Wazaif for 15th Shaban - Shab e Barat.

Munaim Tahir

Councller (250+ posts)

May Allah forgive all of us and guide us to the right path. Remember me in your prayers.


2yls187.png
 
Last edited by a moderator:

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)


شب برأت‘ حقیقت کیا ہے؟

محمد آصف اقبال



کہا کہ: چھوڑو اْن لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے"۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسے گمراہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے ؟ قرآن ہمارے سوال کا جواب دیتے ہوئے راہنمائی کرتا ہے اورفرماتا ہے کہ :"ہاں مگر یہ قرآن سْناکر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کیے کرتْوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے"(الانعام:۷۰)۔یہ وہ صورتحال ہے جس کا ہر مسلمان کو پاس و لحاظ رکھنا ہے۔ایک جانب خود اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کو گمراہ کن کاموں سے دور کھناہے دوسری طرف ان گمراہ لوگوں سے نفرت کرنے اور دوری بنانے کی بجائے ان کی اصلاح کی فکر کرنی ہے۔اس کے لیے ان کو :قرآن و حدیث کی روشنی میں نصیحت کرنی ہے ، آخرت کی ہولناکیوں سے متنبہ کرنا ہے ،جنت کی نعمتیں بیان کرنی ہیں اور ساتھ ہی وہ بشارتیںسناناہیںجو کامیابی اور سرخروئی حاصل کرنے والوں کے لیے بیان ہوئیں ہیں۔فی الوقت ہم جس مسلہ ٔ پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں وہ شب برات ہے۔شب برات کی حیثیت کیا ہے اور اس کو کس طرح گزارنا چاہیے؟سنت محمدیؐ ہماری کیا راہنمائی کرتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت اور عقیدت رکھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین کا اس معاملے میں کیا رویہ تھا۔یہ وہ باتیں ہیں جن پر غور و خوض کرنا نہایت ضروری ہے۔ صورت ِ واقعہ یہ ہے کہ آج امت مسلمہ نے شب برات کو تہوار سمجھ لیا ہے اور ساتھ ہی اس کے کچھ مخصوص مراسم بھی مقر رکر لیے ہیں جن کی شدت سے پابندی کی جاتی ہے۔ جس طرح محرم ایک تہوار بن چکا ہے اسی طرح دوسرے نمبر کا تہوار شب برات ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بنائوٹی اور خود ساختہ تہوار ہے۔ نہ قرآن میں اس کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ ہی احادیث میں۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں تاریخ سے بھی اس کا کوئی پتا نہیں چلتا اور نہ ہی ابتدائی زمانے کے بزرگانِ دین ہی اس تہوار کو اسلامی تہوار قرار دیتے ہیں۔ دراحقیقت اسلام رسموں اور تہواروں کا مذہب نہیں ہے۔ یہ تو ایک سیدھا اور معقول مذہب ہے جو فضول کاموں میں وقت، محنت اور دولت کی بربادیوں سے بچا کر زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان کاموں میں آدمی کو مشغول کرنا چاہتا ہے جو دنیا اور آخرت کی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہوں۔ ایسے مذہب سے یہ توقع کرنا کہ وہ سال میں ایک دن حلوے پکانے اور آتش بازیاں چھوڑنے کے لیے مخصوص کرے گا ا،یہ سب باتیں عقل سے بعید تر ہیں۔اللہ کے نبی نے مسلمانوں کے لیے اس قسم کی رسمیں اور تہوار پسند نہیں کیے بلکہ اگر اُس زمانے میں یہ اور اس قسم کی دیگر خرافات انجام دی جاتیں تو لازماً اس کو حکماً روک دیا جاتا اور جو ایسی رسمیں اس زمانہ میں موجود تھیں ان کو روکا بھی گیا۔ اس رات کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور پیدائش اور موت کے معاملات طے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سب روایات ضعیف ہیںاور ہر ایک کی سند میں کوئی نہ کوئی کمزوری موجود ہے۔ اس لیے حدیث کی قدیم تر اور زیادہ معتبر کتابوں میں کہیں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی چیز اسلامی لٹریچر میں ملتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ شعبان کی پندرھویں شب کو حضرت عائشہؓ نے آنحضرتؐ کو بستر پر نہ پایا اور وہ آپ کو تلاش کرنے کے لیے نکلیں۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بقیع کے قبرستان پہنچیں۔ وہاں آپ کو موجود پایا۔ وجہ دریافت کرنے پر آپؐ نے فرمایا کہ اس رات کو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف توجہ فرماتا ہے اور قبیلۂ بنی کلب کی بھیڑوں کے جس قدر بال ہیں اس قدر انسانوں کے گناہ معاف کرتا ہے۔ لیکن حدیث کے مشہور امام ترمذیؒ نے اس روایت کوبھی ضعیف قرار دیا ہے اور اپنی تحقیق یہ بیان کی ہے کہ اس کی سند صحیح طور پر حضرت عائشہ ؓ تک نہیں پہنچتی۔تاہم اگر اس کی کوئی اصلیت تسلیم بھی کر لی جائے تو حد سے حد بس اتنا ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس رات میں عبادت کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرنا ایک اچھا فعل ہے جسے انفرادی طور پر لوگ کریں تو ثواب پائیں گے۔ اس سے بڑھ کر کوئی ایسی چیزان روایتوں سے ثابت نہیں ہوتی جس سے یہ سمجھا جائے کہ چودھویں تاریخ کو یا پندرھویں شب کو اسلام میں عید قرار دیا گیا ہے یا کوئی اجتماعی عبادت مقرر کی گئی ہے۔حلوے اور آتش بازی کا معاملہ تو خیر اس قدر کھلا ہوا ہے کہ جو شخص کچھ بھی اسلام کے متعلق جانتا ہے وہ پہلی ہی نظر میں یہ کہہ دے گا کہ ان چیزوں کی پابندی اس مذہب کی روح کے خلاف ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رمضان کی آمد سے پہلے ہی شعبان کے مہینہ میں ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور یہ بات حدیث کی زیادہ معتبر کتابوں سے ثابت ہے ۔رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبری جیسے عظیم الشان منصب پر مامور کیا گیا اور قرآن جیسی لازوال کتاب کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس وجہ سے نہ صرف رمضان میں آپؐ غیر معمولی طور پر عبادت فرمایا کرتے تھے بلکہ اس سے پہلے ہی آپؐ عبادت میں عام دنوں کے مقابلے زیادہ مصروف ہو جایا کرتے۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت اُمّ ِ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رمضان کے سواسال کے باقی گیارہ مہینوں میں صرف شعبان ہی ایسا مہینہ تھا جس میں آپؐ سب سے زیادہ روزے رکھتے تھے بلکہ تقریباً پورا مہینہ ہی روزے رکھتے گزر جاتا تھا۔لیکن آپؐ کا یہ طرز عمل اپنی ذات کے لیے خاص تھا اور اس گہرے روحانی تعلق کی بنا پر تھا جو نزول قرآن کے مہینے سے آپؐ کو تھا۔رہے عام مسلمان، تو ان کو اپؐ نے ہدایت فرمادی تھی کہ ماہِ شعبان کے آخری پندرہ دنوں میں روزے نہ رکھا کریں۔ کیونکہ اس میں یہ اندیشہ تھا کہ اگر عادتاً لوگ اس مہینہ کے آخری دنوں میں روزے رکھنے لگے تو رفتہ رفتہ یہ ایک لازمی رسم بن جائے گی اور رمضان کے فرض روزوں پر خواہ مخواہ دس پندرہ مزید روزوں کا اضافہ ہو جائے گا۔ اور اس طرح لوگوں پر وہ بار پڑ جائے گا جو خدا نے ان پر نہیں رکھا ہے۔ مسلمانوں میںآتش بازی کی ابتدائ: تاریخ کے حوالہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ۱۳۲ھ میں جب بنو عباس نے بنو امیہ سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی تو انہوں نے دیکھا کہ بنو امیہ کو شکست دینا آسان کام نہیں کیونکہ عرب کے جنگجو لوگ اموی حکومت کے ساتھ ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایرانیوں اور عجمیوں سے تعاون لینے کے لیے سوچا۔ ایرانی آتش پرست تھے مگر فاروقی اور عثمانی حکومت کی فتوحات نے مجوسی آتش کدوں کو سرد کر دیا تھا مگر آتش پرست ایرانی مسلمانیت کا لبادہ اوڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے۔ ایرانیوں کا ایک مشہور خاندان"خاندان برامکہ"تھا ۔ "برمک"کہتے ہیں آتش کدے کی آگ روشن کرنے اور اس کی نگرانی کرنے والے کو ۔یہ مجوسیوں کے ہاں سب سے بڑا مذہبی عہدہ سمجھا جاتا تھا۔ جب مسلمانوں کی آمد سے برمک عہدے بھی ختم ہو گئے تو برمکی خاندان کے لوگوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا مگر اندورنِ خانہ آگ سے محبت برقرار رکھی۔ جب بنوعباس نے بنو امیہ سے اقتدار چھینا تو ایسے نو مسلم عجمیوں سے تعاون لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایرانی امور سلطنت میں شامل ہو گئے۔ بلکہ برمکی خاندان نے تو حکومت اسلامیہ میں بڑے بڑے عہدے حاصل کر لیے اور خالد برمکی تو وزیراعظم کے عہدے تک جا پہنچا۔ ۱۶۳ھ میں خالد کا انتقال ہو ا تو خلیفہ ہارون الرشید نے اس کے بیٹے یحییٰ برمکی کووزارت کا قلمدان سونپ دیا۔ برمکی چونکہ سابقہ آگ پرست تھے اس لیے یحیٰ برمکی نے خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں مقدس آگ کو روشن کرنے کا ایک عجیب طریقہ ایجاد کیا۔ اور خصوصاً شعبان کی پندرھویں رات کو نیک اعمال سے منسوب کرکے اس رات کثرت سے چراغاں کیا۔آگ روشن کرنے کا مقصد لوگوں کے دلوں میں آگ کا تقدس اور وقار پیدا کرنا تھا۔ مساجد میں چراغاں کی بدعت کو اسی نے ایجاد کیا تاکہ وہ اس طرح آگ کی پوجا کر سکیں گویا آتش بازی اور چراغاں کی رسم اسلام میں ڈیڑھ سو سال بعد جاری ہوئی ۔پھر زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی رہیں اور آتش بازی کی جدید صورت جو آج ہمارے سامنے موجود ہے اس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔(جاری ہے

 

Munaim Tahir

Councller (250+ posts)
Acha bhai jaan, ap hazar percent sahi hain,lakin mujhy sirf itna batain k aik raat uth ker Allah Talah ki ibaadat mai kya harj hain. Ap nai agar Allah Talah ki ibaadat nhi kerni or Allah Talah ki ibadat ko biddat kehty hain to apka Allah hi hafiz hai.


شب برأت‘ حقیقت کیا ہے؟

محمد آصف اقبال



کہا کہ: چھوڑو اْن لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے"۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسے گمراہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے ؟ قرآن ہمارے سوال کا جواب دیتے ہوئے راہنمائی کرتا ہے اورفرماتا ہے کہ :"ہاں مگر یہ قرآن سْناکر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کیے کرتْوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے"(الانعام:۷۰)۔یہ وہ صورتحال ہے جس کا ہر مسلمان کو پاس و لحاظ رکھنا ہے۔ایک جانب خود اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کو گمراہ کن کاموں سے دور کھناہے دوسری طرف ان گمراہ لوگوں سے نفرت کرنے اور دوری بنانے کی بجائے ان کی اصلاح کی فکر کرنی ہے۔اس کے لیے ان کو :قرآن و حدیث کی روشنی میں نصیحت کرنی ہے ، آخرت کی ہولناکیوں سے متنبہ کرنا ہے ،جنت کی نعمتیں بیان کرنی ہیں اور ساتھ ہی وہ بشارتیںسناناہیںجو کامیابی اور سرخروئی حاصل کرنے والوں کے لیے بیان ہوئیں ہیں۔فی الوقت ہم جس مسلہ ٔ پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں وہ شب برات ہے۔شب برات کی حیثیت کیا ہے اور اس کو کس طرح گزارنا چاہیے؟سنت محمدیؐ ہماری کیا راہنمائی کرتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت اور عقیدت رکھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین کا اس معاملے میں کیا رویہ تھا۔یہ وہ باتیں ہیں جن پر غور و خوض کرنا نہایت ضروری ہے۔ صورت ِ واقعہ یہ ہے کہ آج امت مسلمہ نے شب برات کو تہوار سمجھ لیا ہے اور ساتھ ہی اس کے کچھ مخصوص مراسم بھی مقر رکر لیے ہیں جن کی شدت سے پابندی کی جاتی ہے۔ جس طرح محرم ایک تہوار بن چکا ہے اسی طرح دوسرے نمبر کا تہوار شب برات ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بنائوٹی اور خود ساختہ تہوار ہے۔ نہ قرآن میں اس کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ ہی احادیث میں۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں تاریخ سے بھی اس کا کوئی پتا نہیں چلتا اور نہ ہی ابتدائی زمانے کے بزرگانِ دین ہی اس تہوار کو اسلامی تہوار قرار دیتے ہیں۔ دراحقیقت اسلام رسموں اور تہواروں کا مذہب نہیں ہے۔ یہ تو ایک سیدھا اور معقول مذہب ہے جو فضول کاموں میں وقت، محنت اور دولت کی بربادیوں سے بچا کر زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان کاموں میں آدمی کو مشغول کرنا چاہتا ہے جو دنیا اور آخرت کی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہوں۔ ایسے مذہب سے یہ توقع کرنا کہ وہ سال میں ایک دن حلوے پکانے اور آتش بازیاں چھوڑنے کے لیے مخصوص کرے گا ا،یہ سب باتیں عقل سے بعید تر ہیں۔اللہ کے نبی نے مسلمانوں کے لیے اس قسم کی رسمیں اور تہوار پسند نہیں کیے بلکہ اگر اُس زمانے میں یہ اور اس قسم کی دیگر خرافات انجام دی جاتیں تو لازماً اس کو حکماً روک دیا جاتا اور جو ایسی رسمیں اس زمانہ میں موجود تھیں ان کو روکا بھی گیا۔ اس رات کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور پیدائش اور موت کے معاملات طے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سب روایات ضعیف ہیںاور ہر ایک کی سند میں کوئی نہ کوئی کمزوری موجود ہے۔ اس لیے حدیث کی قدیم تر اور زیادہ معتبر کتابوں میں کہیں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی چیز اسلامی لٹریچر میں ملتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ شعبان کی پندرھویں شب کو حضرت عائشہؓ نے آنحضرتؐ کو بستر پر نہ پایا اور وہ آپ کو تلاش کرنے کے لیے نکلیں۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بقیع کے قبرستان پہنچیں۔ وہاں آپ کو موجود پایا۔ وجہ دریافت کرنے پر آپؐ نے فرمایا کہ اس رات کو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف توجہ فرماتا ہے اور قبیلۂ بنی کلب کی بھیڑوں کے جس قدر بال ہیں اس قدر انسانوں کے گناہ معاف کرتا ہے۔ لیکن حدیث کے مشہور امام ترمذیؒ نے اس روایت کوبھی ضعیف قرار دیا ہے اور اپنی تحقیق یہ بیان کی ہے کہ اس کی سند صحیح طور پر حضرت عائشہ ؓ تک نہیں پہنچتی۔تاہم اگر اس کی کوئی اصلیت تسلیم بھی کر لی جائے تو حد سے حد بس اتنا ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس رات میں عبادت کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرنا ایک اچھا فعل ہے جسے انفرادی طور پر لوگ کریں تو ثواب پائیں گے۔ اس سے بڑھ کر کوئی ایسی چیزان روایتوں سے ثابت نہیں ہوتی جس سے یہ سمجھا جائے کہ چودھویں تاریخ کو یا پندرھویں شب کو اسلام میں عید قرار دیا گیا ہے یا کوئی اجتماعی عبادت مقرر کی گئی ہے۔حلوے اور آتش بازی کا معاملہ تو خیر اس قدر کھلا ہوا ہے کہ جو شخص کچھ بھی اسلام کے متعلق جانتا ہے وہ پہلی ہی نظر میں یہ کہہ دے گا کہ ان چیزوں کی پابندی اس مذہب کی روح کے خلاف ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رمضان کی آمد سے پہلے ہی شعبان کے مہینہ میں ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور یہ بات حدیث کی زیادہ معتبر کتابوں سے ثابت ہے ۔رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبری جیسے عظیم الشان منصب پر مامور کیا گیا اور قرآن جیسی لازوال کتاب کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس وجہ سے نہ صرف رمضان میں آپؐ غیر معمولی طور پر عبادت فرمایا کرتے تھے بلکہ اس سے پہلے ہی آپؐ عبادت میں عام دنوں کے مقابلے زیادہ مصروف ہو جایا کرتے۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت اُمّ ِ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رمضان کے سواسال کے باقی گیارہ مہینوں میں صرف شعبان ہی ایسا مہینہ تھا جس میں آپؐ سب سے زیادہ روزے رکھتے تھے بلکہ تقریباً پورا مہینہ ہی روزے رکھتے گزر جاتا تھا۔لیکن آپؐ کا یہ طرز عمل اپنی ذات کے لیے خاص تھا اور اس گہرے روحانی تعلق کی بنا پر تھا جو نزول قرآن کے مہینے سے آپؐ کو تھا۔رہے عام مسلمان، تو ان کو اپؐ نے ہدایت فرمادی تھی کہ ماہِ شعبان کے آخری پندرہ دنوں میں روزے نہ رکھا کریں۔ کیونکہ اس میں یہ اندیشہ تھا کہ اگر عادتاً لوگ اس مہینہ کے آخری دنوں میں روزے رکھنے لگے تو رفتہ رفتہ یہ ایک لازمی رسم بن جائے گی اور رمضان کے فرض روزوں پر خواہ مخواہ دس پندرہ مزید روزوں کا اضافہ ہو جائے گا۔ اور اس طرح لوگوں پر وہ بار پڑ جائے گا جو خدا نے ان پر نہیں رکھا ہے۔ مسلمانوں میںآتش بازی کی ابتدائ: تاریخ کے حوالہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ۱۳۲ھ میں جب بنو عباس نے بنو امیہ سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی تو انہوں نے دیکھا کہ بنو امیہ کو شکست دینا آسان کام نہیں کیونکہ عرب کے جنگجو لوگ اموی حکومت کے ساتھ ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایرانیوں اور عجمیوں سے تعاون لینے کے لیے سوچا۔ ایرانی آتش پرست تھے مگر فاروقی اور عثمانی حکومت کی فتوحات نے مجوسی آتش کدوں کو سرد کر دیا تھا مگر آتش پرست ایرانی مسلمانیت کا لبادہ اوڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے۔ ایرانیوں کا ایک مشہور خاندان"خاندان برامکہ"تھا ۔ "برمک"کہتے ہیں آتش کدے کی آگ روشن کرنے اور اس کی نگرانی کرنے والے کو ۔یہ مجوسیوں کے ہاں سب سے بڑا مذہبی عہدہ سمجھا جاتا تھا۔ جب مسلمانوں کی آمد سے برمک عہدے بھی ختم ہو گئے تو برمکی خاندان کے لوگوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا مگر اندورنِ خانہ آگ سے محبت برقرار رکھی۔ جب بنوعباس نے بنو امیہ سے اقتدار چھینا تو ایسے نو مسلم عجمیوں سے تعاون لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایرانی امور سلطنت میں شامل ہو گئے۔ بلکہ برمکی خاندان نے تو حکومت اسلامیہ میں بڑے بڑے عہدے حاصل کر لیے اور خالد برمکی تو وزیراعظم کے عہدے تک جا پہنچا۔ ۱۶۳ھ میں خالد کا انتقال ہو ا تو خلیفہ ہارون الرشید نے اس کے بیٹے یحییٰ برمکی کووزارت کا قلمدان سونپ دیا۔ برمکی چونکہ سابقہ آگ پرست تھے اس لیے یحیٰ برمکی نے خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں مقدس آگ کو روشن کرنے کا ایک عجیب طریقہ ایجاد کیا۔ اور خصوصاً شعبان کی پندرھویں رات کو نیک اعمال سے منسوب کرکے اس رات کثرت سے چراغاں کیا۔آگ روشن کرنے کا مقصد لوگوں کے دلوں میں آگ کا تقدس اور وقار پیدا کرنا تھا۔ مساجد میں چراغاں کی بدعت کو اسی نے ایجاد کیا تاکہ وہ اس طرح آگ کی پوجا کر سکیں گویا آتش بازی اور چراغاں کی رسم اسلام میں ڈیڑھ سو سال بعد جاری ہوئی ۔پھر زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی رہیں اور آتش بازی کی جدید صورت جو آج ہمارے سامنے موجود ہے اس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔(جاری ہے

 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
Acha bhai jaan, ap hazar percent sahi hain,lakin mujhy sirf itna batain k aik raat uth ker Allah Talah ki ibaadat mai kya harj hain. Ap nai agar Allah Talah ki ibaadat nhi kerni or Allah Talah ki ibadat ko biddat kehty hain to apka Allah hi hafiz hai.

Moahtram Bahi,app is se ghalt andaza nah lagain,ibadat se insan ko kis ne rooka hain, mazmoon navees ne to sirif ye batane ki kooshah ki hai ke, hum ne kis tara is din ki ehamayyat ko kum kerne ki koshash ki hai...ab atash bazi ka koi jawaz hai is din ke bare men..........Kisi bi maslak ke ulama se bat keren wo is ki nafi hi keren gen,
Allah hum sub ko muaaf kere our sahi manoon me amal our samjene ki toufeeq de......ameen

 

indigo

Siasat.pk - Blogger
اگرچہ پورا مسلمان تو نہیں لیکن
میں اپنے دین سے رشتہ تو جوڑ سکتا ہوں
نماز و روزہ و حج و زکوٰۃ کچھ نہ سہی
:)شب برات پٹاخہ تو چھوڑ سکتا ہوں :)
@barca
 

onlykami

MPA (400+ posts)
Ibadat karnay say aapko koi nahi rok sakta aur aap karain har raat uth kar karain per kisi din ko ibadat kalya makhsoos kar laina jiski sahi daleel na ho isi amal ko bidat kahtay hain k aap nay deen main aik ibadat ka izafa kar dya baki [MENTION=12282]sahiL[/MENTION] nay jo clips share kya hain aap unhain bhi mulahiza kijya aur dono taraf k point of view lain aur un bias ho kar faisla karain ----- Allah hum sab ko hidayat dey amen

Acha bhai jaan, ap hazar percent sahi hain,lakin mujhy sirf itna batain k aik raat uth ker Allah Talah ki ibaadat mai kya harj hain. Ap nai agar Allah Talah ki ibaadat nhi kerni or Allah Talah ki ibadat ko biddat kehty hain to apka Allah hi hafiz hai.
 

Back
Top