سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار سے منسوب نئی مبینہ آڈیو سامنے آگئی۔ اس آڈیو ٹیپ میں ثاقب نثار مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی جگہ بنانے کے لیے نواز شریف کو سزا دینی ہوگی۔
آڈیو ٹیپ میں وہ مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز کو سزا دینی ہو گی اگرچہ مریم نواز کے خلاف کوئی کیس نہیں
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود سے منسوب سوشل میڈیا پر زیرگردش مبینہ آڈیو کلپ کی تردید کردی اور کہا کہ یہ من گھڑت آڈیو مجھ سے منسوب کی گئی ہے، جو میں نے بھی سنی ہے۔
سابق چیف جسٹس کی اس مبینہ آڈیو پر مختلف صحافیوں کا ردعمل بھی سامنے آیا، کچھ نے اس آڈیوٹیپ کو دھماکہ قرار دیا تو کچھ نے کہا کہ یہ آڈیوٹیپ فیربیکیٹڈ ہے، کچھ کے مطابق چیف جسٹس کو اس پر سوموٹو لینا چاہئے۔
سہیل رشید نے اس آڈیو کا پوسٹمارٹم کیا اور لکھا کہ "سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو آگئی ۔ پانچ بار سنی ، خدا لگتی کہوں مجھے یہ دو بندوں کے درمیان کا مکالمہ نہیں لگا۔ ثاقب نثار کا لہجہ تقریر والا ہے اور ماضی کا صیغہ استعمال لر رہے ہیں، سیاق و سباق ہی واضح نہیں جبکہ دوسری سائیڈ کی آواز نے حال کا صیغہ استعمال کیا "۔
سہیل رشید نے مزید لکھا کہ "خبر پڑھ کر ایک سوال کا جواب نہیں ملا کیا یہ ٹیلی فون کال ریکارڈنگ ہے؟ اگر ہاں تو پوری کال کیوں نہیں؟ کیا یہ کسی جگہ یوں ہی کی گئی گفتگو ہے ؟ پھر دوسری سائیڈ والی آواز فون کی کیوں ہے؟"
امیر عباس کا کہنا تھا کہ "یہ آڈیو سیاست میں ایٹمی دھماکے سے کم نہیں لیکن المیہ یہ دھماکہ نہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ یہ سب کرنیوالے بار بار کی رسوائی کے باوجود سیکھیں گے پھر بھی نہیں۔ ان محلاتی سازشوں اور گھناونی وارداتوں کو روکنے کا اس سے بہتر موقع شائد نہ ملے اس لئے بآواز بلند سچ بولیں "
غریدہ فاروقی کا کہنا تھا کہ "سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے آج دوبارہ بات ہوئی۔ اُن سے زیرِ گردش مبینہ آڈیو لیک کے متعلق دریافت کیا۔ ثاقب نثار نے کہامیرا ایک جملے پر مشتمل جواب ہے “It’s all fabricated”۔ میں نے پوچھا کیا وجہ ہے کہ تواتر سے اُنکے متعلق ایسی چیزیں سامنے آ رہی ہیں؛کہنے لگے آپ صحافی ہیں آپ کو علم ہے"۔
عادل شاہزیب نے مستقبل میں مزید انکشافات سامنے آنے کی پیشنگوئی کی
ماریہ ذوالفقار نے آڈیوشئیر کرتے وہئے تبصرہ کیا " مختاریا! گل ودھ گئی اے۔۔ لگتا ہے کہ بابارحمتے پھڑیا گیا"
عمرچیمہ کا کہنا تھا "جسٹس ثاقب نثار کو آڈیو کو جعلی قرار دینے کا پورا حق ہے لیکن کے پاس یہ دو ماہ سے تھی اور چلانے میں تاخیر اسی لئے ہوئی کہ اسکا فورنزک کرانا مقصود تھا تاکہ یہ ابہام بھی دور ہو جائے کہ اصلی ہے یا جعلی، اب یہ صرف جعلی قرار دینے سے جعلی ثابت نہیں ہو گی"
اسد نامی صحافی نے تبصرہ کیا "اگر یہ آڈیوز وغیرہ اتنی ہی مستند ہوتیں تو انہیں عدالتوں میں اس وقت پیش کیا جاتا جب کیسز چل رہے تھے، آخر تب یہ آڈیوز کیوں پیش نہیں کی گئیں؟ اس لئے کہ اس وقت وقت پروڈکشن ہاؤس مکمل آپریشنل نہیں تھا جو ان جعلی قسم کی چیزوں کو جوڑ جوڑ کر پروپیگنڈہ کے قابل بنا سکتا؟"
مریم نواز کی مبینہ لیکڈ آڈیو شئیر کرتے ہوئے مخدوم شہاب الدین نے تبصرہ کیا "پاکستانیو! دیکھتے رہنا کہ آزادی صحافت کے نام نہاد علمبردار صحافیوں میں سے کون کون اس کی تردید کرتا ہے"۔
ندیم ملک کا کہنا تھا کہ "جھوٹ یا سچ: سازش بےنقاب کریں عدلیہ کی آزادی کا تقاضا ہے کہ اس مبینہ آڈیو ریکارڈنگ کی سپریم کورٹ کھلی عدالت میں تحقیقات کروائے- "
صحافی عمران وسیم نے تبصرہ کیا کہ "آڈیو ٹیپ کے بعد تمام نظریں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر ٹک گئی ہے کہ وہ اس پر کوئی ایکشن لیتے ہیں یا نہیں کیونکہ آڈیو اسکینڈل کے مطابق تو مبینہ طور پر چیف جسٹس کا آفس استعمال ہوا"۔
سماء کے صحافی ذوالقرنین اقبال نے کہا کہ "جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے۔۔ صفحہ پھٹنے کی امید لگائے لوگوں کی اپنی دو صفحوں والی کاپی پھٹنے پر آئی تو ایک کے بعد ایک جعلسازی شروع کر دی "
جس پر صحافی ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ"بات اتنی بھی سادہ نہیں جتنی آپ کہہ رہے ہیں صحافی احمد نورانی تحقیقاتی صحافت میں ایک بڑا نام ہے ان کے بقول آڈیو کو امریکہ کے مستند ادارے سے فرانزک کرایا گیا اب ایک طرف سابق چیف جسٹس کی تردید دوسری طرف دستاویزی ثبوت ، اس لیے بغیر کسی ثبوت کے یہ معاملہ نظر انداز نہیں ہو سکتا"