میاں صاب یہ قوم نہیں سدھرے گی
"خاتین و خضرات" یہ کہانی ہے سپین کے مسلمان بادشاہ فرڈینینڈ کی۔ سپین کی سلطنت اندلسیہ میں "قصطنتنیہ" کے مشہور شہر میں ایک ریاست پر یہ بادشاہ حکمران تھا۔ اس کی رعایا میں کل پینتیس لاکھ، پچیس ہزار، پانچ سو تین شہری شامل تھے۔ اس بادشاہ کا لوہے کا کاروبار تھا۔ اس بادشاہ کو نئی نئی تعمیرات کا بھی بہت شوق تھا اور اپنی فوج سے اسے شدید دشمنی تھی۔ دشمنی کی وجہ یہ تھی کہ فوج اس کے کارخانے میں بننے والے لوہے سے ہتھیار بنانے کی بجائے قومی سٹیل مل کے لوہے سے ہتھیار بنانا چاہتی تھی۔ خیر اس ملک کی کل باضمیر آبادی محض پانچ ہزار تھی، اس لئے راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
اب ہم وقت کو فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ ہزار سال بعد آج پورا شریف خاندان چوبیس گھنٹے باوضو رہتا تھا۔ جب سے عمران خان سیاست میں آیا ہے ان کے وضو ٹوٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ عمران خان کو تاریخ کے زندانوں میں اس ظلم کا حساب دینا ہو گا جو اس نے اس قوم کو بے وضو حکمران فراہم کر کے کیا ہے۔ قارئین آپ دیکھیں آپ کا حاکم جتنا بھی کرپٹ ہو اگر وہ ہر وقت باوضو رہتا ہو تو کبھی تو اسے شرم آ جاتی ہو گی نا کہ میں وضو میں ہوں، کرپشن نا کروں۔ عمران خان نے قوم کو اس سہولت سے بھی محروم کر دیا۔ عمران خان آپ کو جواب دینا ہو گا۔
اس "وضو توڑ" سیاست سے بہت خطرناک اور منفی رجحان جنم لیں گے۔ ایک اور نقصان جو عمران خان نے کیا ہے، وہ اس نے صرف پاکستان کو نہیں بلکہ پورے اسلام کو پہنچایا ہے۔ آئندہ جب بھی کوئی شخص "الحمداللہ" کہے گا تو اسے ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی کرنی پڑے گی کہ یہ شریف خاندان والی "الحمداللہ" نہیں ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ عمران خان نے شریف خاندان کے وضو تڑوا دیئے، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اس نے "الحمداللہ" کہنے والوں کے لیے یہ وضاحت لازمی کروا دی کہ یہ شریف خاندان والی نہیں ہے، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ عمران خان کی وجہ سے اس ملک کا ہر بھی پڑھا لکھا، باشعور اور محب وطن نوجوان مجھ جیسے عظیم صحافی کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کی بجائے مجھے "لفافہ" کہتا ہے۔ یہ عمران خان نے اس قوم پر وہ ظلم کیا ہے جس کا حساب آئندہ آنے والی تین ہزار، سات سو گیارہ نسلیں بھی اس سے طلب کرتی رہیں گی۔
قارئین اگر ہمیں قوموں کی برادری میں ایک باوقار حاصل کرنا ہے تو ہمیں اس "وضو توڑ" سیاست اور مجھ جیسے عظیم صحافیوں کو لفافہ کہنے کے کلچر سے جان چھڑانی ہو گی۔ اس کے بغیر ہماری وہی حالت ہو گی جو بابل کے کھنڈرات میں موجود ایک لاکھ اور سات مجسموں کی ہے، جو موئن جو داڑو کی تہذیب کی ہے، جو ہندوستان کے اصل باسیوں کی آریاؤں کی آمد کے بعد ہوئی، جو امریکا میں ریڈ انڈینز کی ہوئی، جو آسٹریلیا میں ایب اوریجنلز کی ہوئی۔
یاد رکھیں تاریخ بہت ظالم ہوتی ہے، اور میں اس سے بھی ظالم ہوں۔ میں مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس تصورات اور ہستیوں کا نام استعمال کر کے بھی اپنا لفافہ حلال کرنے سے باز نہیں آتا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا، نسل انسانی، مسلمانی اور پاکستان کے وہ دشمن کہتے ہیں جو مجھے لفافہ کہتے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کبھی کبھار میں جو حق کی بات لکھ دیتا ہوں وہ محض اپنی کریڈیبیلٹی بڑھانے کے لیے ہوتی ہے۔ بہت نا شکرے ہیں آپ لوگ۔ مجھے ٹینشن ہو رہی ہے، مجھے اگلے ہفتے سوئٹزرلینڈ کے شہر کوُر کے بعد، مونٹے کارلو اور فرانس کے ساحلی شہر نیس سے ہوتے ہوئے وینس کا ایک چکر لگا کر روم میں تاریخ انسانی کے چھپے ہوئے الفاظ کو پھر سے پڑھنا پڑے گا تا کہ میں تازہ دم ہو کر اپنا لفافہ حلال کر سکوں، میرا مطلب مجھے لفافہ کہنے والوں کو اپنی باضمیر قلم کی نوک سے حلال کر سکوں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
نوٹ: یہ ایک فرضی کالم ہے، کسی بھی قسم کی کلی یا جزوی مطابقت محض اتفاقیہ ہو گی
"خاتین و خضرات" یہ کہانی ہے سپین کے مسلمان بادشاہ فرڈینینڈ کی۔ سپین کی سلطنت اندلسیہ میں "قصطنتنیہ" کے مشہور شہر میں ایک ریاست پر یہ بادشاہ حکمران تھا۔ اس کی رعایا میں کل پینتیس لاکھ، پچیس ہزار، پانچ سو تین شہری شامل تھے۔ اس بادشاہ کا لوہے کا کاروبار تھا۔ اس بادشاہ کو نئی نئی تعمیرات کا بھی بہت شوق تھا اور اپنی فوج سے اسے شدید دشمنی تھی۔ دشمنی کی وجہ یہ تھی کہ فوج اس کے کارخانے میں بننے والے لوہے سے ہتھیار بنانے کی بجائے قومی سٹیل مل کے لوہے سے ہتھیار بنانا چاہتی تھی۔ خیر اس ملک کی کل باضمیر آبادی محض پانچ ہزار تھی، اس لئے راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
اب ہم وقت کو فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ ہزار سال بعد آج پورا شریف خاندان چوبیس گھنٹے باوضو رہتا تھا۔ جب سے عمران خان سیاست میں آیا ہے ان کے وضو ٹوٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ عمران خان کو تاریخ کے زندانوں میں اس ظلم کا حساب دینا ہو گا جو اس نے اس قوم کو بے وضو حکمران فراہم کر کے کیا ہے۔ قارئین آپ دیکھیں آپ کا حاکم جتنا بھی کرپٹ ہو اگر وہ ہر وقت باوضو رہتا ہو تو کبھی تو اسے شرم آ جاتی ہو گی نا کہ میں وضو میں ہوں، کرپشن نا کروں۔ عمران خان نے قوم کو اس سہولت سے بھی محروم کر دیا۔ عمران خان آپ کو جواب دینا ہو گا۔
اس "وضو توڑ" سیاست سے بہت خطرناک اور منفی رجحان جنم لیں گے۔ ایک اور نقصان جو عمران خان نے کیا ہے، وہ اس نے صرف پاکستان کو نہیں بلکہ پورے اسلام کو پہنچایا ہے۔ آئندہ جب بھی کوئی شخص "الحمداللہ" کہے گا تو اسے ساتھ ساتھ یہ وضاحت بھی کرنی پڑے گی کہ یہ شریف خاندان والی "الحمداللہ" نہیں ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ عمران خان نے شریف خاندان کے وضو تڑوا دیئے، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اس نے "الحمداللہ" کہنے والوں کے لیے یہ وضاحت لازمی کروا دی کہ یہ شریف خاندان والی نہیں ہے، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ عمران خان کی وجہ سے اس ملک کا ہر بھی پڑھا لکھا، باشعور اور محب وطن نوجوان مجھ جیسے عظیم صحافی کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کی بجائے مجھے "لفافہ" کہتا ہے۔ یہ عمران خان نے اس قوم پر وہ ظلم کیا ہے جس کا حساب آئندہ آنے والی تین ہزار، سات سو گیارہ نسلیں بھی اس سے طلب کرتی رہیں گی۔
قارئین اگر ہمیں قوموں کی برادری میں ایک باوقار حاصل کرنا ہے تو ہمیں اس "وضو توڑ" سیاست اور مجھ جیسے عظیم صحافیوں کو لفافہ کہنے کے کلچر سے جان چھڑانی ہو گی۔ اس کے بغیر ہماری وہی حالت ہو گی جو بابل کے کھنڈرات میں موجود ایک لاکھ اور سات مجسموں کی ہے، جو موئن جو داڑو کی تہذیب کی ہے، جو ہندوستان کے اصل باسیوں کی آریاؤں کی آمد کے بعد ہوئی، جو امریکا میں ریڈ انڈینز کی ہوئی، جو آسٹریلیا میں ایب اوریجنلز کی ہوئی۔
یاد رکھیں تاریخ بہت ظالم ہوتی ہے، اور میں اس سے بھی ظالم ہوں۔ میں مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس تصورات اور ہستیوں کا نام استعمال کر کے بھی اپنا لفافہ حلال کرنے سے باز نہیں آتا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا، نسل انسانی، مسلمانی اور پاکستان کے وہ دشمن کہتے ہیں جو مجھے لفافہ کہتے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کبھی کبھار میں جو حق کی بات لکھ دیتا ہوں وہ محض اپنی کریڈیبیلٹی بڑھانے کے لیے ہوتی ہے۔ بہت نا شکرے ہیں آپ لوگ۔ مجھے ٹینشن ہو رہی ہے، مجھے اگلے ہفتے سوئٹزرلینڈ کے شہر کوُر کے بعد، مونٹے کارلو اور فرانس کے ساحلی شہر نیس سے ہوتے ہوئے وینس کا ایک چکر لگا کر روم میں تاریخ انسانی کے چھپے ہوئے الفاظ کو پھر سے پڑھنا پڑے گا تا کہ میں تازہ دم ہو کر اپنا لفافہ حلال کر سکوں، میرا مطلب مجھے لفافہ کہنے والوں کو اپنی باضمیر قلم کی نوک سے حلال کر سکوں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
نوٹ: یہ ایک فرضی کالم ہے، کسی بھی قسم کی کلی یا جزوی مطابقت محض اتفاقیہ ہو گی