Injustice: Interior Sindh given 670 Billion Rs Development Fund, while Urban Sindh given only 45 Bil

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)

۔(خبر کا لنک
شہری سندھ (جس میں کراچی، حیدرآباد، سکھر اور نوابشاہ آتے ہیں) کی تعمیر و ترقی کے لیے پیپلز پارٹی حکومت کے دور میں فقط 30 ارب روپے رکھے گئے، جبکہ 670 ارب روپیہ دیہی سندھ کی ترقی کے لیے مختص کیا گیا۔
کراچی جو مصطفی کمال کے دور میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا، آج اس وجہ سے دوبارہ تقریبا کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ 670 ارب روپے دیہی سندھ کی ترقی میں کہیں دور دور تک نظر نہیں آتے اور کچھ ترقیاتی کام وہاں نہیں ہوا اور وڈیرے یہ سب پیسہ خود ہضم کر گئے۔


اہل کراچی کے تحفظات کو سمجھئے
ہمارے امور پر اندرونِ سندھ کا وڈیرہ قابض ہے۔ ہماری قسمت کی پوری باگ دوڑ اس وڈیرے کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔

مختصر پیغام یہ ہے کہ ناانصافی کو دور کرنے کی کوشش کیجئے۔

معاشرہ کفر پر تو زندہ رہ سکتا ہے، مگر ناانصافی (ظلم) پر نہیں۔
 

bhaibarood

Chief Minister (5k+ posts)
well madhoosh bibi!! phir do resignation from assembly and wage a war against waderas and jageerdar!!!
madhoosh tafoo bhai khud zardari ko president banaey main paish paish they ,lo hoor chopoo !
you boree pakers actually need price to keep your mouth shut and thats why you trying to keep your value intact !!!
if you were ever sincere with karachite and karachi you would have smash all relations with waderas !but rahmman mailk bhai ka asli dosst hai kia karain!
 

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)
Baaji aap tu aise Naraz ho rhi hain jaise ye sara lga dain gy. Aik phooti cori nai lgni

مصطفی کمال کا دور دیکھ لینے کے بعد کراچی والوں کے لیے کسی صورت ممکن نہیں ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی اس کارکردگی کے خلاف احتجاج نہ کریں۔

افسوسناک بات ہے کہ قوم کو سندھی وڈیروں کے اس غیر منصفانہ رویے کا علم بھی ہے، مگر ہمارے کسی ایک لیڈر کے منہ سے کھل کر یہ نہیں نکلتا کہ اہل کراچی کو سندھی وڈیروں کے اس ظلم سے آزادی دلائی جائے۔

مشرف دور مٰیں شہری حکومت کے قیام کے بعد کراچی کے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہو گئے تھے۔ چاہے یہ شہری حکومت جماعت اسلامی کے ناظم کی تھی یا پھر متحدہ کے ناظم کی، مگر دونوں شہری حکومتوں سے بڑھ چڑھ کر کام کیا کہ جسکا تصور بھی سندھی وڈیروں کے دور میں ممکن نہیں۔

اور پاکستان کے موجودہ نظام میں یہ ممکن ہی نہیں کہ اپوزیشن می رہتے ہوئے کوئی آپ کو آپکا جائز حق دے دے۔

۔ کراچی کی شہری حکومت کو بحال رکھنا متحدہ کے لیے شہہ رگ تھا، اور مخالفین متحدہ پر ہزار پیپلز پارٹی کو سپورٹ کرنے کا الزام لگا لیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ شہری حکومت کی بحالی کے اگر کوئی امکانات روشن تھے، تو وہ فقط اور فقط اس صورت میں ممکن تھے جب متحدہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھی ہوتی۔

پیپلز پارٹی نے 4 سال مذاکرات کے نام پر گذار دیے، اور پھر شہری حکومت قائم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس 4 سال کے بعد سے متحدہ پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں بیٹھی، بلکہ پیپلز پارٹی کی پولیس فورس کے ہاتھوں آپریشن جھیل رہی ہے (حالانکہ یہ آپریشن پاک فوج کو کرنا چاہیے تھا نہ کہ کراچی کی جرائم پیشہ پولیس کو)۔

مگر اہل وطن سے ہمارا شکوہ یہ ہے کہ وہ ہم پر پھر بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ رہنے کا الزام رکھتے ہیں، مگر ہماری مجبوری کو نہیں دیکھتے، نہ ہمیں بتلائے ہیں کہ پھر پیپلز پارٹی کے دور میں شہری حکومت کو کیسے بحال رکھا جاتا۔

دوسرا شکوہ ہے کہ اہل وطن کو صاف صاف نظر آ رہا ہے کہ سندھ میں نئے انتظامی یونٹ بننے چاہیے ہیں اور عوام کو سندھی وڈیروں سے نجات ملنی چاہیے ہے، مگر نہ عمران خان اس پر آواز اٹھاتا ہے اور نہ نواز شریف، بلکہ یہ دونوں متحدہ کی مخالفت میں کہہ رہے ہیں کہ سندھ کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔