بشیر کا نسٹیبل کا سوال سن کر میری ایسی ہنسی چھوٹی کہ پیٹ میں بل پڑ گئے میں نے بڑی مشکل سے پانی کا ایک گھونٹ بھرا اور قہقہے کا بقیہ حصہ وہیں سے سٹارٹ کیا جہاں سے چھوڑا تھابشیر! بس کر یار میری وکھیاں ٹوٹ جائیں گی۔بشیر ہونقوں کی طرح میری طرف دیکھے جارہا تھا بھائی جی میں نے کون سا لطیفہ سنا دیا ہے؟
اُس کے لہجے میں ہلکی سی ناگواری تھی۔ میرا دل کر رہا تھا کہ ایک چھوٹا سا قہقہہ اور لگاؤں لیکن پھر سوچا گھر آئے مہمان کو اتنا بھی بے عزت نہیں کرنا چاہیے لہذا صوفے پر سیدھا ہوتے ہوئے کہاسوری یار! لیکن تمہارا سوال ہی لطیفے جیسا تھا۔ اُس نے کچھ دیر سوچا اپنی کنپٹی پہ خارش کیچائے کا گھونٹ بھرا اور بولاہم میں اور اُن میں کیا فرق ہے؟وہ بھی سپاہی ہم بھی سپاہی۔میں نے گھورابہت زیادہ فرق ہے وہ سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں ہمیں بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اِس دھرتی کی حفاظت کے لیے شہید ہونے کی تمنا کرتے ہیںہمارے ملک کے محافظ ہیں۔
یہ سنتے ہی بشیر کے چہرے پر ایک کرب سا پھیل گیابھائی جی! اس میں کوئی شک نہیں آپ نے بالکل ٹھیک کہا لیکن کیا ہم اپنی جانیں نہیں دیتے ہم آپ کے محافظ نہیںسرحدوں پر حملہ کرنے والے بیرونی دشمن کا تو پتا ہوتاہے ہمیں تو اندرونی دشمنوں سے لڑنا پڑتا ہے اور روز لڑنا پڑتاہے۔ بشیر کی بات سن کر میرا سارا موڈ خراب ہوگیا میں نے پوری سنجیدگی سے پوچھاکہنا کیا چاہتے ہو؟۔ بشیر نے پہلے والا سوال پھر دہرا دیاچھ ستمبر کی طرح پولیس کا دن کیوں نہیں منایا جاتا پولیس کے شہیدوں پر گانے کیوں نہیں لکھے جاتے؟؟؟۔ میرے لہجے میں تلخی در آئی اس لیے کہ پولیس رشوت لیتی ہے پولیس نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے پولیس کمزوروں پر بدمعاشی دکھاتی ہے اور طاقتوروں کی سرپرستی کرتی ہے۔بشیر جلدی سے بولاکیا پاکستان میں کوئی محکمہ ایسا ہے جہاں رشوت نہ چلتی ہو؟ میں نے دھڑلے سے جواب دیانہیں۔ وہ پھر بولاکیا پاکستان میں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں دہشت گردی اور مہنگائی کے اثرات نہ پہنچے ہوں؟ میں نے حیرت سے کہانہیں۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور دھیرے سے بولاتو کیا ایسے ملک کا جشن آزادی منانا چاہیے؟میں بوکھلا گیاکیا کہہ رہے ہو یہ دونوں الگ باتیں ہیں کہاں ہماری پولیس اور کہاں ہماری فوج فوج میں ڈسپلن ہوتاہے سمارٹنس ہوتی ہے اُن کے سپاہیوں کی تمہاری طرح توندیں نہیں بڑھی ہوتیں۔۔۔اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ فوجی ملک کے بقاء کے لیے لڑتا ہے جبکہ تم لوگ اپنی نوکری کی بقاء کے لیے کام کرتے ہو۔
بشیر کانسٹیبل نے دانت بھینچےہمیں ہر طرف سے گالیاں پڑتی ہیں جاکے پوچھیں کہ ایک کانسٹیبل کا کیا مستقبل ہوتاہے بیس بیس گھنٹے ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے کھانا لینے کے لیے فقیروں کی طرح جھپٹنا پڑتاہے ون فائیو پہ کال چل جائے تو پاگلوں کی طرح بھاگنا پڑ جاتاہے نہ ہماراسونے کا کوئی ٹائم ہے نہ جاگنے کا نہ کوئی ہمارے لیے دعائیں کرتاہے نہ محبت دیتا ہے فوجی کو گولی لگتی ہے تو وہ شہید کہلاتاہے ہمیں گولی لگے تو دنیا کہتی ہے پولیس والا مر گیا ہےفوجی زخمی ہوجائے تو خون دینے والوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں ہم زخمی ہوجائیں توکوئی ہمارا حال تک پوچھنے نہیں آتا۔ میرا خون کھول اٹھا او رمیں چلایااس لیے کہ پولیس ناکے لگا کر لوگوں کو لوٹتی ہے سیدھے منہ بات نہیں کرتی تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے جائیں تو آگے سے گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔ اُس نے دوبارہ اپنی کنپٹی پر خارش کی اورکچھ دیر سوچ کر بولاایک بات تو بتائیں پولیس کے پاس اسلحہ ہوتاہے؟ میں مزید سیخ پا ہوگیاکیوں نہیں ہوتا اب یہ بہانہ مت کرنا کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہوتے پولیس کے پاس ہر قسم کا اسلحہ ہوتاہے لیکن تم لوگ اپنی ناکامی کے جواز ڈھونڈتے رہتے ہو۔ وہ جلدی سے بولامیں کوئی بہانہ نہیں کررہا میں تو یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ اگر پولیس کے پاس اسلحہ بھی ہوتاہے بندے بھی ہوتے ہیں تو آخر پولیس نے اِس ملک پر قبضہ کیوں نہیں کیا؟؟؟ میں ہڑبڑا گیاکک۔۔۔کیا مطلب؟ پولیس کون ہوتی ہے ملک پر قبضہ کرنے والی؟؟
بشیر نے تیسری بار کنپٹی کھجائی اور سرہلا تے ہوئے بولاہمارے ادارے کا کام حساس نوعیت کا ہوتا ہے یا عام نوعیت کا؟ میں نے کچھ دیر اس کا سوال سمجھا پھر پوری متانت سے کہاانتہائی حساس نوعیت کا ہوتاہے پولیس ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہے اور یہ کام عام نوعیت کا ہوہی نہیں سکتا۔ بشیر نے دانتوں سے اپنی انگلی کا ناخن کاٹاتو پھر ہمارا ادارہ حساس ادارہ کیوں نہیں کہلاتا؟ میری پھر ہنسی نکل گئی۔۔۔بشیر۔۔۔بشیر۔۔۔خدا کے لیے بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔اپنے آپ کو فوج کے سپاہی سے مت ملاؤ فو ج کے سپاہی کے پیچھے فوج بھی ہوتی ہے اور عوام بھی جبکہ تمہارے پیچھے صرف تمہارے تھانے کے پیٹی بھائی ہوتے ہیں۔ بشیر چیخا ہم اس لیے بدنام ہیں کہ ہم عوام کے اندر رہتے ہیں عوام ہمیں جانتی ہے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو عوام سے دور ہیں کیونکہ نہ وہ عوام کو جانتے ہیں نہ عوام ان کو جانتی ہے ۔میں نے دانت پیسے تو تمہارا کیاخیال ہے پولیس کو سرحدوں پر تعینات کر دیا جائے روک سکو گے دشمن کا حملہ؟ بشیر نے آہ بھرینہیں۔۔۔نہڈرون روک سکوں گا نہ ایبٹ آباد کے اوپر آتے ہوئے ہیلی کاپٹر ۔
میں نے جوش میں آتے ہوئے کہادیکھا۔۔۔اسی لیے کہتا ہوں کہ بلاوجہ اپنا خون مت جلاؤ تمہاری پولیس کا تو یہ حال ہے کہ تمہارے تھانوں اور ہیڈ کوارٹر بھی دشمن کی پہنچ سے محفوظ نہیں۔ اُس نے شکایت آمیز نظروں سے میری طرف دیکھاصرف ہمارے ہیڈ کوارٹر؟؟؟ اور میں سٹپٹا گیا۔۔۔ہاں۔۔۔صرف تمہارے ویسے تمہیں اتنا مایوس نہیں ہونا چاہیے پولیس والوں کو بھی شہید ہی لکھا جاتاہے اور پولیس پر بھی گانے بنے ہوئے ہیں۔ اُس نے آنکھیں پھیلائیںپولیسپر کون سے گانے بنے ہیں؟۔ میں نے اطمینان سے کہاتم نے شائد وہ گانا نہیں سنا میرے ڈھول سپاہیاتینوں رب دیاں رکھاں۔ بشیر نے دانت کچکچائےوہ گانا پولیس کے سپاہی پر ہے؟؟؟ میں گڑبڑا گیا۔۔۔ہاں ہاں بالکل پولیس کے سپاہی پر ہی ہے۔ بشیر آگے کو جھکامیں نے تو آج تک ٹی وی پر جب بھی یہ گانا سنا ہے اس میں کوئی پولیس والا نظر نہیں آیا؟
میں نے ایک کھسیانہ سا قہقہہ لگا یا اور جلدی سے کہاچلو وہ گانا بھی تو پولیس والوں کے لیے ہی بنا ہے ناں۔۔۔پُلس چہ بھرتی ہوگیا میں پُلس چہ بھرتی ہوگیا۔بشیر کی آنکھوں میں بے بسی اُتر آئیسنا تو ہے لیکن اس میں تو پولیس والوں کا اچھا خاصا توا لگایا گیا ہے۔میں سوچ میں پڑگیا بشیر کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی پولیس مارکہ گانا بتانا بہت ضروری ہوگیا تھا میں نے ذہن پر زور دیا اورجلدی سے کہاوہ گانااے تھانے ہٹاں تے نئیں وکدے۔بشیر نے ہونقوں کی طرح میری طرف دیکھا میں نے تیزی سے ایک اور وار کیااور وہ والا گاناتجھے دیکھا تو یہ جانا صنم پیار ہوتا ہے دیوانہ صنم۔ بشیر بالکل ہی بوکھلا گیا۔۔۔یہ گانا پولیس والوں پر بنا ہے؟؟؟ میں جھوم اٹھابالکل اس گانے میں شاعر پولیس والوں کو کہہ رہا ہے کہ جب سے میں نے تمہیں وردی میں دیکھا ہے تب سے تمہاری محبت میں دیوانہ ہوا پھر رہا ہوں۔بشیر کی آنکھوں میں طمانیت اتر آئی وہ میرے دلائل سے خاصا مطمئن ہوگیا تھا تاہم پتا نہیں کیوں مجھے لگ رہا تھا کہ میں زمین میں دھنس گیا ہوں۔
(گل نوخیز اختر )
اُس کے لہجے میں ہلکی سی ناگواری تھی۔ میرا دل کر رہا تھا کہ ایک چھوٹا سا قہقہہ اور لگاؤں لیکن پھر سوچا گھر آئے مہمان کو اتنا بھی بے عزت نہیں کرنا چاہیے لہذا صوفے پر سیدھا ہوتے ہوئے کہاسوری یار! لیکن تمہارا سوال ہی لطیفے جیسا تھا۔ اُس نے کچھ دیر سوچا اپنی کنپٹی پہ خارش کیچائے کا گھونٹ بھرا اور بولاہم میں اور اُن میں کیا فرق ہے؟وہ بھی سپاہی ہم بھی سپاہی۔میں نے گھورابہت زیادہ فرق ہے وہ سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں ہمیں بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اِس دھرتی کی حفاظت کے لیے شہید ہونے کی تمنا کرتے ہیںہمارے ملک کے محافظ ہیں۔
یہ سنتے ہی بشیر کے چہرے پر ایک کرب سا پھیل گیابھائی جی! اس میں کوئی شک نہیں آپ نے بالکل ٹھیک کہا لیکن کیا ہم اپنی جانیں نہیں دیتے ہم آپ کے محافظ نہیںسرحدوں پر حملہ کرنے والے بیرونی دشمن کا تو پتا ہوتاہے ہمیں تو اندرونی دشمنوں سے لڑنا پڑتا ہے اور روز لڑنا پڑتاہے۔ بشیر کی بات سن کر میرا سارا موڈ خراب ہوگیا میں نے پوری سنجیدگی سے پوچھاکہنا کیا چاہتے ہو؟۔ بشیر نے پہلے والا سوال پھر دہرا دیاچھ ستمبر کی طرح پولیس کا دن کیوں نہیں منایا جاتا پولیس کے شہیدوں پر گانے کیوں نہیں لکھے جاتے؟؟؟۔ میرے لہجے میں تلخی در آئی اس لیے کہ پولیس رشوت لیتی ہے پولیس نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے پولیس کمزوروں پر بدمعاشی دکھاتی ہے اور طاقتوروں کی سرپرستی کرتی ہے۔بشیر جلدی سے بولاکیا پاکستان میں کوئی محکمہ ایسا ہے جہاں رشوت نہ چلتی ہو؟ میں نے دھڑلے سے جواب دیانہیں۔ وہ پھر بولاکیا پاکستان میں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں دہشت گردی اور مہنگائی کے اثرات نہ پہنچے ہوں؟ میں نے حیرت سے کہانہیں۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور دھیرے سے بولاتو کیا ایسے ملک کا جشن آزادی منانا چاہیے؟میں بوکھلا گیاکیا کہہ رہے ہو یہ دونوں الگ باتیں ہیں کہاں ہماری پولیس اور کہاں ہماری فوج فوج میں ڈسپلن ہوتاہے سمارٹنس ہوتی ہے اُن کے سپاہیوں کی تمہاری طرح توندیں نہیں بڑھی ہوتیں۔۔۔اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ فوجی ملک کے بقاء کے لیے لڑتا ہے جبکہ تم لوگ اپنی نوکری کی بقاء کے لیے کام کرتے ہو۔
بشیر کانسٹیبل نے دانت بھینچےہمیں ہر طرف سے گالیاں پڑتی ہیں جاکے پوچھیں کہ ایک کانسٹیبل کا کیا مستقبل ہوتاہے بیس بیس گھنٹے ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے کھانا لینے کے لیے فقیروں کی طرح جھپٹنا پڑتاہے ون فائیو پہ کال چل جائے تو پاگلوں کی طرح بھاگنا پڑ جاتاہے نہ ہماراسونے کا کوئی ٹائم ہے نہ جاگنے کا نہ کوئی ہمارے لیے دعائیں کرتاہے نہ محبت دیتا ہے فوجی کو گولی لگتی ہے تو وہ شہید کہلاتاہے ہمیں گولی لگے تو دنیا کہتی ہے پولیس والا مر گیا ہےفوجی زخمی ہوجائے تو خون دینے والوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں ہم زخمی ہوجائیں توکوئی ہمارا حال تک پوچھنے نہیں آتا۔ میرا خون کھول اٹھا او رمیں چلایااس لیے کہ پولیس ناکے لگا کر لوگوں کو لوٹتی ہے سیدھے منہ بات نہیں کرتی تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے جائیں تو آگے سے گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔ اُس نے دوبارہ اپنی کنپٹی پر خارش کی اورکچھ دیر سوچ کر بولاایک بات تو بتائیں پولیس کے پاس اسلحہ ہوتاہے؟ میں مزید سیخ پا ہوگیاکیوں نہیں ہوتا اب یہ بہانہ مت کرنا کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہوتے پولیس کے پاس ہر قسم کا اسلحہ ہوتاہے لیکن تم لوگ اپنی ناکامی کے جواز ڈھونڈتے رہتے ہو۔ وہ جلدی سے بولامیں کوئی بہانہ نہیں کررہا میں تو یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ اگر پولیس کے پاس اسلحہ بھی ہوتاہے بندے بھی ہوتے ہیں تو آخر پولیس نے اِس ملک پر قبضہ کیوں نہیں کیا؟؟؟ میں ہڑبڑا گیاکک۔۔۔کیا مطلب؟ پولیس کون ہوتی ہے ملک پر قبضہ کرنے والی؟؟
بشیر نے تیسری بار کنپٹی کھجائی اور سرہلا تے ہوئے بولاہمارے ادارے کا کام حساس نوعیت کا ہوتا ہے یا عام نوعیت کا؟ میں نے کچھ دیر اس کا سوال سمجھا پھر پوری متانت سے کہاانتہائی حساس نوعیت کا ہوتاہے پولیس ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہے اور یہ کام عام نوعیت کا ہوہی نہیں سکتا۔ بشیر نے دانتوں سے اپنی انگلی کا ناخن کاٹاتو پھر ہمارا ادارہ حساس ادارہ کیوں نہیں کہلاتا؟ میری پھر ہنسی نکل گئی۔۔۔بشیر۔۔۔بشیر۔۔۔خدا کے لیے بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔اپنے آپ کو فوج کے سپاہی سے مت ملاؤ فو ج کے سپاہی کے پیچھے فوج بھی ہوتی ہے اور عوام بھی جبکہ تمہارے پیچھے صرف تمہارے تھانے کے پیٹی بھائی ہوتے ہیں۔ بشیر چیخا ہم اس لیے بدنام ہیں کہ ہم عوام کے اندر رہتے ہیں عوام ہمیں جانتی ہے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو عوام سے دور ہیں کیونکہ نہ وہ عوام کو جانتے ہیں نہ عوام ان کو جانتی ہے ۔میں نے دانت پیسے تو تمہارا کیاخیال ہے پولیس کو سرحدوں پر تعینات کر دیا جائے روک سکو گے دشمن کا حملہ؟ بشیر نے آہ بھرینہیں۔۔۔نہڈرون روک سکوں گا نہ ایبٹ آباد کے اوپر آتے ہوئے ہیلی کاپٹر ۔
میں نے جوش میں آتے ہوئے کہادیکھا۔۔۔اسی لیے کہتا ہوں کہ بلاوجہ اپنا خون مت جلاؤ تمہاری پولیس کا تو یہ حال ہے کہ تمہارے تھانوں اور ہیڈ کوارٹر بھی دشمن کی پہنچ سے محفوظ نہیں۔ اُس نے شکایت آمیز نظروں سے میری طرف دیکھاصرف ہمارے ہیڈ کوارٹر؟؟؟ اور میں سٹپٹا گیا۔۔۔ہاں۔۔۔صرف تمہارے ویسے تمہیں اتنا مایوس نہیں ہونا چاہیے پولیس والوں کو بھی شہید ہی لکھا جاتاہے اور پولیس پر بھی گانے بنے ہوئے ہیں۔ اُس نے آنکھیں پھیلائیںپولیسپر کون سے گانے بنے ہیں؟۔ میں نے اطمینان سے کہاتم نے شائد وہ گانا نہیں سنا میرے ڈھول سپاہیاتینوں رب دیاں رکھاں۔ بشیر نے دانت کچکچائےوہ گانا پولیس کے سپاہی پر ہے؟؟؟ میں گڑبڑا گیا۔۔۔ہاں ہاں بالکل پولیس کے سپاہی پر ہی ہے۔ بشیر آگے کو جھکامیں نے تو آج تک ٹی وی پر جب بھی یہ گانا سنا ہے اس میں کوئی پولیس والا نظر نہیں آیا؟
میں نے ایک کھسیانہ سا قہقہہ لگا یا اور جلدی سے کہاچلو وہ گانا بھی تو پولیس والوں کے لیے ہی بنا ہے ناں۔۔۔پُلس چہ بھرتی ہوگیا میں پُلس چہ بھرتی ہوگیا۔بشیر کی آنکھوں میں بے بسی اُتر آئیسنا تو ہے لیکن اس میں تو پولیس والوں کا اچھا خاصا توا لگایا گیا ہے۔میں سوچ میں پڑگیا بشیر کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی پولیس مارکہ گانا بتانا بہت ضروری ہوگیا تھا میں نے ذہن پر زور دیا اورجلدی سے کہاوہ گانااے تھانے ہٹاں تے نئیں وکدے۔بشیر نے ہونقوں کی طرح میری طرف دیکھا میں نے تیزی سے ایک اور وار کیااور وہ والا گاناتجھے دیکھا تو یہ جانا صنم پیار ہوتا ہے دیوانہ صنم۔ بشیر بالکل ہی بوکھلا گیا۔۔۔یہ گانا پولیس والوں پر بنا ہے؟؟؟ میں جھوم اٹھابالکل اس گانے میں شاعر پولیس والوں کو کہہ رہا ہے کہ جب سے میں نے تمہیں وردی میں دیکھا ہے تب سے تمہاری محبت میں دیوانہ ہوا پھر رہا ہوں۔بشیر کی آنکھوں میں طمانیت اتر آئی وہ میرے دلائل سے خاصا مطمئن ہوگیا تھا تاہم پتا نہیں کیوں مجھے لگ رہا تھا کہ میں زمین میں دھنس گیا ہوں۔
(گل نوخیز اختر )