ابھی نہیں تو کبھی نہیں

Doctor sb

Senator (1k+ posts)
ابھی نہیں تو کبھی نہیں
------------------------

ریاست اورحکومت طے کرلے کہ اس جن کو قابو کرنا ہے یا آزاد رہنے دینا ہے

قرآن میں فتنہ بارے کہا گیا ہے کہ یہ قتل سے بڑا (جرم) ہے- قتل تو شاید ایک انفرادی / وقتی جرم ہے مگر اگر فتنے سے صرفِ نظر کیا جاۓ تو اس کے بھیانک نتائج بحثیت سماج ہرفرد بھگتتا ہے بلکہ شاید آنے والی نسلیں بھی متاثر ہوتی ہیں- اسی لیے فتنہ کو پھلنے پھولنے سے قبل اس کی بیخ کنی لازمی قرار دی گئی ہے

سال 2004 کے بعد جب شدت پسندوں نے ہتھیار اٹھاۓ اور ریاستی نظام کے مدقابل اپنا نظریہ بازورِ طاقت نافذ کرنا چاہا تو پوری قوم نے یک زبان ہوکر اس کو مسترد کیا- اور ریاست کوایک دوٹوک اور واضح پیغام دے دیا کہ غیرریاستی عناصر چاہے قرآن وسنت ہی کیوں نا نافذ کرنے کی بات کریں مگر مسلح جارح کی زبان میں یہ بات ہرگز تسلیم نہیں کی جاۓ گی

بات شدت پسندوں تک نہیں رکی، جتھے مولوی رضوی اور لال ٹوپی کی شکل گاہے نمودار ہوتے رہے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرتے رہے- اگرچہ ریاست نے ابتداء میں نرمی دیکھائی مگر سرخ لیکر پار کرنے کی صورت میں ان جتھوں سے نمٹتی رہی

آج پھر قوم و ریاست کو ایک نئے فتنے کا سامنا ہے- شکل اگرچہ پیچیدہ سہی، مگر پہچان مشکل نہیں- یہ فتنہ بظاہر تعلیم یافتہ، آئین وقانون کا فہم رکھنے والا، اور ریاستی ستون یعنی نظامِ انصاف کا ایک لازمی جزو ہے- اپنے زعم میں اب اس قدر طاقتور ہوچکا کہ قانون کو پرکاہ کی حثیت نہیں دے رہا- دستور کو مسل رہا ہے اور سماجی اقدار وتحفظ اس کی دست وبرد سے محفوظ نہیں- اس کی شرانگیزیوں سے حالات اس نہج پر جا پہنچے کہ منصف قانون کی رو سے نہیں بلکہ اس جتھے کی منشا سے فیصلہ دیتا ہے- خوف خدا سے نہیں، بلکہ اس جتھے کے ڈر سے انصاف کا تعین ہورہا ہے- یوں کہنا درست ہوگا کہ نظام انصاف اس جتھے ہاتھوں یرغمال ہے

لاہور ہسپتال واقعہ تو ایک وارننگ تھی قوم، حکومت اور ریاست کے لیے کہ ابھی بھی پانی سر سے نہیں گزرا- سنپولیے کو شیش ناگ بننے سے پہلے اس کا سر کچل دو- ریاست اگر یوں ہی پہلوتہی کرتی رہی اور اس فتنہ کو پروان چڑھتے دیکھتی رہی تو وہ دن دور نہیں کہ قوم انارکی اور خانہ جنگی کا مشاہدہ کرے- خاکم بدہن