمن میں رہ کے ویرانہ میرا دل ہوتا جاتا ہے ...میرا دل بھی ایک ویرانہ تھا... جب میں نے جندو کو پہلی بار دیکھا ! اومیرے خدا! میں نے جانا نرگس میرے سامنے کھڑی تھی ...اپنے پورے جلووں کے ساتھ! نرم و نازک اور دبلا پتلا جسم ، گورے گورے رنگ پر جادو جگاتے ہوے لمبے سیاه بال ، خوبصورت بادامی آنکھیں ، محبّت اور شفقت سے بھری، لیکن پھر بھی معصوم ، بھرے بھرے گلابی ہونٹ ، ہر وقت محبّت کا ایک سریلا گیت گاتےہوئے ... مگر ایک لفظ کہے بغیر! جندو میں ایک خاص قسم کی کشش تھی... جس نے پہلی ہی نظر میں جیسےمیرے دل کو چهو لیا ہو! ..،اور جندڑی کی کشش نے میرا جسم، میری روح ، میرا .کمرہ ، بلکہ میری پوری کائنات کو جیسے بھر دیا ہو ...مدہوش مدہوش !

لیکن اس کے باوجود یہ میں نہیں تھا جس نے پیار کے اس سونامی کو آواز دی ، ، جو ہم دونوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی...یہ جندو ہی تھی.....وہ کرسٹل بوتل میں بند پیار و محبّت کی ایک مجسم پری، جس نے تہ با تہ اپنے آپکو کھولا اور آہستہ آہستہ میرے دل و دماغ ، میرے جسم اور میری روح کو جکڑتی چلی گئی ...اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر محبّت کے گہرے سمندر میں لے گئی ..اور میری رگ رگ اسی کے رنگ میں رنگی گئی .....وہ تو ہمیشہ سے میرے پاس تھی، لیکن میں اسے پہچان نہ سکا ....وہ چودہ سال کی تھی، جب سے وہ مجھے پیار کر رہی تھی... جب ایک دن میرے کمرے کی صفائی کرتےہوئے، ان دنوں جب میں اپنی تعلیم کے سلسلے میں گیا ہوا تھا، ، جندو نے پہلی بار میرے کمرے میں میری ایک تصویر لگی دیکھی تو فورا پہچان گئی، کہ یہ تو اس کے راج کمار کی تصویر ہے، جسے وہ ہر رات اپنے خوابوں میں دیکھتی ہے، اور دعاییں مانگتی ہے کہ ایک دن وہ اسے ضرور مل جائے، چاہے صرف ایک دن
کے لیے ہی سہی ...اور وہ بھی بس
ایک بار ا


وہ ہر روز ہماری حویلی میں صبح سویرے دودھ اور دہی لینے آیا کرتی، جو میری ماں ہر روز گاؤں کےغریب لوگوں کو دیا
کرتی اور جندو حویلی میں میری ماں کے لیے چھوٹے موٹے کام کر دیا کرتی. اور آخر میں ہمیشہ میرے کمرے کی صفائی بھی کرتی.... جب میں اپنی تعلیم کے سسلے میں باھر گیا ہوا ہوتا. وہ گھنٹوں اندھیرے میں بیٹھ کر میری تصویر کو دیکھا کرتی اور باتیں بھی کرتی کہ وہ مجھ سے اتنا پیار کرتی ہے، لیکن میں تو گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی اسے ملنے نہیں آتا.. اس نے ایک دن میری ایک تصویر چوری کر لی تاکہ وہ اسے دیکھ سکے، اس سے باتیں کر سکے، جس دن وہ کسی وجہ سے حویلی نہ آ سکتی ہو. اورجب بھی اسکا دل چاہے وہ مجھ سے بات کر سکے. جندو نے بعد میں ایک دن مجھے وہ تصویر دکھائی اور یہ کہ کر واپس کر دی کہ اب اسے کاپی کی ضرورت نہیں ہے..کیونکہ اب اصلی جو اسکے پاس ہے!

ہمارا پیار اس وقت شروع ہوا جب ایک دفعہ میں بیمار ہوکر گھر آیا.. میری ماں کو کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو ہر وقت میری دیکھ بھال کر سکے اور میری ماں نے جندوکو چن لیا، یا پھر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جندو نے زبردستی اپنے آپ کو چنوا لیا.. وہ میری ماں کے پاؤں اس وقت تک دباتی رہی جب تک کہ میری ماں نے ہاں نہیں کردی. وہ بار بار میری ماں کو کہتی کہ اس سے زیادہ بہتر میری کوئی بھی دیکھ بھال نہیں کر سکتا ، اور میری ماں مان گئی، جب اس نے جندو کو دیکھا کہ اگر وہ نہ مانی تو جندو زور زور سے رونے لگ جائے گی ..ویسے بھی میری ماں جندو کو پسند کرتی تھی. وہ سارے دوسرے نوکروں سے ہزار درجے بہتر تھی ، اس لیے کہ وہ لالچی نہیں تھی . اور اگر کوئی چیز لیتی بھی تو ایک عزت اور وقار کے ساتھ.. اور میری ماں کو یہی چیز بہت پسند تھی....تو اب جندو باقائدہ طور پر میری دیکھ بھال پردن رات مامور ہو گئی. میری ماں نے جندو کو نوکروں کے کوارٹرز میں سونے کی اجازت بھی دے دی .. لیکن جیسا کہ آپ دیکھیں گے، وہ نوکروں کے کوارٹرز میں ایک رات بھی نہیں سویی!


آیئے اب کہانی کا بقایدہ آغاز کرتے ہیں.


جندڑی .....وہ ایک رات


یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں بیمار ہوکر گھر آیا. ابھی مجھے چند ہی روز ہوے تھے اور میں اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ سارا دن بستر پر پڑا رہتا تھا. اگر اٹھنے کی کوشش بھی کرتا تو ایسے لگتا ابھی گر پڑونگا. نہ کچھ کھا سکتا تھا اور نہ پی سکتا تھا. میری ماں نے ہمارے گاؤں کے اکلوتے ڈاکٹر صاحب کو بلا بھیجا. انہیں ایک مکمل چیک اپ اور بہت سارے ٹیسٹوں کے بعد بھی کچھ پتہ نہ چلا کہ مجھے کیا تکلیف ہے، لیکن انہوں نے میری ماں کے کان میں اتنا کہا کہ مجھے اور تو کوئی تکلیف نہیں ہے، لگتا ہے کوئی شدید ذہنی صدمہ پہنچا ہے..اگر آپکو معلوم ہوجاے کہ وہ کیا تھا تو خبردار کوئی بھی اس کے سامنے ذکر تک نہ کرے! ملکانی صاحبہ! یہ جیسے جیسے بھولتا جائے گا، ٹھیک ہوتا جاےگا! میں کچھ دواییں لکھ دیتا ہوں، بس وٹامن ہیں لیکن انکے کھانے پینے کا خاص خیال رکھیں. یہ پہلے ہی کافی کمزور ہو چکا ہے....اور آرام! جتنا ریسٹ کریں اتنا ہی اچھا ہے. میری ماں نے ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا، اور پھر میری طرف دکھ کر مسکرا دیں...ایک تو مجھے کچھ بھی نہیں ہوا تھا، دوسرا مجھے لگتا ہے انہیں پتہ تھا وہ کیا ذہنی جھٹکا ہے جو مجھے لگا، اور لگانے والی کون تھی. یہی وہ وقت تھا جب میری ماں نے جندو کو میری دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھا ...اور یہی وہ وقت تھا جب جندو ایک نوکرانی بن کے میری زندگی میں ائی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میرے دل و دماغ، بلکہ میرے جسم اور میری روح تک میں سما گئی ....اور ایسے جیسے کہ میرے وجود کا ایک نہایت اہم جزو ہو!


ڈاکٹر صاحب بلکل ٹھیک تھے!...مجھے کچھ بھی نہیں ہوا تھا، سواے اس جھٹکے کے جو مجھے لگا، جب تاجی مجھے اچانک چھوڑ کر چلی گیی ! وہ دو سال سے میری دوست تھی اور میں اس سے حد سے زیادہ پیار کرتا تھا ...اس کے لیے ہی جینا چاہتا تھا اور اس کےلیے ہی مرنا ! اور سب کو اس کے بارے میں علم بھی تھا! کوئی دن ایسا نہیں تھا جب کسی نے میرا نام لیا ہو اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ تاجی کا نام نہ آیا ہو! اور ہم ہر وقت اور ہر جگہ ساتھ ساتھ ہی تو ہوتے تھے!...اور اپنے مستقبل کے بارے میں کافی سارے پلان بھی بنا چکے تھے، یہاں تک کہ اپنے بچوں کے نام بھی رکھ چکے تھے!..وہ میرے ساتھ خوش بھی بہت تھی! اگر اسے کوئی فکر تھی، تو بس یہی کہ کہیں میرے باپ، جو اپنے علاقے کے جاگیردار تھے، تاجی کو اپنی بہو بنانے سے انکار ہی نہ کر دیں. تاجی نہ تو کسی بڑے زمیندار کی بیٹی تھی، اور نہ ہی کسی ڈاکٹر یا انجنیئر کی. میں اسے کیی بار یقین دہانی کرا چکا تھا کہ میرا باپ اپنے بیٹے کی خوشیوں کے لیے سارے فیملی رسم و رواج قربان کر دے گا! .. لیکن شائد تاجی کی تسلی نہیں ہو پا رہی تھی. " فرض کرو تمہارا جاگیردار باپ ایک پھوٹی کوڑی بھی قربان نہیں کرتا اور ہمیں حویلی اور ساری جائداد سے نکال باہر کرتا ہے؟ تو پھر کیا ہوگا؟" ایک دن تاجی نے مجھ سے پوچھا. " اور ہم باہر سڑک پر پڑے ہونگے! سردی میں ٹھٹھرتے ہوے اور خالی جیبیں!" میں نے کہا، " اول تو ایسا ہوگا نہیں! اور اگر ایسا ہوا بھی تو تم جانتی ہو کس سے بات کر رہی ہو؟ ملک فضیلداد خان! میں کہیں اور جاکر اتنی بڑی امپائر کھڑی کرونگا جو دنیا دیکھے گی!...اپنے باپ سے کہیں بڑی اور عظیم الشان! میں یہ سب کچھ، یہ حویلی اور یہ جائداد، تیرے پیار کی خاطر سب کو ٹھوکر مار سکتا ہوں! تم کیا سمجھتی ہو، کہ میرے سچے پیار کی، جو مرے دل میں تیرے لیے ہے، کوئی قیمت ہو سکی ہے؟ یقیناً میرا پیار ان حویلیوں اورجائدادوں سے کہیں بڑا ہے!" تاجی نے کچھ بھی نہ کہا، بس میری آنکھوں میں دیکھتی رہی....اور مسکراتی رہی!....مجھے آج اندازہ ہو رہا ہے، اسکی مسکراہٹ تو ایک بناوٹ تھی...ایک طنز تھا!

اور پھر ایک دن سب کچھ ختم ہو گیا! میرا سچا پیار، میری امنگیں، میری امیدیں، میرے وہ خیلاتی محل!..سب کچھ پاش پاش ہو گیا!..اس دن تاجی کالج نہیں آی اورساری کلاسز مس کر دیں!...یوں تو وہ پہلے بھی کبھی کبھی کوئی کلاس مس کر جاتی لیکن ہمیشہ مجھے بتاتی! اور مجھے کبھی شک بھی نہیں ہوا تھا...میں کیفیٹیریا میں تھا جب اسکا فون آیا. تاجی نے کہا، " فضیل! میں تمھیں چھوڑ کر جا رہی ہوں! اور تم سے دوبارہ ملنا بھی نہیں چاہتی!...... بائی !! فون میرے ہاتھ سے گر گیا!...اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا. مجھے یوں لگا جیسے بجری سے بھرے ٹرک نے مجھے کچل دیا ہو!...اور میرا سارا وجود ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا ہو!...میرا پورا جسم کانپنے لگا اور میرا دل بلکل ڈوب گیا....اور میں دھڑام سے زمین پر گر گیا ....سب لوگ مجھے اٹھانے کے لیے دوڑے اور مجھے ہسپتال لے جانے لگے، لیکن میں نے کہا مجھے میرے اپارٹمنٹ میں چھوڑ دو، کیونکہ جو شاک مجھے لگا تھا اسکا کوئی علاج ہسپتال میں نہیں!..مجھے پتا ہے!

آ
دھی رات کو کہیں جاکر مجھے ہوش آیا. یہ آخرمیرے ساتھ ہوا کیا.....اور کیوں؟...آخر کیوں تاجی؟ تم نے تو مجھے پوچھنے کی مہلت تک نہ دی،،،کہ آخر کیوں جا رہی ہو مجھے یوں اکیلا چھوڑ کر؟...وہ ساری قسمیں، وہ سارے وعدے ؟ کیا سب کچھ جھوٹ تھا؟ ...مجھے میرا جواب دوسرے دن ہی مل گیا! تاجی ایک نۓ لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی جو ابھی دو ہفتے پہلے ہی کالج آیا تھا. آہستہ آہستہ مجھے یاد آیا، یہی وہ ٹائم تھا جب تاجی نے کلاسز مس کرنی شروع کیں. میرے ایک دوست نے مجھے بتایا، اسے بہت پہلے سے ہی معلوم تھا وہ ایک دوسرے سے چھپ چھپ کر ملتے ہیں، مجھے اس لیے نہیں بتایا کہ میرا دل ٹوٹ جاےگا! ابھی چند ہی روز پہلے اس نے انہیں کسی مووی ہاؤس میں دیکھا تھا، اور چونکہ وہ ان کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور انکی ساری حرکتیں دیکھ رہا تھا...."فضیل! میں تو سارا ٹائم انہیں ہی دیکھتا رہا ! مووی کون کافر دیکھے گا جب اس سے اچھی مووی تو مجھ سے اگلی سیٹ پر چل رہی تھی.


یہ دوسرا شاک تھا جو مجھے لگا! اچھا تو تاجی یہ سب کچھ چاہتی تھی؟ لیکن وہ سچے پیارکا کیا ہوا جسکی ہم ہر روز باتیں کرتے تھے؟ اور قسمیں کھاتے تھے؟...کہاں ہیں وہ سب سچے عاشق، جو عشق حقیقی کا ڈھنڈھورا ہر روز پیٹتے نہیں تھکتے؟...جہاں عشق تو کسی کی روح سے ہوتا ہے ، کسی کے جسم اور اس سے ملحقہ ساری غلاظتوں سے ایک سچے عاشق کا کیا کام؟ مجھے تو یہ سب ایک جھوٹ لگا، ایک فراڈ، ایک دھوکہ .....جو یہ بازیگر کھلے عام دیتے ہیں. عشق حقیقی تو صرف اس ذات سے ہو سکتا ہے جو سب عیبوں سے پاک ہے، اور اسے صوفیوں اور انکے رب پر چھوڑ دینا چاہئیے. ایک انسان دوسرے انسان سے عشق حقیقی کیسے کر سکتا ہے؟ جس کے خمیر میں ہی خرابی کی کئی صورتیں مضمر ہیں! مجھے یاد ہے جب بھی ہم خلوت میں کہیں ملے، مجھے ہمیشہ یہی دھڑکا لگا رہتا تھا تھا کہ کہیں ہم وہ ممنوع حدیں پار نہ کر جاییں ، حالانکہ کئی بار مجھے احساس ہوا، تاجی کو کچھ زیادہ پرواہ نہیں تھی، یہ میں ہی تھا جس نے اپنی ساری نفسیاتی خواہشات کے باوجود کبھی بھی وہ حد پار نہ ہونے دی. حالانکہ ایسے نازک لمحات میں تو کئی "زاہد" اپنی عمر بھر کی نیکیاں داؤ پر لگا دیں! میرے نزدیک سچا پیار ان سب انسانی خواہشات سے بہت اوپر کوئی چیز تھی. کئی سچے پیار کے طلبگار یہ خیال کرتے ہیں کہ عشق حقیقی کا راستہ بھی عشق مجازی سے ہوکر ہی گزرتا ہے! شائد ٹھیک ہی کہتے ہونگے؟ اور شائد تاجی بھی ٹھیک ہوگی ! اب کوئی بھی صورت ہو، تاجی نے تو اپنا پیار پا لیا اور میں تھا، کہ ابھی ڈھونڈ رہا تھا! میری آنکھیں آنسؤں سے بھر گییں! اور میں سوچنے لگا، کیا کبھی مجھے میرا سچا پیار ملے گا بھی کہ نہیں؟....دور ...کہیں بہت دورمیرے دل کے اندر سے آواز آی......کیوں نہیں؟....ضرور ملے گا! بس امید کا ایک دیا کبھی بجھنے نہ دینا!

میرے کسی دوست نے میرے گھر والوں کو خبر کی، میری مان نے اسی وقت گاڑی بھیجی اور مجھے گھر لے آے . میں اب اپنے بستر پر پڑا تھا، ایک گہرے صدمے سے دوچار، شکستہ دل!....نہ کچھ کھا سکتا تھا اور نہ پی سکتا تھا! اور نہ ہی اپنی آنکھیں کھلی رکھ سکتا تھا، لیکن جب بھی میری آنکھ لگتی ....میری نگاہوں میں وہ سارے لمحات ایک ایک کرکے پھر جاتے جو تاجی نے میرے ساتھ گزارے تھے! وہ راتیں وہ موسم ، وہ ہسنا ہسانا! کبھی کیفیٹیریا کے ایک کونے میں بیٹھ کر راز و نیاز، تو کبھی بارش میں ایک ساتھ بھیگنا! اور پھر تاجی کا میرا کوٹ لینے سے انکار کرنا....اور ہمارا بھاگ کر کچن میں ایک ہی کمبل میں بیٹھ کر چاہے کی چسکیاں لینا. ...اور وہ تاجی کی بھیگی بھیگی، وہ بھینی بھینی خوشبو مجھے ابھی بھی یاد ہے! کبھی اتنی باتیں کرنا کہ شائد یہ ہماری آخری ملاقات ہو اورپھر ہم کبھی نہیں ملیں گے....ابھی سب کچھ کہدو! تو کبھی یونہی چپ چاپ....ایک دوسرے میں گم سم! کچن کی ٹین کی چھت پر بارش کی ننھی ننھی بوندوں کی جل-ترنگ سنتے رہنا! ...زبان سے ایک لفظ بھی نہ کہنا، لیکن آنکھوں آنکھوں میں ہزاروں باتیں کیہ جانا! ایسی باتیں جو کبھی آپکی زبان بھی کہنے میں شرماتی ہے لیکن آنکھیں وہی باتیں کتنی خوبصورتی سے که جاتی ہیں

لیکن پھر اچانک میری آنکھوں کے سامنے ایک اندھیرا سا چھا جاتا ....مجھے تاجی کہیں دور کسی غیر کی آغوش میں بیٹھی نظر آتی ....میرا دل ڈوب جاتا، اور میں گھبرا کر آنکھیں کھول دیتا! اس بار جب میں نے آنکھیں کھولیں تو میں نے اپنی ماں تو کمرے میں آتے ہوے دیکھا. اس کے ساتھ ایک نوعمر لڑکی بھی تھی ..جو مجھے کچھ شرمآیی سی، کچھ لجآیی سی لگی لیکن میں نے اسکی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھی ..ایسی چمک جو کسی نادر اور نایاب چیز کو دیکھ کر آ جاتی ہے......میری ماں میرے بستر کے قریب آئ اور مجھے کہا، " بیٹو! یہ جندو ہے! اور آج سے یہ تیرا خیال رکھے گی! " میں نے دوبارہ اس لڑکی کی طرف دیکھا





Continued!...............


 
Last edited by a moderator:

leo_pk

Senator (1k+ posts)
I thought it was good. Carry on Saboo.. its nice to step away from siasat for a bit!
 

PATRIOTIC_PAKISTANI

Minister (2k+ posts)
کہانی تو آپکی بعد میں پڑھونگا پر یہ تصویر کیسی لگائی ہے اپنے اپنی پروفایل پر ؟میرا مطلب سب سیٹ ہے نہ بھائی ؟

;)
 
Last edited:

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
kiya teen age wali love story suna rahay ho jis ka na sir na pair....! agar tumharay liye ye achi hai tu bahi apnay pass hi rakho kiyon logo ka time waste kartay ho
Baqi sab to enjoy kar rahay hein, aapko hi samajh nahin aaye!!:)