Sheikh Usman Munir
Citizen
http://www.siasat.pk/forum/showthre...h-October-2012-Javed-Chaudhry-and-Nasir-Adeeb
چند دن پہلے جاوید چودہری صاحب نے عوام ہیں مُجرم ہیں کے نام سے کالم لکھے. جن سے میں بہت حد تک متعفق ہوں. لیکن ایک کالم میں اُنہوں نے باقی بہت سارے لوگوں کی طرح مولا جٹ نامی مشہور فلم کو پاکستانی فلم انڈسٹری کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا.مگر کل 28 اکتوبر کو جب ایکسپریس نیوز پر تکرار نامی ٹاک شو میں اپنی اس بات پر دلائل دیئے تو میرے دل میں بھی آیا کہ میں اس پر بات کروں
ایکسپرس ٹی وی کے شو تکرار میں صرف مولا جٹ پر بات ہوتی رہی، جبکہ اصل موضوع پاکستانی فلم انڈسٹری کا تھا۔ میرے نزدیک یہ دونوں موضوع علیحدہ ہیں۔ مولا جٹ 1970 کے دور میں بنی، جبکہ پاکستانی انڈسٹری سن 2000 کے بعد تباہ ہوئی۔ پاکستانی فلم انڈسٹری مولا جٹ کے بعد بھی ترقی کرتی رہی، ندیم، شبنم، محمد علی کی فلمیں بھی پنجابی فلموں کے ساتھ ساتھ ہٹ ہوتی رہی ہیں۔ تو مولا جٹ بحران کو ذمہ دار کیوں
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولا جٹ نے ایک ٹرینڈ سٹ کیا تھا، لیکن اُس ٹائپ کی فلموں کے ساتھ اُردو فلم بھی بنتی رہی تھیں۔ 1990 سے 2000 تک کی فلموں کو دیکھں تو اُردو فلموں کا راج واضع طور پر نظر آئے گا۔ جان ریمبو، بابر، سعود، اور شان نے 1990 کی دہائی میں اُردو فلموں سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔شمیم آرا، گل آغا، سید نور ، جاوید فاضل کی فلموں کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں بابرہ شریف، ندیم، فیصل، محسن خان، نے بہت اچھا کام کیا ہے، تو مولا جٹ ذمہ دار کیوں
جہاں تک پروگرام میں مولا جٹ پر اُٹھائے گئے سوالات کا تعالق ہے۔ اُس حوالے سے بھی سُن لیں۔
جاوید چودہری صاحب نے جس طرح کے ماضی کے اچھے کام کا حوالہ دیا ہے، وہ کام تو مولا جٹ کے بعد بھی ہوتا رہا ہے۔ مولاجٹ کے دور ہے حوالے سے عرض ہے کہ اُس سے پہلے دور کی فلموں میں آپ کو کلب اور شراب کا کلچر بھی نظر آئے گا، کیا وہ ہمارے کلچر تھا۔ مولا جٹ کے دور میں ماشل لاہ آ چُکا تھا، اور اُس مارشل لاہ کے دور میں کیا بھُٹو کے دور کی طرز کی فملموں بن سکتی تھیں?
ناصر ادیب نے صحیح کہا کہ میرے پاس دُشمنی دکھانے کے علاوہ چوائس نہی تھی۔ اور پیار محبت کی فملموں میں تو پیار سنسر ہو جاتا تھا۔
2۔ گنڈاسا ایک ہتھیار ہے اپنی حفاظت کرنے کے لئے۔ اُسی طرح جیسے پہاڑی علاقوں میں کلہاڑی، پیجاب میں ڈنڈا، سکھوں میں کرپان ہوتی ہے۔ جب فلموں میں ہیرو اسلحہ استعمال کر سکتا ہے تو گنڈاسا کیوں نہیں۔ گنڈاسا سے انسانوں کے ٹکڑے کرنے کا سوال ہے تو میں بتا دوں کی نواز شریف کے دوسرے دور میں جب بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے، اُس وقت مریدکے میں دو گروپوں کی لڑائی میں ایک گروپ نے دوسرے بندے کی ٹانگ بودے سے کاٹ دی تھی۔ آج بھی اخبارات میں دیہی علاقوں میں دشمنی کے دوران ناک، بال کاٹنے کی خبریں نظر آتی ہیں۔ اگر گنڈاسا سے فلموں میں پچاس، پچاس لوگوں کا قتل کرتے دکھانا غلط ہے تو بالی وڈ،ہالی وڈ میں جدید ہتھیاروں سے اور بعض اوقات بغیر کسی ہتھیار کے 100،100 لوگوں کا قتل کرنا بھی غلط ہے، مگر اعتراز صرف گنڈاسا پر ہی ہوتا ہے۔
لاچہ کلچر آج بھی پنجاب میں بُوڑھی عورتیں پہنتی ہیں چودہری صاحب، اگر دیکھنا ہو تو، شیخوپُورہ کی کسی گائوں میں چلیں جائے، اگر نہیں پہنتیں تو آج کی اور پچھلی نسل نہیں پہنتی۔ عورتیں کھیتوں میں بلکل نہیں ناچتیں، مگر جن اچھے دور کی فلموں کی آپ نے مثالیں دی ہیں۔ کیا اُس دور میں عورتیں پہاڑی علاقوں، باغوں، یا بازاروں میں ناچتیں تھیں? کیا وہ ناچ صحیح تھا?
چودہری صاحب نے قتل عام اور ڈائلاگز کو لچر اور واہیات کہا ہےجبکہ قتل عام تو ایکشن فلم کا حصہ ہوتا ہے، پھر وہ چاہے فلم کسی بھی انڈسٹری میں بنے۔ اگر گنڈاسا سے قتل عام غلط ہے تو قتل عام کے باقی طریقوں کی بھی زرا مزمت کر دیں، یا پھر یہ کہ دیں کی ایکشن فلم میں لوگ مرنے نہیں چائیں۔ دوسرے اعتراض(ڈائیلاگز ) کے حوالہ سے عرض ہے کہ یہ بھی ایکشن فلم کا لازمی حصہ ہوتے ہیں، تھیک اُسی طرح جیسے رومانی فلموں میں جذباتی مکالمات۔جاوید صاحب حقیقت میں اور فلم میں فرق ہوتا ہے۔ کہیں یہ فرق کم نظر آتا ہے جیسے رومانی فلم میں، اور کہیں یہ فرق زیادہ ہوتا ہے جیسے ایکشن فلم میں۔ آب کو ئی بھی ایکشن فلم حقیقت کے نزدیک نظر نہیں آئے گی۔ آج کے دور میں بالی دوڈ کی تمام بڑی ہٹ فلمیں کو دیکھ لیں، ایک تھا ٹائیگر،رائوڈی راٹھر، باڈی گارڈ، کے مکالمات سُن لیں، پھر فیصلہ کریں
5۔ ماضی کی اچھی فلموں کے حوالے سے گزارش ہے کہ ہر دور میں پاکستانی سنسر بورڈ اور حکومت کا اہم رول رہا ہے فلم انڈسٹری کے حوالہ سے۔ ایوب خان کے دور میں پنجابی فلموں نے بہت اچھا کام کیا۔ بٹھو کے دور کی فلمیں میں رومانس زیادہ نظر آتا ہے، اور تو اور بٹھو کے دور کی فلموں میں کلب کلچر، شراب بھی نظر آئے گی اور وہ بھی محمد علی، ندیم اور وحید مراد کی فلموں میں۔ آج کے دور میں فلموں کی کامیابی کے لئے اہم جزو آئیٹم ڈانس بھی اُسی دور میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں لایا گیا، کہ یہ تمام چیزیں پاکستانی کلچر تھا?۔ ضیاالحق کے دور میں رومانی فلموں پر کڑا وقت آیا، ہیرو ہیروین پر باغ میں بیٹھنے پر بھی پابندی لگ گئی۔ اُس وقت صرف اور صرف معاشرتی فلمیں بن سکتی تھی یا پھر دشمنی والی اور ہی فلمیں بنی۔ 1990 کی دھائی میں دوبارہ دومانی اور گھریلوں فلمیں بنی۔ گھونگٹ، نکاح، چور مچائے شور اس کی مثالیں ہیں۔
مولا جٹ ٹائپ کی فلمیں 1990 کی دہائی میں بہت کم بنی ہیں اور سلطان راہی کے بعد کی تقریبا ختم کو گئی تھیں۔ پینجابی فلموں نے سید نور کی فلم چوڑیاں اور نکی جی ہاں کے بعد دوبارہ عروج پکڑا جو کہ رومانی فلمیں تھی لیکن پینجابی کلچر کی۔
میرے نزدیک مولا جٹ ایک ٹرینڈ سیٹر فلم تھی نہ کہ انڈسٹری کو زوال کی ذمہ دار۔ میں عمر 28 سال کے اور جب میں 12 سال کا تھا اس وقت سلطان راہی کا قتل کیا گیا، لیکن آج بھی میں سلطان راہی کی فلمیں شوق سے دیکھتا ہوں، مگر 2000 کی دہائی کی پیجابی فلموں پر میرے بھی شدید تحفضات ہیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں آج بھی اگر خدا کے لئے، بول، طرح کی فلمیں بن سکتی اور چل سکتی ہیں تو آگے بھی بن سکتی ہیں اور بھران ختم ہو سکتا ہے اگر اچھے لوگ پیسہ لگائیں۔ اچھے ڈائریکٹرز آج بھی ہیں صرف اچھے پروڈیئوسر مل جائیں۔
چند دن پہلے جاوید چودہری صاحب نے عوام ہیں مُجرم ہیں کے نام سے کالم لکھے. جن سے میں بہت حد تک متعفق ہوں. لیکن ایک کالم میں اُنہوں نے باقی بہت سارے لوگوں کی طرح مولا جٹ نامی مشہور فلم کو پاکستانی فلم انڈسٹری کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا.مگر کل 28 اکتوبر کو جب ایکسپریس نیوز پر تکرار نامی ٹاک شو میں اپنی اس بات پر دلائل دیئے تو میرے دل میں بھی آیا کہ میں اس پر بات کروں
ایکسپرس ٹی وی کے شو تکرار میں صرف مولا جٹ پر بات ہوتی رہی، جبکہ اصل موضوع پاکستانی فلم انڈسٹری کا تھا۔ میرے نزدیک یہ دونوں موضوع علیحدہ ہیں۔ مولا جٹ 1970 کے دور میں بنی، جبکہ پاکستانی انڈسٹری سن 2000 کے بعد تباہ ہوئی۔ پاکستانی فلم انڈسٹری مولا جٹ کے بعد بھی ترقی کرتی رہی، ندیم، شبنم، محمد علی کی فلمیں بھی پنجابی فلموں کے ساتھ ساتھ ہٹ ہوتی رہی ہیں۔ تو مولا جٹ بحران کو ذمہ دار کیوں
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولا جٹ نے ایک ٹرینڈ سٹ کیا تھا، لیکن اُس ٹائپ کی فلموں کے ساتھ اُردو فلم بھی بنتی رہی تھیں۔ 1990 سے 2000 تک کی فلموں کو دیکھں تو اُردو فلموں کا راج واضع طور پر نظر آئے گا۔ جان ریمبو، بابر، سعود، اور شان نے 1990 کی دہائی میں اُردو فلموں سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔شمیم آرا، گل آغا، سید نور ، جاوید فاضل کی فلموں کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں بابرہ شریف، ندیم، فیصل، محسن خان، نے بہت اچھا کام کیا ہے، تو مولا جٹ ذمہ دار کیوں
جہاں تک پروگرام میں مولا جٹ پر اُٹھائے گئے سوالات کا تعالق ہے۔ اُس حوالے سے بھی سُن لیں۔
جاوید چودہری صاحب نے جس طرح کے ماضی کے اچھے کام کا حوالہ دیا ہے، وہ کام تو مولا جٹ کے بعد بھی ہوتا رہا ہے۔ مولاجٹ کے دور ہے حوالے سے عرض ہے کہ اُس سے پہلے دور کی فلموں میں آپ کو کلب اور شراب کا کلچر بھی نظر آئے گا، کیا وہ ہمارے کلچر تھا۔ مولا جٹ کے دور میں ماشل لاہ آ چُکا تھا، اور اُس مارشل لاہ کے دور میں کیا بھُٹو کے دور کی طرز کی فملموں بن سکتی تھیں?
ناصر ادیب نے صحیح کہا کہ میرے پاس دُشمنی دکھانے کے علاوہ چوائس نہی تھی۔ اور پیار محبت کی فملموں میں تو پیار سنسر ہو جاتا تھا۔
2۔ گنڈاسا ایک ہتھیار ہے اپنی حفاظت کرنے کے لئے۔ اُسی طرح جیسے پہاڑی علاقوں میں کلہاڑی، پیجاب میں ڈنڈا، سکھوں میں کرپان ہوتی ہے۔ جب فلموں میں ہیرو اسلحہ استعمال کر سکتا ہے تو گنڈاسا کیوں نہیں۔ گنڈاسا سے انسانوں کے ٹکڑے کرنے کا سوال ہے تو میں بتا دوں کی نواز شریف کے دوسرے دور میں جب بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے، اُس وقت مریدکے میں دو گروپوں کی لڑائی میں ایک گروپ نے دوسرے بندے کی ٹانگ بودے سے کاٹ دی تھی۔ آج بھی اخبارات میں دیہی علاقوں میں دشمنی کے دوران ناک، بال کاٹنے کی خبریں نظر آتی ہیں۔ اگر گنڈاسا سے فلموں میں پچاس، پچاس لوگوں کا قتل کرتے دکھانا غلط ہے تو بالی وڈ،ہالی وڈ میں جدید ہتھیاروں سے اور بعض اوقات بغیر کسی ہتھیار کے 100،100 لوگوں کا قتل کرنا بھی غلط ہے، مگر اعتراز صرف گنڈاسا پر ہی ہوتا ہے۔
لاچہ کلچر آج بھی پنجاب میں بُوڑھی عورتیں پہنتی ہیں چودہری صاحب، اگر دیکھنا ہو تو، شیخوپُورہ کی کسی گائوں میں چلیں جائے، اگر نہیں پہنتیں تو آج کی اور پچھلی نسل نہیں پہنتی۔ عورتیں کھیتوں میں بلکل نہیں ناچتیں، مگر جن اچھے دور کی فلموں کی آپ نے مثالیں دی ہیں۔ کیا اُس دور میں عورتیں پہاڑی علاقوں، باغوں، یا بازاروں میں ناچتیں تھیں? کیا وہ ناچ صحیح تھا?
چودہری صاحب نے قتل عام اور ڈائلاگز کو لچر اور واہیات کہا ہےجبکہ قتل عام تو ایکشن فلم کا حصہ ہوتا ہے، پھر وہ چاہے فلم کسی بھی انڈسٹری میں بنے۔ اگر گنڈاسا سے قتل عام غلط ہے تو قتل عام کے باقی طریقوں کی بھی زرا مزمت کر دیں، یا پھر یہ کہ دیں کی ایکشن فلم میں لوگ مرنے نہیں چائیں۔ دوسرے اعتراض(ڈائیلاگز ) کے حوالہ سے عرض ہے کہ یہ بھی ایکشن فلم کا لازمی حصہ ہوتے ہیں، تھیک اُسی طرح جیسے رومانی فلموں میں جذباتی مکالمات۔جاوید صاحب حقیقت میں اور فلم میں فرق ہوتا ہے۔ کہیں یہ فرق کم نظر آتا ہے جیسے رومانی فلم میں، اور کہیں یہ فرق زیادہ ہوتا ہے جیسے ایکشن فلم میں۔ آب کو ئی بھی ایکشن فلم حقیقت کے نزدیک نظر نہیں آئے گی۔ آج کے دور میں بالی دوڈ کی تمام بڑی ہٹ فلمیں کو دیکھ لیں، ایک تھا ٹائیگر،رائوڈی راٹھر، باڈی گارڈ، کے مکالمات سُن لیں، پھر فیصلہ کریں
5۔ ماضی کی اچھی فلموں کے حوالے سے گزارش ہے کہ ہر دور میں پاکستانی سنسر بورڈ اور حکومت کا اہم رول رہا ہے فلم انڈسٹری کے حوالہ سے۔ ایوب خان کے دور میں پنجابی فلموں نے بہت اچھا کام کیا۔ بٹھو کے دور کی فلمیں میں رومانس زیادہ نظر آتا ہے، اور تو اور بٹھو کے دور کی فلموں میں کلب کلچر، شراب بھی نظر آئے گی اور وہ بھی محمد علی، ندیم اور وحید مراد کی فلموں میں۔ آج کے دور میں فلموں کی کامیابی کے لئے اہم جزو آئیٹم ڈانس بھی اُسی دور میں پاکستانی فلم انڈسٹری میں لایا گیا، کہ یہ تمام چیزیں پاکستانی کلچر تھا?۔ ضیاالحق کے دور میں رومانی فلموں پر کڑا وقت آیا، ہیرو ہیروین پر باغ میں بیٹھنے پر بھی پابندی لگ گئی۔ اُس وقت صرف اور صرف معاشرتی فلمیں بن سکتی تھی یا پھر دشمنی والی اور ہی فلمیں بنی۔ 1990 کی دھائی میں دوبارہ دومانی اور گھریلوں فلمیں بنی۔ گھونگٹ، نکاح، چور مچائے شور اس کی مثالیں ہیں۔
مولا جٹ ٹائپ کی فلمیں 1990 کی دہائی میں بہت کم بنی ہیں اور سلطان راہی کے بعد کی تقریبا ختم کو گئی تھیں۔ پینجابی فلموں نے سید نور کی فلم چوڑیاں اور نکی جی ہاں کے بعد دوبارہ عروج پکڑا جو کہ رومانی فلمیں تھی لیکن پینجابی کلچر کی۔
میرے نزدیک مولا جٹ ایک ٹرینڈ سیٹر فلم تھی نہ کہ انڈسٹری کو زوال کی ذمہ دار۔ میں عمر 28 سال کے اور جب میں 12 سال کا تھا اس وقت سلطان راہی کا قتل کیا گیا، لیکن آج بھی میں سلطان راہی کی فلمیں شوق سے دیکھتا ہوں، مگر 2000 کی دہائی کی پیجابی فلموں پر میرے بھی شدید تحفضات ہیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں آج بھی اگر خدا کے لئے، بول، طرح کی فلمیں بن سکتی اور چل سکتی ہیں تو آگے بھی بن سکتی ہیں اور بھران ختم ہو سکتا ہے اگر اچھے لوگ پیسہ لگائیں۔ اچھے ڈائریکٹرز آج بھی ہیں صرف اچھے پروڈیئوسر مل جائیں۔