
اسلام آباد ہائی کورٹ میں آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) نے ٹیلی کام کمپنیو ں کو وسیع پیمانے پر نگراں کیلئے سسٹم خریدنے، امپورٹ کرنے اور اس نصب کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔
بے نظیر شاہ کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران کچھ دستاویزات سامنے آئیں جن کے مطابق ٹیلی کام کمپنیوں نے لافل انٹرسپٹ مینجمٹ سسٹم(ایل آئی ایم ایس) نافذ کررکھا ہے جو نجی پیغامات، ویڈیو ، آڈیو مواد، فون کالز ریکارڈنگ سمیت دیگر ڈیٹا تک رسائی میں مدد دیتا ہے۔
اس انکشاف کے بعد اتوار کے روز جاری کردہ حکم نامے میں جسٹس بابرستار کا کہنا تھا کہ نامزد ایجنسیاں اس نظام کو نگرانی کے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں اور ٹیلی کام کمپنیوں نے پی ٹی اے کی ہدایات پر اپنے 2 فیصد صارفین کی سرویلنس شروع کررکھی ہے، اس سروسیلنس کے نظام سے بیک وقت تقریباً 40 لاکھ سے زائد شہریوں کی پرائیویسی میں مداخلت ہو سکتی ہے۔
ایل آئی ایم ایس ایک ایسا نظام ہے جس میں نامزد ایجنسیاں کسی مخصوص صارف کے ڈیٹا کے حصول کیلئے ٹریک اینڈ ٹریس کی درخواست دیتی ہے، یہ درخواست بھی خود کار طریقے سے ایل آئی ایم ایس کے ذریعے دی جاتی ہے جس کے بعد ٹیلی کام نیٹ ورک استعمال کرنے والے شہری کے کال ریکارڈز، کال ڈیٹا اور ایس ایم ایس جیسی نجی معلومات ایجنسی کو مہیا کردی جاتی ہیں۔
عدالتی دستاویزات میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ اس نظام کے تحت صارفین کی آڈیو کالز کی ریکارڈنگ کو بار بار سنا، ایس ایم ایس کو بار بار پڑھاجاسکتا ہے ، ساتھ ہی ساتھ صارفین کے موبائل فونز میں تیار کیے گئے آڈیو ویڈیو ڈیٹا اور انٹرنیٹ پر دیکھے گئے ویب پیچز کی تفصیلات کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1808005756945682689
عدالتی فیصلے میں اس پورے سسٹم کو جارج آر ویل کے نالو "1984" سے متاثر کن قرار دیتے ہوئے کہاگیا کہ یہ نظام غیر قانونی طور پر نصب کیا گیا ہے، اس نظام کو شہریوں کی نگرانی کیلئے استعمال کرنے والی ایجنسیاں خود کو مجرمانہ سرگرمیوں کا ذمہ دار بنا چکی ہیں۔
اس معاملے پر صحافی و ڈیجیٹل حقوق کی کارکن رمشا جہانگیر نے نجی ٹی وی چینل سے خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ یہ نظام صرف موبائل ڈیٹا ہی نہیں بلکہ ایجنسیوں کو انکرپٹڈ ڈیٹا یعنی واٹس ایپ جیسی ایپس کا ڈیٹا بھی فراہم کردیتا ہے۔
https://twitter.com/x/status/1808005904224419992
اسلام آباد ہائی کورٹ نےان تمام انکشافات کے بعد ٹیلی کام کمپنیوں کو عارضی طور پر ایل آئی ایم ایس کو استعمال کرنے اور صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے سے روک دیا ہے اور پی ٹی اے سے ایک سربمہر رپورٹ میں تفصیلات طلب کی ہیں کہ کیسے یہ نظام حاصل اور انسٹال کیا گیا، کون سے ادارے اور افراد ہیں جن کی اس نظام اور اس کے ڈیٹا تک رسائی ہے ۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/4benazirirepoorkjkjd.png