آپکے تینوں پوائنٹس پر سیاست سے ہٹ کر تبصرہ کروں گا۔
۔(۱) سعودی عرب اور امارات کے ساتھ ہمارے معاشی حالات جڑے ہیں۔ ہماری ایکسپورٹ کا پندرہ بیس فیصد وہاں جاتا ہے اور ہماری آدھی سے زیادہ ریمیٹنسز وہاں سے آتی ہیں۔ عربی جیسے بھی ہیں لیکن ہمارے ہر برے وقت میں کام آئے ہیں۔ ایٹم دھماکے کرتے ہوئے بھی، نواز شریف کی حکومت آتے ہی بھی اور اب جب ہم دیوالیہ ہورہے تھے تب بھی۔ اس لئے ان کی فوجی ضروریات کو کسی حد تک پورا کرنا ہی ہمارے فائدے میں ہے۔ کاش ہماری حالت یہ نہ ہوتی تو ہم اپنے اصول بنا سکتے۔ یہ لوگ جو دھمکیاں دے رہے تھے اور اب دونوں مل کر ۱۶ ارب ڈالر کیونکر دے گئے کا جواب بہت ہی سادہ ہے۔ راجہ صاحب یہ جو پیسے ملے ہیں اس میں نہ باجوہ کا کمال ہے نہ عمران کا اور نہ عربی ہم پر مہربان ہوئے ہیں۔ یہ امریکہ کا حکم تھا تو انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ پہلے امریکہ کی نظر میں ہم ڈبل گیم کر رہے تھے تو عربی بھی ہمیں دھمکیاں دیتے تھے اب امریکہ ہمارے رول سے خوش ہے تو عربیوں نے بھی نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں عزت دی ہے۔ اس بات کو پلے باندھ لیں کہ امریکہ نہ چاہتا تو عربیوں کی جرات نہی تھی کہ ہمیں ایک ڈالر بھی دیتے۔ یہ امریکہ اور مغربی بلاک کے غلام ہیں۔
.
۔(۲) ٹرمپ نے افغانستان سے نکلنے کا وعدہ کیا تھا اور اسے ہر صورت الیکشن سے پہلے نکلنا ہے۔ وہ یہاں ۲۰۰۰ ہزار ارب ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ اور پاکستان کی مدد کے بغیر وہ یہاں سے نہی نکل سکتے۔ پاکستان نے پندرہ سال طالبان کو پالا پوسا ہے اور پاکستان ہی انہیں یہاں تک لایا ہے۔ بات صرف یہاں تک نہی، آگے افغانستان کے حالات بھی پاکستان کے رول سے منسلق ہیں۔ امریکہ نے بلآخر پاکستان کی شرط مان کر یہ پراسس شروع کیا ہے۔ افغانستان سے انڈیا کا پتہ مکمل طور پر کاٹ دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس امن پراسس کا جو گروپ امریکہ نے بنایا وہ بھی روس چین امریکہ اور پاکستان پر مشتمل ہے اور بھارت کا نام ونشان تک نہی ہے۔ آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ اگلا افغان صدر طالبان کا ہی کوئی ماڈریٹ سا بندہ ہوگا۔ امریکہ جو پاکستان کو کاٹنے کو دوڑتا تھا بغیر وجہ عمران کو عزت اور باجوہ کو اکیس توپوں کی سلامی نہی دے رہا۔ اس کا مزید تجزیہ لکھنا چاہتا تھا لیکن وقت اور جگہ نہی ہے۔
.
۔(۳) ایک بات سب کو ذہن نشین کرنی چاہیے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات فوج کے ہاتھ میں ہیں۔ کسی سویلین کے ایک آدھ چول مارنے سے ان تعلقات پر ذرا برابر بھی اثر نہی پڑتا۔ پاکستان کا سارا دفاع چین کے ہاتھ ہے۔ اب ہمیں کہیں اور سے اسلحہ نہی ملتا۔ چین پاک فوج کی لائف لائن ہے۔ اسی طرح چین کے لئے پاکستان انتہائی حد تک ضروری ہے۔ ساؤتھ چائنا سی میں حالات کو دیکھتے ہوئے سی پیک ان کی لائف لائن ہے۔ موجودہ سول حکومت نے سی پیک کا رخ سڑکوں اور بجلی کے کارخانوں سے ہٹا کر زراعت اور صنعت کی طرف ضرور موڑا ہے لیکن ایسا فوج کے ساتھ مل کر کیا گیا ہے۔ تو نہ رزاق داؤد کا کچھ کہا میٹر کرتا ہے اور ہی پاکستان کے چین سے تعلقات میں کوئی سرد مہری ہے۔
.
۔(۴) مجھے معلوم ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کس حد تک پہنچی ہے۔ ذرے ذرے بارے معلومات رکھتا ہوں۔ اختلاف اس پر نہی بلکہ اس بات پر ہے کہ آپ آج بھی یہ ماننے کو تیار نہی کہ اس کی وجہ نواز شریف حکومت کے آخری دو سال کی پالیسیاں ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے یہ پاکستان کی مجبوری ہے اس کے علاوہ کوئی رستہ نہی تھا۔ یہاں آپ دنیا بھر کے اکانومسٹس لا کر بھی بٹھا دیتے تو یہی کچھ کرنا پڑنا تھا۔ آپ خوب جانتے ہین کہ نئی حکوت کو آتے ہی ۲۹ ارب ڈالر کی فوری ضرورت تھی ورنہ ہم ڈفالٹ ہو جاتے۔ اور اگر جو اقدامات اٹھائے گئے یہ نہ اٹھائے جاتے تو ہمیں پانچ سال میں ۱۵۶ ارب ڈالر قرض لینا پڑتا جو مل بھی نہی سکتا تھا۔ جب کنزمپشن بیسڈ (وہ بھی ادھار کی) گروتھ لی جاتی ہے اور بیرونی لین دین میں ۲۴ ارب ڈالر خسارہ ہر سال ہو اور ہر سال ۲۷ فیصد بڑھ بھی رہا ہو اور ساتھ دس ارب سالانہ قرض کی قسط بھی ہو تو اس کی قیمت عوام ہی ادا کرتے ہیں۔ آپ شکر کریں مصر اور ترکی جیسا حال نہی ہوا جہاں انفلیشن ۲۵ فیصد ہو گیا تھا، ہمارا تو بھر نو اور دس کے درمیان ہے۔ یہ ایڈجسٹمنٹس ایک سال مزید ایسی ہی رہیں گیں۔ اس کے بعد انفلیشن بھی نیچے آئے گا اور شرح سود بھی۔ جب شرح سود نیچے آئے گی تو خود بہ خود سٹاک مارکیٹ واپس اوپر جائے گی۔ آجکل بنکوں کا منافع زیادہ ہونے کی وجہ سے سارے سرمایہ کار اپنا پیسہ سٹاک سے نکال کر گورنمنٹ بانڈ پر لگا رہے ہیں کہ وہاں ۱۴ فیصد بغیر رسک منافع مل رہا ہے۔ اس بارے مزید بات پھر سہی۔