اسی کو ہی منافقت کتے ہیں کے جن بیگناہ لوگوں کو گھروں سے سوتے ہوے اٹھا اٹھا کر شہید کیا گیا انکے قاتلوں کے لئے قصیدے لکھے جا رہے ہیں، . ایسی ہی منافقت اس وقت بھی کی گئے جب گوہر ایوب نے مادر ملّت کی حمایت کی پاداش میں نہتے مہاجرین کی نسل کشی کی ایسی ہی منافقت اس وقت بھی روا رکھی گی جب سندھ میں لسانی بل کے خلاف مظاہرین پر گولیاں چلیئں گیئں ایسی ہی منافقت اس وقت بھی کی گئے جب سہراب گوٹھ کا بدلہ قصبہ اور علی گڑھ کالونی میں لیا گیا اور جب ہر طرح سے مار خانے والے مظلوموں نے اپنی حفاظت کا خود ذمہ لیا تو یہ غیر قانونی ٹھیرا.
مہاجرین پر شب خون مارنا اس ملک کی اشرفیہ کا پورانہ وطیرہ ہے. جس کو جب بھی موقع ملا اس نے مہاجرین کو پاکستان بنانے کی کاری سے کاری سزا دی. کیونکے غلام ابن غلام غلامی کی زیندگی سے بہت خوش ہوتا ہے. اور اگر اسکو غلامی سے نجات مل جائے تو اختیار اس سے ہضم نہیں ہوتا.
جس اخبار کا یہ قطعہ یہاں پوسٹ ہے اسکی وقعت یہ ہے کے متحدہ پر لسانیت کا الزام تو لگاتا ہے لیکن جب کراچی مارے جانے والی کی مادری زبان بتا کر یہ پاکستان کی خدمات کر رہا ہے یا پاکستان میں لسانی تفریق کو اور گہرا کر رہا ہے. میری نظر میں تو لسانیت کے علم بردار ایسے اخبار اور ان کو پڑھنے والے قارئین ہیں جو دانستہ اور نہ دانستہ طور پر لسانیت کی تفریق کو گہرا کرنے والوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں.
سوال ان لوگوں سے کیا ایسے اخبارات اور میڈیا کا بائیکاٹ کرنا ان پر فرض نہیں جو کے اے دن اخلاقیات، امن، بھائی چارہ، اور لسانیت کی تفریق سے نکلنے کے مشورے اور طریقے متحدہ کو دیتے رہتے ہیں.
رہا سوال حقیقی کی اوقات کا تو انیس سو بانوے سے دو ہزار دو سب کچھ انکا تھا اس وقت کے الیکشن میں ان کی اوقات کیا رہی وہ ایک کھلی حقیقت ہے کب تک مصنوئی نمائندگی لانے کی کراچی میں کوشش کرتے رہو گے کب تک
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|