jhootaylog
MPA (400+ posts)
عرض حالنذیر لغاری
پنجاب کی دانشور اشرافیہ اب بھی گریٹر پنجاب کے بوسیدہ خوابوں کی دنیا میں رہتی ہے۔
یہ لگ بھگ چار ہزار سال پرانی بات ہے جب موئنجودڑو آباد تھا۔ دریائے سندھ کے کناروں پر آباد تہذیب آنے والے زمانوں کو روشنی دینے کیلئے اپنی انمٹ نشانیاں ثبت کر رہی تھی۔ وادیٴ سندھ کے فن تعمیر کے ماہرین کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ ریاضیاتی سائنسی اصولوں کے مطابق کے ڈرائنگ کے ذریعے باقاعدہ نقشے بنا کر عمارات تعمیر کرتے تھے۔ سندھ میں ایک باقاعدہ سماجی، سیاسی اور مملکتی نظام موجود تھا۔ معاہدات کی تحریر اور توثیق کیلئے مہروں کا استعمال ہوتا تھا۔ ہزاروں سال پرانی مہریں آج بھی عجائب گھروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ انہی دنوں عراق کی قدیم سمیری تہذیب کے ارتقا کے ایام میں 2334 قبل مسیح، بادشاہ سارگن نے سندھ سے سیکڑوں ہنر مندوں، فن تعمیر کے کاریگروں، انجینئروں، مستریوں اور راج مزدوروں کو بلوایا اور ان سے اپنے دارالحکومت کو آباد کرایا۔
وادیٴ سندھ کی تہذیب، بابل و نینوا کی قدیم سمیری تہذیب اور فراعنہٴ مصر کی قدیم مصری تہذیب کی ہم عصر ہے۔ 1920ء سے 1999ء تک 79 سال کے عرصے میں وادیٴ سندھ کی ایک ہزار سے زائد قدیم نشانیاں ملی ہیں۔ اس میں قدیم سرائیکی تہذیب کی وہ نشانیاں بھی شامل ہیں جو دریائے گھاگھرا کے سوکھ جانے کے بعد ایک ایک کر کے مٹتی چلی گئیں۔ تہذیبوں کی نشانیاں ریت کے ٹیلوں میں دب جاتی ہیں مگر زندہ لوگ ریت کے ٹیلوں میں دب کر مر نہیں جایا کرتے۔ تہذیبوں کا جغرافیہ تاریخ اور تہذیب کی نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے۔ کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی سر جاں مارشل یا زاہی خواص یا پھر کوئی حنیف مغل تہذیبوں کی گمشدہ علامتوں کا کھوج لگا کر قوموں کا تفاخر بحال کرتا ہے۔ حنیف مغل نے وادیٴ سندھ اور ہاکڑہ کی سرائیکی تہذیبوں کا تفاخر بحال کیا ہے۔میں نے زاہدان سے آگے ایران کی قدیم تہذیب کا مرکز بام شہر، قاہرہ میں اہرام مصر اور ابولہول، دریائے سندھ کے کنارے موئنجودڑو، رنی کوٹ اور کوٹ ڈیجی، رحیم یار خان میں پتن منارا، بہاول پور میں قلعہ ڈیراور، جام پور سے مغرب میں ٹھیڑ دلورائے، ہڑپہ اور ٹیکسلا میں جولیان یونیورسٹی کو دیکھا ہے۔ میں نے پشپاپور اور تکشاشیلامیں بولی جانے والی ہندکو زبان کے ہر لہجے کو محسوس کیا ہے۔ میں نے شاہ لطیف، سچل، سامی، سانگی کے بیتوں اور شعروں میں سندھ کی معاشرت کے جلوے دیکھے ہیں۔ میں نے لطف علی، خواجہ غلام فرید اور علی حیدر ملتانی کی مثنویوں، کافیوں اور دوہوں میں سرائیکی سماج کے دکھ دیکھے ہیں۔ میں نے استاد نامور، صاحب حق اور نظیر احمد روا کی ہندکو شاعری میں ہزارہ اور پشاور کے لوگوں کے غم دیکھے ہیں۔ تہذیبیں اپنے اپنے جغرافیہ میں اپنی اپنی تاریخ، سماج، معاشرتی روایات اور لوگوں کے طرز زندگی کا اظہار کرتی ہیں۔
سرائیکی اور ہزارہ صوبہ کے قیام کے ہر جواز کو تسلیم کرنے والے دانشور اور اسکالر ملک کے دوسرے صوبوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ میں 40 سال سے سندھ کی سماجی زندگی، سیاست اور صحافت کو دیکھ رہا ہوں۔ سندھ کے لوگ اپنے جغرافیہ کے ساتھ چھیڑ خانی کی بات بھی سننا گوارہ نہیں کرتے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی مسئلہ حل ہونے کے قریب ہوتا ہے، اس حل کو منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے سندھ کی جغرافیائی وحدت کو متنازع بنانے کی باتیں شروع کر دی جاتی ہیں۔ اب بھی وسطی پنجاب کی دانشور اشرافیہ کو صاف محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے قیام پر بڑی حد تک متفق ہو چکی ہیں اور ان صوبوں کے قیام کا مسئلہ حل طلب قومی مسائل میں اولیت حاصل کر چکا ہے۔ ایسے میں دانشور اشرافیہ نے سندھ کی چٹکیاں لینا شروع کر دی ہیں۔ سندھ کی سیاست کا کوئی ایک بھی فریق سندھ کی وحدت کے خلاف نہیں۔ اگلے روز قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر حیدر عباس رضوی نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ سندھ دھرتی ہماری ماں ہے اور ہم سندھ کے بیٹے ہیں۔ کیا کوئی بیٹا اپنی ماں کو تقسیم کرنے کی بات گوارہ کر سکتا ہے۔ کراچی شہر اور سندھ کے دوسرے شہروں میں پختون بھی آباد ہیں۔ اے این پی کا یہ کھلا موقف ہے کہ سندھ سندھیوں کا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے اپنا، اپنی تنظیم، اپنے کارکنوں اور اپنے ووٹ بینک کا مستقبل سندھ کی وحدت کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ انہوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سندھ کے ہیروؤں کو اپنا ہیرو تسلیم کیا ہے۔ الطاف حسین نے اپنے گھر نائن زیرو کے حلقے سے دو بار اپنے سندھی کارکنوں کو ٹکٹ دے کر کامیاب کرایا۔ الطاف حسین کے سب سے مضبوط گڑھ، ان کے اپنے گھر کے حلقے میں ایک مرکزی شاہراہ سندھ کے ہیرو شیر محمد ٹالپر کے نام سے موسوم کی گئی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے سندھ کی دیہی اور شہری آبادی میں فاصلے مٹنے کا عمل جاری ہے۔ سندھی اور اردو بولنے والے خاندانوں میں رشتہ داریاں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں سندھ کی وحدت پر حملے کرنا سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے قیام سے پہلے سندھ کی اکائی کے آگے سوالیہ نشان لگانا پنجاب کی دانشور اشرافیہ کے اس رویّے کی نشاندہی کرتا ہے جو اس نے 1960ء سے 1970ء تک کے عشرے میں بنگال میں اختیار کیا تھا۔
اس صورتحال کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پنجاب کی سیاسی قیادت ماضی سے سبق سیکھ چکی ہے۔ پنجاب میں نمائندگی رکھنے والی کوئی بھی جماعت سندھ کی وحدت کے آگے سوالیہ نشان نہیں لگاتی۔ پنجاب کی کوئی بھی جماعت سرائیکی اور ہزارہ صوبہ کی مخالفت نہیں کرتی۔ پنجاب کی دانشور اشرافیہ اب بھی گریٹر پنجاب کے بوسیدہ خوابوں کی دنیا میں رہتی ہے۔ مشرقی پنجاب کے دو ڈویژن اپنی اپنی تہذیبی بنیادوں پر تین صوبوں میں بدل چکے ہیں اور ہماری دانشور اشرافیہ 1818ء سے 1947ء تک کے درمیانی عرصے میں قید رہنا چاہتی ہے۔ وہ اشرافیہ وسطی پنجاب کے حملہ آور مہاراجہ رنجیت سنگھ اور راجہ کھڑک سنگھ کے رومانس سے باہر نہیں آنا چاہتی۔ حالانکہ اسے معلوم ہے کہ پنجاب کے 17 سرائیکی اضلاع میں رنجیت سنگھ اور اس کے بیٹے کھڑک کو تاریخ کے بدترین ولن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
پنجاب کی دانشور اشرافیہ اب بھی گریٹر پنجاب کے بوسیدہ خوابوں کی دنیا میں رہتی ہے۔
یہ لگ بھگ چار ہزار سال پرانی بات ہے جب موئنجودڑو آباد تھا۔ دریائے سندھ کے کناروں پر آباد تہذیب آنے والے زمانوں کو روشنی دینے کیلئے اپنی انمٹ نشانیاں ثبت کر رہی تھی۔ وادیٴ سندھ کے فن تعمیر کے ماہرین کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ ریاضیاتی سائنسی اصولوں کے مطابق کے ڈرائنگ کے ذریعے باقاعدہ نقشے بنا کر عمارات تعمیر کرتے تھے۔ سندھ میں ایک باقاعدہ سماجی، سیاسی اور مملکتی نظام موجود تھا۔ معاہدات کی تحریر اور توثیق کیلئے مہروں کا استعمال ہوتا تھا۔ ہزاروں سال پرانی مہریں آج بھی عجائب گھروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ انہی دنوں عراق کی قدیم سمیری تہذیب کے ارتقا کے ایام میں 2334 قبل مسیح، بادشاہ سارگن نے سندھ سے سیکڑوں ہنر مندوں، فن تعمیر کے کاریگروں، انجینئروں، مستریوں اور راج مزدوروں کو بلوایا اور ان سے اپنے دارالحکومت کو آباد کرایا۔
وادیٴ سندھ کی تہذیب، بابل و نینوا کی قدیم سمیری تہذیب اور فراعنہٴ مصر کی قدیم مصری تہذیب کی ہم عصر ہے۔ 1920ء سے 1999ء تک 79 سال کے عرصے میں وادیٴ سندھ کی ایک ہزار سے زائد قدیم نشانیاں ملی ہیں۔ اس میں قدیم سرائیکی تہذیب کی وہ نشانیاں بھی شامل ہیں جو دریائے گھاگھرا کے سوکھ جانے کے بعد ایک ایک کر کے مٹتی چلی گئیں۔ تہذیبوں کی نشانیاں ریت کے ٹیلوں میں دب جاتی ہیں مگر زندہ لوگ ریت کے ٹیلوں میں دب کر مر نہیں جایا کرتے۔ تہذیبوں کا جغرافیہ تاریخ اور تہذیب کی نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے۔ کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی سر جاں مارشل یا زاہی خواص یا پھر کوئی حنیف مغل تہذیبوں کی گمشدہ علامتوں کا کھوج لگا کر قوموں کا تفاخر بحال کرتا ہے۔ حنیف مغل نے وادیٴ سندھ اور ہاکڑہ کی سرائیکی تہذیبوں کا تفاخر بحال کیا ہے۔میں نے زاہدان سے آگے ایران کی قدیم تہذیب کا مرکز بام شہر، قاہرہ میں اہرام مصر اور ابولہول، دریائے سندھ کے کنارے موئنجودڑو، رنی کوٹ اور کوٹ ڈیجی، رحیم یار خان میں پتن منارا، بہاول پور میں قلعہ ڈیراور، جام پور سے مغرب میں ٹھیڑ دلورائے، ہڑپہ اور ٹیکسلا میں جولیان یونیورسٹی کو دیکھا ہے۔ میں نے پشپاپور اور تکشاشیلامیں بولی جانے والی ہندکو زبان کے ہر لہجے کو محسوس کیا ہے۔ میں نے شاہ لطیف، سچل، سامی، سانگی کے بیتوں اور شعروں میں سندھ کی معاشرت کے جلوے دیکھے ہیں۔ میں نے لطف علی، خواجہ غلام فرید اور علی حیدر ملتانی کی مثنویوں، کافیوں اور دوہوں میں سرائیکی سماج کے دکھ دیکھے ہیں۔ میں نے استاد نامور، صاحب حق اور نظیر احمد روا کی ہندکو شاعری میں ہزارہ اور پشاور کے لوگوں کے غم دیکھے ہیں۔ تہذیبیں اپنے اپنے جغرافیہ میں اپنی اپنی تاریخ، سماج، معاشرتی روایات اور لوگوں کے طرز زندگی کا اظہار کرتی ہیں۔
سرائیکی اور ہزارہ صوبہ کے قیام کے ہر جواز کو تسلیم کرنے والے دانشور اور اسکالر ملک کے دوسرے صوبوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ میں 40 سال سے سندھ کی سماجی زندگی، سیاست اور صحافت کو دیکھ رہا ہوں۔ سندھ کے لوگ اپنے جغرافیہ کے ساتھ چھیڑ خانی کی بات بھی سننا گوارہ نہیں کرتے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی مسئلہ حل ہونے کے قریب ہوتا ہے، اس حل کو منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے سندھ کی جغرافیائی وحدت کو متنازع بنانے کی باتیں شروع کر دی جاتی ہیں۔ اب بھی وسطی پنجاب کی دانشور اشرافیہ کو صاف محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے قیام پر بڑی حد تک متفق ہو چکی ہیں اور ان صوبوں کے قیام کا مسئلہ حل طلب قومی مسائل میں اولیت حاصل کر چکا ہے۔ ایسے میں دانشور اشرافیہ نے سندھ کی چٹکیاں لینا شروع کر دی ہیں۔ سندھ کی سیاست کا کوئی ایک بھی فریق سندھ کی وحدت کے خلاف نہیں۔ اگلے روز قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر حیدر عباس رضوی نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ سندھ دھرتی ہماری ماں ہے اور ہم سندھ کے بیٹے ہیں۔ کیا کوئی بیٹا اپنی ماں کو تقسیم کرنے کی بات گوارہ کر سکتا ہے۔ کراچی شہر اور سندھ کے دوسرے شہروں میں پختون بھی آباد ہیں۔ اے این پی کا یہ کھلا موقف ہے کہ سندھ سندھیوں کا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے اپنا، اپنی تنظیم، اپنے کارکنوں اور اپنے ووٹ بینک کا مستقبل سندھ کی وحدت کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ انہوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سندھ کے ہیروؤں کو اپنا ہیرو تسلیم کیا ہے۔ الطاف حسین نے اپنے گھر نائن زیرو کے حلقے سے دو بار اپنے سندھی کارکنوں کو ٹکٹ دے کر کامیاب کرایا۔ الطاف حسین کے سب سے مضبوط گڑھ، ان کے اپنے گھر کے حلقے میں ایک مرکزی شاہراہ سندھ کے ہیرو شیر محمد ٹالپر کے نام سے موسوم کی گئی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے سندھ کی دیہی اور شہری آبادی میں فاصلے مٹنے کا عمل جاری ہے۔ سندھی اور اردو بولنے والے خاندانوں میں رشتہ داریاں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں سندھ کی وحدت پر حملے کرنا سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے قیام سے پہلے سندھ کی اکائی کے آگے سوالیہ نشان لگانا پنجاب کی دانشور اشرافیہ کے اس رویّے کی نشاندہی کرتا ہے جو اس نے 1960ء سے 1970ء تک کے عشرے میں بنگال میں اختیار کیا تھا۔
اس صورتحال کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پنجاب کی سیاسی قیادت ماضی سے سبق سیکھ چکی ہے۔ پنجاب میں نمائندگی رکھنے والی کوئی بھی جماعت سندھ کی وحدت کے آگے سوالیہ نشان نہیں لگاتی۔ پنجاب کی کوئی بھی جماعت سرائیکی اور ہزارہ صوبہ کی مخالفت نہیں کرتی۔ پنجاب کی دانشور اشرافیہ اب بھی گریٹر پنجاب کے بوسیدہ خوابوں کی دنیا میں رہتی ہے۔ مشرقی پنجاب کے دو ڈویژن اپنی اپنی تہذیبی بنیادوں پر تین صوبوں میں بدل چکے ہیں اور ہماری دانشور اشرافیہ 1818ء سے 1947ء تک کے درمیانی عرصے میں قید رہنا چاہتی ہے۔ وہ اشرافیہ وسطی پنجاب کے حملہ آور مہاراجہ رنجیت سنگھ اور راجہ کھڑک سنگھ کے رومانس سے باہر نہیں آنا چاہتی۔ حالانکہ اسے معلوم ہے کہ پنجاب کے 17 سرائیکی اضلاع میں رنجیت سنگھ اور اس کے بیٹے کھڑک کو تاریخ کے بدترین ولن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔