The bigger picture of US Shutdown Part 1 & 2 - Masood Anwar

Muhkam

MPA (400+ posts)
امریکا میں شٹ ڈاوٴن


[email protected]
احباب کی شکایت ہے کہ میں نے امریکا میں ہونے والے حالیہ اقتصادی بحران یا شٹ ڈاوٴن پر اب تک کچھ نہیں لکھا ہے۔ اس پر کچھ روشنی ڈالی جائے۔ اصل میں میرا موضوع ہی یہی بینکار ہیں اور اس پر میں اب تک اتنا لکھ چکا ہوں کہ مجھے اب اس موضوع پر کچھ نیا نہیں معلوم ہورہا ۔ اسی اقتصادی بحران اور بینکاروں کی سازشوں پر مبنی میں ایک مکمل کتاب جنگوں کے سوداگر تحریر کرچکا ہوں۔

اس لیے اب تک میں نے اس موضوع پر کچھ تحریر نہیں کیا تھا۔
امریکا میں آنے والا حالیہ بحران نیا نہیں ہے تاہم پہلے سے شدید ضرور ہے کہ سترہ سال کے بعد پہلی مرتبہ حکومت کو شٹ ڈاوٴن کی کال دینی پڑی۔ اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں انتہائی تفصیل کے ساتھ میں نے یہ بتایا ہے کہ دنیا پر ایک عالمگیرشیطانی حکومت کے قیام کے لیے کس طرح شیطان کے ماننے والوں نے دنیا میں بینکاری نظام کی بنیاد رکھی او رسب سے پہلے بینک آف انگلینڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد برطانیہ، فرانس اور امریکا ، سب ایک ایک کرکے ان کے تسلط میں آتے چلے گئے۔ فیڈرل ریزرو بینک آف امریکا کے قیام کے ساتھ ہی دنیا بھر پر ان کے قبضے کی راہ ہموار ہوگئی اور اب یورپ، امریکا، ایشیا، افریقہ، دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے جو ان بینکاروں کے اشاروں پر نہیں ناچ رہا۔ کون سا ایسا ملک بچا ہے جہاں پر ان کی کٹھ پتلی حکومت قائم نہیں ہے۔ اسی طرح میں اکثر اپنے کالموں میں اس موضوع پرلکھتا رہا ہوں کہ موجودہ تیسری عالمگیر جنگ جس کا آغاز افغانستان پر روسی حملے کے آغاز سے ہوا تھا، کے سب سے بڑے متاثر فرسٹ ورلڈ کے ہی باسی ہیں۔ امریکا، برطانیہ ، فرانس اور وہ تمام ممالک جو ان بینکاروں کے اشاروں پر دنیا بھر میں فوج کشی کرتے پھر رہے ہیں، کے عوام ہی اس جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ جب 2010 میں ، میں نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ امریکا روز چار ارب ڈالر کا مقروض ہوجاتا ہے اور برطانیہ کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے تو بہت سارے لوگوں کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی۔

بینکاروں کے طریقہ واردات کو ہم ایک مثال سے بہت آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی بینکار آپ کا کتنا ہی قریبی دوست کیوں نہ ہو، آپ کو اس وقت تک ایک ہزار روپے کا قرض نہیں دے گا جب تک وہ آپ کی دو ہزار روپے کی جائیداد بطور ضمانت اپنے پاس گروی نہیں رکھ لے گا۔ فرض کریں کہ آپ نے قرض پانچ سال کے لیے لیا ہے اور آپ باقاعدگی سے وقت پر سود سمیت اس کی قسطیں بھی ادا کررہے ہیں تو اس کی کوشش ہوگی کہ وہ آپ کو مزید قرض دے
۔ اگر آپ پانچ سال کے بجائے ایک سال میں ہی اس کا قرض ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس کی تیوریوں پر بل پڑ جائیں گے۔اگر آپ اپنے قرض کی یکمشت ادائیگی پر اصرار کریں گے تو وہ آپ پر پنالٹی عائد کردے گا۔ ہاں اگر آپ پانچ سال کے بجائے بیس سال تک کی قسطیں کرانا چاہتے ہیں تو وہ آپ کو چائے ٹھنڈا بھی پلائے گا اور ایسا فورا کردے گا۔ اب اس بینکار کی کوشش ہوگی کہ آپ اس سے مزید قرض لے لیں۔ ایسا ہی آپ کریڈٹ کارڈ کے معاملے پر دیکھیں۔ اگر آپ کی حد پچاس ہزار روپے ہے اور آپ وقت پر ادائیگی کررہے ہیں تو بینک آپ کی حد فورا پانچ لاکھ کردے گا۔ اس کی کوشش ہوگی کہ آپ کسی طرح ڈیفالٹ کرجائیں اور ماہانہ قسطوں پر آجائیں۔ اس سے جو قرض لیا ہے وہ ادا نہ کرسکیں اور اس قرض کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لیں۔ ظاہر ہے مزید قرض کی ادائیگی کے لیے آپ اپنی مزید جائیداد اس کے پاس گروی رکھیں گے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک کہ آپ کے پاس جائیداد ہے۔ جیسے ہی جائیدد ختم ہوگی وہ آپ کو اور آپ کے خاندان کو غلام بنالے گا۔

بالکل یہی صورتحال ممالک کے ساتھ بینکوں کی ہے۔یہ بینک ممالک کو بھی قرضے اثاثوں کو گروی رکھے بغیر جاری نہیں کرتے۔ یہ بینک کوشش کرتے ہیں کہ ان کے ایجنٹ حکمراں مسلسل قرض لیتے ہیں اور پورے ملک کو یکے بعد دیگرے ان کے پاس گروی رکھتے رہیں۔ جیسے ہی اثاثے ختم ہوں گے، انسانی اثاثے غلام بننا شروع ہوجائیں گے اور یہی ان بینکاروں کا حتمی ہدف ہے۔چاہے امریکا ہو، برطانیہ ہو ، عرب ممالک ہوں یا پاکستان ہو، ذرا یہ تو دیکھئے کہ ان ممالک کو قرض دیتا کون ہے۔ یہی بینکار
۔اب امریکا کی قرض حاصل کرنے کی حد ختم ہوگئی ہے تو یہ بینکار پاگل ہوگئے ہیں اور انہوں نے امریکی قوم کا بازو موڑنا شروع کردیا ہے کہ مزید قرض لو ورنہ تمہارا حشر کردیا جائے گا۔ یہ تو امریکا ہے جہاں کی صورتحال واضح ہے۔ ذرا پاکستان کی تو خبر لیجئے کہ نئی حکومت نے محض ساڑھے تین ماہ میں مزید کتنا قرض لیا۔ آئی ایم ایف یعنی بینکاروں کے پاس کیا کیا گروی رکھا اور کن شرائط پر رکھا۔اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ یہ چاہے مشرف ہو، زرداری ہو یا نواز شریف، یہ سب کے سب اسی طرح دیے گئے اسکرپٹ پر کام کرتے ہیں جس طرح بش اور اوباما کرتے ہیں

۔جان لیجئے اور سمجھ لیجئے کہ یہ بینکار ہی ہیں جو اس دنیا پر شیطان کی ایک عالمگیر حکومت کے لیے کوشاں ہیں اور ان کا سب بڑا ہتھیار سود ہی ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم کوشش کرکے انفرادی طور پر تو اس سے بچ سکتے ہیں مگر بحیثیت قوم بے بس ہیں کہ مشرف، زرداری، شریف، بش، اوباما وغیرہ وغیرہ ان ہی کے تنخواہ دار ایجنٹ ہیں۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش
۔

http://masoodanwar.wordpress.com/
 

Muhkam

MPA (400+ posts)
امریکا میں شٹ ڈاوٴن حصہ دوم[email protected]

امریکا میں ہونے والے شٹ ڈاوٴن کے بارے میں چونکہ پاکستانی میڈیا میں بنیادی باتیں اب تک سامنے نہیں آئی ہیں اس لیے اس بارے میں پاکستان میں خاصا کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ چونکہ امریکا اس وقت عالمی سیاست میں مرکزی کردار کا حامل ہے اور ویسے بھی اب ہم گلوبل ولیج میں رہ رہے ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ معاملات سے درست طور پر آگاہی ہوجائے تاکہ عالمی سیاست اور آئندہ کا نقشہ سمجھنے میں آسانی رہے۔

سب سے پہلے تو اس بنیادی سوال کا جواب دیکھتے ہیں کہ یہ شٹ ڈاوٴن ہے کیا اور کیا یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے یا اس سے قبل بھی ہوتا رہا ہے۔ اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہے کہ اس شٹ ڈاوٴن میں اور امریکا میں قرضوں کے بحران میں کیا فرق ہے اور کیا تعلق ہے۔ اور آخری منطقی سوال یہی ہے کہ اس کے امریکا پر اور پھر دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

امریکا کا مالی سال یکم اکتوبر سے شروع ہوتا ہے اور تیس ستمبر کو ختم ہوتا ہے۔ مالی سال شروع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سالانہ بجٹ کی منظوری۔ اس سالانہ بجٹ میں ہی بتایا گیا ہوتا ہے کہ وفاقی ملازمین کی تنخواہیں کیا ہوں گی، فوجی اخراجات کیا ہوں گے، ملک میں اگر کوئی نیا ترقیاتی منصوبہ شروع کرنا ہے تو اس کا مالی حجم کیا ہوگا وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔ اسی طرح آمدنی کی صورتحال کا تذکرہ ہوتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جائیں گی۔ آیا ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے گی یا پھر نیا قرض حاصل کیا جائے گا۔ پاکستان میں مالی سال یکم جولائی سے شروع ہوتا ہے اس لیے یہ ساری ایکسرسائیز جون میں ہوجاتی ہے تاکہ یکم جولائی سے نیا سال شروع ہونے پر کسی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ امریکا میں بھی ہر برس ایسا ہی ہوتا ہے مگر کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کانگریس کے ارکان حکومت کی جانب سے دی جانے والی بجٹ تجاویز سے متفق نہیں ہوتے اور بجٹ منظور نہیں ہوپاتا۔حکومت حزب اختلاف کی نہیں مانتی اور حزب اختلاف حکومت کی نہیں مانتی ۔ جس کی وجہ سے معاملہ بڑھتا جاتا ہے اور پھر بالاخر نیا مالی سال شروع ہوجاتا ہے۔ چونکہ حکومت کے پاس اخراجات کی منظوری نہیں ہوتی اس لیے علامتی طور پر چند وفاقی محکموں کو بند کردیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ امریکا میں شٹ ڈاوٴن کی کال دے دی گئی۔ چونکہ صحت ، سیکوریٹی، تعلیم وغیرہ وفاق کے بجائے ریاستوں کی ذمہ داری ہے ، اس لیے اس پر کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح ایئرپورٹ پر سیکوریٹی، ناسا اور پنٹاگون جیسے اہم اخراجات کو اس شٹ ڈاوٴن سے استثنیٰ دے دیا جاتا ہے ۔ یوں ہمیں اس کے اثرات دیکھنے میں امریکی معاشرہ میں نظر نہیں آتے مگر اس کے اثرات امریکی معیشت کے ساتھ ساتھ دنیا پر بھی ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ کیسے ؟ اس کی تفصیل ذرا آگے۔

اب ایک اور ضمنی سوال۔ کیا یہ امریکا کا پہلا شٹ ڈاوٴن ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ امریکا میں اس سے قبل بھی شٹ ڈاوٴن ہوتے رہے ہیں۔ کچھ کا دورانیہ محض چند گھنٹوں کا رہا ہے جبکہ عمومی طور پر یہ دو سے تین دن میں ختم ہوجاتا ہے۔ تاہم طویل ترین شٹ ڈاوٴن 21 دنوں پر محیط رہا ہے۔یہ گزشتہ شٹ ڈاوٴن تھا جو 16 دسمبر 1995 کو شروع ہوا تھا اور 5 جنوری 1996 تک جاری رہا تھا۔

اب دوسرے سوال کا جواب دیکھتے ہیں کہ قرض کے بحران اور شٹ ڈاوٴن میں کیا فرق ہے اور ان میں آپس میں کیا تعلق ہے۔ دیکھنے میں تو یہ دونوں بالکل الگ الگ ایشو ہیں۔ شٹ ڈاوٴن میں حکومت کے پاس اخراجات کرنے کی قانونی اجازت نہیں ہوتی جبکہ قرض کے بحران میں حکومت کے پاس اخراجات کی منظوری تو ہوتی ہے مگر اخراجات کے لیے نہ تو اس کے پاس رقم ہوتی ہے اور نہ ہی اسے مزید قرض حاصل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ان میں آپس میں یہ تعلق ہے کہ نتیجہ دونوں کا ایک ہی نکلتا ہے یعنی حکومت کے پاس اپنے ضروری اخراجات کے لیے یا تو رقم موجود نہیں ہوتی یا پھر اس کی منظوری نہیں ہوتی۔ اس طرح حکومت کے تمام پروجیکٹس پر کام رک جاتا ہے اور وفاقی ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی ممکن نہیں ہوپاتی۔
امریکی حکومت کے بارے میں امریکا میں بھی اور باہر بھی ایک تاثر انتہائی غلط ہے اور وہ یہ کہ امریکا دنیا کا امیر ترین ملک ہے۔ اصل میں ہم اسلحہ و تیل کی تمام کمپنیوں کو امریکی کمپنی تصور کرتے ہیں جبکہ یہ تمام نجی کمپنیاں ہیں جو ملٹی نیشنل ہیں اور تقریبا یہ تمام کی تمام کیمین جزیروں پر رجسٹرڈ ہیں ۔ اس طرح یہ امریکا میں ٹیکس کی بھی ادائیگی نہیں کرتیں۔ اب عالمی سازش کاروں کی ہدایت پر امریکا دنیا بھر میں جو بھی فوج کشی کرتا ہے اس کا خمیازہ اس کے ٹیکس ادا کرنے والوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔امریکا کو اپنے فوجی اخراجات اور روزمرہ کے اخراجات کی ادائیگی کے لیے ہر روز چار ارب ڈالر کا قرض لینا پڑتا ہے۔امریکی کانگریس کی جانب سے امریکی حکومت پر قرض لینے کی ایک حد مقرر کی جاتی ہے ۔ جب قرض کی رقم اس حد تک پہنچ جاتی ہے تو مزید اخراجات کے لیے قانونی طور پر حکومت بینکوں سے مزید قرض نہیں لے سکتی۔ اس طرح حکومت کے پاس اخراجات کے لیے رقم نہیں ہوتی۔ اسے قرض کا بحران کہا جاتا ہے۔ اس وقت امریکا پر قرض کی حد 16.4 ٹریلین ڈالر ہے جو توسیع کرکے 2011 میں مقرر کی گئی تھی۔ تکینیکی طور پر امریکا اس حد کو 31 دسمبر 2012 میں پار کرچکا ہے۔ تاہم اس برس جنوری میں خصوصی اقدام کے ذریعے امریکی حکومت کو اس میں مہلت دے دی گئی تھی اور عبوری طور پر اسے مزید قرض لینے کی اجازت بھی۔ اب اندازہ ہے کہ شٹ ڈاوٴن کے مسئلے سے نمٹتے ہی سترہ اکتوبر کو اوباما حکومت کو قرض کے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ امریکا کو آخر اتنا قرض کیوں لینا پڑتا ہے اور اسی سے ملحق دوسرا سوال کہ اس کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ سوال جتنا آسان ہے اتنا ہی اس کا جواب بھی آسان ہے۔ امریکا عالمی بینکاروں کی نجی فوج میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ان کی ہدایت پر پوری دنیا میں امریکی فوج مصروف ہے۔ ظاہر ہے ، اس کے اخراجات بھی اتنے ہی بھاری ہیں مگر شرمناک بات یہ ہے کہ یہ تمام تر اخراجات امریکی عوام کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔اگر امریکا یہ فوج کشی بند کردے تو اس کا بجٹ اس کی آمدنی کی چادر میں آجائے گا اور دنیا میں بھی امن قائم ہوجائے گا ۔ امریکا میں بجٹ اس لیے منظوری کے مرحلے نہیں گذر سکا کہ امریکی حکومت یہ نہیں بتاپارہی کہ وہ پنٹاگون کا بجٹ کیسے پورا کرے گی اور دو ہفتوں کے بعد سامنے کھڑے قرض کے بحران کا کیسے سامنا کرے گی۔ اس کا ایک آسان حل یہ ہے کہ امریکا اپنے تمام غیر ضروری اخراجات ختم کردے۔ بحر ہند میں موجود فوجی اڈا ختم کردے، گوانتا نامو بے بند کرکے اس کے اخراجات سے بچ جائے، تمام دنیا سے اپنی فوج واپس بلائے اور اس کی تعداد اتنی ہی رکھے جتنی دفاع کے لیے ضروری ہے نہ کہ پوری دنیا میں جارحیت کرتا پھرے۔ یہ سب کچھ کہنے میں جتنا آسان ہے، ہونے میں ناممکن ہے۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے خواہاں عالمی بینکاروں کو نہ تو امریکی عوام سے کوئی ہمدردی ہے اور نہ ہی پاکستانی عوام سے۔ ان کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ ہے ون ورلڈ گورنمنٹ کا قیام۔ اب لوگ بھوکے مرتے ہیں تو مریں، گولہ بارود کا نشانہ بنتے ہیں تو بنیں، تعلیم اور زندگی کی آسائش محض ایک طبقے تک محدود رہتی ہے تو ہے، ان کو اس سے دلچسپی نہیں ہے۔ بلکہ یہ سب ان کے ہدف کو حاصل کرنے میں مددگار ہے۔ امریکی شٹ ڈاوٴن اصل میں امریکی شٹ ڈاوٴن نہیں ہے بلکہ عالمی سازش کاروں کے چنگل میں پھنسے رہنے کی سزا ہے۔اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔
 

Back
Top