گزشتہ روز امریکی صدرجو بائیڈن نے اپنے خطاب میںکہا تھا کہ کابل میں سی آئی اے نے ڈرون حملے میں سربراہ القاعدہ ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا۔
ایمن الظاہری کی گرفتاری میں مدد کرنے پر 25 ملین ڈالر کا انعام تھا۔ امریکی صدر نے کہا کہ ایمن الظواہری متعدد امریکی شہریوں کے قتل کے ذمہ دار تھے ، امریکیوں کے قاتل کہیں بھی چھپ جائیں ہم ڈھونڈ نکالیں گے، تاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امریکی حکام نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ ایمن الظواہری کو اُس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے تھے اور اہل خانہ اندر موجود تھے۔
اس حوالے سے ووڈرو ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر وسینئر ایسوسی ایٹ برائے جنوبی ایشیا اور سینئر صحافی مائیکل کوگل مین نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ جب امریکا نے اسامہ بن لادن کو پاکستان سے نکالا تو پاکستان کے ساتھ تعلقات انتہائی برے ہو گئے تھے لیکن اب ممکنہ طور پر پاکستانی مدد سے امریکہ کی جانب سے ایمن الظواہری ہلاکت پر سالوں بعد امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کا امکان ہے۔
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ ایمن الظواہری پر حملے نے طالبان کے اس جھوٹ کو بے نقاب کر دیا ہے کہ اس گروپ کا اب القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے کئی دوسرے دہشت گرد گروپوں سے تعلقات اب بھی برقرار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ علاقائی مقتدر حلقے طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے ایک اور ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر کچھ طالبان نے امریکہ کو اس حوالے سے مدد فراہم کی ہے، جس کا امکان موجود ہے تو اس سے طالبان کے اندر موجود تقسیم مزید واضح ہو جائے گی۔
مائیکل کوگل مین نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ اگر ایمن الظواہری واقعتاً کابل میں تھاً تو طالبان کے علم میں لائے بغیر اسے وہاں سے نکالنا مشکل تھا! طالبان کے القاعدہ سے روابط نہ ہونے کے دعوے ہمیشہ سے مشکوک رہے ہیں، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان نے ایمن الظواہری کو پکڑنے میں کوئی مدد کی؟