WatanDost
Chief Minister (5k+ posts)
وہ بنیادی تحریر جو حضرت عمر فاروق رضی الله سے منسوب ہے
اور جو آج اقوام عالم کی عدلیہ کی بنیاد ہے

خط بنام حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی الله
"اچھی طرح سمجھ لو کہ قضا ایک اہم فریضہ ہے جو سنّت کے مطابق بجا لانا ضروری ہے _ جب
کوئی شخص اپنا مقدمہ تمھارے پاس لائے تو کامل غور فکر کے ساتھ اس کی بات سنو اور جب تم
فریقین کی باتیں سننے کے بعد فیصلے پر پہنچ جاؤ تو اس کا نفاذ بھی کرو کیونکہ درست فیصلہ کرنے
کا اس وقت تک فائدہ نہیں جب تک اس فیصلہ کا نفاذ نہ کیا جائے _ تمام لوگوں کو اپنے حضور میں
اور اپنے انصاف میں برابر رکھو تا کہ کمزور اور غریب آدمی انصاف سے مایوس نہ ہواور زبردست
اور طاقتور کو تم سے کسی رو رعایت کی امید نہ ہو _
جو شخص دعویٰ کرے اس کے ذمے ثبوت
بہم پہچانا ضروری ہے اور جو اپنے خلاف عائد کردہ الزام کی تردید کرے اس پر قسم واجب ہے _
مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے (یعنی فریقین راضی نامہ کر سکتے ہیں) لیکن ایسی صلح جو
حلال کو حلال رکھے اور حرام کو حرام _ ایسی صلح (راضی نامہ) جائز نہیں جس سے حرام حلال
اور حلال حرام ہو جائے _
اگر کوئی کوئی شخص اپنے حق کو ثابت کرنے کی خاطر فوری طور پر
ثبوت مہیا نہ کر سکے تو اسے کچھ عرصہ کی مہلت دو _ اگر اس عرصہ میں وہ ثبوت مہیا کر دے
تو اس کا حق اسے دلا دو لیکن اگر اس مدت کے اختتام تک وہ ثبوت بہم نہ پہنچا سکے تو مقدمہ خارج
کر دو_ ایسا کرنے سے اتمام حجت بھی ہو جائے گا اور شک بھی دور ہو جاے گا_ اگر تم نے آج
کوئی فیصلہ کیا ہے لیکن مزید غور و فکر اور عقل سے کام لینے کے بعد تمہیں وہ فیصلہ غلط معلوم
ہو اور حق ظاہر ہو جائے تو پہلے فیصلے سے رجوع کرنے میں تمہیں کوئی امر مانع نہ ہونا چاہیے_
کیونکہ حق اپنی جگہ پر قائم ہے اور اسے کوئی چیز بدل نہیں سکتی اور باطل پر اصرار کرنے سے
حق کی طرف رجوع کرنا بہرحال بہتر ہے_
سب مسلمان قابل اعتبار ہیں سوائے ان اشخاص کے جن
کو حد کی سزا میں کوڑے لگائے گئے ہوں یا جنھوں نے جھوٹی گواہی دی ہو یا جن کا نسب مشکوک
ہو_ جس مسلہ کے متعلق تمھارے دل میں شبہ پیدا ہو اور کتاب الله اور سنّت نبوی رسول صل الله علیہ
وسلم اس کا ذکر نہ ہو تو اس پر خوب غور و فکر کرو پھر اس کی مثالوں اور نظیروں کو دیکھو_
اس کے بعد قیاس سے کام لو اور جو قیاس الله تعالیٰ اور رسول صل الله علیہ وسلم کی سنّت کے زیادہ
قریب ہو اس کے مطابق حکم صادر کرو_ تنگ دلی کا اظہار نہ کرو_
فریقین مقدمہ کو کسی قسم کی
تکلیف مت پہنچاؤ_ مقدمہ پیش ہونے کے بعد بدخلقی مت دکھاؤ_ اگر مقدمہ کا صحیح فیصلہ کرو گے
تو الله تعالیٰ اس کا بہت بڑا اجر دے گا_ جس شخص کی نیت ٹھیک ہو گی اور خواہ اسے اپنے عزیز
و اقارب کے خلاف ہی فیصلہ کرنا پڑے لیکن وہ انصاف کے راستے پر گامزن رہے گا تو الله تعالیٰ
اس کا ہر طرح کفیل ہو گا_ لیکن جو شخص جادہء عدل و انصاف سے بھٹک جائے گا اور ایسا فیصلہ
کرے گا جس پر خود اس کا دل مطمئن ہونے کے لیے تیار نہ ہو گا تو اس کا معاملہ الله تعالیٰ کے ساتھ
ہے_ الله تعالیٰ اپنے بندوں کو صرف اسی صورت میں ثواب کا حقدار ٹہرائے گا جب وہ اپنے اعمال
خلوص نیت کے ساتھ بجا لائیں گے_"
Last edited by a moderator: