بھٹو ازم اور پی پی پی کا منشور

ILovePakistan

Councller (250+ posts)
بھٹو ازم اور پی پی پی کا منشور

یہ کالم صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو جاننا چاہتے ہیں کہ بھٹو ازم کیا ہے

بھٹو ازم در حقیقت ہوس اقتدار سے لتھڑی ہوئی جاگیردارانہ سوچ ہے جس کا کوئی اصول کوئی ضابطہ کوئی معیار اور کوئی کردار نہیں۔ بھٹو ازم میں کسی فوجی آمر کو ڈیڈی کہنا پڑے تو بھی کہا جا سکتا ہے ، کسی آمر کو کتا کہنا پڑے تو بھی کہا جا سکتا ہے ، اپنے مخالفین کو قتل کروانا پڑے تو قتل کیا جائے ، اپنے حامیوں پر نوازشات کی برسات کی جا سکتی ہے ، الغرض جو جی میں آئے کیا جا سکتا ہے مگر انصاف نہیں کیا جا سکتا البتہ عوام کے آگے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بطور چوگہ ڈالنا ضروری ہے۔

اس اعتبار سے بھٹو ازم کی تعریف یہ بنتی ہے کہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بطور چوگہ (دانہ) ڈال کر عوام کو گرفتار معیشت بنا دینا اور پھر ان پر حکمرانی کے لئے ہر جائز ناجائز حربہ استعمال کرنا بھٹو ازم ہے۔ کم از کم آنجہانی ذوالفقار علی بھٹو کا درس حیات ہمیں تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ اپنے سابقہ حمایتیوں بلکہ اپنے وزیر اور پارٹی کے جنرل سیکرٹری جے اے رحیم کی پٹائی ، سے لیکر نواب محمد احمد خان کے قتل تک ہر جگہ بھٹو ازم کا سارا فلسفہ کھلی کتاب کی مانند ماضی قریب کی تاریخ کا حصہ ہے۔ بلوچستان میں ایمرجنسی کا نفاذ ہو یا وزیر اعلیٰ حنیف رامے کی برطرفی ، یا پھر اپنی نام نہاد جمہوری پارٹی پر اپنی بیوی کو مسلط کر دینا یہ سب کرشمے ہمیں بھٹو ازم میں نظر آتے ہیں۔

ایوب خان کے آخری ایام میں جب پیپلز پارٹی قائم ہوئی تو اس وقت جن اصولوں کو راہنما قرار دیا گیا تھا وہ چار تھے ، پہلا یہ کہ جمہوریت ہماری سیاست ہے ، دوسرا یہ کہ اسلام ہمارا مذہب ہے ، تیسرا یہ کہ سوشل ازم ہماری معیشت ہے ، اور چوتھا یہ کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ آئے اب ان چار اصولوں کو بھٹو ازم کے تناظر میں دیکھ لیجیئے


جمہوریت کی سیاست کا دعویٰ کرنے والے
بھٹو نے اپنی گرفتاری کے بعد پارٹی کی قیادت اپنی ایرانی نڑاد اہلیہ کے سپرد کر دی۔ اس کے علاوہ اپنے مخالفین کے ساتھ توہین آمیز سلوک اور اپنی فورس (ایف ایس ایف) کے ذریعے قتل کروانے کا چلن عام کیا ، بہاولپور سے بھٹو کے مقابلے میں کامیاب ہونے والے ڈاکٹر نزیر کو قتل کروا کے ان کی آواز کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا ، اپنے سابق حلیف احمد رضا قصوری کو مخالفت پر قتل کرنے کی کوشش کی مگر قسمت سے احمد رضا قصوری بچ گئے ان کے والد قتل ہو گئے اور بعد ازاں اسی مقدمہ قتل نے بھٹو کو تختہ دار تک پہنچایا۔ یہ تھا جمہوریت کے حوالے سے بھٹو ازم کا طرز عمل ۔

ا
سلام ہمارا مذہب ہے اس حوالے سے ہم کچھ نہیں کہیں گے کیوں کہ بھٹو صاحب اللہ کے حضور پیش ہو چکے ہیں خواہ وہ دختر انگور سے فیض پایا کرتے تھے یا نہیں البتہ جناب بھٹو کے ایک مدح سرا حبیب جالب نے ''لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو ''لکھ کر اسلام کو برائے سیاست استعمال کرنے والوں کا اصل چہرہ دنیا کو دکھا دیا ہے۔ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ کرنا، جمعہ کی چھٹی اور اسلامی سربراہی کانفرنس جیسے ایشوز کی بنیاد پر بھٹو ازم میں اسلام انجیکٹ کیا جاتا ہے جو درحقیقت مذہب کے سیاست میں استعمال کی زندہ مثال ہے۔ چونکہ معاملہ مذہبی ہے اس پر ہم کوئی رائے نہیں دے سکتے البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ جب بھی مذہب کو سیاست کے لئے استعمال کرنے والوں پر تنقید کی جاتی ہے تو بھٹو صاحب ہمیشہ اس سے بچے رہتے ہیں۔
باقی جو لوگ اگر اسلام کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں تو کم از کم ان کا اسلامی حلیہ توہے اور دعا جنازہ تو کر لیتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ دین کا فہم اور شعور بھی تو رکھتے ہیں اور بھٹو صاحب سے زیادہ رکھتے ہیں لیکن بھٹو صاحب نے جس بے دردی سے اسلام کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا اس پر نہ جانے لوگوں کی نظر کیوں نہیں جاتی۔

ان کا تیسرا اصول سوشل ازم ہماری معیشت ہے
کا مطلب یہ ہے کہ ہم اشتراکی معیشت کا قیام چاہتے ہیں۔ یعنی لوگوں کو مشترکہ املاک کے جھانسے میں لا کر ان سے حق ملکیت سلب کر لینا بھٹو صاحب کی معیشت تھی۔ بھٹو صاحب نے اپنے مفسرین کے ذریعے سوشل ازم مارکہ اسلام کی ایسی ایسی تشریحات کروائیں کہ اکبر کے درباری ملا بھی ان کے سامنے بونے معلوم ہوتے ہیں۔ اسی سوشل ازم کی ذیل میں انہوں نے روٹی کپڑے اور مکان والا چوگ عوام کے سامنے ڈالا تھا۔
بہر کیف اس کے بعد ان کا یہ راہنما اصول کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔بھٹو ازم میں اسی لیئے عوام کو طاقت سے محروم رکھ کر ہی حکومت کی جا سکتی ہے اور مرحوم ہمیشہ عوام کو طاقت سے محروم رکھنے کی پالیسی پر کاربند رہے۔ کاش کوئی ایسی ٹائم مشین بنے جو لوگوں کو ماضی میں لے جاسکے تو اس وقت وہ لوگ جو آج بلاول کے ہم عمر ہیں یا اس سے کچھ بڑے چھوٹے ہیں اور بھٹو اور بھٹو ازم کی مدح سرائیاں کرتے پھرتے ہیں انہیں بھٹو دور میں بھیج دیا جائے ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ وہ دوبارہ کبھی بھٹو ازم کا نام نہ لیں۔ 1973کے آئین کو بھٹو کا کارنامہ بیان کیا جاتا ہے جو درحقیقت کارنامہ ہی نہیں ، کیوں کہ دنیا بھر کے آئین عوام کے حقوق کی نگہداشت کے ضامن ہوتے ہیں مگر 1973کا پاکستانی آئین صرف اقتدار کی حصے داری پر مشتمل ہے پاکستان کا آئین جس میں اب تک دو درجن کے قریب مرتبہ مرتبہ ترامیم ہو چکی ہیں درحقیقت انتظامیہ کے مابین اختیارات کے تعین کا مسودہ ہے اس میں عوام کے لئے ایک چوتھائی حصہ بھی مختص نہیں۔ مگر حکومت کے اختیارات کی بیشمار وضاحتیں ہیں اور باقی رہے نام اللہ کا۔

12321305_859110464208986_1344156750899157303_n.jpg


بھٹو کے چاہنے والوں لئے برنال ۔۔۔۔۔۔۔اگر آرام نہ آئے تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔۔۔شکریہ




 
Last edited by a moderator:

Hunain Khalid

Chief Minister (5k+ posts)




ذوالفقار بھٹو کو پھانسی ہو چکی ہے اور بے نظیر کو بھی فوت ہوئے کافی سال ہو گئے_ اس وقت پیپلز پارٹی کا باگ دوڑ زرادری ، زرادرای کی بہن اور زرداری کا بیٹا سنبھالے ہوئے ہیں_


(ایک ضروری یاد دہانی)
 

greenstar

MPA (400+ posts)
The article was ok till I read Zia ul Haq Shaheed facebook.

What an irony indeed. Today, Nawaz shareef whom Pres Zia use to call a son and brought him to power, is now ruling and is hated by a large group. Like Nawaz shareef, Chaudrys of Gujrat, Watoo family, Chatta family, soomros, Jams and Jatois, Gillanis and many other landlords owe their power to Zia regime. May be this was Ziaisim.


Why do we people forget that Pres Zia held a bogus referendum in which he more votes than Quaid e Azam. Was it the true Islam? Truth is everything has been a power play whether it was bhutto or zia.
 

Shah Shatranj

Chief Minister (5k+ posts)
شکر ہے بھٹو کے چاہنے والے ہیں
باقی جماعتیوں اور ضیاء کو تو لوگوں سے گالیاں ہی پڑتی رہتی ہیں
اسی لیے برنول کی قلت رہتی ہے