ہمارے معاشرے میں گھریلو زندگی کچھ اصولوں کے تحت وجود میں آتی ہے
اس میں جس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے خاندانوں کی عزت پر حرف نا آے ، بچوں کا تعلق مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جس کی گارنٹی دونوں طرف موجود ہو اور اس میں بے حیائی کا شائبہ تک نا ہو .
دونوں طرف سے بچوں کو معاشی ، معاشرتی اور اخلاقی مدد بھی فراہم کی جاتی ہے اور دونوں گھرانوں کی خوشی کا انحصار بھی اس تعلق کے مضبوطی کے ساتھ قایم رہنے میں ہوتا ہے
ہمیں ان سب جہتوں پر فخر ہے اس لئے کہ یہ سبکچھ ہمارہ ہے اور ہماری شناخت بھی ہے
مغربی معاشرے جہاں سے ویلنٹأن ڈے کا تصور آیا ہے ہم سے بہت مختلف ہیں
وہاں پر ایک مشترک خاندان کا تصور نہں ہے
وہاں بچے پیدا ہوے ، بڑے ہوے تو وہ اپنا اپنا منہ کر جاتے ہیں - بڑے ہونے کے بعد یہ والدین کی زمہ داری نہں ہوتی کہ وہ کیسی زندگی گزاریں گے - صنف مخالف سے ان کا تعلق کسی اخلاقی ، معاشی ، قانونی یا خاندانی بندش کا محتاج نہں ہوتا - دونوں اپنے درمیان تعلق کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں اور اس تعلق کی نوعیت اجتمائی ہونے کے پر
عکس صرف ذاتی ہوتی ہے
ہمارے معاشرے میں ماں ، بہن ، پیٹی اور بیوی کے رشتے تو ہیں لیکن گرل فرینڈ جیسے مادر پدر آزاد رشتے کا کوئی وجود نہں
کہ کوئی لکهت پڑھت یا گارنٹی نہں جب چاہے علیحدہ ہو جاؤ یا آج اور کل اور جو کہ ایک تکلیف دہ مذاق ہے انسانی حقوق کے مقابلے میں
اس لئے مغربی سوسایٹی کے اس پہلو پر زور دینا نقصان دہ ہو گا
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری نئی نسل تو اس بیہودگی پر قوالی کرنے نکل آئی ہے